ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَیْتِکَ بِالْحَقِّص وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِهُوْنَ.
’’(اے حبیب!) جس طرح آپ کا رب آپ کو آپ کے گھر سے حق کے (عظیم مقصد) کے ساتھ (جہاد کے لیے) باہر نکال لایا حالانکہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا‘‘۔
الانفال، 8: 5
اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول 2 ہجری میں ہونے والے غزوۂ بدر کے واقعات ہیں۔ غزوۂ بدر لشکرِ اسلام اور لشکرِ کفار کے درمیان حق اور باطل کی ہونے والی پہلی جنگ تھی۔ اس معرکے میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے ذریعے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور لشکرِ اسلام کو عظیم تاریخی فتح سے بہرہ یاب فرمایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شرکت کے لیے نکلنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو دائرہ اسلام میں نئے نئے داخل ہوئے تھے اور ابھی اسلام کی حقیقی روح اور اسلام کے لیے قربانی دینے کا تصور ان کی روحوں میں رچا بسا نہیں تھا۔ وہ حلقہ بگوشِ اسلام ضرور ہوئے تھے مگر انہوں نے ابھی شہادت گہہ الفت میں قدم نہیں رکھا تھا۔ ان لوگوں کو اسلام میں داخل ہوتے ہی جنگ کا سامنا کرنا پڑا اور کلمہ پڑھتے ساتھ ہی غزوۂ بدر کے لیے جارہے ہیں جبکہ ظاہری حالات و اسباب یہ ہیں کہ اسلحہ، عددی قوت، وسائل اور سامانِ حرب انتہائی کم ہے جبکہ جس لشکر سے مقابلے کے لیے جارہے ہیں وہ عددی قوت، اسلحہ اور سامانِ جنگ کے حوالے سے زیادہ مضبوط ہے۔ یوں دونوں لشکروں میں بظاہر مقابلہ کا کوئی ماحول نظر نہیں آتا۔ انہیں محسوس ہوا کہ ایسی صورت میں ہم کفار کے ہاتھوں ضرور شہید ہوجائیں گے۔ لہٰذا ان لوگوں کو مقامِ بدر کی طرف بلایا جانا ایسے لگا جیسے براہِ راست موت کی طرف بلائے جارہے ہیں۔ یہ بلاوا ان کی طبیعتوں پر ناگوار گزرا۔ قرآن مجید نے اس نکتے اور اس لمحے کو مذکورہ آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے۔
اس آیت کریمہ کا یہ معنی تو وہ ہے جو تاریخ میں وارد ہوچکا، اس کے علاوہ اس آیت کا ایک باطنی اور روحانی معنی بھی ہے جس کا تعلق ہمارے من کی اصلاح کے ساتھ ہے۔ یہ معنی ہر فردِ بشر اور ہر مسلمان کے قلب و باطن پر وارد ہورہا ہے۔ ایک معرکہ وہ تھا جو مقامِ بدر میں بپا ہوا تھا اور ایک معرکہ وہ ہے جو ہر مسلمان کے من کے اندر بپا ہے۔ اُس تاریخی معرکے میں بھی دو لشکر تھے:
- لشکر اسلام
- لشکر کفار
جو معرکہ ہمارے من کے اندر بپا ہے اس میں بھی دو ہی لشکر ہیں:
- روح کا لشکر
- نفس کا لشکر
معرکۂ بدر میں لشکرِ اسلام کے پاس ساز و سامان، وسائل اور افرادی قوت کم تھی جبکہ لشکرِ کفار سامانِ حرب اور افرادی قوت کے اعتبار سے بڑا مضبوط اور طاقتور تھا۔ ظاہراً لشکرِ اسلام کا لشکرِ کفار کے ساتھ کوئی مقابلہ نہ تھا۔ اسی طرح ہمارے باطن میں جو معرکہ بپا ہے اس میں بھی روح کا لشکر سامانِ حرب، قوت و وسائل اور رغبتوں میں کمزور ہے جبکہ نفس کا باطل لشکر سامانِ حرب، قوت و طاقت، کشش اور رغبت میں زیادہ مضبوط ہے۔ روح اور نفس میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ روح اپنے آپ کو پردیس میں محسوس کرتی ہے جبکہ نفس خود کو دیس میں محسوس کرتا ہے۔ اس موقع پر رب کائنات ارشاد فرماتا ہے:
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَیْتِکَ بِالْحَقِّ.
