حقیقی عوامی مسائل سے لاتعلق حکمران
مملکت خداداد پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے جس نے اداروں اور معاشی نظم و نسق کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کرپشن میں دلچسپی رکھنے والی حکومت ملکی سلامتی کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ اس وقت موجودہ نظام کو کرپشن اور مک مکا کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کرپشن کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں وہ صرف اپنے خرچے پورے کرتے ہیں اور انہیں ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی سے کوئی غرض نہیں۔ جس حکومت کا کوئی وزیر خارجہ نہ ہو اسکی کوئی خارجہ پالیسی کیا ہو سکتی ہے؟ ملکی نظام نا اہل اور کرپٹ افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ طاقت و اقتدار ایک ہی خاندان کے گھر کی لونڈی ہے جس کی وجہ سے آج ہر طرف بربادی ہے۔ کسان، اساتذہ، ڈاکٹرز، مزدور، نرسز، نابینا و معذور افراد الغرض ہر طبقہ آج سب سڑکوں پر ہیں۔ ان حکمرانوں نے جمہوریت کے نام پر کرپشن کو نئی ’’بلندیوں‘‘ سے ہمکنار کیا اور محکمانہ اور مالیاتی نظم و ضبط کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اس وقت ملک کے اہم مسائل دہشتگردی، کرپشن اور عوام الناس کو مہنگائی سے چھٹکارا دلانا ہے۔ حال ہی میں پیش کردہ بجٹ میں عوامی مسائل کے حل کیلئے کوئی ویژن اور ٹھوس منصوبہ شامل ہی نہیں۔ قرضوں اور سود کی واپسی کیلئے رکھا گیا 1500 ارب کا بجٹ تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ وفاقی حکومت نے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں نمایاں کمی کی ہے۔ کیونکہ حکمران خود بیرون ملک علاج کرواتے اور بچوں کو پڑھاتے ہیں اس لیے انہیں 12کروڑ سے زائد انتہائی غریب آبادی کے علاج معالجے اور تعلیمی ضروریات کی کوئی پرواہ نہیں۔ اسی طرح اس بجٹ میں غریب کو سستی روٹی، تعلیم، صحت اور روزگار دینے کا کوئی ٹھوس پلان شامل نہیں ہے۔
توانائی کے بحران کے باعث سالانہ دس لاکھ مزدور بے روزگار ہو ر ہے ہیں مگرنندی پور جیسے جعلی منصوبے دینے والوں کو عوام کی مشکلات کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔ اب تک بجلی بحران کو حل کرنے کے نام پر جو منصوبہ بھی سامنے آیا اس میں حکمرانوں کے مالی مفادات پوشیدہ نظر آئے۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں جو بھاری رقم قومی خزانے سے ادا کی گئی اس پر بھی سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی کرپشن اور نااہلی کے باعث کوئی اس ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ اس لئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں اور دیگر سرمایہ کاروں کے نزدیک موجودہ حکمرانوں کی کوئی ساکھ اور وقعت نہیں ہے۔ حکمرانوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لئے ظاہراً جتنے بھی منصوبوں کا آغاز کیا، وہ تمام کرپشن اور نااہلی کی نذر ہو گئے۔
دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف اس وقت تک کئے گئے تمام اقدامات کا سہرا پاک فوج کے سر ہے۔ ان حکمرانوں نے تو قومی ایکشن پلان کو سبوتاژ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ کرنا موجودہ حکمرانوں کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ آپریشن ضرب عضب سے امن بحال ہوا مگر حکمرانوں نے آئی ڈی پیز کی بحالی، مدارس کی رجسٹریشن، بیرون ملک سے فنڈنگ پر پابندی، نصاب سازی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
