ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
سہ روزہ دورۂ علوم الحدیث کی نشست دوم کے آغاز میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عربی زبان میں اپنی زیرِ ترتیب کتاب ’’السنۃ النبویہ (حجیتھا و مکانتھا‘‘ میں موجود سنتِ نبوی اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حجیتِ قطعیہ پر دلالت کرنے والی 150 آیات و احادیث میں سے برکت کے لیے چند آیات کریمہ کی تلاوت کرنے کے بعد حدیثِ صحیح کے مراتب کے حوالے سے گفتگو کی۔
حدیثِ صحیح کے مراتب پر ایک نیا زاویۂ نظر
حدیث صحیح کے مراتب کے حوالے سے شیخ الاسلام نے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
حدیث صحیح کے درج ذیل مراتب سے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی سند یا حدیث صحیح بقیہ اسانید یا احادیث صحیحہ سے اصح ہے:
- صحیح أخرجہ البخاري و مسلم
- صحیح انفرد بہ البخاری، أی عن مسلم
- صحیح انفرد بہ مسلم، أی عن البخاري
- صحیح علی شرطھما لم یُخرجاہ
- صحیح علی شرط البخاری لم یخرجہ
- صحیح علی شرط مسلم لم یخرجہ
- صحیح عند غیرھما ولیس علی شرط واحد منھما
(ابن الصلاح، المقدمۃ، ص: 27۔28)
حدیث صحیح کے ان مراتب کے حوالے سے میری ایک رائے ہے جو میں نے اکابر، ائمہ، علمائ، نقاد اور جہابذہ کی عبارات اور تصریحات سے اخذ کی ہے کہ سات درجات میں تقسیم سے عام طور پر جو مراد لے لیا گیا ہے، وہ درست نہیں ہے۔ تقسیم کے اندر اصلاً اعتراض نہیں ہے مگر اُس تقسیم کا جو معنیٰ و مفہوم اور مراد بالعموم اہلِ علم نے لیا ہے، وہ قابلِ توجہ، قابلِ غور اور قابلِ نظر ہے۔
کتبِ حدیث میں عام طور پر یہ مذکورہ تقسیم معروف ہے اور یہ ساتوں کے ساتوں درجات حدیثِ صحیح کے ہیں۔ گذشتہ نشست کے آخری حصہ میں اس بات کی میں نے وضاحت کردی تھی کہ جمہور عُلمائے حدیث اور جمہور ائمہ کے ہاں ان سات درجات پر اجماع ہونا اس بات کی واضح اور قطعی دلیل ہے کہ اُمت کے تمام ائمہِ علم کا یہ اتفاق تھا کہ حدیثِ صحیح صرف بخاری و مسلم میں محصور نہیں ہے، ورنہ سات درجات ہی مقرر نہ ہوتے۔ بات حدیث صحیح کے صرف تین مراتب پر ختم ہو جاتی کہ حدیثِ صحیح وہ ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہو یعنی متفق علیہ ہو، یا دوسرا درجۂ حدیثِ صحیح کا وہ ہے جو فقط منفرداً صحیح بخاری میں ہو اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ صرف صحیح مسلم میں ہو۔ اس طرح صرف تین مراتب ہوتے، بقیہ چار مراتب کا بالکل انکار ہو جاتا اور اُن کے لکھنے کی حاجت ہی نہ ہوتی۔
سو پتہ یہ چلا کہ اہلِ علم کا اس پر اجماع ہے کہ صحیح حدیث ’’صحیح بخاری‘‘ اور ’’صحیح مسلم‘‘ کے علاوہ بھی ہے۔ اجماع کا لفظ اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ کسی نے اس امر پر اختلاف نہیں کیا۔ لہذا اس بات پر مضبوطی سے قائم ہونا اور تمکن و اعتماد ہونا چاہیے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ میں تو فلاں حدیث کو تب مانتا ہوں اگر وہ صرف بخاری میں پائی جائے۔ یا یہ کہنا کہ صرف صحیحین میں دکھائیں، ورنہ نہیں مانتا۔ یہ کہنا جہالت کی بات اور بارہ تیرہ سو سال کے دینی علم کا انکار کرنا ہے۔ لہٰذا اس بات پر گرفت اور مواخذہ ہونا چاہیے۔ اگر کوئی یہ جملہ بولے تو اہلِ علم اس پر گرفت کریں اور بات کرنے والے سے پوچھیں کہ یہ بات جو آپ کہہ رہے ہیں کیا تیرہ سو سال میں کسی نے کہی ہے؟ کیا خود امام بخاری اور امام مسلم نے کہی ہے؟ لازمی بات ہے کہ اس کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے اور سوال کرنے والے کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا۔
تقسیم سبعی کا بانی کون؟
علماء اور اہلِ علم کی متداول کتب کے مطالعہ کے بعد عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ موجود حدیثِ صحیح کے مراتب کی یہ تقسیم سب سے پہلے امام ابن الصلاح نے کی ہے۔ یہ تصور غلط ہے۔ میرا خیال ہے کہ امام ابن الصلاح اس تقسیم کے بانی نہیں ہیں۔ امام ابن الصلاح نے تقسیمِ سبعی کا یہ تصور امام ابو حفص عمر بن عبد المجید المیانشی المغربی التونسی ثم المکی (وفات 581 ہجری) سے اخذ کیا ہے۔ امام ابن الصلاح کی وفات 643 ہجری میں ہے جبکہ امام میانشی کی وفات 581ھ میں ہے۔ امام میانشی نے ’’مَا لَا یَسَعُ الْمُحَدِّثَ جَھْلُہٗ‘‘ کے عنوان سے جو رسالہ لکھا، اس میں اس تقسیم کو سب سے پہلے انہوں نے ذکر کیا۔ پھر زیادہ تصریح اور تفصیل کے ساتھ اس تقسیم کو اما م ابن الصلاح نے بیان کیا۔
امام میانشی کی وہ عبارت جو اس تقسیم کی بنیاد بنی وہ اس طرح ہے:
الصحیح من أحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیٰ مراتب:
حدیث صحیح کے درج ذیل درجات ہیں:
1۔ أصحھا و أعلاها: ما اتفق علیٰ تخریجه الشیخان البخاری ومسلم رضي الله عنهما وصحیحهما.
سب سے اصح اور اعلیٰ درجہ وہ ہے جس پر شیخین امام بخاری و مسلم کا اتفاق ہو اور دونوں نے اپنی صحیحین میں اس کی تخریج کی ہو۔
حافظ ابن الصلاح نے سات مراتب کی جو تقسیم کی ہے، وہاں انہوں نے امام میانشی کی اسی عبارت سے اخذ کرتے ہوئے من و عن اسی طرح اس کو بیان کیا۔
2۔ دوسرا مرتبہ بیان کرتے ہوئے امام میانشی نے فرمایا:
ویتلوه کل ما انفرد به کلُّ واحد منھما.
دوسرا درجہ وہ ہے جو صرف بخاری میں آئے یا صرف مسلم میں آئے، اس درجہ میں انہوں نے بخاری و مسلم کی تفریق نہیں کی بلکہ فرمایا: کل واحد منھما انہوں نے دونوں کو ایک ہی درجے میں رکھا۔ جبکہ امام ابن الصلاح نے اس ایک قسم کو پھر دو مراتب القسم الثانی اور القسم الثالث میں تقسیم کردیا کہ دوسرا درجہ وہ ہے جس کی صرف بخاری نے تخریج کی ہو اور تیسرا درجہ وہ ہے جو صرف مسلم میں منفرداً آئے۔
3۔ حدیث صحیح کے تیسرے درجے کو بیان کرتے ہوئے امام میانشی فرماتے ہیں:
ویتلوه ما کان علیٰ شرطھما وإن لم یخرجاه فی صحیحھما.
تیسرا درجہ یہ ہے کہ جو دونوں (بخاری و مسلم) کی شرط پر ہو یا دونوں میں سے کسی ایک کی شرط پر ہو مگر اسے انہوں نے اپنی صحیح میں بیان نہ کیا ہو۔
اس درجہ کو ابن الصلاح نے تین مراتب میں تقسیم کر دیا:
اوّلًا: جو بخاری اور مسلم دونوں کی شرط پر ہو۔
ثانیاً: جو صرف بخاری کی شرط پر ہو
ثالثاً: جو صرف مسلم کی شرط پر ہو۔
4۔ امام میانشی نے حدیث صحیح کا چوتھا مرتبہ یہ بیان فرمایا:
ثم دون ذٰلک فی الصحۃ وما کان إسنادہ حسنا.