اس آیت مبارکہ کے ظاہری معنی و مفہوم کی رو سے تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی طور پر مدینہ سے بدر کی طرف اذنِ سفر دیا، مگر باطنی پہلو کے اعتبار سے مومنوں کو روحانی طور پر نفسیاتی گھروں سے نکلنے کا حکم ہورہا ہے۔ ایک گھر تو وہ تھا جس سے نکل کر مسلمان لشکرِ کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامِ بدر پہنچے لیکن ایک گھر اس مادی اور بشری وجود کا بھی ہے۔ اسی گھر کے حوالے سے فرمایا کہ محبوب! جس طرح آپ اپنے بشری وجود کے گھر کی نفسانی حالت سے نکل کر روحانی گھر کی طرف آئے ہیں، اسی طرح آپ کی امت کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ آپ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے وجود کی نفسانی حالت سے نکلیں اور اپنے روحانی گھر کی طرف سفر کریں۔
عالمِ ملکوت و لاہوت کی طرف سفر
وجود کے گھر میں نفس کا قبضہ اور اس کا تسلط ہوتا ہے۔ لہٰذا جب تک اس وجود کے گھروں سے نہیں نکلیں گے تب تک نفس کے ماحول میں گھِرے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سفر شروع نہیں ہوگا۔
لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمِ لاہوت کی طرف سفر شروع کریں۔۔۔ اگر چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر جڑ جائے اور اس کی یاد من میں پھر سے متمکن ہوجائے۔۔۔ اگر چاہتے ہیں کہ توبہ اور اللہ کی بندگی میں استقامت نصیب ہو۔۔۔ اگر چاہتے ہیں کہ من کے اندر کی اندھیری راتیں ختم ہوں اور نورِ حق کا اجالا اندر آجائے تو جان لیں! اس کا نقطۂ آغاز یہ ہوگا کہ اپنے وجود کے گھروں کو خیر باد کہنا ہوگا۔ نفسانیت کی فضاء سے باہر نکل کر نفس سے قلب کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ بعد ازاں قلب سے روح کی طرف۔۔۔ روح سے سِر کی طرف۔۔۔ سِر سے خفی کی طرف۔۔۔ اور پھر خفی سے اخفیٰ کی طرف سفر کرنا ہوگا۔ جب مقامِ اخفیٰ پر پہنچیں گے تو خدا اپنی قربت کی گود میں لے لے گا۔
یاد رکھیں! ظاہری و مادی گھروں کو چھوڑنے سے من میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اِن ظاہری دنیاوی گھروں کو تو ہم معمولاتِ زندگی کے دوران سو بار چھوڑتے ہیں۔ حج اور عمرے کرنے بھی جاتے ہیں مگر پلٹ کر پھر واپس انہی گھروں میں آجاتے ہیں۔ جب تک ان دنیاوی گھروں کو اپنا گھر سمجھیں گے، آتے جاتے رہیں گے تو ان گھروں سے نکلنا ہمیں کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ لہذا اُس گھر کو سمجھنا ہوگا جو بڑا مضبوط، خطرناک اور ہولناک گھر ہے اور وہ گھر ہمارے قلب و باطن کے اندر مسلط نفس کے وجود کا گھر ہے۔ اگر نکلنا ہے تو اس نفس کے وجود کے گھر سے نکلیں جو شہوتوں، خواہشوں، حرص و لالچ، حسد، تکبر اور جاہ و منصب کی چاہت کا گھر ہے۔ جب حرص و ہوس کے اس گھر سے نکلیں گے تو بے گھر نہیں ہوجائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے اعلیٰ روحانی گھر عطا فرمادے گا۔ وہ اس ناسوتی گھر کے بدلے ایسا ملکوتی گھر عطا کردے گا، جس کے پڑوس میں ملائکہ، انبیاء اور اولیاء رہتے ہیں۔ وجود کے نفسانی گھر میں کبھی روشنی ہوتی ہے اور کبھی اندھیرا مگر جب اُس روحانی گھر میں چلے جائیں گے تو وہاں انوارِ الہٰیہ کی ایسی روشنیاںہوں گی جن سے باطن ہمیشہ منور و روشن رہے گا اور اندھیرا ہمیشہ کے لیے چھٹ جائے گا۔
اللہ رب العزت نے اس نفسانی گھر سے نکلنے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِهُوْنَ.
