منہاج القرآن انٹرنیشنل کی سپریم کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے 9 جولائی 2020ء کو منہاج یوتھ لیگ کے زیر اہتمام منعقدہ تربیتی سیشن کے اختتامی اجلاس میں ’’قرآن و سنت کے تناظر میں سوشل میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق ‘‘کے موضوع پر اہم گفتگو کی۔ یہ گفتگو تحریک منہاج القرآن، عوامی تحریک کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کے ساتھ ساتھ ہر اس فرد کے لئے ہے جو کسی نہ کسی شکل میں سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ چیئرمین سپریم کونسل نے بڑی تفصیل کے ساتھ سوشل میڈیا کی اخلاقیات پر گفتگو کی ہے، اس گفتگو کا ہر حصہ اخلاقی تربیت کا آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے اہم موضوع پر کانفرنس کے انعقاد پر مظہر محمود علوی، محمد عمر قریشی (سوشل میڈیا ہیڈ منہاج یوتھ لیگ )، رائے ساجد حسین کوآرڈینیٹر، حافظ آصف جوئیہ ڈپٹی کوآرڈینیٹر، محسن شہزاد مرکزی سوشل میڈیا سیکرٹری، عمران بلوچ، ثنان گجر، جاسم مغل، قاسم مصطفوی، سید محسن رضا نقوی سمیت تمام منتظمین کو مبارکباد دی۔
چیئرمین سپریم کونسل نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ بلاشبہ کورونا وائرس کی وباء کے دوران منہاج یوتھ لیگ نے مختلف موضوعات پر آن لائن ٹریننگ ورکشاپ منعقد کر کے وقت کا بہترین استعمال کیا اور اپنے قائد شیخ الاسلام کی تربیت اور ہدایات پر عمل کر کے تحریک کے قابلِ فخر فرزند ہونے کا ثبوت دیا، میں ایک اہم اور ناگزیر موضوع پر تربیتی سیشن کا اہتمام کرنے پر یوتھ لیگ کی پوری قیادت اور سوشل میڈیا ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں۔چیئرمین سپریم کونسل نے اپنے صدارتی خطاب میں درج ذیل پہلوؤں پر گفتگو فرمائی:
سوشل میڈیا رواں صدی کا برق رفتار ذریعہ ابلاغ
سوشل میڈیا رواں صدی کا ایک جدید اور برق رفتار ذریعہ ابلاغ ہے، جماعتیں، تحریکیں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے آج کل سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہی ہیں، سوشل میڈیا نے آج ہر شخص کو ایک ہی وقت میں صحافی، اینکر، کالم نویس، اینکر پرسن، مبلغ اور ناصح بنا دیا ہے، یہ میڈیم جتنا موثر اور مفید ہے بغیر بنیادی معلومات کے اس کا استعمال اتنا ہی خطرناک ہے۔
جس سوچ اور نیت کے ساتھ جس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا اس کے ویسے ہی اثرات اور ثمرات ظاہر ہوں گے، مختلف دھاتوں سے جان لیوا ہتھیار بھی بنتے ہیں اور جان بچانے والے اوزار بھی بنتے ہیں، کمپیوٹر کے دروازے سے آپ علم کی دنیا میں بھی داخل ہو سکتے ہیں اور جرم کی دنیا میں بھی۔ ٹیکنالوجی کے استعمال کے پیچھے جو سوچ، خواہش، تربیت اور عزم ہوتا ہے اسی کے اثرات اور نتائج ہوتے ہیں۔
تین اہم بنیادی اصول
سوشل میڈیا ہو یا کوئی بھی ٹیکنالوجی، اس کے استعمال کے لئے کیلئے تین چیزیں اہم ہیں:
- تربیت و تکنیکی مہارت
- ٹھوس معلومات
- اخلاقیات
اگر آپ کسی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت سے ناواقف ہیں تو اس کا نقصان یقینی ہے۔ مثال کے طور پر جدید ہتھیار جو فوج ملکوں ا رقوموں کے دفاع کے لئے استعمال کرتی ہے تو استعمال کرنے والے اس کی مناسب تربیت حاصل کرتے ہیں اور انہیں سکھایا جاتا ہے کہ یہ ہتھیار دشمن پر کیسے استعمال کرنا ہے۔ اگر تربیت اور مہارت کے بغیر وہ ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اپنے قرب و جوار میں موجود لوگوں کے لئے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ اسلحہ کا بغیر تربیت کے استعمال کرنے والے بسا اوقات اپنے ہی لوگوں کی جان لے بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح تکنیکی مہارت اور ٹھوس معلومات کے بغیر ٹیکنالوجی کا استعمال مضر رساں ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال میں اخلاقیات بہت اہم ہے، جیسے میں نے ابھی ایک مثال دی کہ اسلحہ کی تربیت کے بغیر اس کا استعمال جان لیوا ہے، اسی طرح ایک سپاہی کو یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ یہ ہتھیار کب اور کس کے خلاف استعمال کرنا ہے اورکن ناگزیر حالات میں اس کا استعمال بروئے کار لانا ہے۔
