عربی زبان میں روزہ کو صوم کہتے ہیں، جس کا لغوی مفہوم ہے ’’رکنا، باز رہنا۔‘‘
الصوم فی الا صل الا مساک عن الفعل کان مطعما او کلاما او مشیا و لذالک قیل للفرس المسک عن السیر او العلف صائم.
(الراغب اصفهانی، مفردات، ص: 493)
’’اصل میں صوم کا معنی ہے کسی فعل سے رک جانا، خواہ کھانا ہو خواہ گفتگو ہو یا چلنا پھرنا ہو۔ جو گھوڑا چلنے سے یا چارہ کھانے سے رک جائے اسے صائم کہتے ہیں‘‘
ہوا ٹھہری ہوئی ہو تو اسے بھی صوم کہتے ہیں۔ دوپہر کے وقت کو بھی صائم کہتے ہیں گویا سورج آسمان پر ٹھہر گیا ہے۔
اصطلاحِ شرع میں صوم کا مطلب ہے:
امساک المکلف بالنیة من الخیط الا بیض الی الخیط الاسود عن تناول الا طبین و الا ستمناء و الا ستقاء.
(الراغب الاصفهانی، مفردات، ص: 293 )
’’عاقل بالغ مسلمان کا نیت کے ساتھ، سپیدہ سحر سے رات تک کھانے پینے، خواہشِ نفس اور دانستہ قے کرنے سے رک جانا‘‘۔
ترک الا کل والشرب والجماع من الصبح الی غروب الشمس بنیه التقرب من الاهل.
(شیخ نظام الدین، عالمگیری، 1: 194)
عاقل بالغ کا عبادت کی نیت سے صبح سے غروب آفتاب تک، کھانے پینے اور قربت سے پرہیز کرنا۔‘‘
قرآن مجید کی روشنی میں
فرمان باری تعالیٰ ہے:
یٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن. اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّهٗ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ وَ مَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللهُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللهَ عَلٰی مَا هَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
(البقرة: 2: 183۔185)
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ اے ایمان والو! (یہ) گنتی کے چند دن (ہیں) پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو۔ رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
روزے کے مقاصد
قرآن کریم کی مذکورہ آیاتِ میں روزہ کے درج ذیل تین مقاصد بیان فرمائے گئے ہیں:
1۔ تقویٰ
تقویٰ کا لغوی معنی بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان کا یقین پختہ ہوتا ہے۔ ہر عبادت میں نمود و نمائش کا احتمال ہے۔ نماز، زکوٰۃ، حج، ذکر، جہاد، صدقہ، تعلیم، تدریس ان میں سے ہر نیکی میں دو پہلو ہیں:
اوّل یہ کہ عمل کرنے والا خلوص نیت سے، محض اللہ کی رضا کی خاطر نیکی کر رہا ہے۔ اس صورت میں اس کی نیکی یقینا مقبولِ بارگاہ ہے اور اللہ کے حضور اس کی قدر و وقعت ہے، جس کی جزا دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نیت میں فتور ہو اور مقصد اللہ کی رضا نہ ہو مثلاً: نمود و نمائش، شہرت و ناموری وغیرہ، اس صورت میں کسی جزا کی توقع فضول ہے۔
جبکہ صرف روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں خلوص ہی خلوص ہے۔ ریا کاشائبہ تک نہیں۔ کون روزے سے ہے کون نہیں؟ اس کا علم اللہ کو ہے یا متعلقہ شخص کو۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّیَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّیَامُ جُنَّةٌ، وَإِذَا کَانَ یَوْمُ صَوْمِ أَحَدِکُمْ فلَاَ یَرْفُثْ وَلَا یَصْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْیَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ. وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ! لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ یَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
(بخاری، الصحیح، 2: 673، الرقم: 1805)
’’بنی آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزہ کے۔ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں۔ اور روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اور اگر اسے (روزہ دار کو) کوئی گالی دے یا لڑے تو یہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں محمد مصطفیٰ ﷺ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ کو مشک سے زیادہ پیاری ہے۔ روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، جن سے اسے فرحت ہوتی ہے: ایک (فرحتِ افطار) جب وہ روزہ افطار کرتا ہے، اور دوسری (فرحتِ دیدار کہ) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزہ کے باعث خوش ہو گا۔‘‘
2۔ اللہ کی بڑائی
