جد ید منتظمیت دورِ حاضر کی ماڈرن سائنسز کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ جس کی افادیت اظہر من الشمس ہے۔ موجودہ جدید دور زندگی میں ہر ادارہ اور ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے۔ معمولی تجارتی کاروبار سے لے کر دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں، کارخانے، انڈسٹری، بینکنگ سیکٹر کا بنیادی ڈھانچہ شعبہ منتظمیت(Management) پرقائم ہے۔
جدید منتظمیت پر شیخ الاسلام کی خدمات
شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری نے انسانی زندگی کے معروف شعبہ ہائے حیات کے تقریباً ہر پہلو پرعلمی اور تحقیقی مباحث کی ہیں۔ آپ نے عالم اسلام کے معاشرتی، اخلاقی، اقتصادی ، معاشی اور سیاسی حالات کا تجزیہ کرکے نہ صرف مسلمانوںبلکہ تمام نوع انسانی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے قابل عمل تجاویز دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔ لاکھوںلوگوں نے آپ کو پڑھا، آڈیو ویڈیو سی ڈیز کے ذریعے آپ کو سنا اور دیکھا۔ آپ کے ناظرین ، سامعین اور ناقدین میں دنیا کے ہر مکتبہ فکر اور شعبہ زندگی سے متعلق افراد شامل ہیں۔ دنیا بھر کے لاکھوں افراد بلا تمیز مذہب، ملت، رنگ، نسل اور زبان، شیخ الاسلام کی کتب اور خطابات سے استفادہ کرتے ہیں۔ طلبہ و طالبات کے علاوہ اساتذہ اور علما و مشائخ بھی آپ کے کام سے مستفید ہوتے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے آپ کے علمی اور تحقیقی کام کے مشہور موضوعات، قرآن اور علوم القرآن، حدیث مبارکہ، ایمانیات و عبادات، اعتقادات، سیرت و فضائل نبوی، ختم نبوت و تقابل ادیان، فقیہات،تعلیمات، اخلاق و تصوف، شخصیات، اسلام اور سائنس، حقوق انسانی اور عصریات رہے ہیں۔سینکڑوں کتب کے علاوہ ہزاروں سی ڈیز میں شیخ الاسلام کے نایاب خطابات موجود ہیں۔
منتظمیت، انتظام کاری، اس کے مختلف وظائف اور انسانی رویّوں پر گفتگو شیخ الاسلام مد ظلہ‘ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ موضوعات کے علاوہ ماڈرن سائنسز اور جدید منتظمیت پربھی شیخ الاسلام کے بے شمار خطابات موجود ہیں۔ بلاشبہ یہ خطابات نہ صرف تحریک کے رفقاء و اراکین کے علاوہ ملک عزیز کے عوام و خواص بلکہ مختلف ریاستی اداروں کو چلانے والے حکام وعمّال کے لیے بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ قرآن و حدیث اور علوم اسلامیہ کی روشنی میں ماڈرن مینجمنٹ، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انسانی رویوں کے علوم(behavioural sciences) پر ملک عزیز کے موقر ریاستی تربیتی اداروں، نیپا اور رورل اکیڈمی کے علاوہ اندرون اور بیرون ملک آرمڈ فورسز کی اکیڈمیوں اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں بھی آپ نے تربیتی لیکچرز دئیے جنہیں بے حد سراہا گیا۔
یہ امر پیش نظر رہے کہ شیخ الاسلام شروع سے لے کر آج تک ’’منتظمیت‘‘ کے وظائف کی توضیح و تشریح قران و حدیث کے احکامات و فرمودات کے حوالے سے کرتے ہیں اور یہ دیکھ کر آج کے جدید دور کے ماہرین منتظمیت اورصاحبانِ علم و حکمت دنگ رہ جاتے ہیں کہ قران حکیم کے مختلف قصص و اساطیر اور آیات ربانی میں ماڈرن سائنسز اور مینجمنٹ کے واضح علوم کی تشریح اور توضیح کس قدرموجود ہے۔