ایک کارکن کی بنیادی ذمہ داری
سوشل میڈیا کے ذریعے فی زمانہ سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی، نظریاتی، فکری جنگیں لڑی جارہی ہیں، سوشل میڈیا کا میدان ایک جنگ کا میدان بن چکا ہے، ہر آدمی اپنے اسلحے اور اپنے مقصد سمیت اس میدان جنگ کا حصہ ہے۔ جب کوئی شخص کسی تنظیم یا تحریک کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر متحرک ہوتے ہوئے اس کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ عہدیدار ہوتے ہوئے وہ ذاتی حیثیت میں اظہار خیال نہیں کررہا ہوتا، وہ اپنی جماعت کا یااپنی تحریک کا یا اپنے ادارے کا نمائندہ اور ترجمان ہوتا ہے۔ اس ترجمان کے ذاتی کردار سے اس کی جماعت اور اس کے ویژن کے بارے میں لوگ رائے قائم کرتے ہیں، جیسے ایک مقبول عام محاورہ ہے کہ دیگ کے ایک چاول کے دانے سے پوری دیگ کی کوالٹی کا اندازہ ہو جاتا ہے، اسی طرح کسی بھی جماعت کے ایک ذمہ دار کارکن سے اس کی پوری جماعت کے نظریاتی، فکری خدوخال کے بارے میں بھی لوگ اندازہ کرلیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مخرب الاخلاق رویے
آج ہم سوشل میڈیا پر مختلف جماعتوں، تحریکوں، اداروں کے لوگوں کو اظہار خیال کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز ہمیں نظر نہیں آتی۔ گالی کی زبان استعمال کی جاتی ہے، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں، مخالفین کا تمسخر اڑایا جاتا ہے، تہمتیں لگائی جاتی ہیں، اپنی معلومات اور الفاظ کا استعمال دوسروں کی تذلیل کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے، تفرقے، تشدد، منافرت کے جذبات ابھارے جاتے ہیں، تقسیم اور انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے جدید ٹولز کو فساد فی الارض کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، لوگوں کی ذاتی زندگی کو برباد کیا جاتاہے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی عام ہے۔ میں مختصر الفاظ میں کہوں گا کہ ایک مسلمان تو کیا ایک عام انسان کا بھی یہ اخلاق نہیں ہو سکتا۔
تحریک کے کارکن کے اخلاقی رویے
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی پانچ دہائیوں پر مشتمل علمی، تربیتی جدوجہد نوجوانوں کے اخلاق سنوارنے کی جدوجہد ہے۔ شیخ الاسلام نے اپنے کارکنان کو اپنی نجی زندگیوں میں بھی پاکیزگی اور طہارت اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے، سوشل میڈیا پر کسی کی پگڑی اچھالنے یا اپنی بات غیر مہذب انداز سے کرنے کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے۔ الحمدللہ منہاج القرآن کے لوگ جس طرح ہر شعبے اور ہر معاملے میں دوسروں سے منفرد نظر آتے ہیں، اسی طرح منہاج القرآن کے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی دیگر جماعتوں کے ایکٹیوسٹ سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ناکردہ گناہوں کی پاداش میں جیلوں میں بند کیے جانے والے ہمارے اسیران بھی جیلوں میں گوشہ درود قائم کر کے درود و سلام کی خوشبوئیں عام کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنی ایک انفرادیت کااظہار کرتے ہیں۔
منہاج القرآن کی فکر آبِ رواں ہے