مذکورہ آیت میں روزے کے دوسرے مقصد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: ’’وَلِتُکَبِّرُوا اللهَ‘‘ یعنی تم اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ ایک طرف کھانے پینے اور شہوانی نفسانی خواہشات، جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں اور دوسری طرف حکمِ خدا وندی ہے۔ روزے دار حکم خدا وندی کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی زبانی ہی نہیں عملاً بڑائی کا اظہار و اقرار کرتا ہے اور خواہشاتِ نفس کو کنٹرول کرتا ہے۔
3۔ شکر ادا کرنا
روزے کے تیسرے مقصد کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا: وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرْوْنَ’’تاکہ تم شکر کرو‘‘۔
ہم شب و روز اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے متمتع ہوتے ہیں لیکن ان کی عظمت و منزلت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہ ہوا جو ہر وقت ہم لیتے رہے ہیں، زندگی کے لئے کتنی ضروری ہے۔ دو چار منٹ نہ ملے تو مر جائیں، بلا محنت و مشقت اور بغیر قیمت ہر شخص اسے استعمال کرتا ہے، اگر اس کی بہم رسانی میں تھوڑی سی بد نظمی ہو جائے، تھوڑا سا تعطل ہو جائے تو ہمارا وجود ختم ہو جائے۔ الحمدللہ یہ ہمیں بالکل مفت مل رہی ہے۔ اسی طرح مختلف الانواع کھانے، پھل، غذائیں، مشروبات جو ہم کھا پی رہے ہیں، ہم ان کی قدرت و منزلت سے غافل ہیں۔ روزے سے ہمارے اندر ان نعمتوں کی اصل قدر و منزلت کا احساس ہوتا ہے اور ہم بے اختیار ذاتِ باری تعالیٰ کے شکر گزار بن جاتے ہیں۔ روزے کے حال میں اپنی بھوک و پیاس کے سبب ایک طرف اللہ تعالیٰ کے بے پایاں رزق کی قدر معلوم ہوتی ہے اور دوسری طرف نہ صرف رمضان المبارک میں بلکہ ہمارا روزہ ہمیں سال بھر بھوکوں کو کھانا کھلانے پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنا روزہ یاد کر کے بھوکوں کی بھوک کا احساس کرو۔ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو، انسان ہو یا حیوان، ہر بھوکے کو کھانا کھلاؤ، ہر پیاسے کو پانی پلاؤ۔ اس پر اللہ تمھیں اجر دے گا۔ یہ عمل اللہ کی نعمتوں کا حقیقی شکر ہے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں
روزوں کے مقاصد اور فضیلت کو آپﷺ نے اپنے متعدد فرامین کے ذریعے واضح فرمایا۔ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
(اخرجه البخاری فی الصحیح، کتاب الصوم، باب صوم رمضان احتسابا من الایمان، 1: 22، الرقم: 38)
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ. وفي روایۃ: فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَھَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ.
(اخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس وجنودہ، 3: 1193، الرقم: 3103)
’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیئے جاتے ہیں۔‘‘
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لِکُلِّ شَيئٍ زَکَاةٌ وَ زَکَاۃُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔ وَقَالَ: الصِّیَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ. وفي روایۃ: صَلُّوْا تَنْجَحُوْا وَزَکُّوْا تُفْلِحُوْا وَصُوْمُوْا تَصِحُّوْا وَسَافِرُوْا تَغْنَمُوْا. رَوَاهُ الرَّبِیْعُ.
(اخراجہ البخاری فی الصحیح، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)
’’ ہر ایک چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ نماز پڑھو نجات پا جاؤ گے اور زکوٰۃ ادا کرو فلاح پا جاؤ گے اور روزے رکھو، صحت و تندرستی پاؤ گے اور سفر کرو غنی ہو جاؤ گے۔‘‘
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَمْ یَدَعْ قَولَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَیْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ یَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
’’جو شخص (بحالتِ روزہ) جھوٹ بولنا اور اس پر(برے) عمل کرنا ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
اخلاقی تربیت میں روزے کا کردار
قدرت نے انسان کو گونا گوں صلاحیتوں سے نوازا ہے، جن کا احاطہ نا ممکن ہے، تاہم آسانی کے لئے ہم ان کو تین طاقتوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1۔ قوتِ عقلیہ
2۔ قوتِ شہویہ
3۔ قوتِ غضبیہ
1۔ قوتِ عقلیہ
