قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تربیتِ نفوس کو قرار دیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے مکہ اور مدینہ میں معروضی حالات و واقعات کے مطابق افرادِ معاشرہ کی تربیت کی۔ آپ ﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں عرب کے صحرا نشین، ایران و روم کی سلطنتوں کے وارث اور علوم و فنون میں دنیا بھرکے امام بن گئے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ اور آپ ﷺ کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تعلیم و تربیت کا عمل ہمہ وقت، ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کوئی لمحہ ایسا نظر نہیں آتا جب دونوں میں سے کسی ایک پہلو سے بھی غفلت برتی گئی ہو۔ دراصل یہی آپ ﷺ کی تعلیمات کی جامعیت و کاملیت ہے۔
تربیت سے مراد انسانی قوی کی نشوونما، افکار و عقائد کی اصلاح، اخلاقِ حسنہ کو پروان چڑھانا اور اخلاقِ رذیلہ کو اپنے اندر سے نکالنا ہے۔ اس کا تعلق بندے کے ظاہری اعمال کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی اعمال سے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے جب بھی کسی مذہب یا شخصیت کے حوالے سے نظامِ تربیت پر گفتگو ہوگی تو اس سے مراد ظاہری و باطنی دونوں اعمال کا صراط مستقیم اور صحیح خطوط پر استوار کرنا ہی ہوگا۔ قرآن و حدیث میں تربیت کے لیے زیادہ تر تزکیہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
تربیتِ نفس اور تشکیلِ سیرت کے مناہج و مبادیات
حضور نبی اکرم ﷺ نے انسانوں کے طرزِ زندگی کو سنوارنے، ان کے نفوس کی تربیت اور شخصیت کی تعمیر و تہذیب کے لیے کچھ مبادیات ارشاد فرمائے۔ ان مبادیات کو عصرِ حاضر کے ماہرین ِ نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر افراد کی تعلیم و تعلم اور تربیت کے لیے ان مبادی کا استعمال کیا جائے تو سیکھنے کا عمل بہت آسان بھی ہوجاتا ہے اور تیزی سے انجام بھی پاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نفسیاتی تربیت، تعمیرِ سیرت اور شخصیت سازی کے لیے ان مبادی کو استعمال کیا ہے۔ یہاں ان مبادی کا اجمالی تعارف کرایا جارہاہے:
(1) جذبۂ محرک ابھارنا
تعلیم و تربیت کے عمل میں ’’محرک‘‘ بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان اور حیوان اسی وقت سیکھتے ہیں جب ان کے سامنے ایسا مسئلہ آئے جو ان میں اس مسئلہ کو حل کرنے کی تحریک پیدا کرے۔ انسانوں میں تربیت اور تعلم کے جذبہ کو ابھارنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں جن میں زیادہ تر ترغیب و ترہیب اور قصص کی مدد لی جاسکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایمانیات، عبادات، اوامر کی ادائیگی اور منھیات و محرمات سے اجتناب کے لیے ترغیب و ترہیب سے بطورِ محرک مدد لی ہے۔ دعوتِ اسلام کے ابتدائی مرحلہ میں عقیدۂ توحید کی دعوت اور شرک کی مذمت کے لیے کئی ایسی احادیث ہیں جن میں فقط کلمۂ توحید پر نجات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسلام قبول کرنے اور عقیدۂ توحید اختیار کرنے کی فضیلت بتاتے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لایدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال حبة من خردل من کبر ولا یدخل النار من کان فی قلبہ مثقال حبة من ایمان.
(ترمذی، السنن، ج: 4، ص: 360، رقم: 1998)
’’ وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا اور وہ شخص جہنم میں نہیں داخل ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا۔‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دفعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے سوال کیا کہ کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق بندوں پر کیا ہے اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر کیا ہے؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتا ہے تو اس پر حضور ﷺ نے فرمایا:
فان حقه علیھم ان یعبدوه ولا یشرکوا به شیئا قال اتدری ماحقهم علیه اذا فعلوا ذلک قلت الله ورسوله اعلم قال ان لا یعذبهم.
