شیخ الاسلام کے تصورِ تجدید و احیائے دین کی انفرادیت و جامعیت

ڈاکٹر محمد رفیق حبیب

گذشتہ سے پیوستہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تصورِ تجدید و احیائے دین کی انفرادیت و جامعیت کے حوالے سے زیرِ نظر مضمون کے پہلے حصہ (شائع شدہ فروری 2023ء) میں ہم شیخ الاسلام کی فکر کے درج ذیل چھ نمایاں پہلوؤں کا مطالعہ کرچکے ہیں:

1۔ عروج و زوال آفاقی قوانین کی پیروی و عدم پیروی پر منحصر ہے

2۔ عروج و تمکنت کے لیے قرآن سے رہنمائی ناگزیر ہے

3۔ زوال کا باعث بننے والے تغیرات کی نشاندہی

4۔ فلاح و خوشحالی کی ضمانت مبنی بر وحی الوہی نظام

5۔ قرآنی فکر سے انحراف کے سبب کی نشاندہی

6۔ تعلیماتِ اسلامی کی عدم مؤثریت کی وجوہات کا بیان

زیرِ نظر مضمون میں شیخ الاسلام کی فکر کے ایک اور منفرد و ممتاز پہلو کا احاطہ کیا جارہا ہے جس میں آپ نے نہ صرف دینِ اسلام کی فکر کے مختلف پہلوؤں میں رونما ہونے والی اساسی تبدیلیوں اور تغیرات کو بیان کیا ہے بلکہ ان تبدیلیوں اور تغیرات کے تدارک کے حوالے سے بھی ایک قابلِ عمل حل پیش کیا ہے۔


7۔ شیخ الاسلام کی فکر کا ساتواں نمایاں پہلو: فکرِ اسلامی میں رونما اساسی تبدیلیوں اور تغیرات کی نشاندہی اور ان کا حل

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی تجدیدی فکر کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو جو انھیں دیگر ہم عصر مفکرین و مصلحین سے منفرد و ممتاز کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے زوال و انحطاط کے نتیجے میں فکرِ اسلامی میں پیدا ہوجانے والے تغیرات کو جس ترتیب اور جس تفصیل و نظم کے ساتھ آپ نے بیان کیا ہے، دیگر کے ہاں وہ بہت کم نظر آتا ہے۔ آپ کے نزدیک امتِ مسلمہ کے اس ہمہ جہتی زوال نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں اسلام کی سیاسی و معاشی، تعلیمی و تحقیقی، فقہی و قانونی، سماجی و ثقافتی اور مذہبی و روحانی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات کے تدارک سے ہی احیائے اسلام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ میں خاطر خواہ تبدیلیاں اور تغیرات رونما ہوئے ہیں۔

ذیل میں ہم ان بنیادی تغیرات اور ان کے منفی اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جنھوں نے شیخ الاسلام مدظلہ کے مطابق امتِ مسلمہ کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت زیادہ متاثر کیا ہے:

(1) سیاسی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

اسلام کی سیاسی فکر اسلام کے بطورِ نظامِ دیگر تمام نظامہائے زندگی پر سیاسی غلبے کے تصور پر مبنی ہے کیونکہ قرآن و سنت سے اخذ ہونے والے سیاسی فکر کا ماحصل یہ ہے کہ سیاسی غلبے کے بغیر امتِ مسلمہ اپنے کھوئے ہوئے سماجی، ثقافتی، علمی، اخلاقی اور روحانی تشخص کو نہ تو بحال کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کا تحفظ کرسکتی ہے۔اسی طرح معمول بہ دین کے تینوں پہلوؤں (شریعت، طریقت اور عقیدہ و مسلک) کی اجتماعی و قومی سطح پر عملیت و مؤثریت قوتِ نافذہ کے حصول سے ہی ممکن ہے۔

دورِ زوال میں سیاسی سطح پر ہونے والے تغیرات کے سلسلے میں آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی فکر میں منفی تبدیلیاں فکری، علمی اور عملی سطح پر رونما ہوئی ہیں:

1۔ فکری سطح پر مسلم ذہن نے بدقسمتی سے یہ تسلیم کرلیا کہ امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور سیاسی غلبہ اب دوبارہ کبھی حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ ایک مرتبہ اپنے عروج کو چھولینے کے بعد موجودہ زوال و انحطاط اس کا فطری نتیجہ و انجام ہے۔

2۔ فکری سطح پر ایک مزید تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ مسلم مفکرین نے اپنے تئیں یہ تصور کرلیا کہ حق و باطل کے معرکے میں اسلام دنیا میں حق کی فتح، نصرت اور کامرانی و غلبہ کی ضمانت نہیں دیتا۔ لہذا ان کے ہاں امت کی ذمہ داری نیکی اور خیر کو قائم کرنے کی محض جدوجہد اور کاوش کرنا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ محنت نتیجہ خیز بھی ہوتی ہے کہ نہیں، ان کے نزدیک اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں فراہم کی گئی۔

اپنے اس نظریے کی تائید میں وہ اصرار کرتے ہیں کہ قرآن میں کامیابی کی دی جانے والی ضمانت یا تو انبیاءf کی زندگیوں میں ان کے ساتھ ہی خاص ہے یا پھر اس کا تعلق آخرت کی کامیابی کے ساتھ ہے۔مزید یہ کہ بعض ایسے اربابِ دانش تو اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ بعض انبیاءf بھی اس دنیا میں اپنی عملی جدوجہد میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ (معاذ اللہ)

ان تغیرات کے اسباب کے حوالے سے شیخ الاسلام مدظلہ کا نظریہ ہے کہ دورِ زوال میں سیاسی فکر علمی اعتبار سے تخلیقی کی بجائے توجیہی بن گئی یعنی اس کا موضوع محض یہ رہ گیا کہ ریاست کیا ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔۔۔؟ حکومت کیا ہے اور اس کے مختلف شعبہ جات کون سے ہوتے ہیں۔۔۔؟ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کیا ہے اور اس کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہیں۔۔۔؟ حاکم اور رعایا کے مابین کیا تعلق ہونا چاہیے۔۔۔؟

اسلامی سیاسی فکر کا ایک انتہائی ناگزیر پہلو اس کے دائرہ کار سے مفقود ہوگیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مغلوب اور زوال و انحطاط کا شکار قوم، اپنی عظمت، وقار اور غلبے کو بحال کیسے کرسکتی ہے۔۔۔؟ ایک اسلامی فلاحی ریاست کیا ہے اور یہ قائم کیسے ہوتی ہے۔۔۔؟ عصرِ حاضر کا ’’علم سیاست‘‘ ان سوالات اور ان موضوعات سے بالکل بے بہرہ ہے اور یہ اس کے دائرہ کار میں شامل بھی نہیں ہیں۔اسلامی سیاسی فکر میں عملی تغیرات کا نتیجہ ہے کہ اس وقت تمام عالمِ اسلام میں رائج تمام سیاسی نظام Status Quo کی منہ بولتی عملی تصویر ہیں۔

(2) معاشی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

عالمی سطح پر اسلام کے سیاسی زوال نے اسلام کے معاشی نظام کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس وقت عالمِ اسلام انتہائی معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہ حرماں نصیبی ہے کہ اس وقت کوئی ایک مسلم ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر نہیں آتا۔ اسلامی معاشی نظام کے بنیادی لازوال و بے مثال خدوخال اس دورِ زوال میں اپنا تشخص اور مؤثریت کھوچکے ہیں۔ عصرِ حاضر میں اسلام کے معاشی نظام میں در آنے والی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں:

1۔ اس سلسلے میں پہلی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ نوآبادیاتی دور میں حکمران طاقتوں نے اپنے زیرِ اقتدار مسلم ممالک میں اسلام کے تصورِ امانت کو جاگیرداری نظام میں بدل دیا۔ انھوں نے اپنے مخالفین سے زمینیں اور جائیدادیں لے کر اپنے وفاداروں میں بانٹ دیں تاکہ وہ اس کے بدلے میں ان کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بناسکیں۔

