ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون: محبوب حسین
علمِ صحیح، عقیدۂ صحیح اور معرفتِ صحیحہ پر قائم لوگ اللہ کی محبت میں کثرت سے سجدہ ریزیاں اور آہ و بکاء کرنے والے ہوتے ہیں۔ جس قدر ان کے سجدوں اور آہ و بکاء میں اضافہ ہوتا ہے، اسی قدر معرفتِ الہٰی ان پر آشکار ہوتی ہے اور عشق و محبتِ الہٰی میں آہ و بکاء کرنا ان کے خشوع و خضوع میں اضافہ کا باعث ہوتا چلا جاتا ہے۔ رونے اور گریہ و زاری کے چھ اسباب ہیں:
رونے کا پہلا سبب ’’الخطیئہ‘‘ ہے۔ یعنی انسان اپنی خطاؤں کو یاد کرکے روتا ہے۔ رونے کا دوسرا سبب ’’خوف‘‘ ہے۔ یعنی خطاؤں کے احساس پر یا اللہ رب العزت کی ہیبت اور جلال پر خوفزدہ ہوتے ہوئے انسان روتا ہے۔ رونے کا تیسرا سبب الفقد ہے۔ یعنی اللہ رب العزت کے کسی احسان، کرم اور نعمت سے بندہ محروم ہوجائے تو اس پر بندے کو جو رونا آئے اُسے بکاء الفقد کہتے ہیں۔ بکاء کا چوتھا سبب ’’الحیاء‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم اور شفقت اور اس کی مہربانیوں، عنایتوں اور بخششوں کے حیاء میں رونا بکاء الحیاء ہے ۔ بکاء کا پانچواں سبب الھیبۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بڑائی و عظمت اور اعلیٰ مقام کا تصور کرکے رونا ’’بکاء الھیبۃ‘‘ ہے۔ گریہ و زاری اور بکاء کا چھٹا سبب اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس سے ملاقات کے شوق میں رونا ہے۔
بکاء الشوق والمحبۃ کے حوالے سے چند واقعات ماہ اپریل 2022ء کے شمارہ میں شائع ہوچکے ہیں، اس حوالے سے مزید واقعات درج کیے جارہے ہیں، جن سے اندازہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا گریہ و زاری کرنا کس سوچ اور ارادے کے تحت ہوتا ہے اور وہ کس طرح اِس گریہ و زاری اور بکاء کے ذریعے لذتِ توحید سے آشنا ہوتے ہیں۔
قرب میں آزمائش ہے
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو حرمِ کعبہ میں دیکھا کہ وہ عارفوں اور عاشقوں کی طرح رو رہا تھا۔ میں اس کے قریب ہوا کہ معلوم کروں کہ کیا کہتا ہے؟ میں نے اس سے پوچھا: اے رونے والے! کیا تیرا کوئی دوست نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ہے۔
میں نے پوچھا:
حبیبک قریب ام بعید؟
تیرا دوست تیرے قریب رہتا ہے یا تجھ سے بہت دورہے؟ یعنی تو رو کیوں رہا ہے؟ کہیں تیرا دوست تجھ سے دور تو نہیں ہے؟
اس نے کہا: میرا دوست میرے بہت قریب ہے۔
میں نے پوچھا:
مخالف لک ام موافق؟
کیا تیرا دوست تیرے مخالف ہوگیا ہے اور تیرے موافق نہیں رہا، اس لیے تو رو رہا ہے؟
اس نے کہا:
بل موافق لی.
