ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ.
(الفاتحة، 1: 1۔ 3)
’’سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہے۔ نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والا ہے۔ روزِ جزا کا مالک ہے۔ ‘‘
سورۃ الفاتحہ اسلامی تعلیمات کا ایک جامع تصور دیتی ہے۔ یہ مضمونِ ہدایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرآن مجید کا افتتاحی باب (Opening chapter) ہے۔ اللہ رب العزت نے سورۃ الفاتحہ میں ایک پیغام دیا ہے کہ اگر بندہ میرے ساتھ تعلق قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے؟
تعلق باللہ کا راز خود سے جدا ہوجانے میں ہے
اس سورۃ کی پہلی آیت؛ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں اس بات کا ذکر ہے کہ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں مگر یہ ذکر نہیں ہے کہ تعریف کرنے والاکون ہے۔ ۔ ۔ ؟ کس نے تعریف کی ہے۔ ۔ ۔ ؟ اس میں صرف اللہ کا ذکر ہے مگر اس کی تعریف کرنے والے کا ذکر نہیں۔ یعنی جس کی تعریف ہے، اسی کا ذکر ہے۔
اس اسلوب سے اللہ تبارک وتعالیٰ مخلوق کو اپنے ساتھ تعلق قائم کرنے کے طریقہ کے بارے رہنمائی فرمارہا ہے کہ میری تعریف کرو، میری حمد کرو، میرا شکر بجا لاؤ، میری عظمت بیان کرو مگر اپنے آپ کو درمیان سے نکال دو یعنی اپنی ذات کی نفی کرو۔ میں اس شخص کا تعلق اپنے ساتھ قائم کرتا ہوں جو مجھ سے تعلق قائم کرتے ہوئے خود کو درمیان سے نکال دے۔ جو بندہ اپنی موجودگی کا احساس پیدا کرتا ہے کہ ’’اے اللہ! میں تیری تعریف کرتا ہوں‘‘، تو اللہ تعالیٰ اس سے تعلق قائم نہیں فرماتا۔ وہ فرماتا ہے کہ یہ بندہ ابھی خود سے نہیں نکلا، یعنی ’’میں‘‘ سے نہیں نکلا تو مجھ سے کیسے ملے گا۔ ۔ ۔ ؟ پس جب تک ہمارے اندر ’’میں‘‘ہے یعنی اپنی ذات کی موجودگی کا احساس ہے اور اپنا دھیان ہے، اس وقت تک وہ نہیں ملتا۔
پس اس سے ملنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ اپنے آپ کو نکال دو۔ خود سے ملو یا خدا سے ملو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہوں گی۔ میرا ذاتی تجربہ بھی یہی ہے کہ بندہ خود سے ملتا ہے یا خدا سے ملتا ہے۔ بندوں کو خدا تب ملتا ہے جب وہ خود سے جدا ہوتے ہیں۔ جب تک ہم اپنے آپ میں رہتے ہیں اس صورت میں اجر تو مل سکتا ہے، جنت مل سکتی ہے، ثواب مل سکتا ہے، صحت ، رزق الغرض ساری نعمتیں مل سکتی ہیں مگر نعمت عطاکرنے والا نہیں ملتا۔
اسی طرح دوسری اور تیسری آیت؛ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. مٰـلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (نہایت ہی مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا۔ آخرت کے دن کا مالک ہے۔ ) میں بھی اللہ نے بندے کا ذکر نہیں فرمایا۔ ان پہلی تین آیات کے اس اسلوب کے ذریعے اس نے بندے کو یہ سکھایا ہے کہ اللہ کیسے ملتا ہے؟ اس سے تعلق کیسے بنتا ہے؟ اللہ سے تعلق تب بنتا ہے جب بندہ خود سے تعلق توڑتا ہے۔