ó اسلامی معاشی نظام کے سنہری تصورِ امانت کے تحت کسی بھی علاقے کا مالک و قابض شخص اس علاقے کے تمام مستحقین کے تعلیمی، طبی مالی اور سماجی تمام ضروریات کا کفیل و ذمہ دار ہوتا تھا جبکہ جاگیرداری نظام کے تحت اپنے وفاداروں کو بانٹی جانے والی زمینوں کے وہ بلاشرکت غیرے مالک و قابض بن گئے اور ضرورت مندوں اور مستحقین کے حوالے سے انھیں کسی ذمہ داری کا احساس نہ رہا۔ یہ صورت حال اسلامی دنیا میں شدید معاشی بحران کا باعث بنی۔

2۔ اسلامی معاشی نظام کے اندر دوسری بنیادی خامی یہ پیدا ہوئی کہ معیشت و ملکیت کے قرآنی و نبوی اصول و ضوابط کی جگہ فقہی اصول و ضوبط اختیار کرلیے گئے۔

شیخ الاسلام مدظلہ کے نزدیک فقہی قوانین و ضوابط کا مقصد و وظیفہ پہلے سے رائج نظام کو قائم اور جاری رکھنا ہے۔ فرسودہ و بے ثمر نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ منفعت بخش اور مؤثر نظام کو قائم کرنا ان کے وظیفے میں شامل ہی نہیں۔ نتیجتاً صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ ہماری فقہی کتب اسلام کے تصورِ ملکیت اور ملکیت اصل میں ہے کیا؟ اس پر بحث ہی نہیں کرتیں۔ان کا موضوعِ بحث فقط یہ رہ گیا ہے کہ کسی شے کی ملکیت حاصل کیسے ہوتی ہے۔۔۔؟ بیع و شراء، ھبہ اور وراثت وغیرہ کیا ہیں۔۔۔؟ کیونکہ قرآنی و نبوی تصورات؛ فقہی تصورات سے بدل گئے ہیں، جس کے نتیجے میں تمام مسلم معاشرے اس وقت اپنے اندر جاری معاشی بحران کا مقابلہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام اور Status Quo کی عملی تصویر نظر آتے ہیں۔

3۔ اسلام کے معاشی نظام میں ظاہر ہونے والی تیسری بڑی خرابی یہ ہے کہ مال دار اور خوشحال طبقے کے کندھوں سے معاشرے کے ضرورت مند اور محتاج افراد کی معاشی کفالت کی ذمہ داری کو اٹھا لیا گیا۔ جبکہ اسلامی معاشی نظام کے تحت کسی بھی مسلم معاشرے کے متمول اور صاحبِ حیثیت افرادکی یہ قانونی، سماجی، مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے مفلوک الحال، مستحق اور محتاج لوگوں کی معاشی ضروریات کی کفالت کو یقینی بنائیں۔ مالدار اور خوشحال طبقے کی اس ذمہ داری کو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں شیخ الاسلام مدظلہ کا نظریہ ہے کہ قرآن و سنت نے دوسروں کو اپنے مملوکہ اموال کے منافع اور ثمرات میں شریک کرنا ان کا شرعی حق قرار دیا ہے۔ اسے محض نفلی نیکی اور اضافی بھلائی سے تعبیر نہیں کیا۔ مالدار طبقے کے کندھوں سے ضرورت مندوں اور محتاج لوگوں کی کفالت کی ذمہ داری کے اٹھ جانے نے غیر مشروط ملکیت اور قبضے کے تصور کو جنم دیا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ امیر اور غریب کے مابین خلیج بڑھتی چلی گئی جو کہ اسلام اور قرآن و سنت کی اصل روح کے سراسر منافی ہے۔

4۔ چوتھی بڑی تبدیلی جو اسلام کے معاشی نظام کے اندر رونما ہوئی، وہ یہ کہ معیشت کو مذہب اور اخلاقیات سے بالکل جدا کردیا گیا جس نے معاشرے میں مادیت پرستی اور سامراجی سوچ کو جنم دیا جس کے نتیجے میں امیر و غریب کے مابین تفریق مزید بڑھ گئی۔