میرا دوست میرے ساتھ ہے۔ میرے مخالف نہیں ہوا، میرا بڑا خیال رکھتا ہے۔
میں نے کہا: سبحان اللہ! جب تیرا دوست بھی ہے، تیرے بہت قریب بھی ہے اور تیرا خیال بھی بہت رکھتا ہے تو پھر کیوں روتا ہے؟
اس نے کہا: تجھے معلوم نہیں ہے کہ دوری اور مخالفت کا عذاب کم ہوتا ہے جبکہ قربت اور موافقت (دوستی) کا عذاب بہت شدید ہوتا ہے۔ جب دوستی اور تعلق مل جاتا ہے، محبت استوار ہوجاتی ہے تو اس قربت و موافقت میں ہمیشہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں محبوب کی بے ادبی نہ ہوجائے، کہیں کوئی خطا نہ ہوجائے، کہیں اس کے امر کی اہمیت کم نہ ہوجائے، کہیں وہ مجھ سے خفاء نہ ہوجائے، کہیں رخ نہ پھیرلے، کہیں مجھ سے ادنیٰ سی غفلت نہ ہوجائے اور اس کے دھیان میں کمی نہ آجائے۔ جب محبوب کی قربت، دوستی اور ولایت ملتی ہے تو دل میں یہی دھڑکن اور خدشہ لگا رہتا ہے اور یہ کیفیت اس عذاب سے بھی سخت ہوتی ہے جو مخالفت اور بُعد کا عذاب ہوتاہے۔ قرب بڑی آزمائش ہے، اس بات پر روتا ہوں کہ کہیں غلطی نہ ہوجائے اور میں اس کی نگاہوں سے گر نہ جاؤں۔
مومن اور منافق کے رونے میں فرق
صوفیاء، عرفاء اور عاشقین کہتے ہیں کہ منافق کا رونا فقط آنکھ کا رونا ہوتاہے، اس کی آنکھ روتی ہے مگر اس بکاء میں اس کا دل شریک نہیں ہوتا جبکہ مومن کا رونا دل کا رونا ہے، اس کی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی شریک ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات تو آنکھ نہیں روتی مگر دل حالتِ بکاء میں ہوتا ہے چونکہ اس کا دل عشقِ الہٰی سے لبریز ہوتا ہے۔
حضرت فضیل ابن عیاض فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ آنکھ سے روتا ہے مگراس کا دل غافل ہے اور دل اپنے مولا کو بھولا ہوا ہے تو سمجھ لو کہ یہ رونا منافقت کا رونا ہے۔ مومن کی بکاء یہ ہے کہ اس کا دل کبھی مولا کی یاد سے غافل نہیں ہوتا اور کبھی اس کے دل پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ آنکھ روئے یا نہ روئے مگر دل کبھی اسے نہ بھولے اور اس کی یاد میں روئے۔
قربتِ محبوب کے لیے محبوب کی پسند کو اپنانا
حضرت مالک بن دینارؒ اپنے نفس کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے:
اے نفس تو چاہتا ہے کہ تو آخرت میں جنت میں اپنے مالک و محبوب کے پڑوس میں جائے۔۔۔ تو چاہتا ہے کہ وہاں تجھے اس کا دیدار اور قربت نصیب ہو۔۔۔ تو بتا اے نفس! کون سی شہوت ہے جو تو نے اس محبوب کے لیے چھوڑ دی ہے۔۔۔؟ نفس کی کون سی بری خواہش ہے، جس کو تو نے اس محبوب کے دیدار کی خاطر ترک کردیا ہے۔۔۔؟ نفس کی وہ کون سی مرغوبات اورمحبوبات ہیں جن کو تونے اس محبوب کی قربت اور پڑوس کے لیے ترک کردیا ہے۔۔۔؟ کون سا بُعد ایسا ہے جو تو نے اللہ تعالیٰ کی قربت میں بدل دیا ہے۔۔۔؟ اپنے عمل، ریاضت، تقویٰ، پرہیزگاری، صدق و اخلاص، عبادتوں، عبدیت، اخلاق اور اپنے ظاہر و باطن کو بدل کر کون سی دوری کو تو نے قربت بنادیا ہے۔۔۔؟ کون سی عداوت ایسی ہے جو تو نے اللہ کی وجہ سے رکھی ہے کہ یہ چیزیں اللہ کو ناپسند ہیں، اس لیے تو ان کو چھوڑ دے۔۔۔؟