(میانشی، ما لا یسع المحدث جهله، ص: 10۔11)
مذکورہ درجات کے بعد اس حدیث کا درجہ ہے جس کی سند حسن ہے، وہ بھی مراتبِ صحیح میں شامل ہے۔
متقدمین میں سے بہت سے ائمہ کا یہ مشرب، مسلک اور طریق تھا کہ وہ حسن کو بھی صحاح کی اقسام میں شمار کر لیتے تھے۔ امام میانشی کے بیان کردہ ان چار مراتب سے حافظ ابن الصلاح نے سات مرتبے وضع کیے۔ اب ان سات مرتبوں سے نقاد، جہابذہ، محققین اور متمکنین کے سواء دیگر لوگوں نے یہ اخذ کر لیا کہ بیان کردہ ترتیبِ سبعی علی الاطلاق ہے، حجت اور قطعی ہے اور اس کا اطلاق ہر ہر حدیث پر ہو گا۔ یعنی متفق علیہ کے بعد بھی جو حدیث بخاری میں آئے گی، وہ مسلم سے اعلیٰ ہے اور جو منفرداً مسلم میں آئے وہ دیگر احادیثِ صحیحہ سے اعلیٰ ہے۔
آج تک بالعموم اس کا معنیٰ یہی مراد لیا جاتا ہے۔ اس پر میں نقد کر رہا ہوں کہ یہ مراد درست نہیں ہے۔ اصل مراد اور اس کے دلائل کی طرف آنے سے قبل واضح کر دوں کہ تقسیم ترجیح کی اصحیت میں متفق علیہ کا درجہ سب سے اُونچا ہے، اس پر کوئی نقد اور کوئی اختلاف و کلام نہیں، سو اس کو الگ کر دیں۔ باقی چھ مراتب رہ گئے، ان چھ مراتب کے عام مفہوم پر نقد یہ ہے کہ ان چھ مراتب کا ہر ہر فردِ حدیث پر اطلاق نہیں ہوتا۔ جملۃً درست ہے۔ اگر میں اُس کو اصطلاح کے طور پر بیان کروں تو یوں کہا جائے گا کہ
الترتیب السبعی فی الاصحیہ بالاغلبیۃ وبالاکثریۃ.
حدیث صحیح کے مراتب سبعی کی ترتیب کا اطلاق اغلب اور اکثر احادیث پر ہوتا ہے، فرداً فرداً ہر حدیث پر نہیں ہوتا۔
یعنی بخاری کی اکثر احادیث ترتیب میں مسلم پر فائق ہوں گی اور مسلم کی اکثر احادیث یا من جملہ کا درجہ ترتیب میں بخاری کے بعد لیا جائے گا۔ درجے میں بخاری کو مسلم پر ترجیح دی جائے گی (علماء و محدثین مغاربہ (مغرب کے علمائ) صحیح مسلم کو درجہ میں صحیح بخاری سے اُوپر رکھتے ہیں اور صحیح بخاری کو صحیح مسلم کے بعد جبکہ جمہور علماء کا اکثریتی اجماع اس پر ہے کہ صحیح بخاری پہلے اور صحیح مسلم بعد میں ہے۔) بخاری کی مسلم پر ترجیح یا رُجحان البخاری علی مسلم اکثر احادیث پر ہے۔ یعنی اغلب احادیث کا معیار اس طرح ہے مگر یہ قاعدہ، کلیہ نہیں کہ صحیح مسلم کی ہر حدیث، بخاری میں روایت کی ہوئی حدیث سے ادنیٰ ہوگی، ایسا نہیں ہے۔ ہر حدیث جس کی بخاری میں تخریج ہوئی، وہ مسلم کے اندر تخریج ہونے والی منفرد حدیث سے اعلیٰ ہوگی، یہ اطلاق ہر ہر حدیث پر نہیں ہو گا۔ یہ اُصول، قاعدہ اور کلیہ فرداً فرداً نہیں ہے، یہ من جملہ ہے۔
غالب اور اکثر احادیث اس طرح ہیں، اس لیے کتاب کا درجہ اس طرح ہے کہ بخاری کو مسلم پر ترجیح دی جاتی ہے مگر کتاب کے اندر درج ہونے والی ہر ہر حدیث کی اپنی ترجیح، اپنی قوت، اپنی اصحیت اور اپنا مرتبہ ہے اور اُس کا انحصار اُس کی سند پر ہو گا۔ چونکہ دونوں صحیح ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کی صحت پر عالمِ اسلام میں کسی کو انکار نہیں، اس پر امت کا اجماع ہے تو جب اجماعِ امت کے ساتھ بخاری و مسلم کی روایات دونوں صحیح ہیں اور دونوں شرائطِ صحت کو پورا کرتی ہیں تو کیا وجہ ہے کہ علی الاطلاق بخاری کی سند کی حدیث کو مسلم پر اعلیٰ مانا جائے اور مسلم کی حدیث کو علی الاطلاق بخاری کی سند سے ادنیٰ مانا جائے۔ جبکہ قاعدہ یہ ہے کہ حکم متن پر یا کتاب پر نہیں ہوگا بلکہ حکم سند پر ہوگا۔ صحیح ہونے یا اصح ہونے کے لیے اُصولِ حدیث میں یہ قاعدہ نہیں ہے کہ فلاں حدیث چونکہ فلاں کتاب میں ہے، اس لیے اصح ہے اور فلاں حدیث چونکہ فلاں میں نہیں ہے، اس لیے صحیح نہیں ہے۔ اصحیت کا مدار کتاب پر نہیں، نہ صاحبِ کتاب پر ہے بلکہ اصحیت، ضعف اور صحت کا مدار سند کی قوت اور اُس کی حیثیت پر ہے۔ اگر مسلم کی کسی روایت کی سند بخاری کی سند سے منفرد، قوی اور اعلیٰ ہوگی تو اس کا درجہ بخاری سے اُونچا ہو گا۔ لہٰذا فرداً فرداً الگ حکم ہوگا۔
حدیث صحیح کے مراتب کے حوالے سے اس نئے نقطہ نظر کے خلاصہ کے بیان کے بعد آیئے اب اس کی تفصیل اور دلائل کا مطالعہ کرتے ہیں:
1۔ پہلی دلیل: حدیثِ صحیح کے پہلے مرتبے پر کوئی کلام نہیں، جو حدیث بخاری اور مسلم دونوں میں آگئی وہ تو بلا اختلاف یا بلا نقد و نظر سب سے اعلیٰ ہے۔ حدیث صحیح کے باقی مراتب کی بات کریں تو یاد رکھ لیں کہ اگر اس اُصول کا فرداً فرداً کوئی اطلاق کرنا چاہے تو یہ اُصول اور قاعدہ غیر مسلّم ہے۔ مثلاً: اگر بخاری اور مسلم میں آنے والی دو احادیث میں تعارض آ جاتا ہے تو محض اس وجہ سے بخاری کو لے لیں اور مسلم کو چھوڑ دیں کہ چونکہ وہ بخاری میں ہے تو ایسا کوئی قاعدہ و کلیہ اُصولِ حدیث میں نہیں ہے۔
اس کے لیے ایک بڑی قوی دلیل اور جامع بات شہادت کے طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ سیدنا ابو ہریرہؓ کی 142 احادیث اُن کے شاگرد ہمام بن منبہؓ نے اپنے صحیفہ میں روایت کیں۔ (صحیفہ ہمام بن منبہ کے بعض نسخوں میں 142 احادیث اور بعض میں 139 احادیث ہیں۔) اس صحیفہ ہمام بن منبہ میں سے بخاری اور مسلم دونوں نے اتفاق کے ساتھ 23 احادیث روایت کی ہیں۔ بخاری و مسلم دونوں میں آنے والی ان 23 احادیث کی سند ایک ہی ہے اور وہ ہے:
عبدالرزاق عن معمر عن همام عن أبی هریره.
صاحبِ مصنف امام عبد الرزاق، امام بخاری اور امام مسلم دونوں کے شیخ ہیں۔ امام بخاری اور امام مسلم دونوں نے 142 احادیث میں سے 23 احادیث بالاتفاق تخریج کیں۔ ان 23 کے علاوہ امام بخاری منفرداً مزید اسی صحیفہ ہمام بن منبہ سے 16 احادیث اور لی ہیں جو امام مسلم نے نہیں لیں۔ مگر یہ منفرد احادیث جو امام بخاری نے روایت کیں، وہ بھی اسی سند عبدالرزاق عن معمر عن ہمام عن ابی ہریرۃ کے ساتھ ہیں۔
دوسری طرف امام مسلم نے بھی متفق علیہ احادیث کے علاوہ ہمام بن منبہ سے 58 احادیث منفرداً مزید روایت کی ہیں اور وہ بھی اسی سند عن عبد الرزاق عن معمر عن ہمام عن ابی ھریرۃ کے ساتھ ہیں۔ گویا متفق علیہ احادیث کے علاوہ بھی امام بخاری و امام مسلم نے صحیفہ ہمام بن منبہؓ سے ایک ہی سند کے ساتھ منفرداً احادیث بھی لی ہیں۔
منفرد بخاری کو منفرد مسلم پر ترجیح دینے کے دلائل
صحیفہ ہمام بن منبہ سے شیخین نے 23 احادیث اتفاق سے لیں، پھر 16 احادیث امام بخاری نے منفرداً لیں جو امام مسلم نے نہیں لیں اور امام مسلم نے 58 احادیث منفرداً لیں جو امام بخاری نے نہیں لیں۔ یہ تمام 97 احادیث بنتی ہیں اور تمام کی سند ایک ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر منفرد بخاری کو منفرد مسلم پر ترجیح دی جائے گی؟ ترجیح دینے کی اساس، دلیل اور اصل کیا ہو گی؟
سند ایک ہے، متفق علیہ میں بھی وہی سند ہے، امام بخاری نے منفرداً 16 احادیث بھی اسی سند سے لی ہیں جنہیں مسلم نے نہیں لیا اور امام مسلم نے 58 احادیث منفرداً بھی اسی سند کے ساتھ لی ہیں جنہیں امام بخاری نے نہیں لیا۔ اگر علی الاطلاق فرداً فرداً اس پر اصحیت اور ترجیح کے قاعدہ کا اطلاق کر دیا جائے تو اس باب میں ترجیح کی اساس اور بنیاد کیا ہوگی؟
ظاہر بات ہے کہ کوئی بنیاد نہیں بنتی۔ دونوں کے شیخ بھی ایک ہیں، ساری سند ایک ہے، ماخذ صحیفہ ہمام بن منبہ ہے، دونوں ائمہ اس سے منفرداً بھی لے رہے ہیں، متفقاً بھی لے رہے ہیں، ایک ہی سند کے ساتھ ایک امام لے رہے ہیں دوسرے نہیں لے رہے۔ جبکہ دوسری طرف دوسرے امام لے رہے ہیں، پہلے والے نہیں لے رہے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ کس بنیاد پر علی الاطلاق صحیح بخاری کی حدیث کو صحیح مسلم کی حدیث پر ترجیح دی جائے گی؟ جبکہ حدیث کی اصحیت اور صحت کا معیار سند پر ہوتا ہے۔
2۔ دوسری دلیل: حافظ ابن الصلاح کا یہ کہنا کہ امام بخاری جس میں منفرد ہوں، اس کا درجہ مسلم کی منفرد روایت اور حدیث سے اعلیٰ ہوگا۔ امام ابن الصلاح کا یہ بیان حکم نہیں بنتا کیونکہ حکم کے لیے اصل اور اساس چاہیے اور اس تفریق کی اصل اور اساس کوئی نہیں ہے۔ یہ حکم نہیں بلکہ تَحَکُّمْ ہے۔ علماء نے صادر کیا ہے۔ اس لئے میں نے کہا کہ صحیح حدیث کے مراتب پر نقد اور نظر کی ضرورت ہے۔
حدیث صحیح کا تیسرا درجہ بیان کرتے ہوئے ابن الصلاح کا یہ کہنا کہ حدیث صحیح کا تیسرا مرتبہ وہ حدیث ہے جس میں امام مسلم منفرد ہوں۔ امام ابن الصلاح کا یہ بیان بھی غیر مُسلّم ہے۔ جس طرح صحیح بخاری کو منفرداً تفوق دینا تَحَکُّمٌ ہے، اسی طرح صحیح مسلم کو منفرد بخاری سے ادنیٰ کرنا اور تیسرے درجے میں لانا یہ بھی تَحَکُّمٌ ہے۔ جب ہر ہر فرد پر اطلاق کریں گے تو یہ تَحَکُّمٌ کہلائے گا۔ ہاں جب من جملہ کتاب کی بات ہوگی تو ترجیح بخاری ہی کو حاصل ہے، اس کی تصریح میں نے کر دی ہے۔ اُسی سند سے ہی امام بخاری بھی لا رہے ہیں اور اسی سند سے امام مسلم بھی لارہے ہیں اور اس سند پر اتفاق بھی ہوچکا ہے اور اس پر دونوں منفرد بھی ہیں، لہٰذا تفریق کی کوئی وجہ نہیں کہ اُن کے مرتبے میں تفریق کی جائے۔
3۔تیسری دلیل: تیسری دلیل اس اصول پر قائم ہے کہ: مثلاً اگر وقد ینفرد مسلم بحدیث ولہ طرق کثیرۃ صحیحۃ.
امام مسلم کسی حدیث کی روایت میں منفرد ہوئے مگر ان کے پاس اس حدیث و روایت کے اُس سند کے علاوہ اسانید صحیحہ یا غیر صحیحہ کے اور طُرُقِ کثیرہ بھی ہیں۔ یعنی وہ حدیث دیگر طُرُق سے بھی آئی ہے اور امام مسلم کی روایت کو تعددِ طرق حاصل ہے لیکن جو حدیث امام بخاری نے روایت کی، اُس کے ساتھ متعدد طُرُق نہیں ہیں تو کیا اس صورت میں بھی ترجیح بخاری کو حاصل ہوگی؟ جبکہ قاعدہ تو یہ ہے کہ جب ایک منفرد طریق کے ساتھ متعدد طرق مل جائیں تو وہ سند اقویٰ اور اعلیٰ ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں بھی کیا صحیح مسلم کی حدیث صحیح بخاری سے ادنیٰ ہوگی؟ حالانکہ اُن کی سند کوتعددِ طرق کی قوت بھی حاصل ہے۔ کیا تعددِ طرق کی قوت کے باوجود بخاری کی سند اعلیٰ رہے گی اور مسلم کی ادنیٰ؟ اس کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔ لہذا ہر سند کو الگ سے دیکھا جائے گا۔ من جملہ کتاب صحیح بخاری، کتاب صحیح مسلم پر ارجح ہوگی لیکن جب فرد کی بات آئے گی، بین الحدیثین الصحیحین تعارض آ جائے گا، وہاں بخاری و مسلم ایک ہی مقام پر کھڑے ہوجائیں گے۔ وہاں صرف بخاری اس وجہ سے مسلم پر ترجیح نہیں پائے گی کہ وہ منفرداً بخاری ہے یا مسلم ترجیح نہیں پائے گی کہ وہ منفرداً مسلم ہے۔ وہاں مرتبہ ایک ہو جائے گا۔
4۔ چوتھی دلیل: بعض اوقات صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی کسی روایت کی سند کے اندر ایک راوی متکلم فیہ ہے یعنی اُس راوی پر کلام کیا گیا ہے اور بعض ائمہ نے جرح کے دوران اُس پر طعن کی ہے اور بعض نے اُس کی توثیق کی ہے۔ جیسے امام بخاری کے 80 رواۃ (رجال) ایسے ہیں جن پر کلام کیا گیا ہے، طعن کیا گیا ہے اور پھر ائمہ نے اُن کا جواب دیا ہے۔ یہاں تک کہ ائمہ نے ان راویوں کے باقاعدہ نام لکھ کر ان پر طعن اور کلام کیا ہے۔ امام بخاری کے مطعون رجال کے نام فتح الباری سے لے کر امام سیوطی کی التدریب تک سب کتب میں موجود ہیں۔ کئی ائمہ نے پھر اُن کے جواب دیے ہیں کہ امام بخاری نے ان سے روایت کیوں لی اور جواب دے کر اُن کے صحیح ہونے پر دلائل اور شواہد قائم کیے گئے ہیں اور اعتراضات کو شافی اور وافی طریقے سے رد کیا گیا ہے۔
لیکن اب سوال یہ کر رہا ہوں کہ اگر کسی ایک سند میں ایک راوی مطعون ہے، یعنی متکلم فیہ ہے اور اس حدیث کا امام مسلم کی اس حدیث سے جو تعارض آگیا جس کی سند میں کوئی راوی متکلم فیہ نہیں ہے بلکہ اُس کے سارے راوی بالاجماع مؤثق ہیں، کسی پر کلا م نہیں ہوا تو کیا اس صورت میں بھی بخاری کی روایت مسلم کی روایت پر ارجح ہوگی؟ اس کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔ اس لیے کہ دونوں کی اسناد کا جب موازنہ ہو گا تو مسلم کی سند زیادہ صحت مند اور اقویٰ ہو جائے گی، اس لیے کہ اس سند کے کسی راوی پر کلام نہیں جبکہ بخاری کی سند کے ایک راوی پر کلام ہے۔ بے شک بخاری کے مطعون راوی کا جواب وافی دے دیا گیا ہے مگر جب موازنہ آئے گا تو مسلم کی روایت اعلیٰ ہوجائے گی۔ اسی طرح اگر یہ طعن مسلم کی سند میں ہے تو بخاری کی روایت اعلیٰ ہوجائے گی۔ لہٰذا جب دونوں روایات عدل اور مساوات کی بنیاد پر پرکھے جائیں گے تو ترتیبِ اصحیت یہ نہیں ہوگی جو امام ابن الصلاح نے بیان کی ہے۔
(جاری ہے)