’’پاکستان کا نظام تعلیم، متشدّد رجحانات اور مدارس دینیہ ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی حال ہی میں ایک منفرد تحقیقی کتاب شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں پاکستان میں نظام تعلیم کو درپیش مسائل کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کیلئے قابل عمل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ کتاب میں مدارسِ دینیہ و دیگر تعلیمی اداروں سے متعلق تحقیقی جائزہ، اعداد و شمار اور تاریخی پس منظر کو صراحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں مذہبی مدارس کے تاریخی پس منظر ،قرونِ اولیٰ و وسطیٰ اور برصغیر پاک و ہند کے مختلف ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نظام تعلیم سے متعلق طلبہ و طالبات، اساتذہ اور والدین سے سوال و جواب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات کو کتاب میں بطور خاص شامل کیا گیا ہے، جس سے کتاب کی افادیت اور انفرادیت بڑھی ہے۔ کتاب میں مفید نظام تعلیم کی تشکیل و ترویج کے ساتھ ساتھ پرامن سوسائٹی کی تشکیل میں معاشی استحکام، مؤثر عدالتی نظام کے قیام، بیداریِ شعور کے ضمن میں میڈیا کے کردار، انتہا پسندانہ تحریر و تقریر کے انسداد اور تحمل و برداشت اور اختلاف رائے کے احترام کی ناگزیریت پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کے موضوع کی انفرادیت اور افادیت کے پیش نظر ماہنامہ منہاج القرآن میں اسے ماہِ مارچ 2018ء سے قسط وار شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے ضمن میں آپ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئے۔ (چیف ایڈیٹر )
مذہبی مدارس کا تاریخی پس منظر
لفظِ إِقْرَأْ کے ساتھ اِلہامی دینِ اسلام کی وحی کا آغاز تعلیم و تدریس کی ضرورت اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی حکمِ خداوندی کی پیروی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں مکی دور میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دینی و دنیوی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیا، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لانے کے بعد سب سے پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کی غرض سے مسجدِ نبوی میں باقاعدہ تعلیمی ادارہ قائم فرمایا۔ پھر انسانی تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ اس عظیم درس گاہ سے علومِ دینی و دنیوی حاصل کرنے والوں نے دنیا کی امامت کی اور شرق تا غرب علم کی روشنی کو خوب پھیلایا۔
مسجدِ نبوی سے علمی درس گاہ کے آغاز کے بعد اسی روایت کو جاری رکھتے ہوئے مابعد ادوار میں تسلسل کے ساتھ دینی مدارس قائم ہوتے رہے جو اُمتِ مسلمہ کو دین و دنیا کے علوم سے بیک وقت مستفید کرتے رہے۔ ان مدارسِ دینیہ نے عظیم مذہبی اسکالرز، علماے دین، عظیم سائنس دان، ماہرینِ طبیعات اور ماہرینِ انتظام و انصرام پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب مدارس میں دینی و دنیوی دونوں علوم پڑھائے جاتے تھے۔ تاریخی پس منظر یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا کو علم کی لازوال دولت، اقتصادی ترقی اور تکنیکی مہارتوں سے مالا مال کر دیا تھا۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جن کے پاس ایک طرف یونانی علوم و فنون پر دسترس تھی تو دوسری طرف قرآن حکیم کے ابدی علوم میں غوطہ زن تھے۔ جدید و قدیم علوم کے حسین امتزاج کے باعث انہوں نے جدید سائنسز متعارف کروائیں۔ وہ ترقی، خوشحالی اور روشنی کے عظیم مینار تھے۔ ان مدارس سے جابر بن حیان جیسے عظیم سائنس دان، امام غزالی جیسے فلاسفرز، امام جلال الدین سیوطی اور ابن العربی جیسے متصوف اور بو علی سینا جیسے عظیم ڈاکٹرز پیدا ہوئے۔ آنکھوں کو چندیا دینے والی سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی جس پر آج جدید انسانی تہذیب کو فخر ہے، یہ اہلِ یورپ نے مسلمانوں سے ورثہ میں لی اور اس میں مزید ترقیاں کیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جنہیں عالمی تعلیمی نظام میں نمایاں مقام حاصل ہے وہ مسلمانوں کے شاندار علمی عروج کے دور میں الازہر اور الزیتونہ (Al Zaituna) یونی ورسٹی کی طرز پر بنائی گئی تھیں۔ الغرض! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور معاشرتی و سیاسی ماحول میں تبدیلیوں کے باعث مذہبی مدارس مختلف تبدیلیوں سے گزرتے رہے۔
برصغیر پاک و ہند میں مذہبی مدارس کی تاریخ
مذہبی مدارس برصغیر پاک و ہند میں قیامِ پاکستان سے بھی پہلے کے موجود ہیں۔ تقسیم سے قبل ہندوستان میں تمام مسلم طبقات کے بچوں کے لیے بطورِ تعلیمی مراکز ان کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ تعلیمی اداروں میں جدید و قدیم علوم کا امتزاج تھا جو طلبہ میں شعور و آگہی، وسعتِ نظری اور وسیع عالمی نقطہ نظر پیدا کرتے تھے۔ تعلیمی ادارے ایسے علماء پیدا کرتے تھے جو بیک وقت سرکاری دفاتر میں اور سماجی سطح پر اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے۔ مسلمان اپنی مذہبی تعلیم مساجد سے حاصل کرتے تھے جبکہ پرائمری سکول ساتھ ہی منسلک ہوتے تھے۔ اس تعلیم کا بنیادی مقصد مذہبی رجال کار پیدا کرنا تھا جس کے تحت عامۃ الناس کو بیک وقت دنیا و آخرت کے لیے تیار کرنا تھا، گویا مذہب تمام تر علوم سیکھنے کا منبع تھا۔
برصغیر پاک و ہند میں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اسلامی تعلیمی اداروں کا احیاء تعلیمی اور تاریخی اعتبار سے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے ہندوستانی ماحول میں مسلم معاشرے کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی بحالی کی راہیں متعین کیں۔ اس مذہبی نظامِ تعلیم کے تحت ایک طرف مؤثر مذہبی رہنماؤں کی قیادت میں ہندوستانی مسلمانوںکی مسلسل کردار سازی کا عمل جاری تھا تو دوسری طرف ہندوؤں کے درمیان رہتے ہوئے نہایت منظم انداز میں مسلمانوں میں باہم اتحاد و یگانگت اور شعور بیدار کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس نظامِ تعلیم نے مسلمانوں کے اندر اسلامی طرز زندگی، اسلامی تاریخ، فلسفے اور تہذیب و ثقافت کا شعور بیدار کیا۔
مذہبی مدارس اور برطانوی دورِ حکومت
جنگ آزادی (1857ء) کی ناکامی کا دور مسلمانوں کی نا امیدی و مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ کیوں کہ برطانوی راج ان کے لیے نئے سیاسی نظام کا بھی پیش خیمہ تھا۔ مسلمان قوم جو صدیوں سے ہندوستان پر حکومت کر رہی تھی چند دہائیوں کے دورانیے ہی میں غلام اور محکوم ہو گئی اور اقتدار ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد جمود اور اضمحلال کا شکا ر ہو گئی تھی۔ نئے حکمران ان کی وفاداری پر شک کرنے لگے اور جنگِ آزادی میں شامل ہونے کی پاداش میں ان کے لیے سزاؤں کے پیمانے مقرر کیے گئے۔ برطانوی سیکولر نظامِ تعلیم کے ذریعے روایتی اور صدیوں پرانے نظامِ تعلیم کی تبدیلی کی وجہ سے مسلمانوں کو زوال کی طرف دھکیل دیا گیا اور ان کے حریف ہندو برطانیہ کے دوست بن گئے اور نئے نظامِ تعلیم کو اختیار کرنے لگ گئے۔ مسلمان خوفزدہ تھے کہ انگریزوں کے ذریعے متعارف کیا جانے والا نظامِ تعلیم ان کی مذہبی اقدار اور خاص مذہبی و ثقافتی شناخت کو تباہ و برباد کر دے گا۔
