یہ امر کسی دلیل اور وضاحت کا محتاج نہیں کہ اندرونی و خارجی سطح پر امن و امان، ذہنی سکون، قلبی اطمینان اور جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ و سلامتی کا احساس انسان کی انفرادی اور اجتماعی ضرورت ہے کیونکہ اس کی تمام معاشرتی، تعلیمی، کاروباری، سیاسی، اقتصادی، قومی اور بین الاقوامی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ پُر امن حالات اور پُر سکون ماحول سے مشروط ہیں۔ دنیوی اور کاروباری مساعی کے علاوہ عبادات اور مذہبی و روحانی مراسم بھی امن و امان کے بغیر ادا نہیں کیے جاسکتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باری تعالیٰ نے بیت اللہ/ خانہ کعبہ کو مرجع الخلائق ہونے کا اعزاز بخشا تو انسانی اجتماع میں بعض شر پسند اور فسادی طبائع کی وجہ سے متوقع دنگا فساد سے زائرین بیت اللہ کو بچانے کے لیے صرف کعبہ کی چار دیواری ہی نہیں بلکہ میلوں تک پورے حرمِ کعبہ کو بھی امن کا گہوارہ بنادیا۔ اب یہاں خون ریزی کی اجازت ہے اور نہ شکار کی، نہ درخت کاٹا جاسکتا ہے اور نہ سبزہ اکھاڑا جاسکتا ہے۔
امن و امان نہ ہو تو انسان کی جان و مال اور عزت و آبرو ہی نہیں روزی اور معیشت بھی دائو پر لگ جاتی ہے۔ زندگی میں امن و عافیت اور اطمینان و سکون کی ضرورت و اہمیت اور افادیت کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کو اگر امن و امان حاصل نہیں، اس کی ذات ہر وقت خوف اور ڈر سے دوچار ہے اور دہشت گردی کا خطرہ ہمہ وقت لاحق ہے تو دنیا بھر کی نعمتیں، مراعات، سامانِ تعیش حتی کہ اقتدار و اختیارات بھی اس کے لیے بیکار ہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ مال و دولت اور تعیشاتِ دنیا سے تہی دامن سہی مگر اسے امن و عافیت اور قوت لا یموت حاصل ہے تو یہ چیز دنیا بھر کے خزانوں کے مترادف ہے۔ اسی لیے نبی رحمت ﷺ نے فرمایا:
من اصبح منکم آمنا فی سربه معافی فی جسده عنده قوت (طعام) یومه فکانما حیزت له الدنیا.
(بخاری، الادب المفرد، باب من اصبح امنا فی سربه، رقم: 300)
’’تم میں سے جو آدمی اس حال میں صبح کرے کہ اسے اپنے گھر میں امن و امان حاصل ہو، اس کا جسم تمام بیماریوں سے محفوظ ہو، اس کے پاس اس دن کی روزی موجود ہو تو گویا ساری دنیا اس کے لیے جمع کردی گئی۔‘‘
حضور ﷺ کے نظام کا مقصد۔ عالمی امن کا قیام
حضور اکرم ﷺ از روئے قرآن چونکہ آفاقی اور دائمی نبی اور رحمۃ للعالمین بھی ہیں اس لیے آپ نے دنیا کو جو پیغام، پروگرام اور حکومتی، سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی نظام دیا، اس کا ایک بڑا مقصد دنیا بھر سے ظلم و ناانصافی کا خاتمہ، انسانیت کی تعظیم و تکریم، انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت، تمام اسبابِ فتنہ کا قلع قمع اور جرائم کی بیخ کنی کے ذریعے عالمی سطح پر امن و امان کا قیام اور ہر انسان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے لیے تحفظ و سلامتی کا سامان کرنا بھی تھا۔
چنانچہ ابتدائے اسلام میں اہلِ اسلام پر کفارِ مکہ کے حد درجہ مظالم اور واقعات کی شکایت کرتے ہوئے حضرت خباب بن الارت نے اللہ کے رسول معظم ﷺ سے جب یہ عرض کیا کہ
’’الا تستنصرلنا؟ الا تدعو اللہ لنا؟‘‘
کیا آپ ہمارے لیے اللہ سے مدد نہیں چاہیں گے اور کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرمائیں گے؟
تو حضور ﷺ نے دین کی راہ میں پچھلی امتوں کے بعض لوگوں پر ہونے والے مظالم بیان کرکے انہیں حوصلہ دلایا اور اپنے نورِ نبوت سے پیش گوئی بھی فرمائی کہ
والله لیتمن هذا الامر حتی یسیرا راکب من صنعاء الی حضرموت لایخاف الا اللّٰه اوالذئب علی غنمه ولکنکم تستعجلون.