میری نظر سے مختلف تجزیہ نگاروں کے یہ پیغامات گزرتے رہتے ہیں کہ جس میں منہاج القرآن کے میڈیا ایکٹیوسٹ کے اخلاقی رویوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ منہاج القرآن کا میڈیا ایکٹیویسٹ کبھی کسی کی پگڑی نہیں اچھالتا، اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال نہیں کرتا کیونکہ ان کے شیخ نے ان کی ایسی تربیت کی ہی نہیں۔ منہاج القرآن کی فکر ایک بہتا پانی ہے، آبِ رواں ہے۔ بہتے ہوئے پانی میں کبھی تعفن پیدا نہیں ہوتا، تعفن ٹھہرے ہوئے پانی میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ قیامت تک کیلئے ایک تجدیدی و اصلاحی تحریک ہے، اس میں لوگ آتے رہیں گے اور اپنے اپنے حصے کی خدمت انجام دیتے رہیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اخلاقی تربیت کا سلسلہ جاری و ساری رہے اور نئے آنے والوں کو رہنمائی ملتی رہی، سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
اصلاح کی آڑ میں تنقید اور تضحیک
یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے جس پر آج کی اس ورکشاپ اور سیشن میں شامل تمام ممبران کو پوری توجہ سے سماعت کرنی ہے، جس کا تعلق ڈسپلن اور نظم و ضبط سے ہے۔ بعض لوگ جو تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں اور بسااوقات اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث وہ براہ راست ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں یا باوجوہ ذمہ داریاں جاری نہیں رکھ پاتے اور پھر تحریک کے حوالے سے اصلاح کے نام پر کھلے عام اظہار خیال کرتے اور تجاویز دیتے نظر آتے ہیں، اس اظہار خیال میں بعض اوقات وہ تنقید اور پھر تضحیک کے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں اور عام کارکنان کیلئے ان کی اصلاح کے نام پر کی جانے والی تنقید فکری انتشار اور کمزوری کا باعث بنتی ہے۔
مشاورت کا مطلب ہے کہ مسئلہ اس ذمہ دار کے ساتھ بند کمرے میں زیر بحث لایا جائے جس سے وہ متعلق ہے۔ غیر متعلقہ شخص کے ساتھ گفتگو کا مطلب سوائے انتشار پھیلانے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ تجاویز کا تعلق بھی متعلقہ فورم سے ہے۔ اگر ایک فورم کی بہتری کیلئے سوشل میڈیا پر گفتگو کی جائے گی تو یہ تعمیر نہیں، تخریب ہے، اس سے خود بھی بچنا ہے اور ناسمجھی میں اس پریکٹس کا حصہ بننے والے کارکنان کو بھی سمجھانا اور بچانا ہے۔ ہرحال میں امیر کی اطاعت کو یقینی بنائیں۔ جیسے میں نے کہا کہ یہ تحریک آبِ رواں ہے، آج آپ ہیں، کل کوئی اور ہو گا، اپنی اپنی توفیقات کے مطابق سب نے حصہ ڈالنا ہے لیکن ایسا رویہ اختیار نہ کریں کہ کل کو آپ کو بھی ایسے ہی رویے کا سامنا کرنا پڑے اور پھر آپ اس کو پسند نہ کریں۔
تصدیق کے بغیر تشہیر سے گریز
چونکہ آج کا یہ سیشن سوشل میڈیا سے متعلق ہے تو میں اس بارے میں آپ سے کہوں گا کہ سوشل میڈیا پر کوئی بھی خبر لے جانے سے پہلے اس بات کی تصدیق کر لیں کہ آیا مرکز کے سوشل میڈیا کی طرف سے وہ معلومات جاری کی گئی ہیں یا نہیں؟ اگر کسی خبر کے متعلق آپ کے پاس براہ راست تحریری معلومات نہیں پہنچیں تو آپ مرکز کے آفیشل سوشل میڈیا پیجز کو وزٹ کریں، منہاج القرآن انٹرنیشنل کا پیج وزٹ کریں، شیخ الاسلام کا پیج وزٹ کریں، اسی طرح مرکزی عہدیداروں کے پیج وزٹ کریں اگر وہ معلومات ان پیجز پر نہیںہیں تو پھر ان غیر تصدیق شدہ خبروں کو آگے مت پہنچائیں جو آپ کو کسی نے کان میں کہی ہیں۔ کانوں میں کہی ہوتی باتوں کو پبلک کرنے سے بچنا ہے کیونکہ ایسی خبروں میں اکثر شر اور فساد ہوتا ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس کی تربیت
