قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیں! تقدیر علمِ الٰہی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے، ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہئے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لئے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکامِ شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا، اس لئے کہ ہمیں شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے۔ ہم اس شرعی حکم کو بخوبی جانتے ہیں اور حکم کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ ہم اس حکم کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علمِ الٰہی کا جسے ہم جانتے ہی نہیں، بہانہ بنا کر غلط راہ اختیار کرتے ہیںکہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ ہمیں کیسے پتا چل گیا کہ ہماری قسمت میں یہی لکھا تھا؟ کیا ہم نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے، اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے، جس کے انجام سے باخبر ہیں، اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال مرحوم
تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نبادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اس غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کو جہنم زار بنا دیا ہے۔
عمل سے فارغ ہوا مسلمان
بنا کے بہانہ تقدیر کا
رزق کمانے کے لئے حلال و حرام ذرائع اختیار کرنا انسان کے اپنے اختیار میں ہے جبکہ مقدار میں اضافہ یا کمی انسان کے اختیار میں نہیں۔ ہم حکم خداوندی کے پابند ہیں، علمِ خداوندی کے نہیں۔ حکم ہے نماز پڑھو، ہم پر نماز پڑھنا فرض ہے۔ ہم یہ فرض اپنے اختیار سے بجا لائیں گے یا خواہش نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر ترک نماز کریں گے۔ یہ ہے اللہ کا علم، یعنی تقدیر ۔ رزق کمانے کا مسئلہ بھی غور کریں تو اس سے سمجھ میں آ جائے گا۔ رزق حلال کے حوالے سے حکم ہے:
کلوا من طیبات ستھرا، حلال کھاؤ۔ یہ حکم بالکل واضح ہے:
وَلَا تَاْکُلُوْآ اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ.
(البقرة، 2: 188)
اور تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھایا کرو۔
یہ ہے حکمِ ممانعت، جو بالکل واضح ہے۔ اب اللہ کا کمالِ علم یہ ہے کہ اسے معلوم ہے کہ ان واضح احکام کے باوجود، کون حلال کی پابندی کرے گا اور کون اپنے اختیار سے ان احکام کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ان تمام امور کو ازل سے جانتا ہے جبکہ بندے کو کرنے کے بعد معلوم ہو گا کہ میں نے کیا کیاغلطی کی، کب کی، کیوں کی؟ اب فرمایئے! انسان ان واضح احکام و ہدایات کے ہوتے، ان کے خلاف کیوں کرے؟ اور علمِ الٰہی جس کا اسے کوئی پتہ نہیں، اسے ترکِ حکم یا حکم کی خلاف ورزی کا کیوں بہانہ بنائے؟
غربت، پسماندگی، جہالت، بیروزگاری، ظلم، ڈاکے، قتل، اغوا، آبروریزیاں، تخریب کاریاں، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے تمام شیطان تقدیر کا غلط مفہوم نکال کر ہی اپنی کرتوتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کو ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ مظلوم کو دب دبا کر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا حکم دیا بلکہ مظلوموں کو ظالموں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا. وَاِنَّ اللهَ عَلٰی نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ.
(الحج، 22: 39)
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بے شک اللہ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیهَا اسْمُ اللهِ کَثِیرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللهِ مَنْ یَنْصُرُهُ إِنَّ اللهِ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ.
(الحج، 22: 40)
اور اگر اللہ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جدو جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اللہ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اللہ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقینًا اللہ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بے شک اللہ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے (گویا حق اور باطل کے تضاد و تصادم کے انقلابی عمل سے ہی حق کی بقا ممکن ہے)۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَوْ لَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللهَ ذُوْفَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ.
