سوال: ذی الحج کے مہینے کی کیا فضیلت ہے؟ اس کے ابتدائی دس دنوں میں کون کون سے اعمال کرنے چاہئیں؟
جواب: حج و قربانی کی مناسبت سے ماہ ذوالحجہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار برکتیں اور سعادتیں عطا کر رکھی ہیں۔ آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی دس راتوں کی عظمت سے متعلق ارشاد فرمایا:
پہلی رات کے چاند کے ساتھ ذوالحجہ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کی پہلی دس راتوں میں سے ہر رات اپنی عظمت میں لیلۃ القدر کے برابر ہے۔
جہاں ماہ رمضان المبارک کو منفرد شان والی ایک رات ’’لیلۃ القدر‘‘ نصیب ہوئی ہے جس کے اندر چند ساعتیں اللہ کے بندوں کی مغفرت و بخشش کا سامان لیے ہوئے وارد ہوتی ہیں اور جن میں اخلاص کے ساتھ بندہ اپنے رب سے جو بھی بھلی شے طلب کرتا ہے وہ اسے عطا کر دی جاتی ہے۔ وہاں ماہ ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو عظمت و فضیلت کا وہ خزانہ عطا کیا گیا ہے کہ اس کی ہر ایک رات رمضان المبارک کی لیلۃ القدر کے برابر ہے۔ جس طرح رمضان المبارک کی برکتوں کو سمیٹ کر عید الفطر میں رکھ دیا گیا اور اس دن کو خوشی کے دن کے طور پر مقرر کر دیا گیا۔ اسی طرح ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کے اختتام پر اللہ رب العزت نے عیدالاضحٰی کے دن کو مسرت و شادمانی کے دن کی صورت میں یادگار حیثیت عطا کر دی۔ اس دن کو عرفِ عام میں قربانی کی عید کہتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مامن ایام العمل الصالح فیهن احب الی الله من هذه الایام العشرۃ قالوا یارسول الله! ولا الجهاد فی سبیل الله، قال: ولا الجهاد فی سبیل الله الا رجل خرج بنفسه وماله فلم یرجع من ذلک بشئی.
ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے حضور نیک عمل جتنا پسندیدہ و محبوب ہے کسی اور دن میں اتنا پسندیدہ و محبوب تر نہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اللہ کے راستہ میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا اور کچھ لے کر گھر نہ لوٹا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ما من ایام احب الی الله ان یتعبدله فیها من عشر ذی الحجۃ، یعدل صیام کل یوم منها بصیام سنۃ وقیام کل لیلۃ منها بقیام لیلۃ القدر.
(ترمذی، ابن ماجه)
اللہ تعالیٰ کو اپنی عبادت بجائے دوسرے اوقات و ایام میں کرنے کے عشرہ ذوالحجہ میں کرنی محبوب تر ہے۔ اس کے ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی ایک ایک رات کا قیام، لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں عشرۂ ذی الحجہ میں جن اعمال کے کرنے کی فضیلت آئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ ذکرِ الٰہی کا اہتمام کرنا
اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ان دس دنوں میں اپنا ذکر کرنے کا خصوصی طور پر تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ.
(الحج، 22: 28)
’’اور (قربانی کے) مقررہ دنوں کے اندر اللہ نے جو مویشی چوپائے ان کو بخشے ہیں ان پر (ذبح کے وقت) اللہ کے نام کا ذکر بھی کریں‘‘۔
صحابہ کرام اور محدثین و مفسرین کے نزدیک ان ایام معلومات سے مراد عشرۂ ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔
2۔ کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کہنا
امام احمد نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کوئی دن بارگاہ الٰہی میں ان دس دنوں سے زیادہ عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا (اچھا)عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے۔ پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہو۔
سلف صالحین اس عمل کا بہت اہتمام کیاکرتے تھے۔ امام بخاری نے بیان کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے تو لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے۔
3۔ بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنا
کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ قربانی کرنے تک اپنے ناخن بال وغیرہ نہ کاٹے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اذا دخل العشر واراد بعضکم ان یضحی فلا یاخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا
جب ماہ ذی الحجہ کا چاند نظر آئے (عشرہ ذی الحجہ داخل ہوجائے) اور تم میں کوئی قربانی کا ارادہ کرے تو اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔
سوال: قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کا فلسفہ بیان فرمائیں۔
جواب: قربانی عربی زبان کے لفظ قُرب سے ہے، جس کا مطلب کسی شے کے نزدیک ہونا ہے۔ قُرب، دوری کا متضاد ہے۔ قربان قرب سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ امام راغب اصفہانی قربانی کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
القربان مایتقرب بہ الی اللہ وصارفی التعارف اسماً للنسیکۃ التی ہی الذبیحۃ.