برصغیر پاک و ہند میں کئی صدیوں سے رائج تعلیمی نظام اُس وقت تنزلی کا شکار ہو گیا جب برطانیہ نے مسلمانوں سے اقتدار چھین کر اپنے قبضے میں کر لیا اور لبرل تعلیم کو متعارف کرایا۔ مشہور سرکاری مبصر (Civil Servant) - سر ولیم ہنٹر (Sir william Hunter) - نے اپنی کتاب میں اُس وقت کے حالات کی کچھ اِس طرح سے منظر کشی کی ہے:
’’ہندوستان میں اقتدار پر ہمارا قبضہ ہونے سے قبل ہندوستانی مسلمان صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ علمی طور پر بھی طاقت ور تھے۔ ان کا نظامِ تعلیم ہمارے قائم نظامِ تعلیم سے بہتر تھا۔ تاہم اس کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ وہ ایک علمی تربیت اور نکھار کے ایسے اصولوں پر مبنی تھا جو مکمل طور پر غیر معتبر نہیں تھے۔ لیکن انہیں فرسودہ طرز پر پیش کیا گیا تھا اور ہندوستان میں موجود دیگر نظام ہائے تعلیم کی نسبت یہ غیر معمولی طور پر اعلیٰ تھا۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جس سے نہ صرف انہیں علمی فوائد میسر آئے تھے بلکہ دنیوی بالادستی کا حصول بھی ممکن ہوا تھا۔
اپنے دور حکومت کے 75 سال ہم نے اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل افراد کو انتظامی معاملات چلانے کی غرض سے استعمال کیا۔ لیکن اس دوران ہم نے اپنے طور پر ایسی منصوبہ بندی کی کہ جس کے تحت جب ہم ایک نسل کی تربیت کر چکے ہوں گے تو ہم (مسلمانوں کے) پرانے نظامِ تعلیم کو ترک کر دیں گے اور برصغیر پاک و ہند میں ایک ایسی فضا قائم کر دیں گے جس میں(ان مدارس سے فارغ ہونے والے) مسلمان نوجوان اپنے لیے معاشی و معاشرتی زندگی میں ترقی کا ہر دروازہ بند پائیں گے۔‘‘
یوں مسلمانوں کا نظامِ تعلیم جو مذہبی اور سیکولر تعلیم کا بہترین امتزاج جانا جاتا تھا۔ جس کے تحت ایک طرف طلبہ کو اسلامک سائنسز مثلاً علوم القرآن، تفسیر، علوم الحدیث، اصول الحدیث، منطق، فقہ وغیرہ پڑھائی جاتی تھی اور دوسری طرف فزکس، ریاضی، کیمسٹری اور دیگر سائنسی مضامین میں ان کی قابلیت و اہلیت کو نکھارا جاتا تھا۔ گویا دینی اور عصری علوم و فنون ایک ہی نصابِ تعلیم کا حصہ تھے۔ امام جعفرالصادق رضی اللہ عنہ، امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اور امام مالک رضی اللہ عنہ کے استاد تھے اور ساتھ ہی وہ مشہور مسلم سائنسدان جابر بن حیان کے بھی استاد تھے۔ ایک ہی استاد سے زانوئے تلمذ طے کرنے والی یہ شخصیات اپنے اپنے علمی میادین کی امام بن گئیں۔ جب برطانوی سامراج نے برصغیر پر قبضہ کیا تو انہوں نے باقاعدہ سازش کے تحت مذہبی اور سیکولر تعلیم کو جدا جدا کر دیا اور برطانوی حکومت کے ذریعے تعلیمی اداروں میں جو تعلیم دی جاتی تھی وہ سیکولر تعلیم تھی؛ جب کہ مذہبی تعلیم صرف مذہبی اداروں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اپنی مذہبی اقدار، روایات اور تہذیب و ثقافت کے کھو جانے کے ڈر سے مسلمانوں نے برطانوی تعلیم کا بائیکاٹ کیا اور مذہبی تعلیم حاصل کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ اس حقیقت کی عکاسی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری اپنی کتاب ’فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟‘ کے صفحہ نمبر 71 پر اس طرح کرتے ہیں:
انگریز نے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے سیکولر نظامِ تعلیم ملک بھر میں رائج کر دیا۔ ایسے نظامِ تعلیم سے عالمِ اسلام میں کوئی رومی، رازی، فارابی، جامی اور ابنِ رشد جیسا ہمہ جہت عالم، مفکر اور دانش ور کیسے پیدا ہوسکتا تھا؟
(جاری ہے)