سوال: استخارہ سے راہنمائی کیسے لی جائے؟ اس حوالے سے تفصیلی وضاحت فرمادیں۔
جواب: استخارہ کا لفط ’خیر‘ سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے کسی معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا۔ اصطلاحاً استخارہ سے مراد روزمرہ میں پیش آنے والے جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اس سے ان کاموں میں خیر، بھلائی اور راہنمائی طلب کرنا ہے۔ استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا، نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں منقول ہے۔ استخارہ کے ذریعے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے ان کاموں میں راہنمائی طلب کرتا ہے جن میں اسے تردد ہو کہ فلاں کام کو یوں کرنا بہتر ہے یا یوں؟ یا فلاں کام کرنا بہتر ہے یا نہیں؟ گویا استخارہ بارگاہِ الٰہی میں راہنمائی کے لیے دی جانے والی درخواست ہے جس کے جواب لازمی طور پر ’ہاں‘ یا ’نہ‘ میں ملنا شرط نہیں۔ واضح اور جلد راہنمائی کا تعین استخارہ کرنے والے کی طہارت، پاکیزگی، پرہیزگاری اور روحانی مقام کرتا ہے۔
اگر ایک دن استخارہ کرنے سے کوئی واضح اشارہ ملے اور نہ ہی قلبی اطمینان کا احساس ہو تو سات دن تک استخارہ کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ اگر سات ایام تک استخارہ کرنے سے بھی دل مطمئن نہ ہو تو باہمی مشورہ اور سوچ و بچار کے بعد اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ استخارہ دراصل بارگاہِ الٰہی میں راہنمائی کی درخواست ہے جو قبول بھی ہوسکتی ہے اور رد بھی۔
تعبیر الرویاء کے اصولوں کے مطابق خواب میں سفید یا سبز رنگ دیکھنے کی تعبیر بہتری اور سرخ یا سیاہ رنگ دیکھنے کی تعبیر ابتری ہے۔ اس لیے استخارے میں سفیدی یا سبزی کا دِکھنا اثبات اور سرخی یا سیاہی کا دِکھنا انکار کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر استخارے کے بعد خواب میں سفید یا سبز رنگ دکھائی دے تو جس کام کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہے، اسے کر لیا جائے اور سرخ یا سیاہ رنگ دکھائی دینے کی صورت میں اسے ترک کر دیا جائے۔
واضح اشارہ پانے کے لیے بہتر ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد سونے سے پہلے استخارہ کیا جائے، تاہم یہ شرط نہیں ہے۔ اگر ممکن ہو تو استخارہ کے لیے غسل کر کے صاف ستھرا لباس زیب تن کیا جائے۔
سوال: کیا ایک مستحق کے لیے جمع کردہ صدقات دوسرے مستحق پر خرچ ہو سکتے ہیں؟
جواب: مخیر حضرات نے اگر کسی ایک مخصوص فرد کے علاج کے لیے کسی فرد یا ادارے کو کوئی رقم دی ہے، تو وہ صرف اْسی فرد کا حق ہے جس کے لیے دی گئی ہے۔ اس رقم سے صرف اسی کا علاج جائز ہے۔ اس کے برعکس اگر انہوں نے تمام مستحقین کے علاج کے لیے ادارے کو صدقہ و خیرات کی رقم فراہم کی ہے، تو پھر زید، بکر سمیت تمام مستحق افراد اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں ایسی رقم سے ہر مستحق کا علاج جائز ہے۔
سوال: مصنوعی دانت لگوانے کی صورت میں وضو اور غسل کے کیا احکامات ہیں؟
جواب: مصنوعی دانت لگوانے کی دو صورتیں ہیں:
- ایسے دانت جو مستقل لگا دیے جائیں اور پھر آسانی سے نکالے نہ جا سکیں۔ ایسے مصنوعی دانت اصل دانت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کا حکم اصل دانتوں کا ہی ہوگا۔ وضو اور غسل میں ان دانتوں تک پانی پہنچانا فرض ہے لیکن دانت نکالنے اور تہہ تک پانی پہنچانے کی ضرورت نہیں۔
- ایسے دانت جو مستقل تو نہ لگائے جائیں بلکہ جنہیں حسبِ ضرورت نکالا یا لگایا جا سکے۔ اِس صورت میں اْس وقت تک وضو اور غسل درست نہ ہوگا جب تک ان دانتوں کو نکال کر اصل جڑوں تک پانی نہ پہنچ جائے۔
سوال: کیا بلیوں اور کتوں کا کاروبار جائز ہے؟اور اس سے آنے والی آمدنی حلال اور جائز ہو گی؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من امسک کلبا فاِنه ينقص کل يوم من عمله قيراط اِلا کلب حرث أو ماشية.