تیرا نفس جو تجھے کہتا ہے تو وہ کرتا ہے، خواہ وہ عمل اللہ کو ناپسند ہو۔۔۔ تو اس نفس کی غلامی کرتاہے، نفس کی چاہت کی وجہ سے تو تکبر، شہوت، لذت، منصب، طاقت، مال اور عزت کے پیچھے مارا مارا پھرتا ہے۔ ان ساری چیزوں میں سے بتا! اس محبوب کی قربت کے لیے کون کون سی چیزیں تو نے چھوڑی ہیں۔۔۔؟ کون سا غصہ ایسا ہے جو تو اللہ کے لیے پی گیا۔۔۔؟ جب بات تمہاری خواہش کی نہیں ہوتی، ہر معاملہ تمہاری اپنی راحت کے مطابق نہیں ہوتا تو غصے میں آتے ہو، کتنے غصے مالک کے لیے پی گئے ہو۔۔۔؟ کتنی معافیاں تم نے مالک کی رضا کے لیے لوگوں کو دی ہیں۔۔۔؟ لوگ تم سے ناراض اور تم لوگوں سے خفا ہوتے ہوگے، تمہارے خیال میں کسی نے تمہاری بے عزتی کی ہوگی، کسی نے تمہاری حق تلفی کی ہوگی، کسی نے تمھیں عزت نہ دی ہوگی، جوجو تم چاہتے یا سوچتے ہو، تمہارا ذہن، دل، دماغ جو کہتا ہے، وہ تمہیں نہیں ملا ہوگا اور تم ناراض ہوگئے ہوگے، اللہ سے معافی کے طلب کی امید رکھنے والے! بتا کتنی معافیاں تم نے دنیا کے لوگوں کو دی ہیں کہ اب اللہ کی معافی کے طلبگار بن سکو۔۔۔؟
حضرت مالک بن دینارؒ اس طرح اپنے نفس سے گفتگو کرتے اور اس طرح کرتے کرتے ہمیشہ مجلس میں بے ہوش ہوجاتے تھے۔
دیدار کے قابل کہاں میری نظر ہے
حضرت امام حسن بصریؓ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور کہا کہ میری ایک بیٹی ہے، وہ ہر وقت روتی رہتی ہے۔ روتے روتے اس کی آنکھوں کی بینائی کم ہوتی جارہی ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں اور میری بیٹی کو یہ نصیحت کریں کہ کچھ اپنی جان کا خیال کرے اور کچھ نرمی کرے۔ امام حسن بصریؓ اس صاحب کے ساتھ چلے گئے اور اس کی بیٹی کو نصیحت کی کہ بیٹی! اپنی جان کے ساتھ کچھ نرمی کر۔ آپ کے کلماتِ نصیحت سننے کے بعد اس بیٹی نے کہا: اے میرے شیخ! میرا رونا دو اسباب میں سے کسی ایک سبب کے باعث ہے:
پہلا یہ کہ میں سوچتی ہوں کہ جب جنت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا تو کیا میری آنکھیں اللہ کے دیدار کے قابل ہیں کہ اس کو دیکھ سکوں، یا میری آنکھیں اس کے دیدارکے قابل نہیں ہیں؟ شیخ! اگر تو میری آنکھیں اس کے دیدار کے قابل نہیں ہیں یا یہ آنکھیں مولا کا دیدار نہیں کرسکتیں توپھر رو رو کر انہیں نابینا ہی ہوجانا چاہیے کہ جو آنکھیں اس کے دیدار کے قابل نہیں تو وہ بینائی رکھنے کی حقدار نہیں۔ جب یہ محبوب کو جنت میں نہیں دیکھ سکیں گی یا اس دنیا میں اس کی تجلیات کا مشاہدہ نہیں کرسکتیں تو پھر ان آنکھوں کی بینائی کا ختم ہوجانا ہی بہتر ہے۔
دوسرا امکان یہ ہے کہ اگر واقعتا میری یہ آنکھیں اس قابل ہوگئی ہیں کہ اس کا دیدار یا اس کی تجلیات کا مشاہدہ کرسکیں تو یہ دو کیا دو ہزار آنکھیں بھی ہوں تو اس نعمت کے شکر پر قربان ہیں۔ یعنی میں اس صورت میں شکر مندی کا رونا روتی ہوں کہ مولا تو نے میری آنکھوں کو اس قابل بنادیا ہے کہ تیرا دیدار کرسکیں اور تیری تجلیات کا مشاہدہ کرسکیں۔