’’حالانکہ مسلمانوں کا ایک گروہ (اس پر) ناخوش تھا‘‘۔
الانفال، 8: 5
آیتِ کریمہ کے اس حصہ کا روحانی و باطنی معنٰی یہ ہے کہ مسلمانوں میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا بھی ہے کہ جب انہیں نفسانی گھر سے روحانی گھر کی طرف بلایا جائے تو وہ گھبرا جاتے ہیں۔ انہیں نفس کی رغبتیں، راحتیں، خواہشیں، کاروبار، گھر بار، بیوی بچے، رشتے ناطے اور ہوسِ زر یاد آتی ہے اور اتنا گھبرا جاتے ہیں جیسے ان سے نفسانیت کا گھر نہیں چھڑایا جارہا بلکہ انہیں موت کی طرف بلایا جارہا ہے۔ حرص و ہوس کی یہ فضائیں جن سے ان کی طبیعت مانوس ہوگئی ہے، انہوں نے ان کو اس قدر اپنا اسیر بنالیا ہے کہ اب ان کا نفس کے گھر سے نکلنے کا جی نہیں چاہتا۔
نفسانی گھر کی زینتیں روحانیت پر حجابات ہیں
نفس کے وجود نے اپنا نفسانی گھر اس قدر زیب و زینت کے ساتھ سجا رکھا ہے کہ انسان کا اسے چھوڑنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ اسی زیب و زینتِ نفس نے انسان کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ یہ زیب و زینت کیا ہے؟ قرآن مجید اس کی وضاحت میں فرماتا ہے:
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَالْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاج وَاﷲُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ.
آل عمران، 3: 14
’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے‘‘۔
عورتوں، اولاد، مال و دولت، زمین اور سرمایۂ دنیا کی شکل میں یہ رغبتیں وہ ہیں جو زنجیریں بن کر قدموں کو جکڑے رکھتی ہیں۔ یہ زنجیریں وہ ہیں جو نفسانیت کی قید میں انسانیت کو جکڑے ہوئے ہیں۔ جب کچھ لوگ ان سے نکلنے کا سوچتے ہیں تو کبھی عورت کی محبت کی زنجیر انہیں پاؤں سے کھینچ لیتی ہے۔۔۔ کبھی اولاد کی محبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔۔۔ کبھی زندگی بھر کی کمائی، مال و دولت اور سونا چاندی کی محبت انہیں روک لیتی ہے۔۔۔ کبھی قوت و طاقت، حکومت و سلطنت اور اقتدار کے مزے زنجیر بن کر روک لیتے ہیں۔۔۔ اور کبھی کھیتی باڑی، اناج اور کاروبارِ دنیا کی محبت و رغبت ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتی ہے۔
ان سب دلنشین زینتوں کے بارے ارشاد فرمایا:
ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا یعنی یہ سب مادی دنیا کی متاع ہے اور یہی وجود کے گھر میں انسانی زینتیں ہیں جن سے انسانی طبیعت مانوس ہوگئی ہے۔ نتیجتاً انسان انہی زینتوں کو اپنا وطن سمجھ بیٹھا ہے اور انہی میں زندگی کی لذت، راحت و سکون اور سکھ چین محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نفسانی وجود کے گھر کو چھوڑ کر روحانی گھر کی طرف جانے کو جی نہیں کرتا۔