(ترمذی، السنن، ج: 5، ص: 26، رقم: 2643)
’’اللہ کا حق ا س کے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟ جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ ان کو عذاب نہ دے۔‘‘
اسی طرح ایک شخص بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! دو واجب کرنے والی چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کا انتقال اس شکل میں ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا تو جنت اس پر واجب ہے اور جس شخص کا انتقال شرک کی حالت میں ہوا، تو جہنم اس پر واجب ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نفسیاتی تربیت کے لیے قصص سے مدد لیتے ہوئے ان میں دلچسپی پیدا کی۔ ان قصوں کے ذریعے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت کرنے، محتاجوں سے تعاون کرنے اور مظلوموں کی امداد کرنے کی تعلیم دی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں لوگوں سے درگزر کرنے کا قصہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے غلام سے کہتا تھا کہ جب تم کسی تنگدست کے پاس قرض وصول کرنے جاؤ تو:
فتجاوز عنه لعل الله ان یتجاوز عنا قال: فلقی الله فتجاوز عنه.
(بخاری، الصحیح، 3: 1283، رقم: 3293)
’’اس سے درگزر کیا کرو، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے درگرز فرمائے۔ چنانچہ جب وہ شخص اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔‘‘
حیوانات سے شفقت و رحمت سے پیش آنے کے حوالے سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک شخص راستہ میں چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا، جہاں اس نے ایک کتے کو پیاس سے گیلی مٹی چاٹتے دیکھا۔ اس شخص نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس نے نڈھال کردیا ہے۔ وہ کنویں میں اترا، اپنے موزے میں پانی بھرا اور اسے اپنے منہ میں پکڑ کر اوپر چڑھا اور کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول فرمالیا اور اس کی مغفرت فرمادی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ قصہ سن کر عرض کیا: کیا چوپایوں کی مدد میں بھی ہمیں اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر جاندار کو آرام پہنچانے میں اجر ہے۔
احادیث میں قصص اس لیے بیان کیے جاتے کہ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ قصوں کو غور سے سنتا ہے اور ان سے سبق حاصل کرتا ہے۔ نصیحت و عبرت اور لوگوں کی نفسیاتی تربیت کے لیے قصص و کہانیاں انتہائی موثر طریقہ سے محرک کا کردار ادا کرتی ہیں۔
(2) حوصلہ افزائی اور تحسین
حضور نبی اکرم ﷺ ، افراد کے مزاج، فطرت اور نفسیات سے سب سے زیادہ باخبر تھے۔ فرد کو سرگرم عمل کرنے یا حصولِ مقصد کے لیے جس طرح ’’محرک‘‘ اہم کردار ہے، اسی طرح انسانی کاموں کو قوت پہنچانے اور ان میں مداومت پیدا کرنے میں معاوضہ، حوصلہ افزائی اور تحسین کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اچھے طرزِ زندگی کو استحکام بخشنے کے لیے معاوضہ ادا کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ آپ کا ارشاد گرامی ہے:
اعطوا الاجیر اجره قبل ان یجف عرقه.
(ابن ماجہ، السنن، 2: 817، رقم: 2443)
’’مزدور کی مزدوری، اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے آجروں کو نصیحت کی کہ وہ مزدور سے کام کرانے سے قبل اس کی اجرت طے کرلیں تاکہ اس میں کام کرنے کا شوق ابھرے۔ آپ ﷺ کے ایک ارشاد گرامی کے مطابق جو شخص کسی مزدور کو اجرت پر رکھنا چاہے تو اسے پہلے ہی سے اجرت سے آگاہ کردینا چاہیے۔ یہ اس لیے کہ اس میں محنت کرنے کی ترغیب پیدا ہوسکے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اچھے اعمال انجام دیتے، ان پر سرکارِ دو جہاں ﷺ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ صحابہ میں جو اچھی صفات ہوتیں، ان کا ذکر قدر اور عزت کے ساتھ کرکے انہیں قوت پہنچاتے۔ یہ تعریف اور قدر دانی ان کے لیے مالی معاوضہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی۔ دور اول کے مسلمان مربیوں نے تعلیماتِ نبویہ کی روشنی میں یہ ہدایت کی کہ بچہ کی تعلیم و تربیت میں تعریف اور ہمت افزائی سے کام لیا جائے اور زدو کوب کے ذریعہ سزا دینے سے منع فرمایا۔ سوائے ان نادر حالات کے جن میں اصلاح کی تمام دوسری کوششیں ناکام ہوجانے کی وجہ سے مارنا ضروری ہوگیا ہو۔
(3) توجہ کا ارتکاز
تربیت میں توجہ ایک مفید اور مؤثر مبادی ہے۔ توجہ مبذول کرانے کے لیے معلمین اور مربیین مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں روزمرہ کے واقعات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ سوالات کرکے بھی سامعین کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ امثال اور توضیحی نقشوں سے بھی اس سلسلہ میں مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ ﷺ دوسروں کی توجہ کے ارتکازکے لیے ان تمام طرق کو اختیار فرماتے۔
1۔ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ بازار سے گزرے تو آپ نے بکری کے ایک مردہ میمنے کو دیکھا، جس سے لوگ کراہت کررہے تھے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی اسے ایک درہم میں خریدے گا مگر کوئی صحابی تیار نہ ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ بے قیمت ہے جتنا یہ مردہ میمنا تمہارے نزدیک بے قیمت ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، ص: 661، رقم الحدیث: 2321)
2۔ سوالات بھی توجہ منعطف کرنے کے لیے مؤثر اور کارآمد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی طرح احادیث میں بھی یہ اسلوب مذکور ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مہینہ، دن اور شہر کے متعلق سوال کیا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ جانتا ہے۔ آپ ﷺ ان تینوں سوالات کے جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شهرکم هذا.