’’جس نے کتا رکھا اس کے نیک اعمال میں سے ہر روز ایک قیراط نیکیاں کم ہو جائیں گی، سوائے کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کی خاطر رکھے گئے کتا کے‘‘۔
امام بخاری نے مزید روایت کیا ہے :
اِلا کلب غنم أو حرث أو صيد.
’’ہاں وہ کتا رکھنا جائز ہے جو بکریوں اور کھیتی یا شکار کیلئے رکھا جائے‘‘۔
-
بخاري، الصحيح، 2 : 817، رقم : 2197، دار ابن کثير اليمامه، بيروت
-
مسلم، الصحيح، 3 : 1203، رقم : 1575، دار اِحياء التراث، العربي، بيروت
-
ابن حبان، الصحيح، 12 : 469، رقم : 5652، موسسة الرساله، بيروت
-
ابن ماجة، السنن، 2 : 1069، رقم : 3204، دار الفکر، بيروت
-
بيهقي، اسنن، 6 : 10، رقم : 108114، مکتبة دار الباز مکة المکرمة
-
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 425، رقم : 9489، موسسة قرطبة، مصر
-
ابي عوانه، المسند، 3 : 365، رقم : 5335، دارالمعرفة، بيروت
شارحین حدیث :
امام نووی شافعی فرماتے ہیں :
فمذهبنا انه يحرم اقتناء الکلب بغير حاجة ويجوز افتناوه للصيد وللزرع وللماشية.
’’ہمارا مذہب یہ ہے کہ بلاضرورت کتا پالنا حرام ہے ہاں شکار، کھیتی اور مویشیوں کی حفاظت کیلئے جائز ہے‘‘۔
نووی، شرح صحيح مسلم، 10 : 236، دار اِحياء التراث العربي، بيروت
امام قرطبی اندلسی مالکی فرماتے ہیں :
مشهور مذهب مالک جواز اتخاذ الکلب وکراهية بيعه ولا يفسخ ان وقع وکانه لما لم يکن عنده نجسا واذن في اتخاذه لمنافعه الجائزة کان حکمه حکم جميع المبيعات لکن الشرع نهي عن بيعه تتريها لانه ليس من مکارم الاخلاق.
’’امام مالک کا مذہب مشہور ہے کہ کتا رکھنا جائز ہے اور اس کا بیچنا، خریدنا مکروہ ہے اگر بیع ہوگی تو فسخ نہ ہوگی، تو گویا ان کے نزدیک یہ نجس نہ ہوا اور انہوں نے اس کے جائز منافع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے اور اس کا حکم باقی اموال تجارت کی طرح ہے ہاں شریعت نے اسکی خرید و فروخت سے منع فرمایا تو یہ کراہت تنزیہی ہے کہ اخلاق حسنہ کے خلاف ہے‘‘۔
عسقلانی، فتح الباری شرح الصحيح بخاری، 4 : 427، دارالمعرفة، بيروت
امام حجر عسقلانی شافعی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :
علی جواز تربية الجر والصغير لاجل المنفعة التي يئول امره اِليها اِذا کبر ويکون القصد لذلک قائما مقام وجود المنفعة به کما يجوز بيع ما لم ينتفع به فی الحال لکونه ينتفع به فی المال.
’’اس پر دلیل دی گئی ہے کہ کتے کا چھوٹا بچہ ان فوائد کیلئے پالنا جو اسکے بڑا ہونے سے وابستہ ہیں جائز ہے اور ان فوائد کی نیت و ارادہ ان کے حصول کے قائم مقام ہو گا۔ جیسے ان اشیاء کو بیچنا جائز جس سے ابھی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا مگر مستقبل میں ان سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں‘‘۔
عسقلاني، فتح الباري شرح الصحيح بخاری، 5 : 7
عطاء بن ابی رباح، ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، امام محمد، ابن کنانہ سحنون مالکی امام مالک ایک روایت کے مطابق ان تمام آئمہ اعلام علیھم الرحمۃ والرضوان نے فرمایا :
الکلاب التی ينتفع بها يجوز بيعها ويباح اثمانها و عن ابی حنيفة ان الکلب العقور لا يجوز بيعه ولا يباح ثمنه وفی (البدائع) وأما بيع ذی ناب من السباع سوی الخنزير کالکلب ولفهد والأسد والنم روالذئب والهر ونحوها فجائز عند اصحابنا ثم عندنا لا فرق بين المعلم وغير المعلم فی رواية الاصل فيجوز بيعه کيف ماکان و روي عن ابي يوسف انه لا يجوز بيع الکلب العقور کما روي عن ابي حنيفة.