نعمتیں چاہییں یا نعمتوں والا؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بندہ خود سے کیسے جدا ہو؟ یہ تو بڑا مشکل کام ہے؟ سن لیں! خود کو نہیں چھوڑیں گے تو اللہ نہیں ملے گا۔ اگر اللہ سے تعلق بنانا ہے تو خود کو درمیان سے نکالنا پڑے گا۔ اس لیے کہ جب بندہ خود کو درمیان میں رکھتا ہے تو اس کے اپنے گورکھ دھندے آڑے آجاتے ہیں، اس صورت میں اس نے اللہ سے تعلق کیسے جوڑنا ہے۔ ۔ ۔ ؟ جب وہ ان گورکھ دھندوں میں رہے گا کہ ’’مجھے اچھی جاب مل جائے۔ ۔ ۔ اچھی ڈگریاں حاصل کروں۔ ۔ ۔ میرا بزنس ہو، آمدنی میں اضافہ ہو۔ ۔ ۔ شادی ہوجائے۔ ۔ ۔ اچھا گھر بنالوں۔ ۔ ۔ اولاد مل جائے۔ ۔ ۔ بیٹی مل گئی تو کہتا ہے، بیٹا بھی مل جائے۔ ۔ ۔ پھر اولاد کے مستقبل کا سوچتا ہے۔ ۔ ۔ بچوں کی شادیاں۔ ۔ ۔ بیٹی کا گھر اچھا ہوجائے، داماد اچھا نہیں۔ ۔ ۔ بیٹے کی شادی ہوجائے تو یہ شکوہ کرتا ہے کہ بہو اچھی نہیں ملی، خدمت نہیں کرتی۔ ۔ ۔ پھر دادا اور نانا بن گیا۔ ۔ ۔ ‘‘ الغرض مرتے دم تک یہ دھندے ختم ہی نہیں ہوتے۔
کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں جو خود سے جدا نہیں ہوا اور ان مصیبتوں سے جدا ہوگیا ہو۔ اس کے مسائل ختم ہی نہیں ہوتے۔ زندگی کے مسائل نہ ختم ہونے والے (endless) ہیں ۔ جب بندے کی اپنی سوچیں اور پریشانیاں ختم نہیں ہوتیں تو اس نے اللہ کے تعلق کی space کہاں سے پیدا کرلینی ہے۔ ۔ ۔ ؟ اس کے لیے تو اِس کے باطن میں کوئی جگہ ہی نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے پہلا سبق دیا کہ یا تو میری نعمتوں سے تعلق بنالو یا مجھ سے تعلق بنالو۔ اگر نعمتوں سے تعلق بنانا ہے تو یہ بھی درست ہے، یہ ناجائز اور ممنوع نہیں۔ اگر گناہوں سے بچے رہیں تو جنت بھی مل جاتی ہے۔ لیکن اگر اللہ کو پانا ہے تو پھر اپنے آپ کو بھولنا ہوگا۔ جو اللہ کے تعلق میں خود کو درمیان سے نکال دیتے ہیں تو وہ صابر و شاکر ہوجاتے ہیں اور پرسکون رہتے ہیں، پریشان نہیں ہوتے کیونکہ ان کا اللہ پر توکل قائم ہوجاتا ہے۔
پس اللہ رب العزت کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خلوص، وفاداری اور توجہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا جائے اور کوئی اور چیز ہمارے اور ہمارے اللہ کے درمیان میں نہ آئے۔
اجتماعیت کو انفرادیت پر ترجیح
سورۃ الفاتحہ کی پہلی تین آیات میں بندہ صرف اللہ کو پکارتا ہے اور اپنا وجود بھول جاتا ہے۔ پھر جب اللہ دیکھتا ہے کہ بندے نے اپنا ذکر چھوڑ دیا ہے اور اپنے آپ کو بھول گیا ہے، تب اس کے بعد آواز آتی ہے کہ اے میرے بندے! اب تو مجھ سے مخاطب ہو، اب مجھ سے بات کر، اس لیے کہ تو خود کو بھول کر مجھ سے تعلق بنارہا ہے۔ اب بندہ اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے:
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ.