دوسری طرف دیکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری شہوتیں، رغبتیں، زینتیں اور محبتیں ہی ہماری روحانیت پر حجاب بن گئی ہیں۔ جب کسی چیز پر حجاب آجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے جو کچھ ہے وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں پانچ حجابات کی نشاندہی کی گئی ہے:
- حجاب النساء (عورتوں کی محبت کا پردہ)
- حجاب البنین(اولاد کی محبت کا پردہ)
- حجاب القناطیر (مال و دولت کی محبت کا پردہ)
- حجاب الخیل و الانعام (مویشیوں کی محبت کا پردہ)
- حجاب الحرث (زمین کی محبت کا پردہ)
ان حجابات نے روحانی لذتوں کو ہماری آنکھوں سے چھپا رکھا ہے اور ہم نفسانی گھر کی ان زینتوں کے حجابات میں گھِر گئے ہیں۔ اس لیے جب اس گھر کو چھوڑنے کی بات ہوتی ہے تو یہ ساری زینتیں، رغبتیں، محبتیں اور شہوتیں انسان کو روک لیتی ہیں اور اسے باور کراتی ہیں کہ اے بندے اگر تو نے اس زیب و زینت والے گھر کو چھوڑا تو بے سر و سامان ہوجائے گا اور تیرے پاس کچھ نہیں رہے گا۔
اُخروی زینتیں
دوسری طرف ان حجابات کے اوپر سے آواز آرہی ہے کہ میرے محبوب! اس نفسانی و مادی وجود کے گھر کی زینتوں، شہوتوں اور محبتوں میں گھِرے ہوئے انسان کو میرا پیغام پہنچادے:
اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ.
آل عمران، 3: 15
’’کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟‘‘
خود کو وجود اور نفس کے گھر کے قیدی بنالینے والوں نے سمجھا کہ ان لذتوں سے بڑی لذت اور ان محبتوں سے بڑی محبت کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اصل میں یہ دنیاوی محبتیں تیرے لیے حجاب بن گئی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور بھی ہے جس کی طرف یہ محبتیں تمہیں دیکھنے نہیں دیتیں۔ اے انسان! ذرا نفسانی وجود کا حجاب اٹھا! تجھے ان رغبتوں سے بہتر رغبت اور اِس حسن وجمال اور زیب و زینت کے گھر سے زیادہ خوبصورت گھر بتاتا ہوں، اسے دیکھو گے تو اس مادی اور نفسانی گھر کو بھول جاؤ گے۔
سوال ہوا: مولا! کیا ان زینتوں سے بہتر بھی کوئی زینتیں ہیں؟ اگر وہ ہمیں نظر آئیں تو اس وجود کے نفسانی گھر کو چھوڑنا اور اس سے نکلنا شاید ہمارے لیے آسان ہوجائے مگر وہ زینتیں چونکہ ہمیں نظر نہیں آتیں اور ہم ان دنیاوی زینتوں میں گھِرے ہوئے ہیں، اس لیے نکلنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ فرمایا:
لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَرَةٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اﷲِط وَاﷲُ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ.