اس بیٹی کی یہ بات سن کر سیدنا امام حسن بصریؓ کھڑے ہوگئے اور چلتے ہوئے کہنے لگے: میری بیٹی! میں تمہارے درد کا مداوا کرنے آیا تھا مگر تم سے مل کر خود سراپا درد بن کر جارہا ہوں۔ میں تمہارے لیے طبیب اور معالج بن کر آیا تھا مگر میں تو خود مریض بن کر جارہاہوں۔
واہ! یہ کیسے لوگ تھے اور کتنا پاک زمانہ تھا کہ ان میں سے کسی میں انا اور تکبر نہ تھا، کوئی اپنے آپ کو بڑا نہیں جانتا تھا۔ امام حسن بصریؓ کا اپنا ایک مقام ہے مگر کوئی بڑا پن نہیں تھا، کوئی ’’میں‘‘ نہیں تھی۔
شوقِ ملاقات
امام السید احمدالرفاعی ’’حالۃ اہل الحقیقۃ مع اللّٰہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمہ بنت خالد المخزومی بیان کرتی ہیں کہ ایک عارفہ و عاشقہ خاتون شام سے اللہ کے گھر کے طواف کے لیے آئیں، ان کو حزینہ شامیہ کہتے تھے۔ وہ عشقِ الہٰی میں بڑا روتیںاور غمزدہ رہتی تھیں۔ ان پر ہمیشہ اللہ کے دیدارکی آرزو اور شوق کا غلبہ رہتا تھا۔ جب کبھی طواف کے دوران ان کی نگاہ کعبہ کے دروازے پر پڑتی تو بے اختیار ان کی زبان سے نکلتا: ’’بیت ربی، بیت ربی‘‘ ’’میرے رب کا گھر، میرے رب کا گھر‘‘
بس یہی کہتیں اور زارو قطار روتیں۔ایک روز کعبہ شریف کا دروازہ کھلا تھا اور کچھ لوگ اندر داخل ہورہے تھے اور اندر جاکر رو رہے تھے۔ یہ خاتون دروازے کے پاس گئیں کہ سنوں یہ رونے والے کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے سنا کہ اندر داخل ہونے والے کہہ رہے تھے:
مالکنا وقرة اعیننا!
اے ہمارے مالک اور اے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، شوقِ ملاقات میں زمانہ گزر گیا۔
متیٰ تکون ملاقاتنا؟
ہماری ملاقات کب ہوگی؟
اس خاتون نے جونہی یہ کلمات سنے تو ان کی چیخ نکلی، بیہوش ہوکر گر پڑیں، کچھ وقت جسم تڑپتا رہا اور پھر روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
- حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھی بازارجانے لگے تو آپ نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو؟ انھوں نے کہا کہ میں بازار گھر والوں کے لیے کچھ چیزیں خریدنے جارہا ہوں، اگر آپ کو بھی کچھ چاہیے تو بتادیں، میں لے آؤں گا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روپڑے اور فرمانے لگے: ’’ہاں! ایک چیز خریدنی ہے، اگر تم خریدکر لاسکو۔ انھوں نے پوچھا: کیا؟ فرمایا: اگر تمہاری قدرت اور طاقت خرید کر لانے کی ہو تو اس شے کو میرے لیے لے آؤ اور وہ موت ہے۔ مجھے مولا سے ملاقات کا انتظار کرتے کرتے طویل زمانہ گزر گیا۔ کب موت کے دروازے سے گزر ہوگا اور اس سے ملاقات ہوگی۔
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زارو قطار رو پڑے اور کہنے لگے کہ وہ مجھے نہیں دیکھنے دیتا، میں اس قابل نہیں ہوں کہ اسے دیکھ سکوں۔