مسلح دہشت گردی تو اس ملک کو تباہ کر ہی رہی تھی مگر ان حکمرانوں کی معاشی دہشت گردی نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ سالانہ 4 ہزار ارب سے زائد کرپشن ہورہی ہے۔ 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑا ہے۔ پانامہ لیکس نے کرپشن کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ دوسری طرف اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کردیا گیا ہے اور ترقیاتی فنڈز کے نام پر خزانے کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔ یہ سب پانامہ لیکس سے نکلنے اور دیگر جماعتوں کے اراکین کو ہم خیال بنانے کے لئے سیاسی رشوت ہے۔ اگر اراکین اسمبلی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو ان سے پہلے والی مراعات بھی چھین لینی چاہئیں۔
اپوزیشن بھی پانامہ لیکس پر سنجیدہ کردار ادا کرتی نظر نہیں آرہی۔ ٹرم آف ریفرنس کی تیاری کے نام پر انصاف کو ذبح کرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم کا علاج بھی ہو گیا، بجٹ بھی آ گیا مگر ٹی او آرز کا معاملہ جوں کا توں ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کے حوالے سے حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ ٹی او آرز کی تیاری کے پراسس سے ہو جانا چاہیے۔ ٹی او آرز کی تیاری کا حکومت و اپوزیشن کا یہ کھیل بے نتیجہ رہے گا۔ بالآخر فیصلہ عوام کو ہی کرنا ہوگا کہ وہ کرپشن زدہ اس متعفن نظام کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا کوئی تبدیلی چاہتے ہیں۔ موجودہ کرپٹ نظام کی پیداوار یہ اسمبلیاں اور حکومت کرپشن کو تحفظ دیتی رہیں گی۔ اندریں حالات عالمی سیاست پر نظر رکھنے اور اسے پاکستان کے مفاد سے ہم آہنگ کرنے کیلئے حقیقی مینڈیٹ والی عوامی قیادت ناگزیر ہے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی آواز عوامِ پاکستان کو بیدار کرنے اور انہیں ان کے حقوق کا شعور دلانے کے لئے بلند ہورہی ہے۔ موجودہ حکمران نام نہاد اپوزیشن سے نہیں بلکہ اس حقیقی آواز سے خائف ہیں۔ اسی لئے جب بھی قائد انقلاب کی پاکستان آمد کا اعلان ہوتا ہے کرپٹ، بزدل اور قاتل حکمرانوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ موجودہ کرپشن اور لوٹ مار کے نظام کی حقیقی اپوزیشن قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں جو ہر مرحلہ پر قوم کے سامنے اصل تصویر رکھتے ہیں۔ دھاندلی زدہ الیکشن ہوں یا پانامہ کی ڈکیتیاں، ڈاکٹر طاہرالقادری نے حقائق قوم کے سامنے رکھے۔ حکمرانوں نے اس آواز کو دبانے اور لاکھوں کارکنان کو پرامن احتجاج سے روکنے کیلئے ہر مرتبہ روایتی سرکاری ہتھکنڈے استعمال کئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مجرم آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں اور شہداء کے لواحقین اور مظلومین انصاف کے لئے عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں مگر افسوس ہر قومی ادارے کی طرح عدالتیں بھی اِن حکمرانوں کی زرِ خرید ہیں۔ یہاں سیاست کے نام پر مافیاز کا راج ہے۔ آئین صرف عدالتوں میں حوالہ جات کے استعمال تک محدود ہے ’’عملاً ‘‘ اس پر کہیں عمل نہیں ہورہا۔
مگر ہم ان حالات سے مایوس نہیں اور نہ ہی اِن حکمرانوں کو اس طرح مادر پدر آزاد گھومنے دیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک قائد انقلاب کی قیادت میں 19 کروڑ عوام کے حقوق کے جنگ لڑ رہی ہے۔ کارکنان تحریک مزدوروں، مظلوموں، کسانوں، طلبہ اور سوسائٹی کے کمزور طبقات کو ان کے بنیادی آئینی حقوق دلوانے کی اس جدوجہد کو آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے جاری رکھیں گے اور اس عظیم مقصد کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