منہاج القرآن میں منتظمیت کے چند مظاہر
منتظمیت کے موضوع پر جہاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں وہاں آپ کے زیر سرپرستی چلنے والے جملہ اداروں میں موجود نظم و نسق آپ ہی کی منظم شخصیت کے عکاس ہیں۔ اس حوالے سے اگر صرف منہاج القرآن کی مشاورتی مجالس ہی کا جائزہ لیا جائے تو وہاں منتظمیت اپنے اعلیٰ درجات پر فائز نظر آتی ہے۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے موقر ترین مشاورتی مجالس؛ شوریٰ عام اور شورٰی خاص ، جس میں ملک عزیز پاکستان بلکہ دنیا بھر کے تمام براعظمی تنظیمات کے رفقاء اور اراکین کے منتخب نمائندگان سال میں دو بار مرکزی سیکرٹریٹ لاہور پاکستان میں شرکت کرتی ہیں۔ ان مجالس میں اراکین شوریٰ تنظیمات اور مرکزی تنظیم کی ششماہی اور سالانہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں، اس پربحث و تمحیص اور نقد و جرح ہوتی ہے۔ اجلاس کے آخری ایام میں شیخ الاسلام کی تنظیمی اور انتظامی معاملات پر مفصل گفتگو سے بھی اراکینِ شوریٰ استفادہ کرتے ہیں۔
شوریٰ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس تنظیمی اور انتظامی لحاظ سے یوں منفرد ہوتے ہیں کہ ان میں موجود ہر فردیہ حق رکھتا ہے کہ وُہ اپنی تنظیم کے علاوہ مرکزی ، براعظمی، ملکی، صوبائی اور ضلعی سطح کے ہر شعبہ ، فورم اور عہدیدار کے حقوق و فرائض کی روشنی میں اس کی کارکردگی کو زیر بحث لائے اور بمصداق ’’صلائے عام ہے یا رانِ نکتہ دان کے لیے!‘‘ پوری آزادی سے کسی بھی معاملہ، مسئلہ اور قضیہ پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرے۔
سوال و جواب کی اس نشست کی صدارت شیخ الاسلام مد ظلہ‘ بہ نفسِ نفیس فرماتے ہیں۔ آپ کی عدم موجودگی میں چیئرمین سپریم کونسل یا صدر ادارہ منہاج القرآن یا مرکزی امیر تحریک آپ کی نیابت کرتے ہیں۔ شوریٰ کے ان خصوصی اجلاس میں مرکزی ناظم اعلیٰ، شعبہ جاتی ناظمین اورمرکزی فورمز کے صدور اور سربراہان اراکین شوریٰ کے سامنے ششماہی اور سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
صوبائی اور اس کے تحت مختلف سطحوں کی مقامی تنظیمات جو منہاج القرآن انٹرنیشنل کی حقیقی بنیادی عوامی تنظیمات(botom-line management) ہوتی ہیں۔ان کے منتخب اراکین شوریٰ؛ مرکزی نظامتِ عُلیا، مرکزی فورمز کے ناظمین اور سربراہان کے رُو برو، ہر قسم کے تنظیمی اور انتظامی مسائل(problems)، ان کے اسباب وعلّل اور تعمیل و تکمیل کے معاملہ پر حقیقتِ حال تک رسائی کے لیے نقد و جرح کرتے ہیں اور قائد تحریک شیخ الاسلام اور صاحبزادگان کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار بلا کم و کاست کرتے ہیں۔
مرکزی قائدین، ناظمین اور شعبہ جاتی سربراہان ان نشستوں میں ہر قسم کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کے پابند ہوتے ہیں۔بعد ازاں، ان نشستوں میں ہونے والے فیصلہ جات کی روشنی میں ادارہ تحریک کے مستقبل کی پالیسی، لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کی جاتی ہے اور جہاں مناسب تغیّر و تبدّل کی ضرورت ہوتی ہے وہاں متبادل منصوبوں(alternative planes) کی منظوری دی جاتی ہے۔
شیخ الاسلام کی ہمہ جہتی خدمات کا اعتراف