- حضرت ابوالفتح الموصلیؒ کی دو بیٹیاں تھیں اور دونوں عارف باللہ تھیں، اللہ نے انھیں اپنی معرفت کا خزانہ دے رکھا تھا۔ وہ دونوں حج کے لیے گئیں اور جب کعبۃ اللہ کے قریب پہنچیں تو ایک بہن نے دوسری بہن سے پوچھا: أھذا بیت ربی؟ میری بہن! کیا یہ ہے میرے رب کا گھر؟ اس نے جواب دیا: ہاں، یہی ہے مولا کا گھر۔ یہ سن کر اس کی چیخ نکلی اور اسی لمحے روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
واہ! کیا پاکیزہ زمانہ تھا۔ آج اگر کوئی میری تمنا و خواہش یا حسرت پوچھے تو میں یہ کہوں گا کہ کاش میں بھی اس زمانے میں پیدا ہوا ہوتا جس زمانے کے لوگوں کو اس نے یہ لذتِ بکاء و گریہ زاری دی تھی، جن کو اس نے اپنا عشق اور معرفت دی تھی، جن سے حجابات اٹھادیئے تھے اور جو اس کی تجلیات کے سمندروں میں غوطہ زن رہتے تھے۔ آہ! کیسے عاشق تھے کہ ایسے احوال ان پر طاری ہوتے کہ چیخ نکلتی اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجاتی۔ کاش میں بھی اس زمانے میں ہوتا اور ان عاشقوں کی مجلس مجھے بھی نصیب ہوتی۔ کاش! کبھی کسی ایسے موقع پر ان عاشقوں اور عارفوں کی ہمراہی میں میری بھی چیخ نکلتی اور روح قفس عنصری سے پروازکرگئی ہوتی۔ اب تو صورتِ حال بقولِ اقبال یہ ہے کہ:
نہ وہ عشق میں رہی گرمیاں
نہ وہ حسن میں رہی شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی
نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی
تو زمین سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں
یہ صنم آشنائی کا دور ہے۔ کتنے ہی صنم ہیں جو دل میں گھر کرگئے ہیں اور ہمیں خبر ہی نہیں۔ ہائے افسوس! ہمارے ذہن، دل اور سوچیں فریب زدہ ہوچکی ہیں۔
علاماتِ محبت و شوق
سیدنا ابراہیم بن ادھمؒ فرماتے ہیں کہ میں لبنان کے سفر پر تھا کہ وہاں پہاڑوں میں ایک جوان کو دیکھا جو کھڑا ہوا یہ کہہ رہا تھا:
یامن قلبی له محب ونفسی له خادم.
اے وہ محبوب! میرا دل جس کا عاشق ہے اور میری جان جس کی خادم ہے۔
شوقی الیہ شدید متی القاک میرا شوق بہت شدید ہوگیا ہے، تجھ سے ملاقات کب ہوگی؟
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ فرماتے ہیں کہ میں اس کے قریب ہوا اور اس سے پوچھا:
’’رحمک اللّٰه ماعلامة حب اللّٰه‘‘.
اللہ تجھ پہ رحم کرے، مجھے بتا! اللہ کے عشق اور محبت کی علامت کیا ہے؟
اس نے جواب دیا: حب ذکرہ۔ اس کی یاد اور ذکر سے محبت کرنا، عشق کی علامت ہے۔ جس کو کسی سے محبت ہوتی ہے تو وہ اس کے ذکر، یاد، تذکرے، زندگی الغرض اس کی ہر شے سے محبت کرتا ہے۔
میں نے پوچھا: فما علامۃ المشتاق؟ اس کا شوق رکھنے والے اور اس سے محبت رکھنے والے کی علامت کیا ہے؟
اس نے کہا: ان لا ینساه فی کل حال.
وہ کسی حال میں بھی محبوب کو نہ بھولے۔ اگر اس کا دل کسی بھی حال میں محبوب کو نہیں بھولتا تو پھر وہ اس کا مشتاق ہے۔
وہ لذتیں جو جنت میں نہیں ہیں!