’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، ہم صرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ‘‘
اس آیت کے پہلے لفظ ’’اِیَّاکَ‘‘ (تیری ہی) میں بھی بندے کا ذکر نہیں ہے۔ پہلے اللہ کا ذکر آیا پھر بعد میں بندے کا ذکر کیا اور یہاں بھی جب بندے کا ذکر آیا تو ’’میں‘‘ نہیں کہا بلکہ ’’ہم‘‘ کہا۔ ہماری ساری زندگی کا فساد ’’میں‘‘ میں ہے۔ یہ ’’میں‘‘ ممنوع (Prohibited) ہے، اس فساد کی جڑ کو نکالنے کا حکم ہے۔ نماز اکیلے بھی ادا کررہے ہیں پھر بھی اجازت نہیں کہ یہ کہیں: ’’اے اللہ میں صرف تیری ہی عبادت کرتا ہوں۔ ‘‘ اس اسلوب سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اپنے آپ کو انفرادی طور پر ختم کردیں اور اجتماعیت کوپروموٹ کریں۔
اگر زندگی سے ’’میں‘‘ ختم ہوجائے اور ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ آجائے تو دنیاوی رشتوں میں ہمارے تمام جھگڑے ختم ہوجائیں۔ وہ رشتہ خواہ ساس بہو کا ہو، بھائیوں کا ہو، بہن بھائی کا ہو، میاں بیوی کا ہو، کزنز کا ہو، دوستوں کا ہو، الغرض ان تمام رشتوں میں جھگڑے کی بنیاد درحقیقت ’’میں‘‘ ہوتی ہے۔ یہ تمام جھگڑے ’’میں‘‘ سے ہی ابھرتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کا سبق یہ ہے کہ اجتماعیت کو انفرادیت پر ترجیح دیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے۔ یاد رکھیں!خیر، اجتماعیت میں ہے۔ خیر کے لیے کیا جانے والا کام اور کوئی بھی اجتماعی کوشش اس وقت تک ثمر آور اور مقبول نہیں ہوتی، جب تک اس کام کو کرنے والے اپنی انفرادیت کو ختم نہیں کریں گے۔ اس اجتماعیت سے اس وقت تک سکون نہیں ملے گا، جب تک اس اجتماعی کام کو سرانجام دینے والوں میں سے ’’میں‘‘نہیں نکلتی۔ مثلاً: اجتماعی سطح پر، تنظیمی سطح پر خیر کے کسی کام کو انجام دینے والوں میں سے کسی کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ ’’مجھے کرسی پر نہیں بٹھایا۔ ۔ ۔ مجھے آگے جگہ کیوں نہیں دی۔ ۔ ۔ میرا نام نہیں لیا۔ ۔ ۔ میری کوشش کو سراہا نہیں گیا۔ ۔ ۔ میں نے اتنا کام کیا، اس کا ذکر نہیں کیا۔ ۔ ۔ اگر ان کے اذہان میں اس طرح کے وساوس جنم لیں گے تو خیر کے لیے انجام دیا جانے والا ان کا عمل اللہ تعالیٰ کے حضور شرفِ قبولیت سے محروم رہے گا۔ یاد رکھیں! ’’میں‘‘ ایک نہ ختم ہونے والا دھندہ ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں۔
تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں
اسی طرح دوسروں کی غلطیوں پر تحمل اور بردباری کا اظہار کیا کریں۔ کوئی شخص اگر کسی بڑے منصب اور ذمہ داری پر فائز ہے یا کسی کے پاس کسی بھی نوعیت کی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دوران اس سے کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اب اس پر جارحانہ انداز اختیار کرنا مناسب نہیں۔ انسان سے خطا ہوتی ہے، کسی ذمہ داری پر فائز شخص بھی انسان ہے، وہ بھی اپنی ذمہ داری میں ٖغلطی کرسکتا ہے۔ جیسے ہم سے غلطی ہوسکتی ہے، ویسے ہی دوسروں سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ دوسروں کی غلطیوں پر درگذر سے کام نہ لینا بھی دراصل ’’میں‘‘ ہی کا فتنہ ہے۔ اگر سوچ ’’میں‘‘ سے شروع ہوگی تو پھر جھگڑے پیدا ہوں گے، خیر کا فقدان ہوگا اور تعلق خیر پر مبنی نہیں ہوگا۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے زیادتی کردی تو اب زیادتی تو ایک بار ہوئی ہوگی مگر ہمارے عدمِ توازن اور عدمِ اعتدال کا حال یہ ہے کہ ہم ساری زندگی اس کا غصہ اپنے اندر رکھتے ہیں۔ ہم زندگی بھر اس کو معاف کرنے اور اس سے بولنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر مخلوقِ خدا کے ساتھ معافی اور درگذر کے حوالے سے ہمارا یہ رویّہ ہو تو ہم کس طرح توقع کرسکتے ہیں کہ ہماری ہزارہا غلطیاں اللہ تعالیٰ معاف کردے۔ وہ تو فرماتا ہے کہ اے بندے! تو میری مخلوق کو معاف کر، میں تجھے معاف کردوں گا۔ ۔ ۔ تو کسی کی چھوٹی سی غلطی معاف کرے گا تو میں رب ہوں، میں تیری بے حساب غلطیاں معاف کردوں گا۔ جیسے ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ ہمیں معاف کردے تو اسی طرح ہم بھی دوسرے لوگوں کو معاف کردیا کریں۔
سورۃ الفاتحہ کی ان آیات میں یہی پیغام ہے کہ جب میں اپنی عبادت جیسے عظیم کام میں ’’میں‘‘ نہیں آنے دیتا تو تم اپنے معاملات میں ’’میں‘‘ کو کیوں لاتے ہو۔ ۔ ۔ ؟ ہمارے تمام جھگڑوں، ناچاقیوں اور فساد کا سبب’’میں‘‘ ہی ہے۔ شیطان بھی اسی ’’میں‘‘ کے گناہ کی وجہ سے دھتکار دیا گیا تھا۔ اس نے یہی تو کہا تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اسی ایک لفظ نے اسے برباد کردیا۔ ’’میں‘‘ درحقیقت شیطان کی بھڑکائی ہوئی چنگاری ہے، اسی سے تعلقات اور رشتہ داریاں خراب ہوتی ہیں، اسی کی وجہ سے اللہ کے ساتھ تعلق بھی خراب ہوتا ہےا ور اسی کی وجہ سے مخلوق سے تعلق میں بھی خرابی آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سبق دیا ہے کہ انفرادیت کو ختم کرکے اجتماعیت میں گم ہوجاؤ۔ انفرادی طور پر مت سوچا کریں بلکہ اپنی سوچ کو اجتماعیت میں تبدیل کریں کیونکہ اجتماعی سوچ کو اپنانے میں ہی خیر ہے۔ اس اجتماعی سوچ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ خود غرضی، حرص، لالچ، ذاتی ہوس اور طمع ختم ہوجائے گی۔ ’’ہم‘‘ کا لفظ بولیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ دوسروں کے لیے بات کررہے ہیں اور اسی سے جھگڑا ختم ہوگا، خیر کے دروازے کھلیں گے اور نیکی اور بھلائی کے چشمے پھوٹیں گے۔ اگر یہ چیز قائم ہوجائے تو اسی سے اللہ سے دوستی قائم ہوتی ہے اور یہی ولایت اور اللہ کے ساتھ دوستی کا چشمہ ہے۔
وسعتِ ظرف پیدا کریں
اللہ تعالیٰ نے بندے کو سورۃ فاتحہ میں اپنے سے بات کرنے اور تعلق قائم کرنے کا ادب یہ سکھایا کہ جب اللہ سے بات کریں تو تب بھی ’’میں‘‘ نہیں کہنا بلکہ ’’میں‘‘ سے نکلنا ہے اور اللہ سے دعا کرنی ہے کہ اے اللہ مجھ سے ’’میں‘‘ نکال دے۔ اگر کسی کو کسی وجہ سے کسی سے رنج اور ناراضگی ہے اور جس سے ناراضگی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کو یہ احساس ہی نہ ہو کہ اس نے غلطی کی ہے، لہذا میں معافی مانگ لوں تو اب کتنا اچھا ہو کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، وہ اپنے ظرف میں وسعت لائے اور اس کے پاس چلا جائے جس نے زیادتی کی اور کہے کہ مجھے معاف کردو۔