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، رقم: 3612)
’’اللہ کی قسم یہ معاملہ (دین اسلام) غالب ہوکر رہے گا حتی کہ ایک اکیلا سوار شخص صنعاء (یمن کے ایک شہر کا نام) سے حضر موت تک اس حال میں سفر کرے گا کہ اسے اللہ کے سوا کسی (لٹیرے) کا ڈر نہ ہوگا اور نہ ہی اپنی بھیڑ بکریوں پر بھیڑیے کا ڈر ہوگا مگر تم جلد بازی سے کام لے رہے ہو (حوصلہ رکھو یہ وقت بھی آئے گا)۔‘‘
معلوم ہوا کہ اسلام یا نظامِ مصطفی ﷺ کا بڑا مقصد دنیا بھر میں امن و امان کا قیام، معاشی خوشحالی اور بلا تفریق ہر آدمی کے لیے ایسے پُر امن حالات اور پرامن ماحول مہیا کرنا ہے کہ کسی بھی آدمی کو اپنی جان و مال یا عزت و آبرو لٹنے کا اندیشہ نہ رہے۔
حضور اکرم ﷺ کی سرشت میں امن پسندی
حضور اکرم ﷺ کی ویسے تو ساری زندگی اور اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد کا طرزِ عمل اور متعدد اقدامات امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہیں ہم حضور ﷺ کی حد درجہ دور اندیشی، زیرکی، باطنی بصیرت، انتہاء درجے کی عقلمندی، معاملہ فہمی اور صبرو برداشت جیسے اوصاف حمیدہ یا نورِ نبوت کا نتیجہ قرار دے سکتے ہیں۔ تاہم ایامِ شیر خوارگی اور بالکل بچپن سے ہی آپ ﷺ کے طور اطوار اور بعض عادات سے مترشح ہوتا ہے کہ امن پسندی اور صلح جوئی آپ کی سرشت اور جبلت و فطرت میں داخل تھی۔ جس کی طرف قاضی سلیمان منصور پوری نے یوں اشار کیا ہے:
’’نبی ﷺ کے والدین کے اسماء پر نظر کرو، اس زمانہ کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہوئے ہر ایک مؤرخ تعجب کرے گا کہ ایسے پاک نام کیوں کر رکھے گئے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بھی ارہاصِ نبوت تھا، جس بچے کو باپ کے خون سے عبودیت الہٰی اور ماں کے دودھ سے امن عامہ کی گھٹی ملی ہو، کچھ تعجب نہ کرنا چاہیے کہ وہ محمود الافعال حمید الصفات ہو اور تمام دنیا کی زبان سے محمد ﷺ کہلائے۔‘‘
(رحمة للعالمین، 2: 93)
اس چیز کو اگر ہم ان الفاظ سے تعبیر کریں تو شاید بے ادبی نہ ہوگی کہ جس بچے کے نُطفے میں عبودیتِ الہٰی کا عنصر شامل ہو، جس نے نو ماہ تک سیدہ آمنہؓ کے شکم مبارک میں امن کی تربیت پائی ہو، پھر اس نے دو سال تک سیدہ حلیمہؓ کی چھاتی مبارک سے حِلْم کا دودھ پیا ہو تو اس کی سرشت اور جبلت میں بندگی، امن پسندی اور حوصلہ و برداشت کی صفات نہ ہوں گی تو اور کیا ہوگا۔ پھر آپ ﷺ کی بعض عادات اور معمولات بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ مثلاً: آپ کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہؓ آپ کو پہلی دفعہ جناب کی والدہ ماجدہ سے لے کر اپنی گود میں لینے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