شیخ الاسلام مدظلہ کے مطابق مذکورہ بالا چار بنیادی نقائص ہیں جو دورِ زوال میں اسلام کی معاشی فکر کے اندر رونما ہوئے جس نے نہ صرف خودغرضی اور مادیت پرستی کو جنم دیا بلکہ معاشرے میں معاشی بحران اور امیرو غریب میں فاصلے بڑھانے کا بھی باعث بنے۔ اس خلیج کو پاٹنے او ر معاشرے میں دولت کی منصفانہ، عادلانہ اور متوازن تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے معاشی نظام کے مذکورہ نقائص کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اشد ضروری ہے۔

(3) فقہی و قانونی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

اسلام کی سیاسی و معاشی فکر کے ساتھ ساتھ فقہی و قانونی فکر بھی دورِ زوال کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ لہذا اس میں بھی فکری و عملی ہر دو سطح پر منفی تبدیلیاں رونما ہوئیں:

1۔ عملی سطح پر ہونے والے تغیر کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کے دورِ عروج میں شرعی عدالتیں قائم تھیں اور عدالتی نظام کو سرکاری و نیم سرکاری سطح پر ہر حوالے سے تفوق اور غلبہ حاصل تھا لیکن نوآبادیاتی دور کے اندر شرعی قانون کو محض شخصی و انفرادی قوانین تک محدود کردیا گیا جبکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی، مثلاً: معیشت، سیاست، تعلیم وغیرہ سے متعلق تمام معاملات انگلش قانون کے تحت سرانجام پانے لگے جس کے نتیجے میں انسانی زندگی واضح طور پر مذہبی وغیر مذہبی دو حصوں میں بٹ گئی۔ جبکہ قبل از نو آبادیاتی دور میں انسانی زندگی محض ایک اکائی تھی اور ایک ہی طرح کی عدالتیں ایک ہی قانون کو ایک اکائی کے طور پر زندگی کے تمام شعبہ حیات پر نافذ کرتی تھیں جبکہ دورِ زوال میں صرف نکاح، طلاق، وراثت، عبادات جیسے شخصی و خاندانی معاملات قانونِ شریعت کے تابع رہ گئے جبکہ دیگر تمام کاروباری، تجارتی، معاشی، عدالتی معاملات مروجّہ نظام کے تحت کردیئے گئے۔

2۔ شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں کہ مذکورہ تقسیم نے عملی دنیا کو بھی برابر متاثر کیا جس کے نتیجے میں تمام مسلم دنیا میں اسلامی قانون کے حوالے سے ہونے والی تمام قانون سازی محض شخصی اور خاندانی قوانین کے دائرے میں ہوئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح کی بنیادی تبدیلیاں اسلام کی قانونی و فقہی فکر میں رونما ہوئیں اور کس طرح غیر حقیقی اور غلط طریقے سے اسلامی قانون کو محض شخصی اور خاندانی معاملات تک محدود کردیا گیا۔ طرفہ یہ ہے سلطنت عثمانیہ کے آخری دور میں جو عدالتی و قانونی حوالے سے انجام دیا جانے والا کام ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ ہے، یہ بھی 800 شقوں پر مشتمل ’’دیوانی قانون‘‘ (Civil Law) ہے۔اسی طرح اس دورِ زوال میں مصر میں ’’القوانین الشخصیۃ‘‘ اور لیبیا، اردن، شام، عراق اور پاکستان وغیرہ میں ساری قانون سازی شخصی و خاندانی دائرے میں ہی ہوئی۔پاکستان میں 1961ء میں ’’مسلم فیملی لاء آرڈیننس معرض وجود میں آیا۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ آئین، سیاست، معیشت اور ہرجانہ و حق تلفی کے حوالے سے اسلامی قوانین کے عملی اطلاق کے لیے کوئی کاوش نہ کی گئی۔