(ترمذی، السنن، ج: 4، ص: 461، رقم: 2159)
’’بے شک تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری آبرو تم پر اسی طرح حرام ہے، جس طرح آج کے دن کی حرمت اور اس مہینہ کی حرمت تمھارے اس شہر میں برقرار ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کے ان سوالات کا مقصد، جن کے جوابات تمام لوگوں کو معلوم تھے، حاضرین کو پوری طرح متوجہ کرنا اور آئندہ جو بات کہی جائے گی، اسے سننے اور سمجھنے کے لے سب کے ذہنوں کو مستحضر کرنا تھا۔ یہ بات مسلم ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر سرکارِ دوجہاں ﷺ کے یہ سوالات، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو وصایا کرنے میں بڑے مؤثر ثابت ہوئے۔ ہر سوال کے بعد سیدالعالمین ﷺ کا خاموش و ساکت رکھنا، صحابہ کے شوق کو جواب کے لیے ابھارنا اور ان کی توجہ منعطف کرانے کے لیے تھا۔
3۔ سامعین کی توجہ منعطف کرانے کے لیے امثال کا استعمال بھی مؤثر اور معاون ہوتا ہے۔ اس طرح مجرد معانی محسوس صورتوں کی طرح پیش کیے جاتے ہیں تاکہ معانی قریب الفہم ہوجائیں۔ سیرت النبی ﷺ میں اس کی متعدد مثالیں اورنظائر ملتے ہیں۔ احادیث نبوی میں تشبیہات واستعارات کے ذریعے مفاہیم و معانی سمجھائے گئے۔ یہ تشبیہات اور امثلہ سامعین کی تربیت اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر میں معاون ثابت ہوئیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مثل ما بعثنی الله به من الھدی والعلم کمثل الغیث الکثیر اصاب ارضا فکان منھا نقیة قبلت الماء فانبتت الکلاء والعشب الکثیر وکانت منھا اجادب امسکت الماء فنفع الله بھا الناس فشربوا وسقوا وزرعوا واصابت منھا طائفة اخری انما ھی قیعان لا تمسک ماء ولا تنبت کلاء فذلک مثل من فقه فی دین الله ونفعه مابعثنی الله به فعلم وعلم ومثل من لم یرفع بذلک راسا ولم یقبل هدی الله الذی ارسلت به.