’’میں آپ ﷺ کو لے کر اپنی منزل (رہائش) کی طرف آگئی، اپنی گود میں بٹھایا تو میری (خشک) چھاتی دودھ سے لبریز ہوگئی (سیرت حلبیہ، 1:147) میں نے چھاتی کی دائیں جانب پیش کی تو حسبِ منشا دودھ نوش فرما کر منہ ہٹالیا۔ میں نے بائیں طرف سے دودھ پلانے کی کوشش کی تو دودھ نہ پیا اور یہ عادت (بائیں طرف سے دودھ نہ پینا) بعد میں بھی جاری رہی‘‘۔
(قسطلانی، المواهب اللدنیه، 1: 152)
اس عادتِ محمدیہ پر علامہ سہیلی کا تجزیہ و تبصرہ یہ ہے کہ:
’’گویا آپ ﷺ کو معلوم ہوچکا تھا کہ ماں کے دودھ میں آپ ﷺ کا ایک شریک بھائی بھی ہے اور عدل کرنا آپ ﷺ کی فطرت میں داخل تھا‘‘۔
(السهیلی، الروض الانف، 1: 187)
اسی طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ نے ابن سعدؒ کے حوالے سے بچپن کی ایک اور عادت کریمہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لڑنا جھگڑنا اور بدامنی کا محرک کوئی کام کرنا آپ ﷺ کی فطرت میں ہی شامل نہ تھا۔
’’ابن سعد کے مطابق ابو طالب کے گھر میں بچوں کا ناشتہ جب آتا تو سب مل کر ’’لوٹ لیتے‘‘ لیکن جب چند مرتبہ دیکھا کہ یتیم بھتیجا اس لوٹ میں شریک نہیں رہتا تو پھر آپ کا ناشتہ الگ اور مستقل دیا جانے لگا‘‘۔ (رسول اللہؐ کی سیاسی زندگی، ص: 50)
علی ہذا القیاس حضور اکرم ﷺ نے بچپن میں ایک مرتبہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر سیدہ خدیجہ کی ایک بہن کے اونٹ اجرت پر چرائے۔ مدت اجارہ ختم ہوگئی تو ان کا کچھ پیسہ مالکہ کے ذمہ رہ گیا۔ آپ کا مذکورہ ساتھی اس خاتون کے پاس جاتا اور مزدوری کا تقاضا کرتا۔ ایک دن اس نے آپ ﷺ سے کہا: آپ ﷺ بھی میرے ساتھ چلیں اور اس خاتون سے اپنی مزدوری کا مطالبہ کریں۔ فرمایا: تم ہی جائو، مجھے تو اس سے پیسے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ پھر جب وہ ساتھی گیا تو اس خاتون نے پوچھا: محمد کہاں ہیں؟ اس نے حضور ﷺ کی بات ذکر کردی کہ انہیں پیسے مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہ سن کر وہ خاتون کہنے لگی:
مارایت رجلا اشد حیاء ولا اعف منه.
’’میں نے ان (محمد) سے بڑھ کر کوئی آدمی حیا دار اور پاکدامن نہیں دیکھا‘‘۔
(هیثمی، مجمع الزوائد، 9: 221)
امن و سلامتی کے لیے اقدامات
نبی رحمت ﷺ آج کل کی بعض بڑی طاقتوں اور سیاستدانوں کی طرح امن و سلامتی کے زبانی کلامی دعویدار نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ نے امن و سلامتی کا ایک اعلیٰ نمونہ بن کر دکھایا۔ امن و سلامتی کی تعلیمات و ہدایات اور بدامنی کے تمام اسباب و محرکات کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ نے زندگی بھر اعلان نبوت سے پہلے اور بعد امن و سلامتی اور صلح و آشتی کے لیے جو اقدامات فرمائے ان تمام کے احاطہ کی یہاں گنجائش نہیں ہوسکتی، اس لیے ہم ثبوتِ دعویٰ کے طور پر چند ایک کے ہی مختصر ذکر پر اکتفا کریں گے:
1۔ قیامِ امن اور خاتمۂ ظلم کی انجمن میں شرکت