آج کے مادی دور میں ہمیں جو نت نئی ایجادات نظر آ رہی ہیں، یہ قوتِ عقیلہ کے کرشمے ہیں۔ موٹر گاڑی، جہاز، ٹیلی فون، انٹرنیٹ، ٹی وی، بجلی کے استعمالات، تعمیرات، طب، سیٹشزی، لباس، رہن سہن، تعلیم، رسل و رسائل، صنعت، تجارت اور سامانِ ضرب و حرب وغیرہ میں جو ترقی اس صدی میں ہوئی اور ہر شعبہ زندگی جس تیز رفتاری سے آگے بڑھا، اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ ایک صدی پیچھے چلے جائیں تو یہ امور خواب و خیال میں بھی نہ آسکیں لیکن آج یہی حقائق ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔ بلا شبہ جدید علوم و فنون نے دنیا کی کایا پلٹ دی ہے اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے لیکن اس ترقی نے جہاں دنیا کو ہر میدان میں بے شمار سہولتیں میسر لیں وہاں اسی ترقی نے ایسے مہلک ہتھیار بھی دئیے کہ جن کے استعمال سے دنیا کی تمام چہل پہل ختم ہو جائے، انسانی تمدن نے صدیوں کی محنت سے جو مقام حاصل کیا، وہ لمحوں میں تباہ ہو جائے، طب، صنعت اور مواصلات و توانائی کے تمام ذخیرے چند ساعتوں میں نیست و نابود ہو جائیں۔ تیرو تلوار کی جنگوں نے صدیوں میں انسانوں کا اتنا خون نہیں بہایا جتنا ہتھیاروں کی صورت میں عقلِ انسانی کی جدید دریافت نے نقصان پہنچایا۔ نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے استعمال سے زندگی کے دوسرے شعبوں میں مخلوقِ خدا کی بہبود کی ہزاروں صورتیں نکالی جا سکتی ہیں، مگر افسوس کہ اس حوالے سے ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ انسانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی جائے۔ جن کے ہاتھوں میں یہ جدید ترین طاقت ہو، ان کے دلوں کو انسانی جذبۂ محبت سے سرشار کیا جائے تاکہ تعصبات کے مارے ہوئے ان لوگوں کے سینوں میں مخلوق خدا کی محبت سے پگھلنے والے دل پیدا ہوں اور یہ مقصد رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے سوا کہاں مل سکتا ہے؟ لہٰذا قوتِ عقلیہ کی تربیت صرف احکاماتِ نبویہ سے ہو سکتی ہے۔
2۔ قوتِ شہویہ
پھول کے رنگ وبو، چشموں کی سریلی آوازوں، باغوں اور لہلہاتے کھیتوں، قوس و قزح کے رنگوں اور اچھی صورتوں سے کس کو پیار نہیں؟ یہ بات چنداں معیوب نہیں، اس کا تعلق قوتِ شہویہ ہے۔ اسی قوت سے بیوی اور بچوں سے پیار ہوتا ہے، اچھے مکانوں، اچھے لباسوں اور اچھے کھانوں کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ جس کی نتیجے میں انسان محنت کرتا اور نت نئی چیزیں ایجاد کرتا رہتا ہے جس سے معاشرہ ارتقاء پذیر رہتا ہے لیکن یہی قوتِ شہویہ اگر بے قابو ہو جائے تو بدکاری، بے حیائی اور برائیوں کو جنم دیتی ہے۔
3۔ قوتِ غضبیہ
کسی کی ماں، بیٹی، بہن یا کسی اور عزیزہ کو کوئی بری نگاہ سے دیکھے، کسی کی عزت پر حملہ کرے، کسی کے بزرگوں کی توہین کرے، کسی کی حق تلفی کرے تو انسان کی قوتِ غضبیہ جوش میں آتی ہے اور انسان کو مرنے مارنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ قوتِ غضبیہ کے اسی مثبت پہلو سے انسان اپنی عزتِ نفس، اپنی آزادی اور اپنے روحانی و مادی مقاصد کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان بے غیرت، کمزور اور غلام بن جائے۔
لیکن اسی قوت کا ایک منفی پہلو بھی ہے جس کے تحت انسان معمولی باتوں پر غصے میں آجاتا ہے اور ایسے ایسے غلط یا ظالمانہ اقدامات کر بیٹھتا ہے کہ جن پر انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔آج دنیا میں قدم قدم پر اس کے آثار ملتے ہیں۔ دنیا بھر میں کمزور اقوام کا ہر طرح کا استحصال ہورہا ہے اور طاقتور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک طرف سیاسی و جغرافیائی استحصال ہے تو دوسری طرف معاشی استحصال نے امیر اور غریب کے درمیان ایک واضح فرق قائم کردیا ہے۔ یہ قوتِ عقلیہ، شہویہ اور غضبیہ کے منفی پہلو ہیں۔
جس طرح قوتِ عقلیہ کو صحیح راستے پر لانے کے لئے اچھی تعلیم و تربیت ضروری ہے اسی طرح قوتِ غضبیہ و شہویہ کو مکمل کنڑول کرنے اور ان کو حد اعتدال پر رکھنے کے لیے روزے سے بہتر کوئی علاج نہیں۔ جب انسان کا پیٹ کھانے پینے سے خالی ہو، رات کو قیام اور دن کو صیام کی صورت میں قوتِ غضبیہ و شہویہ کو نکیل ڈال دی جائے تو ان ہر دو قوتوں کے منفی اثرات سے معاشرے کو بچایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسلامی عبادات پر سمجھ کر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