روزہ اسلام کا ایک بنیادی اور اہم رکن ہے جو بے شمار حکمتوں اور لازوال رفعتوں سے لبریز ہے۔ روزے کو جملہ عبادات میں یہ امتیازی فضیلت حاصل ہے کہ اس کے بارے میں اللہ رب العزت نے یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ وہ اس کا اجر خود عطا فرمائے گا۔ روزہ ہر عاقل، بالغ، صحت مند، باہوش اور مقیم مسلمان مرد و عورت پر بتقاضائے ادائیگی فرض ہے۔ جس کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے جس نے اپنے سارے احکام میں بندوں کی سہولت اور آسانی کا پورا لحاظ رکھا ہے اور کسی معاملے میں انہیں بے جا مشقت اور تنگی میں مبتلا نہیں کیا۔ چنانچہ روزے کی فرضیت کے ساتھ ساتھ شریعت نے انسانوں کی معذوری اور مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے روزے کے مسائل میں کئی مقامات پر مختلف صورتوں میں رخصت سے نوازا ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں ان تمام صورتوں کا مختصر جائزہ لیا جائے گا تاکہ یہ بات واضح ہوکہ شرعی احکام میں جبر ہے یا اس میں رخصت کے بھی کچھ پہلو موجود ہیں؟
پہلا مظہر: روزہ چھوڑنے کی رخصتیں
شریعت میں بندوں پر احکامات کو جبراً مسلط نہیں کیا جاتا بلکہ حسبِ قدرت شارع کریم اللہ رب العزت نے ہر فرد کے لیے احکام کی نوعیت کے تحت جداگانہ پیمانہ قائم کیا ہے۔ بعض اوقات بندے پر ایسی کیفیت وارد ہوتی ہے کہ وہ روزے جیسی پُرمشقت عبادت کے حکم کی بجا آوری کا متحمل نہیں ہوتا تو اللہ رب العزت نےایسی حالت میں بندوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے۔ جن اسباب کی بنا پر بندوں کو روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے وہ درج ذیل ہیں:
1۔ سفر:
سفر میں ہر طرح کی سہولت حاصل ہو یا مشقت برداشت کرنی پڑے ہر حال میں مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.
(البقرة، 2: 185)
’’ پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے۔‘‘
اس آیت مقدسہ میں سفر کا صریح لفظ موجود ہے کہ اگر کوئی مسافر ہو تو اس پر روزہ فرض نہیں۔ حضرت کعب بن عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لیس من البر الصیام فی السفر.
(النسائی، السنن، رقم: 2255)
’’سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے۔‘‘
لیکن اگر سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت ہو تو اس کے حوالے سے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
’’اگر مسافر روزے سے تکلیف محسوس نہ کرے تو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے اور اگر وہ روزہ نہ رکھے تو بھی جائز ہے کیونکہ سفر مشقت سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘
(مرغینانی، الهدایة شرح بدایة المبتدی، ج: 1، ص: 126)
سفر خواہ کسی بھی غرض اور ارادے سے ہو، باعثِ رخصت ہے۔
(کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 290)
اپنی غرض و غایت اور مقصد میں تو سفر نصِ قرآنی کے تحت مطلق ہے لیکن مسافت کا اعتبار عرفِ شرعی کے تحت ہوگا۔ اس میں چند قدموں یا کلومیٹرز کا حساب نہیں ہوگا بلکہ شرعی طور پر جو فاصلہ متعین ہے صرف اسی کے مطابق مسافر کو رخصت ملے گی۔
2۔ بیماری:
شریعتِ اسلامیہ کی رو سے جو کوئی بیمار ہو اس پر روزہ فرض نہیں لیکن اس کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیت (البقرة: 185) میں مریض کو بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔اس آیت کی تفسیر میں فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر مریض کو روزہ رکھنے میں ہلاکت کا یا مرض کی زیادتی کا خوف ہویا مرض کے طول پکڑنے کا خوف ہو، غرض یہ کہ غیر معمولی تکلیف کا اندیشہ ہو تو چاہیے کہ روزہ نہ رکھے۔ بعد میں صحت یاب ہونے پر قضا روزے رکھ لے گا۔
3۔ حمل اور رضاعت:
احادیث مبارکہ میں اس بات کی صریح رخصت ہے کہ وہ عورت جو حاملہ ہو اور اس کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس کے روزہ رکھنے سے جنین کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے تو ایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔ لیکن وہ بھی بعد میں ان روزوں کی جگہ روزے رکھے۔
اسی طرح وہ عورت جس کی گود میں دودھ پیتا بچہ ہو اور وہ بچے کو اپنا دودھ پلاتی ہو، اسے روزہ رکھنے پر اپنا یا دودھ کے خشک ہوجانے کے باعث بچے کا خوف ہو تو اس کو بھی روزہ افطار کرنے کی اجازت ہے۔ اسی طرح جس عورت نے اجرت پر دودھ پلانا طے کیا، اس کے لیے بھی خوف کی صورت میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، بعد میں روزے کی قضا کرے گی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
رخص رسول اللہ ﷺ للحبلی التی تخاف علی نفسھا ان تفطر و للمرضع التی تخاف علی ولدھا.