عرب کا معاشرہ لڑاکا اور جنگجو قسم کا تھا۔ علاوہ ازیں غریب لوگوں پر ظلم و زیادتی بڑے لوگوں کا عام وطیرہ تھا۔ ملک بھر میں بدامنی، راستوں کا محفوظ نہ ہونا، مسافروں کا لٹ جانا ایک معمول بن چکا تھا۔ ایسے حالات میں مکہ کے ایک رئیس اور بااثر آدمی عاص بن وائل سہمی نے جب قبیلہ زبیر کے ایک اجنبی مسافر کا حق مار کر حرم کعبہ کا بھی پاس نہ کیا تو حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک اور ایما پر قبیلہ تیم کے بزرگ عبداللہ بن جدعان کے گھر میں چند قبائل کے معززین اور سر کردہ حضرات اس مقصد میں غور کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔
حضور اکرم ﷺ اگرچہ اس وقت بیس سال کے نوجوان تھے اور یہ عمر عام طور پر مذکورہ قسم کے قومی اور معاشرتی سنجیدہ مسائل و معاملات میں شرکت کی نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود امن و آشتی، صلح و مصالحت، انسانی ہمدردی و خیر خواہی اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کے فطری جذبہ کے تحت جو آپ ﷺ کے اندر انگڑائیاں لے رہا تھا، آپ ﷺ بھی اس میں شامل ہوئے۔
معاشرتی امن و امان اور اطمینان و سکون کی تباہی کا بڑا سبب چونکہ کسی بھی آدمی پر ظلم و زیادتی اور حق تلفی ہوا کرتا ہے، اس لیے اس مجلس مشاورت نے یہ پختہ عہد کیا کہ:
- اہل مکہ یا باہر سے آنے والے کسی بھی آدمی پر ظلم ہوگا تو ہم ہمیشہ اس کی حمایت میں ایک ہاتھ اور طاقت بن جائیں گے۔
- ظالم کے خلاف یہ ہاتھ اس وقت تک اٹھا رہے گا جب تک کہ وہ مظلوم کا حق واپس نہ کردے۔ (ابن هشام، سیرۃ النبی، 1: 145)
- ہر اجنبی اور مسافر کے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔(السهیلی، الروض الانف، 1: 157)
اس معاہدہ کو ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ عہد قدیم میں بنو جرھم نے بھی اس قسم کا ایک معاہدہ کیا تھا اور جن تین آدمیوں نے اس معاہدہ کی تحریک کی تھی اور اسے پروان چڑھایا تھا، ان تینوں کا نام فضل تھا۔ کیونکہ اس معاہدہ کے بھی وہی مقاصد تھے، اس لیے اس کو بھی ’’حلف الفضول‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔ جب یہ معاہدہ طے پاگیا تو سب مل کر عاص بن وائل کے گھر گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تاجر کا مال واپس کردے۔ اب اسے مجالِ انکار نہ رہی اور اس نے مجبوراً اس کا مال واپس کردیا۔
یہ معاہدہ چونکہ رحمت عالم ﷺ کی فطرتِ سلیمہ، امن پسند طبیعت اور انصاف پسند مزاج کے عین مطابق اور حضور ﷺ کے غمخوار دل کی آواز تھا، اس لیے بعثت کے بعد بھی حضور ﷺ اس معاہدہ میں شرکت پر بڑے فخر کے ساتھ اظہارِ مسرت فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ فرمایا:
لقد شهدت فی دار عبدالله بن جدعان حلفا ما احب ان لی به حمر النعم ولو دعی به فی الاسلام لا جبت.