حضرت ابولحسین کہتے ہیں کہ دنیا سے بہت لوگ لذتوں کو چکھے بغیر چلے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا کہ وہ لذتیں کیا ہیں جنہیں چکھے بغیر لوگ دنیا سے چلے جاتے ہیں؟ انھوں نے کہا:
(i) دنیامیں جب محبوب دکھائی نہیں دیتا تو عاشق غیبوبت کے عالم میں اس کو یاد کرتا ہے اور اس کے ذکر کی لذت پاتا ہے اور یہ نعمت صرف دنیا میں ہے۔
(ii) اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں، ان نعمتوں کا ادراک اور احساس کرنا کہ مجھے اللہ نے نعمت دی ہے اور پھر اس کی حلاوت اور لذت کو پانا، اس کو پہچاننا اور اللہ کی معرفت کا سرور و کیف لینا۔
(iii) پھر جب اس سے عشق ہوجائے تو اس کی ملاقات کے لیے طبیعت کا مانوس ہوجانا کہ ہر وقت اس کے شوق اور محبت میں اس کی ملاقات کے انتظار میں رہنا۔
یہ لذتیں دنیا میں ہیں، یہ جنت میں نہیں ملیں گی۔ اس لیے کہ وہاں تو ذکر کرنے والے اجر پاچکے ہوں گے۔ ان نعمتوں کے حوالے سے چار طرح کے لوگ ہیں:
(i) بہت سے لوگ ِان نعمتوں کو جو اللہ نے دنیا میں رکھی ہیں، ان کی لذت چکھے بغیر چلے جاتے ہیں۔
(ii) کچھ ایسے ہیں جو اِن نعمتوں کو چکھتے ہیں مگر پھر اسے برقرار نہیں رکھ سکتے اور ان سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ان لذتوں کو لینا خوش نصیبی اور نعمت ہے مگر زندگی بھر مرتے دم تک ان کو برقرار رکھنا اس نعمت سے سو گنا بڑی نعمت ہے۔ اسی میں لوگ پھسل جاتے ہیں اور غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، نفس اور شیطان ان پر حملہ آورہوتا ہے اور انھیں بہکا اور پھسلا دیتاہے۔ نتیجتاً وہ ملی ہوئی نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مذکورہ دونوں قسم کے لوگ اس نعمت سے محروم ہیں وہ دنیا سے اس کے بغیر چلے گئے۔
(iii) کچھ لوگ وہ ہیں جو دنیا میں مولا کی راہ پر چلتے نہیں ہیں، انھوںنے تو دعوت کو قبول نہیں کیا، مولا کی آواز ان کے کان پر نہیں پڑی، دھیان نہیں دیا، اس کی طرف نہیں آئے، پس وہ ذکر، فکر، دعوت، عبادت، طاعت اور معرفت کی طرف نہیں آئے اور اس کی لذت نہیں چکھی۔
(iv) کچھ خوش نصیب لوگ وہ ہیں جو اس راہ پر چل پڑتے ہیں، انھیں یہ کھانا مل جاتا ہے اور وہ اسے چکھ لیتے ہیں، پھر اس کا کیف، سرور اور لذت لیتے ہیں اور استقامت سے اس راہ پر قائم رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابن سیریں فرماتے تھے:
لو خیرت بین الجنت والرکعتین تخیرت رکعتین.
اگر مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ جنت اور دو رکعتیں پڑھ لینے کی فرصت میں سے کیا لو گے تو میں دو رکعتوں کی فرصت لوں گا۔
یہ لذت اگر کسی کو مل جائے اور وہ اسے برقرار رکھ لے تو اسے استقامت کہتے ہیں۔ اس استقامت کا اجر قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا، ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓئِکَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.
