حمد باری تعالیٰ
بنائے اپنی حکمت سے زمین وآسماں تو نے
دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے
تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکر ہستی
سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاج جسم وجاں تو نے
نہیں موقوف خلّاقی تری اس ایک دنیا پر
کئے ہیں ایسے ایسے سینکڑوں پیدا جہاں تو نے
دلوں کو معرفت کے نور سے تو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہوکر ہمیں اپنا نشاں تو نے
ہم اب سمجھے کہ شہنشاہ ملک لا مکاں تو ہے
بنایا اک بشر کو سرور کون ومکان تو نے
اثر تیری عطائوں پہ نہیں پڑتا خطائوں کا
جسے پیدا کیا ہے اس کو دیا ہے آب و نان تو نے
محمد مصطفی کی رحمت للعالمینی سے
بڑھائی یارب اپنے لطف و احساں کی شاں تو نے
تیرے دربار سے مجھ کو یہی انعام کیا کم ہے
کیا اپنی ستائش میں مجھے رطب اللساں تو نے
(مولانا ظفر علی خان)
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پسِ غروبِ سحر کھڑا ہے بجھا بجھا سا غلام اُن کا
اُداس لمحوں میں کاش آئے بہار لے کر پیام اُن کا
تھکی ہوئی ساعتوں نے آنچل میں بھر لیے ہیں گلاب تازہ
لُٹی ہوئی منزلوں سے کہہ دو مرا اثاثہ ہے نام اُن کا
وہی سکوں کی ردا بھی دیں گے شمیمِ خلدِ سخا بھی دیں گے
غلام زادوں کی بستیوں میں کرم رہے گا مدام اُن کا
سحابِ رحمت ازل سے سایہ فگن ہے تپتی ہوئی زمیں پر
جبینِ ارض و سما پہ روشن رہے گا نقشِ دوام اُن کا
مرا مقدّر، میں ہر اندھیرے کی دسترس سے رہا ہوں باہر
ہے روزِ اوّل سے میری آنکھوں میں ثبت ماہِ تمام اُن کا
علوم و فن کے وہی ہیں پیکر، صداقتوں کے وہی ہیں مظہر
تمدنوں کے لیے ابد تک ہے حرفِ آخر نظام اُن کا
کرے نہ کیوں پھر قلم بھی میرا سجود سادہ ورق پر اُن کا
خدا سکھاتا ہے اپنے بندوں کو روز و شب احترام اُن کا
ریاض سِدرہ بھی ڈھونڈتی ہے غبارِ نقشِ کفِ محمد
کسی کی فکرِ رسا میں آئے، نہیں یہ ممکن، مقام اُن کا
(ریاض حسین چودھری)