’’میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حاضر تھا جب حلف فضول طے پایا۔ اس کے بدلے میں اگر مجھے کوئی سرخ اونٹ دے تب بھی میں لینے کے لیے تیار نہیں اور اس قسم کے معاہدہ کی دعوت اسلام میں بھی اگر کوئی مجھے دے تو اسے قبول کروں گا‘‘۔
اس قیام انجمن میں نبی رحمت ﷺ کی شرکت محض خانہ پری اور برکت کے لیے نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ نے اس میں بھرپور کردار ادا کرکے اور نوجوانوں کا ایک مسلح دستہ ساتھ ملاکر اس میں جان ڈال دی تھی۔ چنانچہ مکہ کے ایک دولت مند تاجر نے ایک حاجی کی بیٹی اغوا کرلی تو نوجوان دستہ کی مدد سے بچی کو برآمد کرایا۔ اسی طرح ابوجہل نے مکہ میں آنے والے ایک تاجر سے سامان خرید کر قیمت ادا کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو آپ ﷺ نے اکیلے جاکر اس تاجر کو ابوجہل سے قیمت دلوائی۔
(ضیاءالنبی، 2: 123)
2۔ قریشِ مکہ کی ایذا رسانی پر صبر
قریشِ مکہ کی مسلسل ایذاء رسانی اور استہزاء پر حضور ﷺ کا صبر اور اہل اسلام کو ان کی اذیت رسانی پر صبرو برداشت کی تلقین بھی امن پسندی کی دلیل ہے۔ علامہ حلبی کی صراحت کے مطابق حضور ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد قریش مکہ میں ابوجہل، ابولہب، عقبہ بن ابی معیط، حکم بن ابی العاص، عاص بن وائل، ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث اور حارث بن قیس وغیرہ جیسے بدبخت حضور اکرم ﷺ کے ساتھ استہزاء اور اذیت پہنچانے میں پیش پیش تھے۔ یہ بدنصیب لوگ کس طرح حضور ﷺ کا مذاق اڑاتے، بدتمیزیاں کرتے، کیسے تنگ کرتے، کیسے ستاتے، کیسے منہ چڑاتے؟ اس دلگداز اور جگر پاش داستان سے سیرۃ ابن ھشام، سیرۃ حلبیہ کے علاوہ متعدد عربی اور اردو کتب سیرت بھری ہوئی ہیں۔
اسی طرح حضرت بلال، یاسر، عمار بن یاسر، ابو فکیہہ، صہیب رومی اور حضرت خباب بن الارت اور دوسرے آزاد مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کے ریکارڈ توڑے گئے اور جسمانی اذیتوں کی حدیں عبور کی گئیں، ان کی تفصیل کی بھی یہاں گنجائش نہیں۔ اس اشتعال انگیز صورتِ حال میں حضور ﷺ کا اپنے معتقدین، اپنے ماننے والوں کی جماعت اور قبائلی عصبیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی جتھا بناکر مزاحمت کی بجائے ہمیشہ صبر سے کام لینا اور ان تمام مصائب کا سہتے رہنا بھی حضور ﷺ کی امن پسندی کی دلیل ہے۔
3۔ ہجرت حبشہ و مدینہ۔ امن پسندی کا ثبوت
نبوت کے پانچویں سال جب کفار مکہ نے مسلمانوں کو ستانے میں حد کردی اور وہاں اپنا مذہب بچانا اور اپنے عقیدہ و نظریہ کے مطابق زندگی گزارنا ہی نہیں بلکہ جان بچانا بھی مشکل ہوگیا تو نبی رحمت ﷺ نے مسلمانوں کو قریبی عیسائی ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت فرمادی اور فرمایا:
’’وہاں کا بادشاہ رعایا پر ظلم نہیں کرتا‘‘۔
چنانچہ نبی کریم ﷺ کی اجازت سے اولاً 12 مردوں 4 خواتین پر مشتمل ایک چھوٹا قافلہ حبشہ چلا گیا۔ اس قافلہ میں حضور ﷺ کے داماد حضرت عثمانؓ بن عفان اور آپ کی لخت جگر سیدہ رقیہؓ بھی تھیں۔ بعد ازاں 83 مردوں اور 18 عورتوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک بڑا قافلہ اپنا دین اور جان بچانے کی خاطر اپنا گھر بار، کاروبار اور وطن چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔
(ابن هشام: سیرة النبی، 1: 358)
- اسی طرح اہل مدینہ کی طرف سے بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام اور اہل اسلام کے لیے حالات سازگار ہونے پر نبی رحمت ﷺ نے پہلے ان مسلمانوں کو جو ابھی مکہ سے باہر نہیں گئے تھے لیکن ان پر مصائب کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے، یثرب (مدینہ منورہ) چلے جانے کی اجازت فرمادی۔ بعد ازاں خود بھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