آل عمران، 3: 15
’’(ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اﷲ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔
تم تو اپنے گھر کو خوبصورت بنانے کے لیے چند پودے لگا کر پھول اگاتے ہو مگر اے نفسانی گھر کے قیدی دیکھو! جو گھر تمہارے لیے میرے پاس رکھا ہے وہ ایسی جنتیں اور باغات ہیں جنہیں دیکھ کر تم مادی گھر کو بھول جاؤ گے۔۔۔ ان باغات کے نیچے بہتی ہوئی نہریں ہیں جنہیں دیکھ کر دنیاوی نہروں، چشموں اور دریاؤں کو بھول جاؤ گے۔۔۔ بیویوں اور عورتوں کی محبتوں میں گرفتار ہونے والو! جب میرے پاس آؤ گے تو میں زوجیت کے لیے وہ سنگتیں دوں گا کہ ان سنگتوں کی لذتوں میں ساری سنگتیں بھول جاؤ گے۔۔۔ دنیاوی رضا چاہنے والو! جب میرے پاس آؤ گے تو میں تمہیں اپنی رضا کے باغ میں داخل کروں گا اور جب میری رضا کی وادی میں آؤ گے تو جنتوں کو بھی بھول جاؤ گے۔۔۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں نے ایک مقام ایسا بھی رکھا ہے کہ اگر کوئی وہاں تک پہنچ جائے تو میں ان کو دیکھتا ہوں اور یہ مقامِ دیدار ہے۔ یہ اللہ کی قربت کا مقام ہے جو رضا کی وادی سے گذر جاتے ہیں وہ خدا کے دیدار کے مقام پر پہنچتے ہیں۔
گویا اللہ تعالیٰ نے پانچ نفسانی زینتوں کے مقابلے میں درج ذیل پانچ اخروی زینتیں رکھی ہیں:
- اخروی باغات کی فرحت
- اخروی نہروں کی فرحت
- اخروی سنگتوں کی فرحت
- اللہ کی رضا کی فرحت
- مقامِ دیدار
اللہ تعالیٰ کا ان اُخروی نعمتوں اور زینتوں کو ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے محبوب! جب میرے ان بندوں کو اس وجود کے نفسانی گھر سے نکلنے کے لیے دعوت دیں تو ان کے سامنے ان نفسانی زینتوں کے مقابلے میں آخرت کی زینتیں بھی رکھیں، شاید ان زینتوں کی خبر سن کر کسی کے باطن میں شوق کی چنگاری بھڑک اٹھے۔ اگر اس چنگاری سے آگ جل گئی تو اس آگ سے شہوتوں، رغبتوں اور زینتوں کے سارے حجابات جل کر راکھ ہوجائیں گے اور جب نفس کی زینتیں، رغبتیں جل کر خاکستر ہوجائیں گی تو اس وقت ان کا مطلعِ قلب صاف ہوجائے گا اور پھر انہیں اس مطلعِ قلب پر وہ حسنِ لازوال نظر آئے گا جس کی کوئی شبیہ اور کوئی عکس کبھی انہیں دنیا میں دکھائی نہیں دیا ہوگا۔
لہذا ان کو اِس نفسانی گھر کے مقابلے میں اُس روحانی گھر کی خبر دیں۔ اُس روحانی گھر کی مذکورہ خوبیوں کے علاوہ یہ خوبی بھی ہے کہ وہاں انہیں میری رضا بھی نصیب ہوگی اور میری قربت کی وادی میں بھی داخل ہوں گے۔ اس قربت کی وادی میں داخل ہوجانے کے بعد نُزُلًا مِنْ غُفُوْر الرَّحِیْم اِن کی خاطر تواضع کے لیے اللہ رب العزت کی جانب سے دستر خوان بچھایا جائے گا اور وہ اس دستر خوان پر بیٹھے سوچ رہے ہوں گے کہ آج دستر خوان کس نے بچھوایا ہے؟ ہم کس کے مہمان ہیں؟ آج ہمارا میزبان کون ہے؟ آواز آئے گی: سَلٰمٌ قَوْلًا مِنْ رَبِّ الرَّحِیْم میرے مہمانو! تم پر سلام، آج رب خود تمہارا میزبان ہے۔ پھر اچانک پردہ اٹھے گا اور سامنے وہ جلوۂ حق نمودار ہوگا۔ اس مقام پر وہ اپنے رب کو تک رہے ہوں گے اور رب ان کو تک رہا ہوگا۔
معلوم ہوا کہ اگر وجود کے عنصری اور نفسانی گھر سے نکل آئیں گے، نفسانی گھر کے سامانِ حرص و ہوس، غرور و تکبر، منافقت، غیض و غضب، طلبِ جاہ، غیبت، چغلی، حسد اور بغض کو چھوڑ دیں گے اور روحانی گھر میں آجائیں گے تو یہ مذکورہ نعمتیں اور زینتیں میسر آئیں گی۔ روحانی گھر کا سامان نفسانی گھر سے جدا ہے۔ اس میں تقویٰ، طہارت، قربتِ الہٰی، اطاعتِ الہٰی، رضائے الہٰی اور دیدارِ الہٰی کا سامان شامل ہے۔
فرمایا: محبوب! جس طرح آپ وجود کے گھر سے نکل آئے ہیں، اسی طرح ان امیتوں کو بھی فرمایئے کہ وہ بھی نکل آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اپنے وجود کے گھر سے نکلے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنے اخلاق سے بھی نکل آئے اور جب وہ اپنے اخلاق سے نکلے تو رب نے انہیں اخلاقِ الہٰیہ عطا کردیئے اور اپنے اخلاق سے نواز کر فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