جس کے ساتھ زیادتی ہوئی، وہی زیادتی کرنے والے سے معافی مانگے تو ذہن میں سوال پید اہوتا ہے کہ کس چیز کی معافی معانگے۔ ۔ ۔ ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس دن اس نے زیادتی کی تھی، اس دن سے لے کر آج تک اُس نے اپنے دل میں اِس کے لیے ناراضگی رکھی ہوئی ہے۔ یہ جو ناراضگی پال رکھی ہے، اس پر جاکر معافی مانگیں۔ بے شک دوسرا بندہ اس زیادتی کا ذمہ دار ہے مگر ایسی حالت کو دل میں رکھنا یہ بھی گناہ ہے بلکہ زیادتی کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اس لیے کہ زیادتی کرنے والے نے زبان یا عمل سے زیادتی کی مگر جس نے اس سے ناراضگی رکھی تو اس نے اپنے دل میں اس ناراضگی کو رکھا۔ لہذا دل کا آلودہ ہونا عمل کے آلودہ ہونے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔ دل اللہ کی جگہ تھی، جہاں اللہ کا پیار ہونا تھا، وہاں بندے کی ناراضگی، بغض اور نفرت آگئی۔ لہذا دل میں نفرت، بغض کا ہونا عمل کے گناہ سے بڑا گناہ ہے، اس لیے جاکر اس سے معافی مانگے کہ اتنے عرصے سے میں نے آپ کے خلاف ناراضگی رکھی ہوئی ہے۔
دوسروں کا سوچیں
سورۃ الفاتحہ کی اگلی آیت میں فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ.
اے اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا۔
یہاں بھی اللہ نے ’’میں‘‘ کی جڑ کو کاٹ دیا ہے۔ یہ کہنے کی بھی اجازت نہیں دی کہ اے اللہ ’’مجھے‘‘ سیدھی راہ دکھا بلکہ بندہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ ’’ہمیں‘‘ سیدھی راہ دکھا۔ گویا سیدھی راہ کی ہدایت کی طلب میں سارے شامل ہوگئے۔ جب بندہ ہر ایک کو شامل کرکے ہر ایک کے لیے دعا کرتا ہے تو اس بندے کا دل بڑا ہوتا ہے اور بندے کے دل کا بڑا ہونا سب سے عظیم کام ہے۔ اللہ رب العزت جب دیکھتا ہے کہ میرا یہ بندہ دوسرے بندوں کا سوچتا ہے، تو وہ اسے اور زیادہ عطا کرتا ہے۔ پس بندے کا دل جتنا بڑا اور وسیع ہوجائے گا، اللہ اسی قدر اس پر عظیم رحمتیں نازل کرتا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ یہ میرے دوسرے بندوں کا سوچتا ہے۔ ۔ ۔ اس نے میرے بندوں کا فکر کیا۔ ۔ ۔ لہذا میں رب ہوکر اسے اور زیادہ عطا کرتا ہوں۔ اس طرح اللہ سے تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ہم اللہ کی مخلوق کے لیے جتنا اچھا سوچتے ہیں، اللہ ہمارے لیے اتنا اچھا کرتا ہے۔ جب ہم زندگی کے ہر لمحہ میں اور ہر قدم پر اس کی مخلوق کی فکر کریں گے، اللہ ہمارے ہر معاملہ میں خیر کردے گا۔
نیک صحبت میں بقا ہے
صراطِ مستقیم کی ہدایت کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے سیدھی راہ کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: صراط الذین انعمت علیہم (جو تیرے انعام یافتہ لوگ ہیں ان کے راستے پر چلا۔ ) جن پر اللہ نے اپنی نعمتیں اور اپنا لطف کیا، وہ لوگ انعام یافتہ ہیں۔ گویا اس آیت میں اللہ نے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ جڑ جانے کا حکم دیا۔ جب بندہ تحریک منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے یا کوئی اور اجتماعی نیک کام دنیا میں کرتا ہے تو اس سے جڑنے کا فائدہ یہ ہے کہ اجتماعی فکر پیدا ہوتی ہے، ’’میں‘‘یعنی انفرادی سوچ سے بندہ باہر نکل آتا ہے، دوسرے سے اچھائی کا سوچتا ہے، اپنی اولاد،فیملی، اعزاء و اقارب اور دوستوں کی بھلائی کا سوچتا ہے۔ گویا سوچ کو تنگ دائرے سے نکال کر بڑے دائرے میں لے جانا، انعام یافتہ بندوں کا طریق ہے۔ جب ان انعام یافتہ لوگوں سے جڑے رہیں گے، ان کی راہ پر چلیں گے تو پھر شیطان کے حملوں کا دفاع کرسکیں گے۔