(ابن ماجه، السنن، ج: 1، ص: 533، رقم: 1667)
’’حضورﷺ نے ایسی حاملہ عورت کو جسے (روزہ رکھنے کی صورت میں) جان تلف ہونے کا اندیشہ ہو اور ایسی دودھ پلانے والی عورت کہ جسے (روزہ رکھنے کی صورت میں) اپنے بچے کی (جان) کا خوف ہو (شرعی عذر کی بنا پر رمضان المبارک کا) روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے۔‘‘
4۔ حیض اور نفاس:
حیض اور نفاس بھی عورت کے حق میں روزے کے باب میں اعذارِ شریعہ میں سے شمار ہوتے ہیں۔ان کے باعث عورت کو روزہ قضا کرنے کی رخصت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا: اس کا کیا سبب ہے کہ حائضہ عورت روزہ تو قضا کرتی ہے، نماز قضا نہیں کرتی؟
فقالت احروریة انت؟ قلت لست بحروریة ولکنی اسال قالت کان یصیبنا ذلک فنومر بقضا الصوم ولا نومر بقضا الصلاة.
(مسلم، الصحیح، ج: 1، ص: 265، رقم: 335)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے (سائلہ سے) پوچھا: کیا تو حروریہ ہے؟ میں نے عرض کیا: میں حروریہ نہیں ہوں، محض جاننا چاہتی ہوں۔ (جواباً) حضرت عائشہ نے فرمایا: حیض کے ایام میں ہمیں روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا اور نمازوں کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
فقہاء نے یہاں تکرار کو رخصت کا سبب قرار دیا ہے جو مشقت کا سبب ہے یعنی روزے تو سال میں صرف ایک بار آتے ہیں جبکہ نماز روزانہ پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے تو لازماً نماز کی قضا میں حرج ہے جسے شریعت نے رفع کردیا ہے، لہذا حائضہ اور نفاس والی عورت صرف روزے کی قضا کرے گی۔
5۔ ضعف اور بڑھاپا:
ایسا عمر رسیدہ، ناتواں شخص جو سال بھر میں کسی وقت بھی اپنے ضعف اور بڑھاپے کی وجہ سے روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، روزہ چھوڑ سکتا ہے۔ اس پر واجب ہے کہ ہر دن کے عوض ایک محتاج کو کھانا کھلائے۔ امام جلال الدین ’’الاشباہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
و الفطر فی رمضان و ترک الصوم للشیخ الھرم مع الفدیة و الانتقال من الصوم الی الاطعام فی الکفارة.