انسانی زندگی میں دینی و لادینی اعتبار سے ہونے والی اس دوئی و تقسیم نے اسلامی قانون کو جمود و تعطل کا شکار کردیا ہے اور علمی تحقیق و تدقیق کا دائرہ کار محض شخصی و خاندانی امور تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور عملی زندگی کے جملہ معاملات اس کے دائرے سے خارج کردیئے گئے ہیں۔

شخصی معاملات میں چونکہ کسی اجتہاد کی عموماً ضرورت پیش نہیں آتی، اس لیے لازمی نتیجے کے طور پر تصورِ تقلید مکمل جمود اور تعطل میں تبدیل ہوگیا۔ یہی وجہ ہے اس دور میں ہونے والا تحقیقی کام (اگر ہم برصغیر کی ہی بات کریں) شخصی معاملات سے ہی متعلق ہے۔ مثلاً: طہارت، عبادات، نکاح و طلاق وغیرہ۔ جبکہ بہت کم علمی و تحقیقی کام دیگر معاملات سے متعلق ہے۔کیونکہ تحقیق و اجتہاد کے متقاضی مسائل و معاملات، مثلاً: معیشت، سیاست، مختلف قوموں کے مابین روابط، عدلیہ، بینکاری، طب سے متعلقہ معاملات چونکہ شریعت کے دائرہ کار سے خارج قرار دے دیے گئے اور ان کے متعلق خاطر خواہ تحقیق نہ کی گئی، لہذا اس طرح کے تمام معاملات غیر اسلامی قوانین کے تحت انجام پانے لگے۔

3۔ اس ساری صورت حال کے نتیجے میں تقلید کے ایک نئے تصور نے جنم لیا کہ کہ اب اجتہاد کے تمام دروازے بند ہیں اور کوئی بھی شخص مجتہد حتی کہ ’’مجتہد فی المسائل‘‘ بھی نہیں ہوسکتا۔ تقلید محض کے سوا کسی کے لیے کوئی چارہ نہیں۔

فقہی و قانونی فکر میں نظریاتی سطح پر ہونے والی منفی تبدیلیوں کے متعلق شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ دورِ زوال میں انسانی زندگی کے سیاسی، معاشی اور سماجی حرکات چونکہ بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے تھے مگر مسلم مفکرین اور دانش ور حضرات تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے پیشِ نظر اجتہاد کی اہمیت و ناگزیریت کو محسوس کرنے سے بے نیاز رہے اور اس سلسلے میں مناسب اور مثبت اقدام نہ کیے جس کا لازمی نتیجہ قانون کے تقاضوں اور انسانی حیات کے مطالبات کے مابین تصادم کی صورت میں نکلا۔لہذا صورت حال کا مقابلہ کرنے اور امت مسلمہ کے افراد کو اسلامی اقدار و قوانین کے تابع رکھنے کے لیے ’’اصول اجتہاد‘‘ کو متحرک و قابلِ عمل بنانا لازمی و ضروری ہے۔

(4) سماجی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

سماجی و عمرانی فکر پر اسلام کے دورِ زوال میں ہونے والے منفی اثرات کو بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی اجتماعی زندگی تین عناصر پر مشتمل ہوتی ہے:

1۔ عمرانیات

2۔ معیشت

3۔سیاست

یہ تینوں عناصر باہم جڑے ہوئے ہیں اور ان میں سے کسی ایک میں بھی بگاڑ دیگر عناصر کو بھی لازمی طور پر متاثر کرتا ہے۔