(بخاری، الصحیح، 1: 42، رقم:79)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ مبعوث فرمایا، اس کی مثال اس بارش جیسی ہے جو کسی جگہ برسی، زمین کے اچھے خاصے حصے نے پانی جذب کیا اور وہاں خوب سبزہ اگایا اور گھاس اگی۔ اور کچھ زمین بنجر تھی وہاں پانی جمع ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے لوگوں کو نفع پہنچایا۔ وہاں سے لوگوں نے پانی پیا۔ جانوروں کو پلایا اور سینچائی کی۔ اور کچھ ناہموار چٹیل میدان کی شکل میں تھی۔ جہاں نہ پانی رکتا ہے اور نہ گھاس اگتی ہے۔ (یہاں) یہ اس شخص کی مثال ہے جس کو دین میں تفقہ حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے میری بعثت سے اسے فائدہ پہنچایا، چنانچہ اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کی طرف توجہ نہیں کی اور جس ہدایت کو دے کر مجھے مبعوث کیا گیا ہے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں علم و ہدایت کو مفید بارش سے تشبیہ دی اور اس شخص کو جو اس ہدایت سے نفع اٹھائے اسے اچھی زمین سے تشبیہ دی اور نفع نہ اٹھانے والوں کو سخت زمین کی مانند قرار دیا گیا۔ علم و ہدایت سے دلوں میں اسی طرح زندگی آتی ہے جس طرح بارش سے زمین زندہ ہوکر سرسبز ہوجاتی ہے۔ ہدایت سے نفع اٹھانے والے، اچھی زمین کی مانند اور نفع نہ اٹھانے والے سخت زمین کی مانند قرار دیئے گئے۔ اسی طرح وہ لوگ جنھوں نے نبوی ہدایت نہ سیکھیں اور نہ ان پر عمل کیا، انہیں سیدالعالمین ﷺ نے اس ناہموار چٹیل زمین سے تشبیہ دی، جہاں پانی رکتا ہے اور نہ گھاس اور سبزہ اگتا ہے۔ یہ سب سے بدتر لوگ ہیں جو کسی کو نفع پہنچاتے ہیں اور نہ خود نفع اٹھاتے ہیں۔
(4) تربیتی عمل میں تدریج
انسان کی تعلیم و تربیت اور اس کی کردار سازی کے لیے تدریج ایک اہم عنصر ہے۔ فرد میں بری عادات کو ختم کرنے اور اچھی عادات سکھانے کے لیے تدریج سے کام لینا انسانی نفسیات کامتقاضی ہے۔ قرآن حکیم نے اسی اصول کے تحت شراب اور سود کی ممانعت اچانک نازل نہیں کی بلکہ تدریجی عمل کے ذریعے اسے ختم کیا۔
انسانی نفسیات کے سب سے بڑے ماہر، رسول اللہ ﷺ ، دعوتِ اسلام کے پہلے مرحلہ میں لوگوں کو عقیدۂ توحید اختیار کرنے اور بتوں کی پرستش ترک کرنے کی طرف بلاتے تھے۔ بنیادی طور پر آپ ﷺ کی توجہ اس بات کی تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں ایمان کی بنیاد مستحکم کی جائے۔ انہیں نفسیاتی اور روحانی طور پر اسلام کے پیغام کی نشرو اشاعت کے لیے جدوجہد کے لیے تیار کیا۔ جب ان کے دلوں میں ایمان مضبوط ہوگیا تو اس کے بعد دوسرے بہت سے موضوعات کو چھیڑا جو سماج کی تنظیم اور معاملاتِ معاشرہ کو منظم کرنے کے لیے ضروری تھے۔
مدینہ کے گردونواح سے جب مختلف دیہاتی لوگ بارگاہِ نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر اسلام کے بارے میں سوالات کرتے تو آپ ﷺ ان سے صرف اسلام کے بنیادی ارکان و واجبات کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے تاکہ انہیں بوجھ محسوس نہ ہو۔ اس لیے کہ جب ان کے دلوں میں اسلام جڑ پکڑ لے گا اور ان کے سینے اسلام کے لیے کھل جائیں گے تو وہ لوگ خود بخود مستحبات کے لیے تیار ہوجائیں گے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل روایت نمونہ کے طور پر ذکر کی جاتی ہے جس سے تدریج کے اصول کی وضاحت ہوجائے گی:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک اعرابی نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ ! مجھے ایسا کام بتائیں کہ جب میں وہ کام کرلوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
تعبد اللہ و لا تشرک به شیئا وتقیم الصلاة لمکتوبة وتودی الزکاة المفروضة وتصوم رمضان قال والذی نفسی بیده لا ازید علی ھذا فلما ولی قال النبی ﷺ من سره ان ینظر الی رجل من اھل الجنة فلینظر الی ھذا.