(سیوطی، الاشباه والنظائر، ج: 1، ص: 77)
’’اور انتہائی بوڑھے شخص کے لیے رمضان میں فدیہ کے عوض روزے کو توڑنے اور چھوڑنے (کے ساتھ) روزے کا کھانا کھلانے کی طرف (بطور فدیہ) منتقل ہوجانا (بھی شرعی رخصت ہے)۔‘‘
6۔ خوفِ ہلاکت:
اگر کسی بندے کو محنت و مشقت کی وجہ سے جان ہلاک ہونے کا اندیشہ ہو یا اسے کوئی ظالم مجبور کررہا ہو کہ اگر تونے روزہ رکھا تو جان سے مار دوں گا، یا بری طرح پیٹوں گا یا تیرا کوئی عضو کاٹ دوں گا تو ایسے شخص کے لیے بھی اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے۔ اسی طرح اگر کوئی روزہ دار اتفاقاً ایسا بیمار ہوجائے کہ روزہ پورا کرنے کی صورت میں اس کی ہلاکت یا مرض کی شدت پکڑنے کا خوف ہو تو روزہ کھول سکتا ہے۔ اس طرح اگر کسی کو سانپ کاٹے اور دوائی پینے کی ضرورت ہو تو بھی روزہ کھول سکتا ہے، بعد ازاں اس کی پھر قضا ادا کرے گا۔‘‘
7۔ جہاد:
ڈاکٹر وہبہ زحیلی روزے کی رخصتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دشمنانِ دین سے جہاد کی نیت ہو اور یہ خیال ہو کہ روزہ رکھنے سے کمزوری آجائے گی تو ایسے شخص کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ بالفعل جہاد نہیں ہورہا لیکن جلد ہی تصادم کا اندیشہ ہے تب بھی اجازت ہے۔ اور اگر روزہ رکھ لیا ہو اور ایسا موقع پیش آجائے تو روزہ توڑ دینے کی بھی اجازت ہے۔ روزہ توڑ دینے سے کفارہ لازم نہ آئے گا۔‘‘
(زحیلی، وھبہ، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: 3، ص: 104)
8۔ بے ہوشی:
ایسا شخص جس پر بے ہوشی طاری ہوجائے اس کے لیے حکم ہے کہ وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، بعد میں اس کی قضا کرے گا۔ ہدایہ میں ہے:
ومن اغمی علیه فی رمضان کله قضاه لانه نوع مرض. ومن جن فی رمضان کله لم یقضه، ولنا ان المسقط ھوالحرج، ولاغماء لا یستوعب الشهر عادۃ فلا حرج.
(مرغینانی، الهدایه، ج: 1، ص: 128)
’’اور جس پر پورا رمضان بے ہوشی طاری رہی، وہ ان روزوں کی قضا کرے گا کیونکہ بے ہوشی بیماری کی ایک قسم ہے اور جس شخص پر پورا رمضان جنون طاری رہا تو وہ اس مہینے کے روزوں کی قضا نہیں کرے گا (گویا جنون کے اس مریض پر روزے فرض ہی نہیں ہوئے اور) ہمارے ہاں اس حکم کا سبب حرج ہے۔ اور بے ہوشی عادتاً مہینہ بھر کو شامل نہیں ہوتی، اس میں اس درجہ کا حرج نہیں (لہذا اس کا یہ حکم نہیں)۔‘‘
مذکورہ بالا اعذارِ شرعیہ میں سے ضروری نہیں کہ سارے عذر موجود ہوں تو رخصت ہے یادو سے تین کا عدد ہو تو رخصت ملتی ہے بلکہ ان میں سے تنہا کسی ایک عذر کا وجود بھی روزہ چھوڑنے کی رخصت کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ روزوں میں ملنے والی رخصتوں کے مظاہر کی پہلی صورت تھی۔
دوسرا مظہر: روزہ توڑنے کی رخصتیں
کسی بھی عاقل و بالغ شخص کے لیے روزہ رکھنے کے بعد اسے توڑنا جائز نہیں لیکن بعض اوقات ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کے لیے روزے کو نبھانا ممکن نہیں رہتا۔ تو اس صورت میں شریعت نے اس کو روزہ توڑنے کی رخصت دی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اگر شرعی عذر کے باعث روزہ توڑا تو وہ گناہ گار بھی نہیں ہوگا۔ (کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 288)
یہ احکامِ صوم میں ملنے والی رخصتوں کے مظاہر کی دوسری صورت ہے اور جن شرعی اعذار کے باعث روزہ توڑنے کی رخصت ہے، ان کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1۔ رضاعت:
’’کسی خاتون نے عین رمضان کے دن ہی دودھ پلانے کی ملازمت شروع کی، اس دن اگر وہ روزہ کی نیت بھی کرچکی ہو تب بھی اس کے لیے روزہ توڑنا درست ہے۔ روزہ توڑنے سے اس پر کفارہ واجب نہ ہوگا بلکہ صرف روزہ کی قضا ضروری ہوگی۔‘‘
(ایضاً، ص: 162)
2۔ بھوک و پیاس کی شدت:
اگر کوئی شخص پیاس کی شدت سے اس قدر بے تاب ہوکہ موت کا خطرہ لاحق ہوجائے یا عقل میں فتور آجانے کا اندیشہ ہو تو ایسا شخص مذکورہ صورت میں روزہ توڑ سکتا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر وھبہ زحیلی لکھتے ہیں:
’’اگر روزہ دار کو اتفاقاً سخت پیاس لگ جائے یا بھوک اور روزہ پورا کرنے کی صورت میں ہلاکت کا خوف ہوتو چاہیے کہ روزہ کھول دے پھر قضا ادا کرے گا۔ اور اگر قصداً اس طرح عمل کرے کہ روذہ توڑنے کی نوبت آئے تو وہ گناہگار ہے۔ اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس صورت میں روزے کی قضا اور اس کا کفارہ دونوں لازم ہیں۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ صرف قضا کی ادائیگی لازم آتی ہے۔‘‘
(زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: 3، ص: 104)
3۔ بیماری:
’’اگر روزہ کی وجہ سے ہلاکت کا ظنِ غالب ہو یا کسی شدید نقصان کا، مثلاً: کسی حواس کے مختل ہونے کا تو روزہ توڑنا واجب ہے۔‘‘
(وہبہ زحیلی، 3: 104)
4۔ سفر:
’’اگر کسی نے سفر کے دوران صبح کو روزہ رکھا پھر عمداً توڑ ڈالا تو اس پر کفارہ واجب نہیں کیونکہ سببِ افطار یعنی سفر صورتاً موجود ہے، لہذا اس سے شبہ پیدا ہوجاتا ہے اور کفارہ شبہ کی وجہ سے واجب نہیں ہوتا۔‘‘
(کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 303)
5۔ جہاد:
’’احناف کے ہاں ایسا سپاہی جسے لڑائی میں کمزوری کا اندیشہ ہو اور مسافر نہ ہو تب بھی (لڑائی میں اور)لڑائی سے پہلے روزہ توڑ سکتا ہے۔‘‘ (زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: 3، ص: 104)
6۔ اکراہ:
’’اگر زبردستی کسی کا روزہ تڑوادیا جائے تو اس کو گناہ نہیں ہوگا۔ جمہور کے نزدیک صرف قضا کرے گا۔‘‘ (ایضاً)
مذکورہ بالا اعذار میں سے کسی ایک عذر کے وارد ہونے سے روزہ توڑنے کی رخصت حاصل ہوجاتی ہے اور ایسے شخص پر کفارہ لازم نہیں ہوگا، صرف قضا لازم ہوگی۔
تیسرا مظہر: ممنوعات کے ارتکاب کے باوجود روزے میں عدمِ نقص
روزے کے مسائل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات ایسی رخصتوں کے مظاہر بھی نظر آتے ہیں کہ انسان روزے کی تین حدود میں سے کسی ایک کو تجاوز بھی کرتا ہے لیکن شریعت انسانی فطرت اور طاقت کا لحاظ کرتے ہوئے روزہ کے برقرار رہنے کا حکم دیتی ہے۔ یہ احکامِ صوم میں رخصتوں کے مظاہر کی تیسری قسم ہے جس کی صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔ بھول کر کچھ کھانے یا پینے سے:
اگر کسی روزہ دار نے بھولے سے کچھ کھا لیا یا پی لیا تو شریعت نے اس کو رخصت دی ہے کہ اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی:
انی اکلت وشربت ناسیا وانا صائم فقال اطعمک الله وسقاک.
(ابو داؤدالسنن، ج: 2، ص: 315)
’’یارسول اللہﷺ میں نے روزے کی حالت میں بھولے سے کھانا کھالیا ہے اور پانی پی لیا ہے (میرے لیے کیا حکم ہے؟)۔ آپﷺ نے فرمایا: کہ تجھے خدا نے کھلایا ہے اور پلایا ہے (یعنی تیرا روزہ نہیں ٹوٹا)۔‘‘
فقہاء اس حدیث سے درج ذیل استدلال کرتے ہیں:
لم یواخذ المسلم علی الاکل والشرب ناسیا فی نھار رمضان بل تسامح فی ذلک وجعله یکمل صیامه و یتمه فانما اطعمه الله وسقا.
(یعقوب عبدالوهاب، رفع الحرج فی الشریعه الاسلامیه، ص: 22)
’’رمضان کے دن مسلمان پر بھول کر کھالینے اور پینے پر کچھ مواخذہ نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ نرمی کا پہلو برتتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: کہ وہ روزے کو مکمل کرے اور اس کو اللہ ہی نے کھلایا اور پلایا ہے۔‘‘
حالتِ نسیان میں کھانے پینے سے روزہ نہ ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان اکثر و بیشتر روزہ بھول جاتا ہے اور ہمہ وقت روزہ یاد رکھنے کی کوشش میں تنگی ہے۔ لہذا تنگی کو ختم کرنے کے لیے نسیان کو قابل معافی عذر سمجھا جائے گا۔
(کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 278)
2۔ قے، حجامہ اور احتلام:
اگرچہ احتلام اور جماع میں صرف معنوی فرق ہے، اس کے علاوہ دونوں کی صورت شہوت پر مبنی ہے اورقیاس کا تقاضا ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے لیکن شارع کریمﷺ نے اسے مفسدِ صوم قرار نہیں دیا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
ثلاث لایفطرن الصائم القیء والحجامة والاحتلام.
(بیهقی، السنن الکبریٰ، ج: 4، ص: 372)
’’ تین چیزیں روزہ نہیں توڑتیں: قے، حجامہ اور احتلام‘‘۔
صاحب ہدایہ اس کا یہ سبب بیان کرتے ہیں:
لانه لم توجد صورة الجماع.
(مرغینانی، الہدایہ، ج: 1، ص: 122)
’’اس لیے کہ احتلام میں جماع کی صورت موجود نہیں۔‘‘
امام کاسانی اس کی مزید وجہ بیان کرتے ہیں:
’’غیر اختیاری امور( قے ، احتلام) میں اس کا کوئی ارادہ اور دخل نہیں ہے اور انسان سے اس کام کا مواخذہ نہیں ہوگا جس میں اس کا دخل نہ ہو۔‘‘
(کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 284)
3۔ حلق میں مکھی کا چلے جانا:
مکھی ہمہ وقت اڑتی اور منہ وغیرہ پر بیٹھتی ہے، لہذا اس سے بچنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا حلق سے نیچے اترنا عفو ہوگا۔ اور جس طرح غبار اور دھویں سے بچاؤ ناممکن ہے اسی طرح مکھی سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
ولو دخل حلقه ذباب ھو ذاکر لصومه لم یفطر.
(مرغینانی، الہدایہ، ج: 1، ص: 123)
’’اگر روزہ دار کے حلق میں مکھی چلی گئی اور اسے اس کا روزہ یاد تھا تو وہ مفطر نہیں ہوگا۔‘‘
اگرچہ قیاس کا تقاضا ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے کیونکہ اگر کوئی شخص مٹی یا کسی ایسی چیز کو نگل لے جس سے غذا مقصود نہیں ہوتی تو قضا واجب ہے، لیکن شارع کریم نے مشقت اور عدمِ اختیار کے باعث اس میں رخصت دی ہے۔
4۔ ماں کا بچے کے لیے کھانا چبانا:
عورت کا بچے کے لیے کھانا چبانا مکروہ ہے جبکہ وہ خود چباسکتا ہو اور اگر:
ولا باس اذا لم تجد منه بدا صیانۃ للولد الا تری ان لھا ان تفطر اذا خافت علی ولدھا. (ایضاً، ص: 125)
’’ عورت کو اس عمل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو تو وہ بچے کی حفاظت کے لیے کھانا چبا کر اسے دے سکتی ہے۔ (دلیل یہ ہے) کیا معلوم نہیں کہ جب عورت کو بچے کی جان کا خطرہ ہو تو وہ روزہ بھی توڑ سکتی ہے۔‘‘
5۔ کھانے کے بعد منہ میں موجود تری وغیرہ کو نگلنا:
علامہ کاسانی اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’تری جو کھانے کے بعد منہ میں رہ جاتی ہے اگر تھوک کے ساتھ نگل لی جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔‘‘
(کاسانی، بدائع الصنائع، ج: 2، ص: 279)
ڈاکٹر وھبہ زحیلی نے مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بھی احناف کے ہاں کچھ صورتیں بیان کی ہیں کہ جن میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔ یہ صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔آنکھ میں قطرہ یا سرمہ ڈالنا
2۔ مسواک کرنا
3۔ ناک میں پانی ڈالنا
4۔ نہانا
5۔ دھواں یا غبار کا اندر چلے جانا
6۔ ناک کی سینڈھ نگلنا یا جان بوجھ کر بلغم نگل جانا
7۔ دانتوں میں بچے ہوئے کھانے کے ذرات کو جو چنے سے کم ہوں، نگل جانا
8۔ جنابت کی حالت میں روزہ رکھنا
9۔ پٹھوں میں یا کھال کے نیچے گوشت میں انجکشن لگوانا
10۔عطریاتی خوشبو سونگھنا وغیرہ۔‘‘
(زحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ، ج: 3، ص: 104)
(جاری ہے)