قربانی وہ چیز ہے جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، شرع میں قربانی سے مراد جانور ذبح کرنا ہے۔
(المفردات للراغب، 408)
قربانی کے لیے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں:
- قربانی
- منسک
- نحر
لفظ قربانی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ م اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ.
(المائدہ، 5: 27)
’’(اے نبی مکرم!) آپ ان لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل) کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہیَ جب دونوں نے (اللہ کے حضور ایک ایک) قربانی پیش کی سو ان میں سے ایک (ہابیل) کی قبول کر لی گئی اور دوسرے (قابیل) سے قبول نہ کی گئی تو اس (قابیل) نے (ہابیل سے حسداً و انتقاماً) کہا: میں تجھے ضرور قتل کر دوں گا اس (ہابیل) نے (جواباً) کہا: بے شک اللہ پرہیزگاروں سے ہی (نیاز) قبول فرماتا ہے‘‘۔
لفظ منسک کو استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللهِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ط فَـاِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا ط وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ.
(الحج، 22: 34)
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے پس تم اسی کے فرمانبردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔
لفظ نحر کو استعمال کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرْO فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْO إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُO
(الکوثر، 108: 1۔3)
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریںاور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکرّہے)۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا‘‘۔
قرآن کریم سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم پر قربانی لازم کی ہے۔ جیسے ہر امت پر نماز اور روزہ فرض فرمایا ہے۔
ہر انسان کو بڑی بڑ ی تین نعمتیں ملی ہیں:
- جان کی نعمت: اس کا شکر یہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو اطاعت خداوندی میں استعمال کیا جائے۔ ہاتھ پاؤں زبان اور دماغ سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا جائے۔
- مال کی نعمت: اس کا شکر یہ ہے کہ حلال و جائز ذرائع سے مال حاصل کیا جائے، اللہ کی رضا کے لیے غریبوں، ناداروں، یتیموں اور حاجت مندوں کی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانے میں اسے خرچ کیا جائے۔ مال میں و ہ پالتو جانور بھی شامل ہیں جو قدرت نے ہمارے لیے مسخر فرمائے ہیں۔ جن سے ہمیں اون، کھال، دودھ اور گوشت حاصل ہوتا ہے ان سے ہم سواری و باربرداری کا کام لیتے ہیں۔ ان کے ایک ایک عضو سے ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ان کا شکر یہ ہے کہ ہم منافع میں ان کو شریک کریں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔ سوار و بار برداری کی سہولتوں سے ان کو بھی بہرہ مند کریں، ذبح کریں تو ان کا گوشت دوسروں کو بھی دیں، دودھ جیسی نعمت حاصل ہو تو حسب توفیق ناداروں کو ان کا حصہ ادا کریں۔
- علم کی نعمت: علم مفید حاصل کریں یہ آپ کا پیدائشی حق بھی ہے اور آپ پر فرض بھی۔ اس کی قربانی یہ ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ اس کو دوسروں تک پہنچائیں اور کوئی علمی بات کسی سے نہ چھپائیں، نہ لالچ سے نہ کسی کے ڈر سے۔
ظاہر ہوا کہ قربانی مسلمانوں پر حسبِ توفیق لازم ہے۔ سورۃ کوثر میں نماز اور قربانی کو ایک ساتھ جمع ہونا اس بات کا غماز ہے کہ جس طرح نماز اپنی شرائط کے ساتھ اوقات مقررہ پر لازم ہے، اسی طرح قربانی بھی اپنی شرائط کے ساتھ اوقاتِ مقررہ پر لازم ہے، جیسے نماز کسی خاص مقام کے ساتھ مقید نہیں، ہر جگہ کے لیے عام ہے، اسی طرح قربانی بھی کسی مخصوص جگہ کے لیے نہیں ہر جگہ کے مسلمانوں کے لیے حکم شرعی ہے۔
امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا::
مَاعَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ یَوْمَ النَّحْرِ عملاً اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ هَراقَۃِ الدَّمِواِنَّہ لَیَاْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ علی الارض فَطِیْبُوْا بِهَا نَفْسًا.
ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔
(سنن ابن ماجہ، جلد2، باب ثواب الاضحیہ، رقم: 1045)
پس جو قربانی صدق و اخلاص سے دی جائے، اس قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت پا جاتی ہے۔
(مشکوٰۃ، ص: 128، باب الاضحیۃ)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
ضَحیّٰ رَسُوْلُ اللّٰه صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَبْشَیْنِ اَمْلَحَیْنِ اَقْرَنَیْنِ زَبَحَهُمَا بِیَدِہِ وَسَمّٰی وَکَبَّر قَالَ رَأَیْتُہُ وَاضِعًا قَدَمَہُ عَلٰی صَفَا حِهِمَا وَیَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوئوں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔
(مشکوۃ، ص: 127)
اپنے ہاتھ سے قربانی کرنے میں حکمت یہ ہے کہ عمل قربانی میں انسان کی اپنی دلچسپی ہو۔ اگر آپ نے قربانی کا جانور قصاب کے حوالے کر دیا اور خود کسی اور کام میں مصروف ہوگئے تو اس طرح سے قربانی ہو جاتی ہے لیکن اس میں اس دلچسپی کا مظاہرہ نہ ہو سکا جتنی دلچسپی کا اظہار خون گراتے وقت ظاہر ہونی تھی کیونکہ قربانی کا فلسفہ محض جانور ذبح کر دینا اور گوشت تقسیم کرنا نہ تھا بلکہ ہاتھ سے اس جانور کا خون بہانا تھا اور اگر خون بہانے کا کام جب انسان نے اپنے ہاتھ سے نہ کیا تو عملِ قربانی میں حسنِ نیت اپنے کمال کو نہ پہنچی۔ اس لئے سنت یہ ہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کی جائے۔
امام مسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اورسیاہی میں دیکھتا ہو یعنی اس کے پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں، وہ قربانی کے لئے حاضر کیا گیا۔ فرمایا عائشہ! چھری لائو، پھر فرمایا: اسے پتھر پر تیز کرو میں نے تیز کردی پھر آپ نے چھری پکڑی، مینڈھا لٹایا، اسے ذبح کیا پھر فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ.
الہٰی! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما۔
(مشکوۃ، 127)
قربانی میں مقصود گوشت نہیں ہوتا بلکہ قربانی کے عمل کی روح صرف چُھری چلا کر بسم اللہ، اللہ اکبر کہتے ہوئے اللہ کے نام پر خون بہا دینا ہے۔ پس اس خون کے قطرے کے گرانے کو قربانی کہتے ہیں، جبکہ گوشت کی تقسیم کا معاملہ، عام صدقے کی طرح ایک صدقہ ہے۔ جس طرح آپ اس قربانی کے علاوہ غرباء میں گوشت تقسیم کرتے رہتے ہیں۔
نیز یہ بھی کہ قربانی کے گوشت کی تقسیم کا ایک سنت طریقہ ہے کہ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک غرباء کے لیے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ اپنے لیے لیکن اگر اپنی فیملی کے احباب زیادہ ہوں تو خود دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں اور اگر دو حصے بھی کفایت نہ کریں تو سارے کا سارا گوشت خود بھی رکھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قربانی کا مقصود صرف گوشت کی تقسیم نہیں بلکہ مقصودِ قربانی اللہ کی رضا کے لیے اس کے نام پر خون بہانا ہے۔ مقصود گوشت کی تقسیم نہیں، اگر مقصود گوشت کی تقسیم ہوتی تو یہ عمل تو سال بھر ہوتا رہتا ہے۔ لہذا عیدالاضحی پر اللہ کی رضا کے لئے جان کے نذرانے کی علامت کے طور پر خون گرایا جانا قربانی کہلاتا ہے۔
سوال: کیا جانور ذبح کرنے کی بجائے اس کی مالیت کی رقم صدقہ کرنے سے قربانی ساقط ہوجاتی ہے؟
جواب: صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر 10 ذوالحجہ کے طلوع صبح صادق سے بارہویں کے غروب آفتاب تک) میں جانور قربان کرنا واجب ہے۔ قربانی کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ادا نہیں ہوتا، اس دن کا صدقہ یہ ہے کہ جانور ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کے طور پر دیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی الله علیه وسلم: مَا أُنْفَقَتِ الْوَرِقُ فِی شَیْءٍ أَفْضَلَ مِنْ نَحِیرَۃٍ فِی یَوْمِ عِیدٍ.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 4: 83، رقم:1493)
کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَی اللَّہِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ.
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔
(ترمذی، السنن، 4: 83، رقم: 1493)
جس شخص کے ذمہ قربانی واجب تھی کسی وجہ سے ایام النحر میں اس نے قربانی نہیں کی تو اس کے بعد قربانی کی نیت سے جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس شخص کو توبہ و اِستغفار کرنی چاہئے اور قربانی کے جانور کی مالیت کے برابر صدقہ خیرات کر دینا چاہیے۔