اگر کسی بھی اجتماعی سوچ کے ساتھ مستقل اور باقاعدگی کے ساتھ نہیں جڑتے بلکہ تنہا رہتے ہیں، خواہ وہ مسجد ہے، دینی ادارہ یا کوئی تنظیم ہے تو ہم صرف ایک انسان ہیں اور شیطان کسی بھی وقت ہمیں ورغلا سکتا ہے اور سیدھے راستے سے ہٹا سکتا ہے۔ ہمارے تین دشمن ہیں: دنیا، نفس اور شیطان۔ ان میں سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ دنیا کی تمام بری صحبتیں (Companies) ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ نفس امارہ ہر وقت ہمیں بری چیزوں کی طرف دھکیلتا اور گناہ کی رغبت دلاتا ہے۔ حتی کہ ہم اکیلے ان تین بڑے دشمنوں سے اپنے ایمان اور عقیدے کا تحفظ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنی اولاد اور نسلوں کا دفاع کرسکتے ہیں۔
ہمیں اپنے ایمان اور اولاد کے ایمان کے تحفظ کے لیے اجتماعیت کا حصہ بننا ہوگا۔ اگر ہم خود کو اِن شیاطین سے بچانے میں کامیاب ہوبھی گئے تو اولاد کو نہ بچا پائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ پہلی نسل کو بچالیں گے مگر اگلی نسل ان کے حملوں کی زد میں آجائے گی۔ آج کے زمانے میں اولاد اور نسلوں کے روحانی معاملات کا تحفظ تنہا رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لیے اجتماعیت کی طرف مستقل اور باقاعدگی کے ساتھ رجوع کرنا پڑے گا کیونکہ اجتماعیت ہمیں تحفظ دیتی ہے۔ مثلاً: وہ مسجد، مدرسہ، تنظیم اور ادارہ جہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ذکر ہوتا ہے، تعلیم دی جاتی ہے، ہر وقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے پیغام کو دہرایا جاتا ہے، جب مسلسل ایسی سرگرمیوں (activities) کا حصہ رہیں گے، ذمہ داری کے ساتھ ہدایات سن کر دوسروں تک پہنچائیں گے تو یہ امور ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمان کے تحفظ کا قلعہ بن جائیں گے۔ اس لیے ’’صراط الذین انعمت علیھم‘‘ کا حکم ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کی صحبت سے جڑ جائیں، ان سے فیوضات و برکات حاصل کریں اور ان کی گفتگو، کتب اور تعلیمات کو سن اور پڑھ کر اللہ سے تعلق قائم کریں۔
یہی سرگرمیاں (activities) ہمارے ایمان کی حفاظت کریں گی، اجتماعیت کا حصول تحفظ کا حصول ہے۔ انعام یافتہ لوگوں سے تعلق قائم کرنا ہمارے دین کی حفاظت (protection) ہے۔ جبکہ تنہائی (isolation) کا مطلب ہے کہ ہم شیطان کے حملے کا نشانہ بن گئے اور ایمان غیر محفوظ ہوگیا۔ انعام یافتہ لوگوں سے منقطع اور لاتعلق (disconnect) رہ کر کبھی ہم خود کو اور اپنی اولاد کو نہیں بچا سکتے۔
وہ خاندان جو بچوں کو چھوٹی عمر سے مسجد، ادارے، مرکز، دینی حلقے میں تعلیم و تربیت کے لیے نہیں لے جاتے تو وہ بچے بڑے ہوکر بگڑ جاتے ہیں۔ پھر والدین روتے ہیں کہ بچے ہماری بات نہیں مانتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان بچوں کو کچھ سمجھانے کا وقت تھا تو وہ وقت ہم نے ضائع کردیا۔ لہذا بچوں کے سمجھدار ہونے سے پہلے ان کا مسجد سے تعلق جوڑیں، ان کے اندر دین سے محبت پیدا کریں تاکہ دین ان کی فطری حاجت بن جائے۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ کا مطلب ہے اللہ کی نعمتیں جہاں ملتی ہیں، اس سے جڑ جائیں۔ مسجد ، اداروں ، دینی مدرسوں ، علمی اور روحانی تربیت کی مجالس سے برکتیں اور نعمتیں ملتی ہیں، لہذا ان سے جڑے رہنے میں ہی ایمان کی حفاظت ہے۔
صحبتِ بد سے اجتناب
پھر فرمایا:
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ.