کسی کے کام پر تحریر و تقریر کرنے کاعام قاعدہ اور کلیہ یہ ہے کہ لکھنے یا بات کرنے والا اپنی تحریر و تقریر میں فی الحقیقت صاحب تحریر و تقریر کے بارے میں اپنے ماضی الضمیرکا اظہار کرتا ہے، وہ اپنی بصارت وبصیرت اپنی سوچ،فکر اور زاویہ نگاہ سے بحیثیت ناظر لکھتا اور بات کرتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی نظر، زیرِ بحث کی شخصیت کے ان گوشوں کو دیکھ رہی ہوتی ہے جو کہ اس کے سامنے اور حیطہ علم میں ہوتے ہیں۔ اُس شخصیت کے بہت سارے پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ناظر کے دائرہ بصارت و بصیرت سے ماوراء ہوتے ہیں۔ ناظر کیا دیکھ رہا ہے، کیا بیان کر رہا ہے اور کیا لکھ رہا ہے، یہ اس کے علم، تعلیم، تجربہ فہم و ادراک، دانش، فراست اور قیاس کی گہرائی اور گیرائی سے تعلق رکھتا ہے۔
ایک انسان کسی دوسرے انسان یازمین پر پھیلے ہزاروں انواع و اقسام کی مخلوقات بارے پورے وثوق سے ہرگزیہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ اس نے اس انسان یا دیگر مخلوقات کی تمام ظاہری اور باطنی حقائق، اجزائے ترکیبی، ہیت و ماہیت، مزاج، خصائل، حیثیات اور حسیّات سے کما حقہ‘ آگہی حاصل کرکے ان پر اظہار رائے کر رہا ہے۔ ایک انسان تو اپنے بارے میں بھی مکمل معرفت نہیں رکھتا کجا کہ وہ دوسروں کے ظاہر و باطن سے واقف ہوسکے۔ جن معلومات اور تاثرات کااظہار وہ کررہا ہوتا ہے، وہ اس کی اپنی محدود سوچ کے مطابق ہوتاہے ورنہ انسان کو تو خالق کائنات کے شاہکار ہونے کے ناطے احسن تقویم اور کائنات صغریٰ کہا گیا ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک دنیا اور انجمن ہے ۔ بقول اقبال
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
اسی طرح کسی شخصیت پر لکھنے اور بولنے والے اور نقد و جرح کرنے والے حضرات کے حقوق و فرائض اور جس بارے یا جس کے بارے لکھا اور بولا جا رہا ہے اس کے حقوق و فرائض کے متعین حدود ہوتے ہیں جس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور توازن ، اعتدال، امانت اور دیانت سے صحیح حقائق کو عوام الناس کے سامنے لانا لازم ہوتا ہے۔
عصر حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے بارے یہ بات بلاخوف تردید اورپورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آپ کی متنوّع اور کثیر الجہت شخصیت(Multi dimentational personality) پر اب تک لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا اور آپ کے متعلق گفتگو کرنے والے بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ جس طرح آپ کے مختلف النوع علمی اور تحقیقی کام بنی نوع انسان کے تمام معروف شعبہ ہائے حیات سے متعلق ہے۔ اسی طرح آپ کے متعلق لکھنے اور بات کرنے والے بھی اپنی وسعت فکر کے مطابق آپ کے کام اور شخصیت پر لکھتے اور گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لکھاری، محررّین اور مقررّین موجود ہیں۔ یہ سلسلہ بحمد اللہ تعالیٰ تا دیر جاری و ساری رہے گا کیونکہ آپ کے کام کامسلسل انتھک انداز، تحریر و تقریر کی سرعت،زورِ بیان اور جولانی قلم کی تازگی ماشاء اللہ اپنے پورے جوبن پر ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔ امید ہے کہ آپ اپنے نصب العین کی تکمیل کے لیے شبانہ روز اسی اندازو رفتار سے اپنا کام جاری رکھیں گے۔