عمرانی سطح پر ہونے والے تغیر کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ دورِ زوال میں امت مسلمہ کی سماجی وحدت کا محرک دین اسلام کی بجائے حب الوطنی بن گیا۔ جس کی وجہ سے معاشرے سے جذبۂ اخوت معدوم ہوگیا، جس کا نتیجہ نسلی تفاخر اور خودپسندی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ نسلی تفاخر نے مزید علاقائی اور سماجی درجہ بندی کی راہ ہموار کی۔ عمرانی سطح پر پیدا ہونے والی اس خرابی نے انسانی زندگی کے معاشی عنصر کو بھی متاثر کیا تو اس کے نتیجے میں افرادِ معاشرہ میں لالچ، خودپسندی اور دولت کی حرص و ہوس کے منفی جذبات پیدا ہونے لگے اور پھر اس تمام پیدا شدہ صورتِ حال نے سیاسی عنصر کو متاثر کرتے ہوئے جب قوت و اقتدار کی ہوس کو جنم دیا تو یہاں بھی سیاسی قوت و غلبہ کے حصول کی جنگ میں صحیح و غلط، جائز و ناجائز، حلال و حرام اور قانونی و غیر قانونی کی تمیز باقی نہ رہی۔

آپ مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ نوآبادیاتی دور میں مسلم ممالک میں قانونِ شریعت کو معطل کردیا گیا جو باہمی وحدت کا ایک ذریعہ تھا اور اس کی جگہ مغربی قانون کو نافذ کردیا گیا۔ نتیجتاً جب عملی زندگی کے تمام تر مطالبات مغربی قانون سے پورے ہونے لگے تو دین اسلام انسانی زندگی میں محض عبادات تک محدود ہوکر رہ گیا۔ عبادات اور دنیوی معاملات کی اس واضح تفریق نے انسان کی اپنے خالق کے ساتھ اخلاص، فرمانبرداری اور وفاداری کے تعلق کو کمزور کردیا۔

(5) تہذیبی و ثقافتی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

اس سلسلے میں ہونے والے تغیرات کا تجزیہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ فی الوقت اسلامی تہذیب و ثقافت بنیادی طور پر تین طرح کے خطرات کا شکار ہے:

1۔نظریاتی

2۔ ثقافتی

3۔جذباتی

نظریاتی طور پر مسلم معاشرے اور نوجوان نسل بالخصوص واضح طور پر مغربی و اشتراکی مادی فکر اور رویوں سے متاثر ہوکر اسلام اور اس کی تعلیمات سے دور ہورہے ہیں اور اس طرح ان کا دینِ اسلام سے تعلق کمزور اور متزلزل ہورہا ہے۔ موجودہ حالات میں حاوی و غالب مغربی و اشتراکی افکار سے مرعوبیت کی بناء پر آج کی نوجوان مسلم نسل اسلام کے اخلاقی، سماجی، سیاسی، قانونی اور آئینی افکار کی برتری و فوقیت اور عصرِ حاضر میں اس کی عملیت کے بارے میں تشکیک کا شکار ہے جبکہ ثقافتی سطح پر مسلم معاشروں نے مغربی و لادینی ثقافت کو عملی طور پر اس حد تک اپنا لیا ہے کہ ان کے سماجی و معاشی تصورات بدلنے لگے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مسلم معاشروں کی اخلاقی، سماجی اور خاندانی اقدار روبہ زوال ہونے لگی ہیں۔

مزید یہ کہ جذباتی سطح پر مغربی ثقافت کے زیرِ اثر ایسے اعمال و افعال اور ایسی عادات مسلم معاشروں میں رواج پانے لگی ہیں جو دینِ اسلام میں غیر اخلاقی اور غیر اسلامی قرار دی گئی ہیں۔ مثلاً: شراب نوشی، جوا، بے حیائی اور شہوات پرستی وغیرہ۔ ان غیر اسلامی اور غیر اخلاقی اعمال و عادات کے ارتکاب نے مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے اخلاق و کردار کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

(6) دینی و روحانی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

دینی و روحانی فکر میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ فرماتے ہیں کہ

1۔ اسلام کو عملی طور پر آخرت کا معاملہ سمجھا جانے لگا اور روزمرہ زندگی اور اس کے جملہ معاملات کے ساتھ اس کا تعلق منقطع کردیا گیا تو اسلامی عقائد و عبادات محض رسوم بن کر رہ گئے اور ان کی حیثیت بھی انفرادی واجتماعی زندگی کے اندر بالکل دیگر مذاہب کے عقائد و رسوم جیسی ہی رہ گئی۔