یعنی جہاں اللہ کا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے، ان سے دور ہوجائیں، ان کی صحبت چھوڑ دیں۔ خواہ وہ دوست ہیں، کلاس فیلوز ہیں، جاب فیلوز ہیں، ان کی صحبت چھوڑ دیں اور ان کے پاس نہ جائیں۔ وہ ہمارے ایمان کو برباد کردیں گے۔ ۔ ۔ اللہ کی رحمتوں، نعمتوں اور ہدایت سے ہمیں دورکردیں گے۔ ۔ ۔ یاد رکھیں! دو چیزیں اکٹھی نہیں چل سکتیں، جیسے ایک ہی وقت میں مشرق اور مغرب کا سفر ناممکن ہے ، جس طرح دن اور رات، سردیوں اور گرمیوں کا موسم ایک وقت میں نہیں ہوتا۔ اسی طرح رحمٰن اور شیطان دونوں کے راستے پر بیک وقت چلنا ناممکن ہے۔ لہذا ایک راستہ لینا پڑے گا اور وہ راستہ وہ ہے جو اللہ، اس کے رسول ﷺ اور انعام یافتہ لوگوں کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان کی طرف جانے والے راستہ کو ترک کرنا ہوگا۔ نیکی اور گناہ ایک جگہ جمع نہیں ہوتے۔ نیکی کی طرف جائیں گے یا برائی کی طرف۔ لہذا جہاں سے نیکی کا سبق ملتا ہے، نیکی کی حرارت ملتی ہے، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا سبق ملتا ہے، اس سے جڑیں، اپنی اولاد کو جوڑیں، یہی تعلق ہمارے ایمان کا تحفظ کرے گا۔ اسی لیے فرمایا کہ ان لوگوں کی صحبت میں نہ جاؤ جو اللہ کی ناراضگی کا شکار ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں مذکور یہ پیرامیٹرز وہ ذمہ داریاں ہیں، جو بطورِ مومن اور مسلمان ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ اس بات کو اللہ رب العزت نے ایک اور مقام پر یوں بیان فرمایا:
قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا.
(التحریم، 66: 6)
’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ۔ ‘‘
صرف نیکی کی بنیاد پر خود کو دوزخ سے بچالیا مگر بچوں کو نہ بچاسکے تو کام پورا نہیں ہوگا بلکہ پکڑے جائیں گے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے اہل و عیال کو بھی دوزخ سے بچاؤ۔
اسلام کیا ہے؟
اسلام درحقیقت اپنے آپ کو اللہ کے سپرد (submission) کردینے کا نام ہے۔ اپنی خواہشات، choice، ideas، thoughts، ترجیحات الغرض ہر وہ چیز جس کے بارے میں ہم سوچ اور خیال رکھتے ہیں وہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سپرد کردینا اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ذریعے دل و دماغ، خیالات، خواہشات، نظریات (ideas)، مزاج اور رویے خالص ہوجاتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں خود سپردگی اور خلوص زندگی تبدیل کردینے کا باعث بنتا ہے۔
جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرلیتے ہیں تو ان کا اجر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن اپنی صحبت عطا فرمائے گا۔ اس لیے اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی وفاداری، تابعداری، اطاعت و فرمانبرداری والی زندگی گزاریں۔ اللہ کی بارگاہ میں اس کی محبت کے حصول کا دارومدار اس چیز پر ہوگا کہ بندے نے کتنی پاکیزہ اور خالص زندگی گزاری تھی۔ اس کی زندگی کا ہر عمل خواہ وہ نظر آنے والا ہے یا پوشیدہ، وہ وہاں ظاہر ہوجائے ہوگا۔ یہاں جس معیار کی نیکی کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے مطابق جنت میں ہمیں صحبت عطا فرمائے گا۔ اللہ کی بارگاہ سے جنت میں ملنے والی صحبتیں چار طرح کی ہوں گی۔ فرمایا:
فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ.