شیخ الاسلام کے افکارِ منتظمیت پر سلسلہ تحریر کا آغاز
منتظمیت، انتظام کاری (management) اور اس کے وظائف کے حوالے سے شیخ الاسلام نے1980 ء کی پہلی دہائی یعنی پہلی شورٰی کے قیام سے لے کرآج تک تحریک کے رفقاء و اراکین کو بالخصوص اور امت مسلمہ کو بالعموم جن اعلیٰ تنظیمی اور انتظامی خطابات سے نوازا ہے ان کا احاطہ کرنا تو ہمارے لیے ممکن نہیں۔ زیر نظر سلسلہ تحریر میں البتہ چند خاص موضوعات اور ان کے متعلقات پر آپ کے خطابات کی تلخیص اور نچوڑ ہم قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف حاصل کررہے ہیں۔
اس سلسلہ میں منتظمیت کے موضوع پر شیخ الاسلام کے سلسلہ خطابات میں درج ذیل چند اہم عنوانات ہمارا موضوع بحث ہوں گے:
- ادارہ کی تشکیل اور اس کے تقاضے، اہمیت و ضرورت
- ادارہ بطور امانت
- اسلامی ادارہ کی خصوصیات اور اسلامی اداروں اور دنیاوی اداروں میں بنیادی فرق
- منتظمیت کے وظائف اور عملیات (functions of management)
- قیادت اور راہنمائی (Leading, Leadership)
- اسلامی ادارہ کے قائدین کی پسندیدہ صفات
- قائدین کے سلبی مواصفات (negative traits) (جن سے اسلامی ادارہ کے قائدین کیلئے احتراز لازم ہے۔)
- منصوبہ سازی
- تنظیم سازی
- عملہ کاری
- انضباط و انقیاد (monitoring and controlling)
- موثر ابلاغ کاری (effective communication)
- دعوت و ترغیب
- موثر ترغیباتی عمل
بطور ’’تحفہ درویش برگ سبز‘‘جو ریزہ خوری اور خوشہ چینی اپنی کم مائیگی کے باوصف ہم نے کی، وہ تمام آئندہ ماہ سے اس سلسلہ تحریر کے ذریعے قارئین تک پہنچانے کی سعی جمیلہ کررہے ہیں۔ ان مضامین میں تیکنیکی، فنی، علمی اور ادبی لحاظ سے جو نقائص سامنے آئیں، وہ مسکین ناچیز کی طالبعلمانہ کوتائیوں کا شاخسانہ ہوگا جس کے لیے پیشگی معذرت پیش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ شیخ الاسلام کے زور خطابت اور جولانی طبع کے مطابق ہم وہ سب کچھ کماحقہ‘ قارئین کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہیں جو آپ اپنی شیریں کلامی سے بڑی آسانی سے قارئین کے اذہان و قلوب میں کرشماتی طور پر (chaismatically) منتقل کر دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ جدید منتظمیت (Modern Management) کے اس موضوع پر شیخ الاسلام کے ان علمی و فکری شاہپاروں کے کماحقہٗ ابلاغ کے لئے مجھے شرح صدر عطا فرمائے۔
گِلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بہ دستم
بَدُو گفتم کہ مُشکِ یا عبیرے
کہ از بُوئے دِلِ آویز تومَستم
بگفتہ مَن گِلے نا چیز بودم
ولیکن مدتے بہ گُل نشستم
جمالِ ہم نشین دَر من اثر کرد
وگرنہ من ہمہ خاکم کہ ہستم
’’ایک دن حمام میں ایک دوست کے ہاتھ سے ایک خوشبو دار مٹی میرے ہاتھ میں آئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو مُشک ہے یا عبیر ہے کیونکہ میں تیری دلکش خوشبو سے مست ہوگیا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں ایک ناچیز مٹی تھی لیکن ایک زمانہ تک میں پھول کے ساتھ رہی ہوں۔ محبوب کا حسن مجھ پر اثر انداز ہوا، ورنہ میں تو بس وہی خاک کی خاک ہی تھی یعنی کچھ نہ تھی‘‘۔
(شیخ سعدی شیرازی)