’’جن کتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے ان کو خریدنا بیچنا جائز اور قیمت حلال ہے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ کاٹنے والے کتے نہ بیچنا جائز، نہ اسکی قیمت جائز۔ بدائع میں ہے خنزیر کے علاوہ تمام درندوں مثلا کتا، تیندوا بھیڑیا، شیر، چیتا، بلی وغیرہ کی خرید و فروخت ہمارے اصحاب (حنیفہ) کے نزدیک جائز ہے پھر ہمارے نزدیک اصل میں اس بات میں کوئی فرق نہیں کہ یہ جانور پڑھائے سدھائے ہوں یا نہ ہوں، سو جیسے ہو ان کی تجارت جائز ہے۔ امام ابو یوسف اور امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک پاگل کتے کی بیع جائز نہیں۔
بدرالدين عينی، عمدة القاری، 12 : 59، دار اِحياء التراث العربی، بيروت
فقہائے کرام :
يجوز بيع الکلب والفهد، والسباع المعلم وغيرالمعلم فی ذلک سواء.
’’کتا، تیندوایا بھیڑیا اور سدھائے ہوئے یا غیر سکھائے ہو یا غیر معلم درندوں کی خرید و فروخت جائز ہے۔ (خنزیر او رکاٹنے والے کتے کے علاوہ)‘‘۔
-
امام ابن همام، هدايه، مع فتح القدير، ج : 6، ص : 345، سکهر
-
علامه زين الدين ابن نجيم الحنفی، البحر الرائق، ج : 6، ص : 172، کراچی
-
علامه امجد علی اعظمی، بهار شريعت، 11 : 185، کراچی
شکار مویشیوں، گھروں اور فصلوں کی حفاظت کیلئے کتا پالنا، بالاجماع جائز ہے، مگر گھر میں نہ رکھے، ہان چوروں یا دشمنوں کا ڈر ہو تو گھر میں بھی رکھ سکتا ہے اس حدیث صحیح کی بنا پر ’’کہ جس نے شکار اور مویشیوں کی حفاظت کے علاوہ گھر میں کتا پالا ہر دن اس کے اجر وثواب میں دو قیراطوں کی کمی کر دی جائے گی‘‘۔
گڑیا کی بیع اور بچوں کا اس سے کھیلنا جائز ہے، کتے بھیڑیے، ہاتھی اور تمام درندوں کے یہاں تک یہ بلی اور پرندے سدھائے ہوں یا نہ، سب کی خرید و فروخت جائز ہے سوائے خنزیر کے۔
-
شامی، الدرالمختار مع رد المحتار، 5 : 226، کراچی
-
علاء الدين کاسانی، بدائع الصنائع، 5 : 142، کراچی
يجوز بيع الحيات اِذا کان ينتفع بها في الادوية واِن کان لا ينتفع بها لا يجوز والصحيح انه يجوز بيع کل شئي ينتفع به. بيع الکلب المعلم عندنا جائز وکذلک بيع السنورو سباع الوحش والطير جائز عندنا معلما کان أو لم يکن. وبيع الکلب الغيرالمعلم يجوز اِذا کان قابلا للتعليم واِلا فلا. قال محمد رحمه اﷲ تعالٰي و هکذا نقول في الاسد اِذا کان بحيث يقبل التعليم و يصاد به ان يجوز البيع فاِن الفهد والبازي يقبلان التعليم علی کل حال فيجوز بيعهما علی کل حال. ويجوز بيع الذئب الصغير الذی لا يقبل التعليم وقال ابو يوسف رحمه اﷲ تعالٰی صغيره و کبيره سواء. وبيع الفيل جائز وفی بيع القردة روايتان عن ابی حنيفة رحمه اﷲ تعالٰی في رواية يجوز وهی المختار کذا فی محيط السرخسی. ويجوز بيع جميع الحيوانات سوی الخنزير وهو المختار.