(النساء، 4: 69)
’’تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ ‘‘
ہم اپنی زندگی کو جتنا خالص کریں گے اور نیکی کو حاصل کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس نیکی کے مطابق انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین میں سے کس ایک صحبت کا ہمارے لیے فیصلہ کرے گا۔ یہ ہماری کوشش اورمحنت پر منحصر ہے۔ یہ چار صحبتیں انہیں ملیں گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سچے وفادار اور تابعدار ہوں گے۔
منہاج القرآن کا مشن کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے ان چار صحبتوں کو ذکر کرکے آخر میں فرمایا:
وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا.
(النساء، 4: 69)
’’اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ ‘‘
منہاج القرآن کی رفاقت کا تصور اسی آیت کریمہ سے لیا گیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچھے رفیق کیسے بنیں گے؟ یاد رکھیں! رفیق بننا صرف فارم پر کرنا یا کسی جماعت سے رسمی وابستگی قائم کرنا نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہماری رفاقت، مریدی اور سنگت میں آجاؤ پھر بیڑا ہی پار ہے اور کسی قسم کی فکر ہی نہیں۔ ممکن ہے کوئی ایسی سوچ رکھتا ہو مگر منہاج القرآن کی یہ سوچ اور فکر نہیں ہے۔ یاد رکھیں! اگر اس راستے پر سچائی کے ساتھ نہیں چلیں گے تو کوئی ہمیں تھام نہیں سکتا۔ یہ اللہ کا واضح فیصلہ ہے لیکن اگر اس رفاقت کے حقوق ادا کردیں جو اللہ نے بیان کیے ہیں تو بہت سی شفاعتیں کام آئیں گی۔ قیامت کے دن پھر بہت سے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور اگر اس حق کو ادا نہیں کریں گے تو کوئی کام نہیں آئے گا۔ اس کے برعکس کوئی کچھ اور کہتا ہے تو وہ درست بات نہیں ہے۔
یاد رکھیں! منہاج القرآن کی رفاقت اس وقت تک کام نہیں آئے گی جب تک منہاج القرآن کے بتائے ہوئے کام پر عمل نہیں کریں گے اور وہ کام اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی سچی غلامی ہے۔ ۔ ۔ زندگی کو گناہوں سے پاک کرنا۔ ۔ ۔ اور اللہ کے احکامات کی اطاعت کرنا ہے۔ یہی منہاج القرآن کا پیغام ہے۔ منہاج القرآن بنایا ہی اس لیے ہے کہ جو لوگ بھول گئے ہیں ان کو یاد کرایا جائے۔ ۔ ۔ اورجو بھٹک گئے ہیں انھیں سیدھی راہ پر چلایا جائے۔ ۔ ۔ جو سیکھ گئے اور سمجھ گئے ہیں، ان کو مزید آگے بڑھایا جائے۔ یہ انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر منہاج القرآن کے مقاصد ہیں۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جو بھی نیکی کے کام ہوں اور نیکی پر ڈالنے والے مشن ہوں، ان سے جڑ جائیں۔ انسانوں کی آپس میں ناراضگیاں او ر رنجشیں ہوتی ہیں، یہ انسانی معاملہ ہے مگر کتنی نادانی ہے کہ آپس کی ناراضگی کی وجہ سے ہم خیر کے امور، دین کی خدمت اور دوسروں کی بھلائی کے کاموں سے محروم ہوجائیں۔ ایسا کرنا اپنے آپ پر بڑا ظلم ہے۔ لہذا ذاتی رنجشوں کو کبھی فوقیت نہ دیں بلکہ بھلا دیں اور ان معاملات کو بھلانے کا طریقہ یہ ہے کہ خود سے جدا ہوجائیں اور اللہ سے تعلق قائم کرلیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دینِ مبین پر استقامت عطا فرمائے اور اسلامی تعلیمات پر دل و جاں سے عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