(فصلت، 41: 30)
’’بے شک جِن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘
گویا یہ مولا کے ہوگئے اور مولا کو اپنا مان لیا اور پھر مرتے دم تک پھسلے نہیں بلکہ قائم رہے تو ان پر فرشتے اترتے ہیں، ان پر انوار اور تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔ اسی بناء پر امام ابن سیرین نے فرمایا کہ وہ دو رکعتوں کو ترجیح دیں گے، اس لیے کہ جو لذت اس کی بارگاہ میں کھڑے ہونے میں ہے، وہ کسی اور جگہ نصیب نہیں ہوسکتی۔ جنت میں یہ نماز، یہ سجدے، تواضع و انکساری اور خشوع و خضوع نہیںملیں گے۔ اس لیے کہ جنت تو انعامات کی دنیا ہے۔ جنت میں تو کبھی کبھی اس کا دیدار ہوگا اور بیشتر وقت باغ و بہار اور جنت کے مرغوبات و محبوبات میں بندہ مشغول رہے گا۔ جبکہ عاشقوں کو جو لذت اس مولا کو دیکھے بغیر اس کی ملاقات کے شوق اور انتظار میں تڑپنے، سجدے کرنے، پکارنے اور مناجات میں ملتی ہے، وہ لذت کسی اور شے میں نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم بن ادھمؓ فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے کئی انبیاء کو یہ فرمایا:
من ارادنا لم یرد سواء نا.
’’جو ہمارا سچا ارادہ کرلے پھر وہ ہمارے سواکسی اور کا ارادہ نہیں کرتا۔ ‘‘
اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کے ساتھ تعلق کو پیدا کریں اور پھر جب تعلق نصیب ہوجائے تو اس پر استقامت اختیار کریں۔ نفس کے حملے بڑے شدید ہیں۔ یہ انتقام بھی لیتا ہے اور انتقام میں اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ نہیں سوچتا میں کس کس نعمت سے بندے کو محروم کررہا ہوں۔ شیطان نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ میںنیکی کی راہ پر چلنے والوں کو پھسلاؤں گا، اگر بندے کو اپنے پھسلنے اور بہکنے کا احساس ہوجائے تو پھر تو بندہ اپنے آپ کو روک لے گا اور بچالے گا اور اس صورت میں تو شیطان ناکام ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ نفس اور شیطان انسان کو احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ بہک رہا ہے بلکہ اسے یہی احساس رہتا ہے کہ میں نہیں پھسلا۔
اطاعت و عبادت میں استقامت
حضرت ذوالنون مصری (اور اسی مقام کے دیگر اولیاء) کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ میں نے مسجد الحرام میں طواف میں ایک جوان کو دیکھا جس پر بھوک اور فاقے کی کیفیت تھی۔ مجھے اس پر رحم آیا، میرے پاس سو دینار تھے، میں اس کے قریب ہوا اور کہا کہ میرے دوست یہ تھوڑی سی چیز ہے یہ اپنے پاس رکھ لو، آپ کی حاجات میں کام آئے گا۔ اس نے توجہ نہیں کی۔ میں نے دو تین مرتبہ اس نوجوان کی منت سماجت کی کہ اِسے رکھ لے مگر وہ میری طرف متوجہ نہ ہوا۔ میرے حد سے زیادہ اصرار پر اس جوان نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ شیخ جو حالت مجھے میسر ہے، اس کے بدلے مجھے کوئی ساری جنت بھی دے دے تو میں اس جنت کے عوض بھی یہ حالت نہیں بیچوں گا۔ اس دنیا کے چار درہم و دینار کے ساتھ یہ حالت کیسے بیچ دوں؟ آپ کو کیا خبر کہ اس حالت میں مجھے کیا لذت نصیب ہوتی ہے۔