(بخاری، الصحیح، 2: 506، رقم: 1333)
’’اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، پابندی سے نماز پڑھو، فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس اعرابی نے عرض کی: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اس میں کمی بیشی نہیں کروں گا۔ جب وہ شخص چلا گیا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ نو مسلموں کو اسلام میں داخل کرنے کے بعد انہیں صرف بنیادی فرائض سکھائے جانے میں حکمت یہ تھی کہ ان کے دلوں میں ایمان کی جڑیں مستحکم ہوجائیں، جب ان کے دلوں میں ایمان مستحکم ہوجائے گا، تو یہ خود ان کے لیے بہت سے مستحبات اور نیک اعمال سے واقف ہونے کا قوی محرک ہوگا۔
(5) اختلافِ طبائع کی رعایت
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔ ہر مٹی کی خاصیت جدا جدا ہے۔ جس طرح انسان رنگ کے اعتبار سے مختلف ہے، اسی طرح مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے بھی لوگوں میں تفاوت ہے۔ کوئی نرم مزاج ہے تو کوئی سخت مزاج۔۔۔ کوئی پاک طینت ہے تو کوئی بدطینت۔۔۔ گویا لوگوں کے رنگ و آہنگ اور طبائع و اخلاق کے اعتبار سے ان کے مختلف فرق اور گروہ ہیں۔ ان میں مزاجی خصوصیات اور اثر پذیری کی صلاحیتوں میں بھی اختلاف ہے۔ کچھ طبائع اثر جلد قبول کرلیتی ہیں اور کچھ بڑی دیر کےبعد۔ لوگوں کے اس طبعی اختلاف کے متعلق حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث میں رہنمائی ملتی ہے۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الناس معادن خیارهم فی الجاهلیة خیارهم فی الاسلام اذا فقھوا.
(بخاری، الصحیح، 3: 1238، رقم: 3203)
’’لوگ سونے اور چاندی کی کانوں کی مانند ہیں۔ پس زمانہ جاہلیت میں جو سب سے بہتر تھا وہ اسلام میں بھی بہتر ہوگا۔ بشرطیکہ وہ دین کا فہم حاصل کرے۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوا کہ جس طرح سونے، چاندی اور دیگر اشیاء کی کانوں کی طبعی خصوصیات مختلف ہوا کرتی ہیں، اسی طرح انسانوں کے طبائع، اخلاق و عادات اور جسمانی و عقلی صلاحیتوں میں بھی فرق ہوتا ہے۔ جو شخص زمانہ جاہلیت میں ان صفات سے آراستہ تھا، وہ دین اسلام میں داخل ہوکر اور دین میں تفقہ پیدا کرکے اپنے اس بلند اور پسندیدہ معیار کو باقی رکھ سکتا ہے۔ اس طبعی فرق کی بناء پر حضور نبی اکرم ﷺ جب اوامر و نواہی کی تعلیم دیتے تو صحابہ کے درمیان اس طبعی فرق کی رعایت کرتے ہوئے انہیں حسبِ استطاعت بجا آوری کی ہدایت فرماتے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کو مردم شناسی میں بہت کمال حاصل تھا۔ آپ مخاطبین کے مزاج، فطری صلاحیت اور طبیعت کا گہرا مطالعہ کرتے اور ان کے مزاج اور نفسیات کے مطابق ان کی تربیت فرماتے۔کتب احادیث میں کئی ایسے واقعات درج ہیں کہ آپ ﷺ سے مختلف افراد نے مختلف اوقات میں ایک ہی سوال کیا لیکن آپ نے سائل کے سماجی اور نفسیاتی پس منظر کے مطابق مختلف جواب ارشاد فرمائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اکرم ﷺ سے اطاعت و فرمانبرداری پر بیعت کرتے تھے تو آپ ﷺ ہم سے فرماتے: حسبِ استطاعت۔ لوگوں کی عقل اور ذہانتوں میں فرق کی رعایت حضور نبی اکرم ﷺ کے اس ارشاد میں ملتی جسے امام مسلم نے اپنی الجامع کے مقدمہ میں لکھا ہے۔ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا:
امرنا رسول اللہ ﷺ ان ننزل الناس منازلهم.