2۔ دوسرا یہ کہ وحی پر مبنی علم اور انسانی تراشیدہ علم میں بھی کوئی فرق برقرار نہ رہا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عقلی اور بیانیہ علوم نے قرآنی علوم پر غلبہ پالیا۔ انجام کار براہِ راست قرآن مجید سے اخذِ ہدایت کے برعکس تمام تر علمی و تحقیقی کاوشیں معاون علوم سے ہدایت کے اخذ کرنے میں صرف ہونے لگیں۔

3۔ تیسرا یہ کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو خود تراشیدہ تصورات کے تحت سمجھنے کی کوشش کی جانے لگی اور ’’تکمیلِ دین‘‘ اور ’’ختمِ نبوت‘‘ کے خصوصی تصورات جو امتِ مسلمہ کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور قومی تشخص کا استعارہ تھے، ان کو اس حد تک مسخ کردیا گیا کہ اصل روح اور مؤثریت تمام مذہبی اعمال و افعال سے معدوم ہوگئی۔

4۔ چوتھا یہ کہ شریعت اور اس کے ’’منہاج‘‘ (طریقہ، راستہ) میں کوئی فرق برقرار نہ رہا۔ اس وقت مسلمان، شریعت کے ساتھ تو منسلک ہیں مگر اس کے ’’منہاج‘‘ سے بالکل منقطع اور لاتعلق ہیں جبکہ قرآن مجید نے ان دونوں کے مابین بہت قریبی تعلق قائم کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:

لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَةً وَّمِنْھَاجاً.

(المائدة، 5: 48)

’’ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے۔‘‘

5۔ پانچواں یہ کہ کلی زوال کے نتیجے میں جب ایک طرف اسلام کو فقط انفرادی سطح تک محدودکردیا گیا اور سیاسی قوت و غلبہ اس سے چھین لیا گیا اور دوسری طرف دینی و مذہبی قیادت جذبہ ، تاثیر اور نتیجہ خیزی قرآن سے اخذ کرنے میں ناکام رہی تو ان کی وعظ و تبلیغ اثر انگیزی سے محروم ہوگئی۔ آج وعظ و تبلیغ؛ قوتِ نافذہ کی جلال و عظمت، حکمت کے نور اور ایمان و یقین کی قوت سے محروم ہے۔ جب انسانی زندگی کی تمام ضروریات اور مطالبات احکامِ شریعت کی نافرمانی سے پورے ہورہے ہوں تو پھر لوگوں کو کب تک محض آخرت کی سزا کے خوف سے صراطِ مستقیم پر قائم رکھا جاسکتا ہے۔

(7) تعلیمی و تربیتی فکر میں رونما ہونے والے تغیرات

اسلام کے دورِ عروج میں اس کے نظامِ تعلیم میں دینی اور دنیاوی علوم دونوں شاملِ نصاب تھے اور طب، ریاضی ، جیومیٹری، جغرافیہ، منطق، فلکیات جیسے علوم قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور اصولِ فقہ کے ساتھ ساتھ ایک ہی تعلیمی درسگاہ میں پڑھائے جاتے تھے۔ لیکن شومئی قسمت کہ دورِ زوال میں نظامِ تعلیم دینی و دنیاوی حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ علوم کی اس تقسیم نے ان علوم کے حاصل کرنے والوں میں ایک بڑی واضح خلیج اس حد تک پیدا کردی کہ یہ دونوں دریا کے کبھی نہ ملنے والے کناروں کی صورت اختیار کرگئے۔ اس تفریق اور دونوں کے مابین عدمِ ربط کی صورتِ حال کو بیان کرتے ہوئے شیخ الاسلام کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ:

شومئی قسمت یہ کہ آج سائنس اور انگریزی تعلیم کو علیحدہ تصور کیا جانے لگا اور انھیں حاصل کرنے والے کو کافر کہا جانے لگا اور یہ تصور کیا جانے لگا کہ ان علوم کو حاصل کرنے والے کا دینی علوم و دین کے ساتھ کوئی علاقہ نہیں۔‘‘