(البقرة، 2: 251)
اور اگر اللہ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو زمین (میں انسانی زندگی بعض جابروں کے مسلسل تسلّط اور ظلم کے باعث) برباد ہو جاتی مگر اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
ہم بعض اوقات مایوسی کے عالم میں جذباتی باتیں کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی ذات سے گلہ شکوہ کرتے ہیں۔ یہ گلہ شکوہ اللہ رب العزت پر نہیں بنتا اور نہ ہی تقدیرِ الہٰی کو بہانہ بناکر راهِ فرار اختیار کی جاسکتی ہے بلکہ غربت، بے روزگاری ور عدل و انصاف کے فقدان کا اصل سبب اس ملک میں رائج نظام ہے جو کسی کے دکھ درد کا ازالہ نہیں کرتا، صرف بڑے لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ان مصیبتوں کا سبب اللہ تعالیٰ سے منہ موڑنا اور اس کے حکموں سے انکار کرنا ہے اگر ہم اللہ کے بندے بن کر اس کے احکام اپنا لیتے تو یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوتے۔ دواء ہم استعمال نہ کریں اور الزام معالج کو دیں۔ ہمارے حقوق تو جابر لوگوں نے غصب کر رکھے ہیں تو پھر قصور کس کا ہے؟ خود سوچیں۔
ہمیں عقل، فہم، دانش، شعور، حواس اور وحی کے ذریعے اچھے برے کا تمام علم دے دیا گیا۔ سیدھے راستہ کی نشاندہی بھی فرما دی اور اس پر چلنے کا انجام بھی۔ برا راستہ بھی بتا دیا اور اس کو اپنانے کا خطرناک انجام بھی۔ ہمیں علم، شعور اور ارادہ و اختیار دے دیا کہ سمجھو اور جس راستے کو چاہو اختیار کر لو۔ یہ اختیار فرشتوں کو نہیں ملا، انسانوں کو ملا ہے۔ اس میں انسانوں کی عزت و عظمت ہے کہ وہ بے اختیار پتھر یا کسی مشین کا کل پرزہ نہیں۔ بااختیار، باشعور، مقتدر ہستی ہے لیکن اکثر انسانوں نے اللہ کی ان عطا شدہ نعمتوں کی ناقدری کی اور ان کا غلط استعمال کیا اور بجائے فائدے کے اپنی ہلاکت کا سامان کر لیا۔
جیسے لوہے سے آپ نے ایک نہایت ضروری اور کارآمد مفید آلہ چھری بنائی۔ اب اس کا استعمال ہمارے اختیار میں ہے چاہیں تو گوشت، سبزیاں، پھل وغیرہ کاٹ کر زندگی کی سہولتوں سے متمتع کریں اور چاہیں تو اپنے یا کسی اور بے گناہ کے پیٹ میں گھونپ کر چراغ زندگی گل کر دیں۔ قصور نہ لوہا بنانے والے خدا کا ہے نہ چھری بنانے والے کا۔ قصور اس احمق کا ہے جس نے خالق کی نافرمانی کی، دوسرے انسانوں سے بہتر استعمال کا سبق بھی نہ لیا اور کسی خیر خواہ کے مشورے پر بھی توجہ نہ دی۔ عقل و فہم اور شعور کا بھی خون کیا اور پند ناصح کو بھی درخور اعتناء نہ جانا۔ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے فریب نفس کا شکار ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاریاں کرتا ہے، اپنے نفس کو دھوکہ دیتا ہے اور پھر سب کچھ تقدیرِ الہٰی کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔
پُر تجسس ذہن وہ نہیں جو منفی سوچ سوچے، صحیح تجسس وہی ہے جو مثبت ہو۔ ہم صبح سویرے اٹھتے، قضائے حاجت سے فارغ ہوتے، ناشتہ کرتے اور دفتر، دکان، کارخانے، سکول، کالج، کھیت، زمین، باغ، منڈی کی طرف وقت مقررہ پر روزی کماتے اور مستقبل سنوارنے کے لئے ہمت کر کے چل پڑتے ہیں۔ اس وقت ایسی منفی سوچ نہیں سوچتے اور کبھی ان مصروفیات پر منفی سوچ کی گرد پڑنے نہیں دیتے، ہر کام وقت پر کرتے ہیں لیکن جونہی دینی فرائض انجام دینے کی باری آتی ہے تو نفس ہزاروں وسوسے پیدا کرتا اور انسان کو احساسِ ذمہ داری سے عاری کرتا ہے۔ کبھی اپنی کوتاہیوں کو تقدیر کے پلڑے میں ڈالتا ہے، کبھی ماحول کو آلودگی کے ذمے لگاتا ہے۔
یہ سب بہانے اور نفس کی خود فریبیاں ہیں۔ وسوسوں سے دامن بچایئے، ہدایاتِ نبوت پر یقین کے ساتھ کاربند ہونا سیکھئے اور سکون سے زندہ رہئے۔ نیک عمل کیجئے اور گناہوں کے خلاف سینہ سپر ہو جایئے۔ ان وساوس سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت بھی ہے، کسی بزرگ کی صحبت اختیار کریں اور اپنی زندگی سنواریئے اور دوسروں کا بھلا کیجئے۔
یاد رکھیں! ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا ہے اگر رضا سے مراد مشیت ہو تو ٹھیک اور اگر رضامندی کا معنی مراد ہے تو غلط۔ اللہ کی مشیت یہ ہے کہ ہر انسان کو اختیار، ارادہ اور اچھے برے کا علم حاصل ہو، نیکی و بدی کھول کر اس کے سامنے رکھ دی جائے۔ نیکی اور بدی کے نتیجہ سے اسے آگاہ کر دیا جائے اور کسی ایک کے اختیار کرنے میں اسے اختیار دیا جائے اور وہ اپنی مرضی و اختیار سے نیکی یا بدی میں سے ایک کو اختیار کر لے۔ اب بندہ کس کو اختیار کرتا ہے اس میں مختار ہے۔ کیا اختیار کرے گا، اس کو اللہ ازل سے جانتا ہے۔ اس علمِ الٰہی کو تقدیر کہتے ہیں کہ جو دنیا میں ہو رہا ہے اس کے علم اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہو رہا ہے۔ محض اتفاق سے کچھ بھی نہیں ہو رہا چونکہ بندہ نہیں جانتا اس لئے وہ اندھیرے میں تیر پھینکنے کا مکلف نہیں۔ وہ قرآن و سنت کے ان احکامات پر عمل کرنے کا مکلف ہے جو واضح ہیں اور جن میں خفاء نہیں لہٰذا وہ احکامِ شرع چھوڑ کر علمِ الٰہی کی کھوج میں کیوں لگے؟
دنیا کمانے میں تقدیر کا سہارا کوئی نہیں لیتا، تگ و دو کرتا ہے۔ دین کے معاملہ میں بہانے بنائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تقدیر کی فکر نہ کریں، احکامِ شرع کی تعمیل کی فکر کریں۔ کیا سود خور یہ کہہ کر بچ جائے گا کہ میری تقدیر میں سود خوری لکھی ہوئی تھی۔ کہا جائے گا آپ کو تقدیر یعنی علم الٰہی جو غیب ہے وہ نظر آ گیا اور قرآن میں حرمتِ سود کا واضح حکم نظر نہ آیا۔
کیا قاتل یہ کہہ کر چھوٹ جائے گا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونا تقدیر میں تھا۔ کہا جائے گا حرمتِ جان اور قتل کا حرام ہونا قرآن میں واضح طور پر موجود تھا جس کے آپ مکلف تھے۔ کیا نوشتہ تقدیر بھی آپ کے سامنے ایسا ہی واضح تھا جس پر آپ نے عمل کیا؟ حکمِ شرع پر عمل کرنا تو قرآن میں موجود ہے، کیا تقدیر کے مطابق عمل کرنے کا بھی قرآن و سنت میں کہیں حکم ہے؟ لہٰذا احکامِ شرع پر عمل کریں جس کا حکم ہے، تقدیر علمِ خداوندی کا نام ہے، اسے سپردِ خدا کریں۔