(مسلم، الصحیح، 1: 6)
’’ہم انبیاء کی جماعت کو اس بات کا حکم ملا ہے کہ لوگوں کو ان کے مقام ومرتبہ کے مطابق ٹھہرائیں (اور گفتگو کریں)۔‘‘
اس حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ایک اہم قاعدہ بیان فرمایا ہے، جسے آج کے دور کے ماہرینِ تعلیم و تربیت بھی تسلیم کرتے ہیں اور باقاعدہ اختیار کرکے اچھے نتائج پیدا کرتے ہیں۔
قاعدہ یہ ہے کہ ہر فرد سے گفتگو، اس کی عقلی صلاحیت کے معیار سے ہو۔ لوگوں کی تعلیم و تربیت اور تہذیب و ثقافت میں مربین و معلمین افراد کی ذہنی و عقلی صلاحیتوں کی رعایت کریں۔ لوگوں کے انفعالی مزاج اور کیفیات کے اختلاف کی بنیاد پر حضور ﷺ نے ان کی تین اقسام بیان کی ہیں۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الا وان منهم البطیٔ الغضب سریع الفیٔ ومنهم سریع الغضب سریع الفیٔ فتلک بتلک الا وان منهم سریع الغضب بطیٔ الفیٔ الا وخیرهم بطیٔ الغضب سریع الفیٔ الا وشرهم سریع الغضب بطیٔ الفیٔ.
(ترمذی، السنن، 4: 484، رقم: 2191)
’’کچھ لوگوں کو دیر سے غصہ آتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔ کچھ لوگوں کو جلد غصہ آتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔ جلد غصہ آنے کی تلافی جلد ختم ہوجانے سے ہوجاتی ہے۔ اور سنو کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ختم ہوتا ہے۔ تو دیکھو سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جنہیں دیر میں غصہ آتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے اور سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہیں غصہ جلد آتا ہے اور ختم دیر سے ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے انسانوں میں شخصی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے۔ ان خصوصیات کی تشکیل میں ماحول اور تعلیم و تربیت اثر انداز ہوتی ہے۔ انسانی کردار اور اس کے خدوخال کی تشکیل میں ماحول اور وراثت دونوں کے اثرات مسلمہ ہیں۔ بچہ کی شخصیت پر اس کے والدین بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کے دوست احباب، اساتذہ اور ادارہ بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سارے امور سے اس کی شخصیت تشکیل پائے گی۔ ان سب امور کی طرف احادیثِ نبویہ میں واضح اشارات ملتے ہیں۔
آپ ﷺ اپنے متعلقین کے جذبات کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ اگر جذبات میں سرد مہری ہوتی تو حکمت کے ساتھ ان میں گرم جوشی پیدا فرماتے۔ اگر جذبات میں اشتعال محسوس کرتے تو عملاً کوئی ایسی روش اختیار کرتے جس سے وہ سکون میں آجاتے۔ غزوہ حنین کے موقع پر مالِ غنیمت کی تقسیم کے بعد انصار کو دیا جانے والا خطبہ اور صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جذبات کو صحیح رخ دینا آپ ﷺ کے تربیتی منہج کے مذکورہ بالا پہلو کی عمدہ مثالیں ہیں۔ محسنِ انسانیت کا یہ طرزِ عمل اپناکر ہر مربی بہتر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
(6) موقع و محل کی رعایت
حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت کے لیے ہمیشہ بہتر مواقع کی تلاش میں رہتے۔ جب بھی معلم انسانیت ﷺ کو موقع ملتا آپ ﷺ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے متعلقین کی تربیت فرماتے۔ صحیح بخاری و مسلم کی ایک مشہور روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی:
متی الساعة یارسول اللہ ﷺ؟
’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! قیامت کب آئے گی؟‘‘
ظاہری طور پر یہ ایک عام سا سوال تھا جو کسی کے ذہن میں آسکتا تھا، اس کا جواب سادہ انداز سے دیا جاسکتا تھا۔ مگر جب آپ نے یہ دیکھا کہ ایک شخص پر قیامت کی فکر طاری ہے تو آپ ﷺ نے جواب دینے کی بجائے اس سے سوال کیا:
ماذا اعددت لها؟
تو نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
اس سوال کے ذریعے آپ نے سائل کو احتسابی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ اس سوال کے ذریعے آپ نے سائل کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کی کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ قیامت کے لیے ہم نے کیا تیاری کی ہے؟ جب اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کا ذکر کیا تو آپ ﷺ خوش ہوگئے اور آپ نے فرمایا:
انت مع من احببت.