میں چاہتا ہوں کہ تمام فورمز اپنے اپنے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کی ٹریننگ کریں، یہ دور ڈیجیٹل میڈیا کا دورہے۔ شیخ الاسلام نے ہمیشہ تحریک کے پیغام کے فروغ کے لئے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا ہے، تحریک منہاج القرآن نے اس وقت کمپیوٹر کا استعمال شروع کر دیا تھا جب بڑے بڑے سرکاری دفاتر میں ٹائپ رائٹر استعمال کیا جاتا تھا۔ منہاج القرآن کی ویب سائٹس بھی سب سے پہلے بنیں، ہمیں آئندہ بھی اپنے آپ کو جدید ڈیوائسز اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ رکھنا ہے۔ اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک کو مضبوط بنائیں اور تحریک اور قائد تحریک کی فکر کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہر آنکھ اور ہر گھر کے اندر پہنچانا ہے۔ جو بھی جدید ٹولز مستعمل ہیں اور آگے جا کر ایجادات ہو سکتی ہیں ان پر بھی پوری نظر رکھنی ہے۔ دعوت اور مشن کے فروغ کیلئے کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑنا۔
منہاج القرآن کی فکر کا مرکز و محور: قرآن
تحریک منہاج القرآن کی فکر کا مرکز و محور اللہ کی پاک کتاب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔ ہمارا ہر عمل، ہر اقدام قرآن اور سنت مطہرہ کے تابع ہے۔ ہم اپنی فکری رہنمائی قرآن مجید سے لیتے ہیں۔ آئیے سوشل میڈیا کی بنیادی اخلاقیات بھی ہم قرآن مجید سے لیتے ہیں کہ قرآن کے نزدیک ایک مومن کا اخلاق کیسا ہونا چاہیے، اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے جگہ جگہ ارشادات فرمائے ہیں اور اس حوالے سے سورۃ الحجرات میں شرح و بسط کے ساتھ ایک مسلمان کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں، یہی اوصاف ایک سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ کا کوڈ آف کنڈکٹ بھی ہیں۔ آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اخلاقیات سے کیا مراد ہے اور قرآن و سنت میں اخلاقی رویوں کو کس انداز میں زیر بحث لایا گیا ہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بندہ مومن سے اظہار بیان اور دیگر معاملات زندگی میں کس نوع کے اخلاقی رویوں کا تقاضا کرتے ہیں۔
بغیر تحقیق کے خبر مت پھیلاؤ
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ
’’اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کیے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔‘‘
(الحجرات، 49: 6)
آج کل بغیر تحقیق کے الزام تراشی کی جاتی ہے، تہمتیں لگائی جاتی ہیں اور اسے آزادیٔ اظہار کا حق سمجھا جاتا ہے، اخبارات، ٹیلی ویژن اور بالخصوص سوشل میڈیا پر کسی کی شخصیت پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور اگر کوئی ردعمل دے تو کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے موقف دے دیں، جو میری رائے تھی میں نے اسے بیان کرنے کے حوالے سے اپنا حق استعمال کیا۔ یہ ہر گز آزادی اظہار کا حق نہیں ہے۔ قرآن نے ایک اصول دے دیا کہ جب کوئی شخص جس کے قول و فعل میں تضاد ہے اور سچ بولنے کے حوالے سے اس کی شہرت بھی اچھی نہیں ہے، اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ قرآن کے اس اصول کو سختی سے پکڑ لیں، سنی سنائی باتوں کو آنکھیں بند کرکے شیئر مت کریں۔ کوئی شخص اگر گمراہ ہوتا ہے یا اس غیر مصدقہ معلومات کے تناظر میں کوئی غیر قانونی، غیر اخلاقی یا غیر شرعی حرکت کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار اس جھوٹی خبر کو پھیلانے والا بھی ہو گا۔ سورۃ الحجرات میں اللہ نے یہ بھی فرمایا ’’(ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق )تکلیف پہنچا بیٹھو‘‘ یعنی لاعلمی میں بھی کسی کو تکلیف دینا قرآن اور شرعی تناظر میں گناہ ہے۔ قرآن نے اس سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔ قرآن مجید میں یہ بھی فرمایا گیا کہ غیر تصدیق شدہ خبر کے بعد اگر کسی کو نقصان پہنچے گا تو اس سے آپ بھی شرمندہ ہوں گے تو اس شرمندگی سے بھی بچو چونکہ مومن کی ایک پہچان قول سدید ہے یعنی مومن جب بھی بات کرتا ہے تو پختہ بات کرتا ہے اس کی بات میں ’’اگر‘‘، ’’مگر‘‘ یا جھول نہیں ہوتا۔ یہ ’’اگر‘‘، ’’مگر‘‘ اس وقت ہی انسان کی زبان سے نکلتا ہے جب اس کی تحقیق کی جاتی ہے۔ تحقیق سے انسان کو اعتماد اور سچ بولنے کی طاقت ملتی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو سفیان ؓ نے بتایا:
’’ہرقل نے ان سے کہاکہ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ وہ(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں کن باتوں کا حکم دیتا ہے۔ اس سوال پر انہوں نے بتایا کہ وہ نماز، سچ بولنے، پاک دامن رہنے، وعدہ پورا کرنے اور امانت ادا کرنے کا حکم فرماتا ہے۔اس نے کہاکہ نبی کی صفت یہی ہوتی ہے‘‘۔
یہاں ہمیں ایک مسلمان کے باکردار ہونے کی پانچ اہم خصوصیات ملتی ہیں:
- نمازی
- سچا
- پاک دامن
- امانت دار
- وعدے کا پکا
یہ خصوصیات انبیاء و صالحین کی ہیں۔ہمیں اپنے معاملات زندگی میں ان پانچ خصوصیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔جب مسلمان کی سچ بولنے کی عادت پختہ ہو جائے تو اس کی زندگی ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہو جاتی ہے۔ایک اور حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ’’سچ کو اپنے اوپر لازم کر لو، بے شک سچائی آدمی کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بھلائی جنت کی طرف لے جاتی ہے‘۔‘ حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ تم مجھے 6 چیزوں کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں:
- جب تم گفتگو کرو توسچ بولو
- جب وعدہ کرو تو پورا کرو
- جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اسے ادا کرو
- اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو
- اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھو
- اپنے ہاتھوں کو برائی اور ظلم کی طرف بڑھنے سے روکو‘‘
یہ 6 اصول آج کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی زندگی کا جزو لاینفک ہونے چاہئیں۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’کسی شخص کی نماز اور اسکے روزوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ اس کی طرف دیکھو جو بولے تو سچ بولے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اسے ادا کرے۔سورۃ الحجرات کو باربار پڑھا جائے اسکے اندر ایک کامیاب زندگی کے سارے اصول موجود ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر جو برائیاں عام ہیں اس کی سورۃ الحجرات میں نشاندہی بھی کی گئی ہے اور ان سے بچنے کا حکم بھی دیا گیا ہے یعنی ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاؤ، طعنہ زنی مت کرو، ایک دوسرے کے برے نام مت رکھو، بدگمانی سے بچو، عیب جوئی نہ کرو، غیبت نہ کرو، عقل و حکمت کا دامن کبھی نہ چھوڑو، تکبر سے بچو، نیکی پھیلاؤ برائی کو روکو۔
سوشل میڈی ایکٹوسٹ ان تمام نصیحتوں کو پلے باندھ لیں اور روایتی میڈیا مہمات سے دور رہیں۔ منہاج القرآن کا کارکن اپنے مزاج، کردار اور عادتوں و اطوار میں باقی تمام جماعتوں اور تحریکوں سے مختلف ہے۔ تشہیر ہماری ضرورت نہیں ہے، جہاں غیر ضروری تشہیر ہوگی وہاں تقصیر ہوگی۔ ہمارے قائد شیخ الاسلام نے زندگی بھر اخلاق سنوارنے پر محنت کی ہے، حالات جیسے بھی ہوں دینی و اخلاقی اقدار کو کبھی خود سے الگ نہیں ہونے دینا اور سوشل میڈیا پر انٹرایکٹ کرتے وقت اخلاقی اقدار کو ہمیشہ پیش نظررکھنا ہے۔ گالی کا جواب گالی سے دینا ہماری تربیت ہے اور نہ ضرورت۔ حق بات کو کرنے کے لئے طنز اور تحقیر کا لہجہ اختیار کرنا ضروری نہیں ہے۔ شیخ الاسلام بارہا متنازعہ علمی امور پر گھنٹوں خطابات کر چکے، ان کے پورے خطاب میں کبھی کسی مخالف کا تذکرہ تک نہیں آیا، وہ صرف حق بیان کرتے ہیں، حق بیان کرنا اور دوسروں کی تحقیر کرنا دو جدا جدا عمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنی میں دین مبین کی خدمت بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم