اس سلسلہ تحریرمیں ملکی سطح پر گذشتہ ماہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا اور اس تناظر میں ان واقعات کے حقائق جانیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذمہ دار کون ہے؟ خرابی کا تدارک اور حالات کی بہتری کیونکر ممکن ہے؟
10 کھرب 64ارب خسارے کا بجٹ
2016-17 ء کے وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 48 کھرب 94 ارب 90 کروڑ ہے جو مالی سال 2015-16ء کے مقابلے میں 10فیصد زیادہ ہے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال میں آمدن کا تخمینہ 27کھرب 79ارب 69 کروڑ روپے ہے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 38کھرب 43ارب 98 کروڑ لگایا گیا ہے۔ اس طرح یہ بجٹ 10 کھرب 64 ارب 29 کروڑ روپے خسارے کا بجٹ ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے وفاقی حکومت کے بجٹ کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے وسائل اپنے ہیں نہ پالیسیاں۔ حکومت نے چوتھا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر پیش کیا ہے۔ لگتا ہے آئی ایم ایف پاکستان کی معاشی پالیسیاں بناتا ہے۔اس بجٹ سے حکومت کے کشکول کا سائز بڑا اور خودکشیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس بجٹ میں غریب کو روٹی، تعلیم اور صحت دینے کیلئے کوئی ٹھوس پلان پیش نہیں کیا گیا اور نہ بیرونی قرض کم کرنے کی کوئی پالیسی ہی وضع کی گئی۔
قرضے کو جی ڈی پی کے پچاس فیصد لانے کی بات کی گئی جب کہ حکومت کے ماضی کے 3سالوں میں قرض کی شرح بڑھ کر جی ڈی پی کے 64 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر قرض لینے کی یہ رفتار برقرار رہی تو 2019ء میں قرض، ٹوٹل جی ڈی پی کے برابر ہو جائے گا۔ جب بیرونی قرض اور جی ڈی پی برابر ہو جائے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے یعنی اس وقت ہمارے گھر میں جو کچھ بھی پڑا ہو گا وہ کسی کی امانت ہو گی۔ ہم اس کے متبادل پیسے لے کر کئی آف شور کمپنیاں بنا چکے ہوں گے۔ ملازمین کی تنخواہوں میں جو چند ٹکے کا اضافہ ہوگا وہ غریب اسی میں خوش ہوجائیں گے لیکن ان کی آڑ میں کرپٹ حکمرانوں کو اپنے اکائونٹ بھرنے کا ایک اور موقع مل جائے گا۔
ترقیاتی بجٹ
ترقیاتی بجٹ 800ارب رکھا گیا ہے جو کہ آئی ایم ایف کی ہدایت پر کم کیا گیا ہے۔ جتنا بجٹ ترقیاتی کاموں کیلئے مختص ہوا ہے وہ بھی کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے۔پوری قوم جانتی ہے کہ ترقیاتی بجٹ یا تو سیاسی بنیادوں پر اپنے لوگوں کو دیا جاتا ہے یا ایسی کمپنیوں کو ٹھیکے دئیے جاتے ہیں جن سے کسی نہ کسی طرح اپنے مفادات وابستہ ہوں۔ زیادہ تر ترقیاتی کام ان ایریاز میں کروائے جاتے ہیں جہاں حکمرانوں کے اپنے مفادات ہوں۔ جیسے پنجاب کا ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ لاہور میں صرف ہوتا ہے اور اندرون پنجاب سڑکوں پر گاڑی چلانا تو کجا پیدل چلنا بھی مشکل ہے۔ اگرحکمرانوں کے مری جانے کے راستے میں پہاڑوں میں بل کھاتی روڈ آڑے آرہی ہو تو بادشاہ سلامت پہاڑ کٹوا کر موٹروے بنوا دیتے ہیں مگر مری سے آگے مظفر آباد تک کئی جگہوں سے لوگ پیدل روڈ کراس کرنے پر مجبور ہیں مگر حکمران ان مفلوک الحال لوگوں کے لئے ترقیاتی منصوبے بنانے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اس لئے کہ انہیں عوام کے حقیقی فلاحی منصوبوں سے کوئی غرض ہی نہیں ہے۔
تعلیمی بجٹ
کسی بھی ملک کی ترقی کا بڑا انحصار اس ملک کی تعلیمی پالیسیز پر ہوتا ہے۔مگر اس حکومت کی سنجیدگی اور حب الوطنی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں تعلیمی بجٹ میں کمی کر کے 84 بلین سے 76 بلین کر دیا ہے۔ فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی اداروں کا برا حال ہے۔ اساتذہ جو قوم کے معمار ہیں کلاس روم کے بجائے اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر ہیں۔ اس تاجر حکومت نے قومی اداروں کا دیوالیہ کر کے لوٹ سیل لگانے کے بعد اب تعلیمی اداروں کو بھی من پسند افراد کے ہاتھوں فروخت کرنا شروع کر دیا ہے۔ غربت کی وجہ سے پچاس فیصد بچے پہلے ہی سکول جانے کے بجائے دو وقت کی روٹی کمانے میں والدین کا ہاتھ بٹارہے ہیں۔ اوپر سے تعلیمی بجٹ میں کمی اس حکومت کی تعلیم کے فروغ کے لئے کی جانے والی کاوشوں پر سوالیہ نشان ہے۔
شرحِ غربت میں اضافہ
الفاظ کے ہیر پھیر اور جھوٹ کے ماہر حکمران اپنے بجٹ میں غربت کی شرح 9فیصد بتاتے ہیں جو کہ 2001ء میں 64 فیصد تھی۔ پچھلے اٹھارہ سال سے جب ملک میں مردم شماری ہی نہیں ہونے دی جارہی تو غربت کا تناسب مردم شماری کے بغیر نکالنا محال ہے۔ لازمی بات ہے یہ تناسب وزارتِ خزانہ کے منشیوں نے اپنے خواب و خیال کے مطابق ہی نکالا ہو گا۔ غربت کی شرح اتنی کم تو 2002ء سے 2008 ء میں بھی نہیں ہوئی جب پاکستان میں شرح نمو(GDP) 8فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئی تھی جو بعد کی حکومتوں میں کم ہوتے ہوتے 4فیصد سے بھی نیچے آ گئی تھی۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی شرح نمو 4.71 فیصد ہے جبکہ سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹر کی جانب سے معاشی شرح نمو 3.1فیصد بتائی گئی ہے۔ گویا حکومت جی ڈی پی ،بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ سے متعلق جھوٹ بول کر وقت گزار رہی ہے۔سولہ، سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ موجودہ حکومت کی ’’کامیابیوں‘‘ کی داستان سنارہی ہے۔شاید وزیر خزانہ غریب اس شخص کو کہتے ہوں جس کی زندگی بھوک کی وجہ سے آخری سانس لے رہی ہو۔
زرعی بجٹ
پاکستانی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے جبکہ اس بجٹ میں زرعی شعبے کو سراسر نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کا نتیجہ معاشی بربادی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔گندم، چاول اور کپاس کا کاشتکار حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا شکار ہے۔ کپاس کی فصل سے ملک کے زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ کپاس کے کاشتکاروں کے ساتھ حکومت کے غیر مناسب رویے کی وجہ سے کپاس کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی ہوئی جس سے ہماری برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
زرعی شعبے کو بہتر بنانے کیلئے ضرور ی ہے کہ حکومت کسانوں کو سستی بجلی، سستا ڈیزل، معیاری و سستا بیج اور سستی کھادیں مہیا کرتی جس سے تمام کسان مساوی فائدہ اٹھاتے اور زراعت میں بہتری آتی مگر کیونکہ حکومت کو ہر معاملے میں سیاسی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اس لیے کسانوں کی اشیاء ضرورت سستی کرنے کے بجائے 342 ارب روپے کا کسان پیکج دے کر سیاسی ڈرامہ رچایا گیا، جس کا مقصد بلدیاتی الیکشن اور متعدد ضمنی انتخابات جیتنا ہے۔ اگر فی الواقع یہ پیکج برابری کی سطح پر کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے ہوتا تو کسان کئی روز تک مال روڈ پر سراپا احتجاج نہ ہوتے۔ جس حکومت کی سیاسی پالیسیوں نے دہقاں کو کھیت کھلیان سے نکال کر سڑکوں پر لا کھڑا کیا ہے وہاں قوم فاقہ کی وجہ سے خودکشی پر مجبور نہ ہو تو کیا کرے۔ موجودہ حکومت کے دور میں زراعت اور پیداواری شعبہ تباہ حالی کا شکار ہے جبکہ بجٹ میں اس کی بحالی کا کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں۔
قرضوں کی ادائیگی
قابل افسوس امر یہ ہے کہ تعلیم، زراعت، ترقیاتی منصوبے حتی کہ دفاع سے بھی بڑھ کر 1360ارب روپے سعودی قرضوں کی ادائیگی کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں 13 کھرب 71ارب ادا کر چکی ہے اور 10 کھرب کا بجٹ خسارہ بھی نئے قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ ملک پہلے سے 65.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے ہے اور پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو ماضی کی ان کرپٹ حکومتوں کی طرف سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے قرض کا فوری تحفہ ملتا ہے۔ اب یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم پیدا بھی مقروض ہوتے ہیں، زندگی بھی قرض کے بوجھ تلے گزارتے ہیں اور مرتے بھی مقروض ہیں۔
قرض کا استعمال کیا ہے؟
مگر ذرا سوچئے! ہمیں اس نہج پر پہنچانے والا کون ہے؟ ہمارے نام پر کون، کن شرائط پر کتنا قرضہ لیتا ہے؟ معلوم نہیں مگر بربادی تو تب شروع ہوتی ہے جب ہمارے نام سے لیا ہوا قرضہ حکمران طبقے کی عیاشیوں اور آف شور کمپنیوں کی نذر ہوتا ہے ۔قرض کی 78 فیصد رقم غیر قانونی ترقیاتی منصوبوں اور حکومتی اخراجات پر خرچ ہوتی ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا حجم 600ارب روپے تک پہنچ گیا ہے مگر موجودہ بجٹ میں یہ اعداد و شمار کہیں دکھائی نہیں دیتے۔غربت ختم کرنے کیلئے بجٹ میں تھوڑی رقم رکھی گئی ہے جبکہ پلوں، سڑکوں اور میٹرو کی تعمیر کیلئے زیادہ فنڈز مختص ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں واٹر سپلائی، ماحول، سیوریج اور منصوبہ بندی کے بجٹ میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ بجٹ میں 57فیصد اور دیہی ترقی کے بجٹ میں 300 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