(طبرانی، المعجم الاوسط، 1: 40، رقم: 107)
’’تو نے جس سے محبت کی، تم اسی کے ساتھ رہو گے۔‘‘
انسانی تربیت کے نبوی اسلوب کا بنیادی امتیاز
احادیثِ نبویہ کے مطالعہ سے انسانی تربیت کا جو منہج واضح ہوتا ہے اس میں انسان کے مادی اور روحانی پہلوؤں میں توازن اور اس کی شخصیت کی متوازن تشکیل ہوتی ہے۔ نبوی طریقِ تربیت کے تین اسالیب ہیں:
1۔ روحانی پہلوؤں کو قوت پہنچانے والا اسلوب
2۔ جسمانی پہلوؤں کو کنٹرول کرنے والا اسلوب
3۔ نفسیاتی صحت کے لیے ضروری خصائل و عادات کی تعلیم کا اسلوب
جہاں تک پہلے اسلوب کا تعلق ہے اس کے لیے اسلام اس بات کا داعی ہے کہ انسان اللہ پر ایمان لائے، اسے تنہا معبود مانے، اسی کی عبادت کرے اور کسی دوسرے کو اس عبادت میں شریک نہ کرے۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی دعوتی زندگی کے ابتدائی تیرہ سال عقیدۂ توحید کی دعوت کی صورت میں اس اسلوبِ تربیت کو اپنایا۔ ایمان باللہ سے دل؛ انشراح، خوشی اور احساس خوش بختی سے معمور ہوجاتا ہے جبکہ تقویٰ انسان کو اپنی ذات سنوارنے اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے پر آمادہ کرتا ہے۔ عبادات کی ادائیگی سے انسان مشقتوں پر صبر کرنا، نفس کا مجاہدہ کرنا، خواہشات پر قابو پانا اور لوگوں سے محبت اور حسنِ سلوک سیکھتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عبادت انسان میں سماجی اشتراک و تعاون اور اجتماعی کفالت کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔
اسلام جسمانی محرکات کے فطری تقاضوں کو کچلنے اور ختم کرنے کا داعی نہیں بلکہ انہیں منظم، مربوط اور ان پر قابو پانے کی ایسی تعلیم دیتا ہے جس سے فرد اور جماعت دونوں کی مصالح ملحوظ ہوں۔ قرآن مجید کی طرح احادیث نبویہ میں اس مقصد کے لیے ایک طرف تو جسمانی و نفسیاتی خواہشات کو جائز طریقہ سے پوری کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے تو دوسری طرف اسراف و تبذیر اور افراط و تفریط سے روکا گیا ہے۔
جہاں تک تیسرے اسلوب کا تعلق ہے تو اس مقصد کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو ایسی ہدایات ارشاد فرمائیں، جن سے ان کی تاثراتی و سماجی پختگی، شخصیت کی نشوونما کے لیے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے، سماج کی نرمی اور زمین کو آباد کرنے میں اچھا کردار ادا کرنے کی خوبیاں پیدا ہوں اور وہ نفسیاتی صحت سے مالامال متوازن زندگی گزار سکیں۔ ان میں خود اعتمادی، احساسِ ذمہ داری، استغناء، قناعت اور رضا بالقضا جیسے اوصاف پیدا ہوسکیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے انسان کی شخصیت کی تعمیر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایسی تربیت کی جس سے ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت کی حفاظت ہو اور وہ کامل، قوی، سرگرم، خوش نصیب اور مطمئن افراد بن سکیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں کا مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں دنیا کے تمام لوگوں سے ان اوصاف میں سبقت لے گئے اور تاریخ کے نابغۂ روزگار افراد بن گئے۔ قرونِ اولیٰ اور بعد کے ادوار میں صوفیہ نے اپنے زیر تربیت افراد کی تربیت بھی اسی نبوی طریق سے اس طرح کی کہ ان میں وہ شخصی اوصاف پیدا ہوگئے جس سے وہ دنیا و آخرت کی کامیابیوں کے مستحق بن گئے۔
خلاصۂ بحث
کامل اور متوازن شخصیت کا سب سے کامل نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ آپ ﷺ کی ذات میں مادی اور روحانی دونوں پہلو پورے توازن کے ساتھ موجود تھے۔ آپ ﷺ کی تعلیمات کامیاب اور متوازن شخصیت کے لیے بہترین رہنمائی کرتی ہیں۔ تمام قابلِ تعریف اخلاقی اوصاف اور شخصی کمالات آپ ﷺ کی ذات میں جمع تھے اور آپ ﷺ نفسِ مطمئنہ کے اس کمال پر فائز تھے جس میں اعلیٰ و متوازن شخصیت کی تشکیل کے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے۔ مربین و معلمین کے لیے آپ ﷺ کا منہج مثالی اور معیاری حیثیت کا حامل ہے۔