القلم، 68: 4
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنے اخلاق کا ایسا رنگ چڑھایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلقِ عظیم پر فائز فرمادیا۔
یاد رکھیں! جب تک کوئی شخص ایک جگہ کو نہیں چھوڑتا، اگلی منزل نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نفسانی گھر کو چھوڑنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ وقتاً فوقتاً رضائے الہٰی اور نیکیوں کے حصول کے لیے توبہ و استغفار، گریہ و زاری، اعتکاف، حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے گھر سے نکلتے ہیں مگر موسم ختم ہونے کے بعد اسی نفسانی گھر میں پلٹ کر چلے جاتے ہیں۔ رمضان کا موسم ختم ہوگا تو گھوم پھر کے پھر نفسانی گھر میں چلے جائیں گے، پھر یہاں وہی غیبت، چغلی، حرص، لالچ، زرپرستی، شہوتیں، زیب و زینت ، تکبر اور رعونت میں گھِر جاتے ہیں۔ پھر پلٹ کر وہی نفسانی گھر کا سازو سامان ہوتا ہے اور ہم ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ ساری زندگی اسی تاریکی میں گزرتی ہے۔
جب تک اس نفسانی گھر کو چھوڑ نہ دیں، اس گھر سے نکل نہ آئیں، تب تک دوسرا گھر دکھایا تو جاسکتا ہے مگر مل نہیں سکتا۔ اگر اس دوسرے گھر کو چاہتے ہیں جو روحانیت کا گھر ہے تو پھر اس نفسانی گھر کو چھوڑنا ہوگا۔
عبادت و بندگی کا مقصود کیا ہونا چاہئے؟
اللہ تعالیٰ نے نفسانی گھر سے نکالنے کے بعد اس سے متصل ایک اور بات کی، فرمایا:
وَاِذْ یَعِدُکُمُ اﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّهَا لَکُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ.
الانفال، 8: 7
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقینا تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلّح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آ جائے ‘‘۔
غزوہ بدر کے لیے نکلتے ہوئے مسلمانوں کے سامنے دو لشکر تھے۔ پہلا ایک ہزار سپاہیوں پر مسلح لشکر تھا جبکہ کفارِ مکہ کا دوسرا لشکر غیر مسلح تھا اور وہ مال و دولت اور سامانِ تجارت پر مشتمل تھا۔ دوسرے لشکر میں دنیاوی منفعت تھی، اس لئے بعض مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ہم ان پر قابو پالیں۔
اس آیتِ کریمہ کا روحانی معنی یہ ہے کہ نیکی کی راہ پر نکلتے ہوئے ہماری نگاہ بھی دنیاوی دولت و منفعت پر ہوتی ہے۔ عبادت کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، خدا کے حضور روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے رزق میں کشائش و فراخی آجائے، مقدموں سے چھوٹ جائیں، اولاد میں برکت ہوجائے، مسائلِ دنیا حل ہوجائیں، گھر میں خیر ہوجائے، امتحانوں میں پاس ہوجائیں، بیماری دور ہوجائے، کاروبار اور روزگار میں ترقی ہو الغرض دنیاوی خواہشات کے حصول کے لیے اللہ کے حضور دعا گو رہتے ہیں۔
وہ فرماتا ہے کہ میرے بندے! تو نے میرے حضور رکوع و سجود کئے، سخت سردی کی راتوں میں شبِ بیداری کی، اعتکاف کیا، میرے لیے سفر کی مشقتیں برداشت کیں، میرے بندے تونے اتنا کچھ کیا، اب مانگ کیا مانگتا ہے؟ اتنی عبادت و ریاضت کے بعد بندہ جب اُس سے دولتِ دنیا اور مادی منفعتیں مانگتا ہے تو وہ اپنے بندوں کی دعائیں سن کر فرماتا ہے: افسوس اے بندے! جب تیرے مانگنے کا وقت آیا تو میری عبادت کرکے بھی تو نے مجھ سے میری دنیا مانگی۔ تجارت مانگی، وہ دنیا جس سے میں تمہیں نکالنا چاہتا تھا، اسی کی طلب کی۔ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَة وہ چیز مانگی جس میں عزت نہیں تھی اور اپنی ساری عبادتوں کا سودا صرف دنیا کے عوض کردیا۔ یہ تیری سوچ تھی۔ ایک میری سوچ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ:
یَعِدُکُمُ ﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ.
الانفال، 8: 7
رب چاہتا ہے کہ اے بندے ان سجدوں، اعتکافات، شب بیداریوں، عبادتوں، ریاضتوں، مشقتوں اور سفروں کے عوض مجھ سے چھوٹی چیز نہ مانگ۔ وہ تو تمہارا حق ہے جو میرے اوپر لازم ہے۔ میں وہ دیتا ہی رہوں گا مگر اے بندے! ان مشقتوں کے عوض مجھ سے بڑی چیز مانگ اور وہ بڑی چیز یہ ہے کہ مجھ سے مانگ کہ مولا مجھے نفس اور شیطان کے لشکر پر غلبہ عطا کر۔۔۔ مولا! میں ناسوتی ہوں، ملکوتی، جبروتی اور لاہوتی بن جاؤں۔۔۔ بندے ان عبادتوں کے عوض مجھ سے مجھے مانگ۔۔۔ مجھ سے میری قربت، رضا، مسکراہٹ، وصال اور میرا ایقان مانگ، پھر دیکھ میں تیرے لیے کیا کچھ نہیں کرتا۔
فرمایا: تم چھوٹی چیز مانگتے ہو جبکہ میں تمہیں بڑی چیز دینا چاہتا ہوں۔ تم دنیاوی شان و شوکت کی طرف جاتے ہو جبکہ میں تمہیں اخروی دائمی شان و شوک دینا چاہتا ہوں۔
روحانی گھر کی طرف سفر کے ثمرات
جو لوگ نفس اور شیطان پر غلبہ کی دعا مانگتے ہیں اور اس پر محنت کرتے ہیں کہ نفس پر قابو پالیں تو اس سبب سے وہ نفسانی گھر سے نکلنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ان میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ وجود اور نفس کا گھر چھوڑ کر روح کی طرف نکل آتے ہیں۔ یہ لوگ جب نفسانی گھر سے نکل کر روح کی طرف سفر شروع کرتے ہیں پھر عالم ملکوت اور مالاء اعلیٰ کی طرف سفر کرتے ہیں تو اس مقام پر اللہ کا ان کے بارے میں ارادہ یہ ہوتا ہے کہ:
اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِهٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الَکٰفِرِیْنَ.