- اس بجٹ کے ذریعے مزدور کی تنخواہ 14 ہزار مقرر کر کے غریب کا گلہ گھونٹا گیا ہے۔ قائد تحریک ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سوال ہے کہ وزارتِ خزانہ کے سرکردہ افراد 14 ہزار میں غریب آدمی کا ایک ماہ کا بجٹ بنا کر دکھائیں۔ اعداد و شمار کے دائو پیچ جاننے سے بجٹ نہیں بنتے بلکہ بجٹ کا عوام دوست ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اگر بجٹ میں پیش کیے جانے والے اعداد و شمار درست ہیں تو اس کے ثمرات نظر کیوں نہیں آرہے۔
- انرجی کرائسز سے نمٹنے کیلئے بجٹ کا ایک بڑا حصہ مختص ہے مگر لوڈشیڈنگ آج بھی دیہی علاقوں میں 16/16 گھنٹے ہورہی ہے۔ اساتذہ سڑکوں پر ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز اور نرسیں آئے دن احتجاج کیوں کررہے ہوتے ہیں؟ کسان پیکج کے باوجود کسان سڑکوں پر کیوں ہیں؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی۔ جو وجہ ہمیں سمجھ آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اِس مسلط طبقہ کے بنائے گئے تمام بجٹ صرف اعداد و شمار کا کھیل ہوتے ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
- بجٹ کے جھوٹے اعداد و شمار کی ایک مثال ایکسپورٹرز کے 230 ارب روپے کے انکم ٹیکس ریفنڈ کی امائونٹ ہے جس کی ادائیگی کا وعدہ 31اگست 2016ء کا تھا مگر بجٹ میں اس ادائیگی کیلئے کوئی رقم مختص ہی نہیں۔بجٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو رینٹل انکم پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کرنے کی تجویز دی تھی مگر حکومت نے اسے 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دیا۔اب کرایے کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی سے گزارہ کرنے والے سفید پوش شہریوں پر جب 20فیصد ٹیکس کا بوجھ پڑے گا تو یہ انہیں ٹیکس چوری کی ترغیب دے گا۔
- ملک بھر کے 35 لاکھ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد اضافہ سنگین مذاق ہے۔
- تعمیراتی سازو سامان جو پہلے ہی غریب کی دسترس سے باہر ہے مزید مہنگا کر دیا گیا ہے جس سے مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے لوگ اپنے گھروں کی مرمت کرنے سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔
بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد تحریک کا کہنا تھا کہ عوام کو خوشی گاڑیاں مہنگی کرنے سے نہیں بلکہ روٹی اور ضروریات زندگی سستی کرنے سے ملے گی، جو اس حکومت کا مقصد ہی نہیں۔ پانامہ کے ڈاکوئوں کو غیر ملکی قرضے تو مل سکتے ہیں مگر سرمایہ کاری نہیں کیونکہ جن حکمرانوں کی اپنی دولت بیرون ملک پڑی ہو ان کے کہنے پر کوئی غیر ملکی اپنا سرمایہ پاکستان کیوں لائے گا؟حکمرانوں نے پہلے بھی محاصل کی وصولی ،صنعتی و زرعی پیداور کے جتنے بھی اہداف مقرر کیے تھے وہ کرپشن اور نااہلی کی نذر ہوگئے جبکہ اب نئے دعوے اور نئے جھوٹ کے ساتھ دوبارہ آگئے ہیں۔ بالآخر حکومت اپنی آڑھت اندرونی و بیرونی قرضوں سے ہی چلائے گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آج پاکستان 65ارب ڈالر کا مقروض ہے تو پاکستان کا 200ارب ڈالر صرف سوئس بینکوں میں پڑا ہے۔ باقی آف شور کمپنیوں، دبئی کی پراپرٹی اور گھروں کے تہ خانوں میں کتنی رقم ہے، اس کا ابھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔ سوال پھر وہی کہ یہ پیسہ کس کا ہے؟ کیا یہ حکمران طبقے کے آبائو اجداد کی کمائی ہے یا قوم کا لوٹا ہوا پیسہ۔۔۔ مگر کیا کریں ہم منگتے ہیں، ہمارا کام بھیک مانگنا ہے۔ ہم اپنا حق لینا نہیں جانتے کیونکہ حق لینے کیلئے پہلے حق کی پہچان ضروری ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار اور شعور کی سطح اتنی گر چکی ہے کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود پھر انہی چوروں، لٹیروں کو اپنی تقدیر کا مالک اور اپنی اولادوں کا نگہبان سمجھتے ہیں۔