’’سانپوں کی تجارت جائز ہے جب ان سے دوائیں بنائی جائیں اگر اسکے لئے مفید نہیں تو بیع جائز نہیں۔ صحیح یہ ہے ہر چیز جس سے نفع اٹھایا جائے اسکی تجارت جائز ہے۔ ہمارے نزدیک سکھائے ہوئے کتے کی بیع جائز ہے یونہی بلی اور وحشی درندوں اور پرندوں کی خرید و فروخت درست ہے سکھائے سدھائے ہوں یا نہ ہوں۔جس کتے کو سدھایا پڑھایا نہ جائے اگر وہ قابل تعلیم ہے تو اس کا لین دین بھی جائز ہے اگر قابل تعلیم نہیں (پاگل ہے) تو اسکی بیع درست نہیں۔ امام محمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہم شیر کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر قابل تعلیم و تربیت ہے اور اس سے شکار کیا جاتا ہے تو اس کی بیع جائز ہے۔ بھیڑیا اور باز تعلیم ہر حال میں قبول کرتے ہیں لہذا ان کی ہر حال میں تجارت بھی جائز ہے۔ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فرمایا چھوٹے بڑے کا ایک ہی حکم ہے ہاتھی کی تجارت جائز ہے بندر کی خرید و فروخت میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دو روایتیں ہیں۔ ایک روایت جواز کی ہے اور یہی مختار ہے جیسا کہ محیط سرخسی میں ہے اور خنزیر کے علاوہ تمام حیوانوں کی خرید و فروخت جائز ہے یہی مذہب مختار ہے۔
الشيخ نظام و جماعة من علماء الهند، الفتاوی الهندية، 3 : 11، دار الفکر
مالکیہ :
- کتے کی بیع جائز نہیں، خواہ کسی مقصد کیلئے رکھا جائے۔ کہ حدیث پاک میں ممانعت ہے۔
- بعض مالکیہ کے نزدیک شکار اور حفاظت کیلئے کتا رکھنا بھی جائز اور اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہے۔
حنابلہ :
کتے کی خرید و فروخت کسی صورت جائز نہیں، ہاں شکار، مویشیوں اور کھیتی کی حفاظت کیلئے کتا پالنا جائز ہے۔ بشرطیکہ سیاہ رنگ نہ ہو بلی کی بیع میں اختلاف ہے۔ مذہب مختار یہ ہے کہ ناجائز ہے درندوں کی بیع جائز ہے جیسے ہاتھی اور باقی درندے جیسے شکاری پرندوں کی بیع جائز ہے جیسے باز، شکرا، حشرات الارض کی بیع جائز نہیں جیسے بچھو، سانپ، ہاں ریشم کے کیڑوں کی بیع جائز ہے یونہی شکار کیلئے استعمال ہونے والے کیڑے۔
حنفیہ :
گوبر، بیٹھ وغیرہ کی خرید و فروخت جائز ہے اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، بطور ایندھن ان کا استعمال جائز ہے اور بیع درست ہے۔ کتا شکار یا حفاظت کیلئے یونہی خنزیر کے علاوہ دیگر درندے مثلا شیر، بھیڑیا ہاتھی وغیرہ، جب ان سے یا ان کے چمڑوں سے فائدہ اٹھایا جائے مذہب مختار کی رو سے ان کو پالنا اور ان کی خرید و فروخت جائز ہے۔ یونہی حشرات الارض، کیڑے مکوڑے مثلا سانپ بچھو وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جائے تو ان کو رکھنا پالنا اور لین دین جائز ہے، جیسے شکاری پرندوں کی بیع و شراء جائز ہے مثلا شیکرا، باز قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز میں فائدہ ہو اور شرعا اجازت ہو اس کی بیع و شراء جائز ہے۔
علامه عبد الرحمن الجزيری، الفقه علي المذاهب الاربعة، 2 : 232، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان
خلاصہ کلام :
ہماری تحقیق کے مطابق کتا پالنے یا رکھنے کے خلاف روایات سے مراد ہے ذاتی، خانگی رعب وداب قائم رکھنا، رہا شکاری اور دھونس جمانے کے لئے رکھنا، ان جانوروں کی وجہ سے راہ چلتے لوگوں کو ایذا پہنچانا، جس سے لوگ زخمی ہوتے ہیں، باولے کتوں کے کاٹنے سے مہلک امراض لاحق ہوتی ہیں۔ کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجے میں لڑائیاں اور فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں، جو لوگ جانوروں کو لڑاتے ہیں ان کو لہولہان کر کے خود لطف اندوز ہوتے ہیں اور ان کو ایذا پہنچاتے ہیں، ریس مقابلے پر شرطیں لگاتے اور جوا کھیلتے ہیں، معصوم بچوں کی موت و معذوری کا سبب بنتے ہیں۔ اگر یہ برے مقاصد ونتائج نہ ہوں اور کتا، بلی یا دیگر مذکورہ جانور، چرند پرند، درند، حفاظت یا شکار کیلئے رکھے جائیں تو ان کا رکھنا پالنا بھی جائز اور ان کی خرید وفروخت بھی جائز ہے۔
نوٹ :
ریس یا دیگر مقابلوں میں ہارنے جیتنے پر کوئی تنظیم یا حکومت یا فرد، حوصلہ افزائی کیلئے انعام دے تو جائز ہے۔ اگر کوئی فرد یا تنظیم ہار جیت پر باہم شرط لگائے اور ہارنے والا جیتنے والے کو مقرر شدہ رقم یا جنس دینے کا معاہدہ کرے تو جوّا ہے اور حرام ہے۔