الانفال، 8: 7
اس آیتِ مبارکہ کا روحانی معنی یہ ہے کہ جب تم اس راہ پر سفر شروع کرتے ہو تو اللہ اپنا کیا ہوا وعدہ پوراکرنے لگتا ہے۔ حکم ہوتا ہے اے بندے تو اس نفسانی گھر سے نکل کر تو دیکھ۔۔۔ جو اللہ چاہتا ہے وہ مانگ کر تو دیکھ۔۔۔ اپنی چھوٹی سوچ اور گھٹیا چاہت میں اپنے آپ کو قید نہ کر۔۔۔ اس چاہت کی قید سے نکل اور اُس لذتِ حقیقی کی چاہت کی طرف جا جو اللہ نے تیرے لیے چاہی۔۔۔ اسی صورت اللہ اپنے وعدے کو حق کرتا ہے اور تمہارے دلوں پر روحانی اثرات و برکات اور اپنی نعمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی و پرہیزگاروں کے لیے جنت، رضوانِ الہٰی، دیدارِ الہٰی اور انوارِ الہٰیہ کی لذت کی شکل میں اپنے انعام و اکرام سے نوازنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے لگتا ہے اور وہ اس کے دل پر یکے بعد دیگرے اپنے انوار و تجلیات اتارتا رہتا ہے۔
اللہ کی راہ میں چلتے چلتے وہ بندہ عالمِ روحانیت میں اس قدر ڈوب جاتا ہے کہ ابھی وہ آخرت کی جنت میں پہنچا نہیں مگر اسے دل کی آنکھ سے جنت کے نظارے ہونے لگتے ہیں۔ دل کی آنکھ اخروی نعمتوں کے نظاروں میں گم ہوجاتی ہے۔ کبھی اللہ کی رضا انوار و تجلیات کی شکل میں اس کے دل اور باطن میں اتر جاتی ہے جس سے مستی و بے خودی آتی ہے۔ پھر انسان مجلس میں بیٹھا کھویا کھویا ہوا نظر آتا ہے۔ جلوت میں بیٹھا ہوا خلوت میں چلا جاتا ہے۔ دوستوں کے ہجوم میں بیٹھا ہوا اُس (اللہ) کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تک رہا ہے مگر وہ اُس کی نعمتوں کو تک رہا ہوتا ہے اور دل آخرت کے نظاروں میں گم ہوتا ہے۔
جو نظارے مرنے کے بعد نصیب ہونا تھے، وہ اسی زندگی میں قلب اور باطن کی کیفیات بن کر اس پر طاری ہونے لگتے ہیں۔ یہ وہ مقام اور کیفیتیں ہیں جو کبھی کبھی اولیاء اللہ کی زبان سے بیان ہوتی ہیں۔ جب بندہ اللہ کے راستے کا مسافر بنتا ہے تو یہ انوار و تجلیات اور کیفیات و مشاہدات ابتداء میں شروع ہوجاتے ہیں اور یہ اس لیے شروع ہوتے ہیں تاکہ بندے کو یقین ہوجائے کہ جس کی یہ تجلی ہے وہ تجلی والا بھی ہوگا؟ جس حسن کی یہ جھلک ہے، آخرت میں وہ حسن بھی ہوگا۔
اس مقام پر اِن نظاروں کے ساتھ ساتھ اس کے باطل خیالات کو بھی معدوم کردیاجاتا ہے۔ ہم لوگ نماز و روزہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں مگر فاسد خیالات اور شیطانی وسوسے بھی آتے ہیں۔ تلاوت، عبادت، حج کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود شیطانی وسوسے اور فاسد خیالات بھی آتے ہیں۔ یہ باطل وسوسے اور خیالات کیوں آتے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے، حج و عمرہ کرتے ہوئے، عبادت و تسبیح کرتے ہوئے یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ساری عبادات کس گھر میں رہ کر ادا کی جارہی ہیں؟ عبادت اپنی جگہ مگر اس بات پر بھی تو غور کریں کہ یہ نفسانیت کے گھر میں رہتے ہوئے ادا کی جارہی ہے۔ لہذا جب انسان کا ڈیرہ نفسانیت کے گھر میں ہوگا تو خیالات نفسانی اور وسوسے شیطانی ہوں گے۔
اس کے برعکس جب انسان اللہ کی طرف سفر کا آغاز کرتا ہے اور نفسانیت کا گھر چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کو سچا ثابت کرنے کے لیے اس پر تجلیات نازل فرماتا ہے اور تجلیات کے نزول و واردات کے وقت جو قلبی مشاہدات ہوتی ہیں اس سے اس کا یقین بڑھتا چلا جاتا ہے اور جب یقین بڑھ جاتا ہے تو باطل خیالات کا ہجوم نہیں ہوتا اور یہ اس پر حملہ نہیں کرسکتے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ باطل و فاسد خیالات گھر سے باہر رہ جاتے ہیں کیونکہ روحانی گھر کی دیواریں اتنی مضبوط ہوچکی ہوتی ہیں کہ باطل کا لشکر حملہ نہیں کرسکتا، نتیجتاً انسان باطل و نفسانی خیالات اور شیطانی وساوس سے محفوظ ہوجاتا ہے۔
(جاری ہے)