1۔ عالمِ اسلام کے تعلیمی نظام میں پیدا ہوجانے والے نقائص اور خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام مدظلہ نے بیان کیا ہے کہ دینی مدارس میں پڑھایا جانے والا نصاب بھی دورِ زوال میں جمود و تعطل کا شکار ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس کے نصاب میں کبھی ترمیم و اضافہ یا ضروری اصلاحات نہیں کی گئیں جن کے ذریعے اس کو بدلتے ہوئے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق موثر اور مفید بنایا جاسکے بلکہ اس کے برعکس آج تک وہی صدیوں پرانا نصاب جاری و ساری ہے، جسے محترم علامہ نظام الدین (1748۔ 1677ء) نے اس دور کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا تھا۔ لہذا دورِ جدید کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق نئے نصاب کی تشکیل کی اہمیت کو آشکار کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

’’تقاضائے وقت ہے کہ آج سائنسی علوم کو داخلِ نصاب کیا جائے اور اس کے ذریعے ذہن کی تربیت کرکے اسے اس قابل بنایا جائے کہ وہ دورِ نو کی ضروریات کے مطابق قرآن و حدیث کی توضیح کرسکیں۔‘‘

2۔ ایک اور خامی جو تعلیمی میدان میں پیدا ہوئی، وہ یہ کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ قرآن کی جگہ اس کی تفاسیر اور ان سے متعلقہ علوم نے لے لی اور اخذ ہدایت کے سلسلے میں قرآن کی بجائے ان کی طرف رجوع کیا جانے لگا۔ شیخ الاسلام کے مطابق:تفسیر اس امر سے بحث کرتی ہے کہ قرآنی علوم کیا ہیں؟ اس کی توضیحات کس طرح ممکن ہیں جبکہ قرآن حکیم علم سے نہیں بلکہ براہِ راست عمل سے بحث کرتا ہے۔

لہذا دور حاضر میں عصری تقاضوں کے مطابق ایک نئے علمِ تفسیر کی ناگزیریت کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

’’آج اس امر کی ضرورت ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے تقاضوں اور ضروریات کے لیے قرآن مجید سے سوالات کیے جائیں پھر ان کے جو جوابات قرآن حکیم سے میسر آئیں، ان کا نام تفسیر رکھا جائے۔‘‘

3۔ اسی طرح تعلیمی کے ساتھ ساتھ اخلاقی و تربیتی فکر میں پیدا ہوجانے والی خامیوں اور نقائص کی وجوہات کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’زندگی کے جملہ شعبوں کے تغیرات کے زیرِ اثر آجانے سے اسلامی معاشرہ اخلاقی قدروں کے فقدان کا شکار ہوگیا کیونکہ جس معاشرے میں زندگی کا ہر تقاضا اخلاقی حدود کی خلاف ورزی سے پورا ہورہا ہو، جہاں بدی کے ہاتھوں نیکیاں پامال ہورہی ہوں، وہاں اخلاقی قدریں کیونکر بحال رکھی جاسکتی ہیں۔‘‘ (قرآنی فلسفہ انقلاب، 1:418۔ 425)

معزز قارئین! بانی تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر ونظریہ کے مطابق امتِ مسلمہ کے حالیہ کلی و ہمہ جہتی زوال کے نتیجے میں رونما ہونے والے اِن مذکورہ تغیرات کے تدارک سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ، امتِ مسلمہ کے عروج و تمکنت اور عظمت رفتہ کی بحالی ممکن ہے۔احیائے اسلام، تجدیدِ دین اور اصلاحِ احوال کے عظیم مصطفوی مشن کےذریعے شیخ الاسلام امتِ مسلمہ میں مذکورہ جہات میں ہونے والی تبدیلیوں اور تغیرات کی اصلاح کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب مکرم ﷺ کی توجہات کے طفیل اس منزل کے حصول میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور فرمائے اور جلد از جلد مصطفوی معاشرے کی تشکیل کے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