یہ دونوں ہجرتیں خصوصاً ہجرت مدینہ بھی حضور اکرم ﷺ کی امن پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب تو مسلمانوں میں حضور ﷺ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ اور حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے رعب داب والے اور معاشرتی اثرو رسوخ کے حامل لوگوں سمیت ایک معقول تعداد دائرہ اسلام میں داخل ہوچکی تھی۔ حضور چاہتے تو ہجرت کی رات اپنے گھر کے محاصرہ کے وقت حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ جیسے جان نثاروں اور دلیروں کو مقابلے میں لاسکتے تھے۔ حضور اکرم ﷺ نے بادل نخواستہ اپنا گھر، وطن اور مکہ مکرمہ جیسا پاکیزہ اور محبوب آبائی شہر خاموشی سے چھوڑنا قبول کرلیا مگر مکہ مکرمہ کے پُرامن شہر اور پُر امن ماحول میں کسی قسم کی بدامنی اور فتنہ و فساد کھڑا نہ کیا۔
4۔ میثاقِ مدینہ۔ قیامِ امن کی زبردست تدبیر
مدینہ منورہ ہجرت کے بعد حضور اکرم ﷺ نے وہاں قیام امن کے لیے جو بہت بڑا قدم اٹھایا اور تدبیر فرمائی وہ مدینہ منورہ کے اندر قیام پذیر مسلمانوں (مہاجرین و انصار)، یہودیوں، مختلف النسل لوگوں اور مختلف قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ تھا جو سیرت کی کتابوں میں ’’میثاق مدینہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
اس معاہدہ کا بنیادی مقصد باہمی حقوق کی پاسداری، ایک دوسرے کی اعانت، آپس میں جنگ کی ممانعت، ظلم و زیادتی کا استیصال، بیرونی حملے کی صورت میں مشترکہ دفاع، ظالم آدمی سے کسی بھی قسم کے تعاون سے گریز اور صرف مدینہ منورہ میں ہی نہیں بلکہ اردگرد کے تمام علاقوں میں امن کا قیام تھا۔
گویا یہ ایک پُر امن بقائے باہمی (Coexistence) کا معاہدہ تھا، جس سے امن و سلامتی کا ماحول پیدا کرنے میں بڑی مدد ملی۔ سیرت کی دیگر متعدد کتابوں کے علاوہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے عنوان سے اپنی تصنیف میں نیز سیرت الرسول کے مقدمہ میں اس کی تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے الازہر سے Ph.D بھی اسی موضوع پر کی ہے، ان کا عربی زبان میں مقالہ بھی اس معاہدہ کے بہت سے نایاب پہلوئوں کو ہمارے سامنے لاتا ہے۔ میثاق مدینہ کی درج ذیل دفعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں آپ ﷺ نے کس طرح امن و امان قائم رکھنے کے لیے تدابیر اختیار فرمائیں اور کس طرح ہر تدبیر میں امن و سلامتی نمایاں ہوتی ہے:
دفعہ 22: جو مسلمان اس تحریری دستاویز کو تسلیم کرے، اللہ اور آخرت پر ایمان رکھے، اس کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ وہ کسی فسادی اور قانون شکن شخص کی مدد کرے یا اسے پناہ دے۔
دفعہ 45 (الف): اگر ان لوگوں کو کہیں سے صلح کی دعوت دی جائے یا صلح میں شمولیت کا کہا جائے تو وہ اسے قبول کریں گے اور اس میں شامل ہوں گے۔
دفعہ 47: یہ دستاویز کسی ظالم اور مجرم کے آڑے نہیں آئے گی۔ جو شخص مدینہ سے باہر نکلے گا، وہ بھی محفوظ رہے گا اور جو مدینہ میں رہے گا وہ بھی محفوظ، سوائے اس کے جو زیادتی یا جرم کرے۔
دفعہ 47: مدینہ ایک مکمل پرامن اور محفوظ شہر رہے گا اور مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کو آزادی ہوگی کہ چاہیں تو شہر میں رہیں اور چاہیں تو شہر سے باہر منتقل ہوجائیں۔
دفعہ 13: اور متقی ایمان والوں کے ہاتھ ہر اس شخص کے خلاف اٹھیں گے جو ان میں سرکشی کرے یا جبراً کوئی چیز حاصل کرنا چاہے یا گناہ یا ظلم کا ارتکاب کرے یا کوئی شخص ایمان والوں میں فساد پھیلانا چاہے تو ایسے شخص کے خلاف بھی ان کے ہاتھ اٹھیں گے خواہ وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
(جاری ہے)