ہم میں سے ہر شخص کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ مناجات حاصل کرے اور پھر اس پر محنت کرے۔ صرف مناجات ہی نہیں بلکہ لذتِ مناجات بھی نصیب ہو۔ نیکیاں، عبادتیں، طاعت گزاری ہو مگر صرف طاعات ہی نہیں بلکہ لذتِ طاعات بھی حاصل کریں کہ اس کی طاعت کی بجا آوری، سجدہ ریزی، اللہ کی بات کرنے اور سننے، اس کے حکم پر زندگی میں عمل کرنے میں لذت بھی ملے۔ اسی طرح استقامت کی لذت بھی پاؤ۔ اس لیے کہ لذت کا نہ ملنا طاعت اور استقامت سے محرومی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ لذت اسی وقت ممکن ہے کہ بندہ صرف اور صرف مولا پر توجہ مرکوز رکھے۔
زندگی میں کئی طرح کی پریشانیاں، رزق میں مشکلات، صحت، تندرستی، بیماری کے معاملات، حالات کی سنگینی آتی ہے، زندگی کے یہ زیرو بم بندے کے پایہ استقامت کو متزلزل کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیوں کو اپنے سامنے رکھیں کہ وہ کن کن مشکلات سے گزرے مگر انھوں نے اپنے پائے استقامت کو متزلزل نہیں ہونے دیا۔ دنیا، نفس اور شیطان تینوں چیزوں کا وصف یہ ہے کہ یہ بندے کے پائے استقامت کو اولاً نیکی اور طاعت سے روکتے ہیں اور اگر کوئی طاعات کے راستے پر چل پڑے تو پھر پھسلاتے ہیں اور اگر کوئی قائم رہے تو استقامت ختم کرواتے ہیں۔ ان کے پاس ہزار راستے ہیں۔
نفس کے اِن حملوں کے پیشِ نظر ہی میں نے زندگی بھر اسی بات پر توجہ مرکوز کروائی کہ زندگی میں ہر چیز کو پاؤں کے نیچے کچل ڈالو اور ایک ہی مطمع نظر اور طمع رکھو۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے علاوہ ہر طمع و لالچ کی جڑ کاٹ دو، سوائے اس ایک خواہش کے ہر طلب کو کاٹ دو۔ دنیا میں جو حلال ہے سب کرو مگر اس دل میں مولا کی رضا کے علاوہ کسی دوسری چیز کو جگہ نہ لینے دو اور کسی صورت اسے وہاں جمنے نہ دو۔
تجھ سے تجھ ہی کو مانگ کر اچھا رہا منگتا تیرا
حضرت بایزید بسطامیؒ کے خادم کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ رب العزت فرمارہے ہیں:
کلکم تطلبون منی غیر ابی یزید فانه یطلبنی ویریدنی وانا اریده.
’’تم سب لوگ اپنی حاجات، ضروریات مجھ سے طلب کرتے ہو، سوائے ابو یزید کے، وہ مجھ سے طلب نہیں کرتا بلکہ وہ مجھے طلب کرتا ہے اور صرف میرا اراد رکھتا ہے، سومیں بھی اس کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘
- حضرت بایزید بسطامی سے اللہ تعالیٰ نے پوچھا:
ماذا ترید؟
اے بایزید کیا چاہتے ہو؟
انھوں نے عرض کیا:
یارب! انی ارید ان لا ارید الاماترید.
میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ کچھ نہ چاہوں سوائے اس کے جو تو چاہے۔
جب ہم اپنی چاہت، ارادے اور طلب کو مولا کی چاہت، ارادے اور طلب میں فنا کردیں گے اور اس کے ارادے کے سوا کچھ نہیں چاہیں گے تو نتیجتاً وہ ہمیں چاہنا شروع کردے گا۔ یہ ایک مشکل بات ہے مگر جو ان مشکلات کی گھاٹیوں سے گزر کر آئے وہی کامیاب ہوئے۔ اس لیے کہ آسانیوں سے یہ راہ کسی کو نہیں ملی۔ یاد رکھ لیں کہ یہ اس کا امر ہے کہ کسے کتنی آسانیاں دینا چاہتا ہے، کب دینا چاہتاہے، کب نہیں دینا چاہتا، کتنی مشکلات دینا چاہتا ہے، کب تک دینا چاہتا ہے یا ہمیشہ دینا چاہتا ہے؟ یہ اس کے امر ہیں، یہ مولا کی مرضی اور رضا ہے، اس کے اندر مداخلت نہیں کرتے۔ جب توجہ اس پر مرکوز ہوگی تو آسانی ہوگی مگر اس دھیان کو جمانا بڑا مشکل ہے اور یہی اصل کام ہے۔
قربِ الہٰی عطا کرنے والا عمل
حضرت سری سقطیؒ بغداد کے اکابرین میں سے ہیں۔ ان کی خدمت میں ایک عارف شخص حاضر ہوا اور عرض کیا:
ای شی اقرب الی اللّٰه لیتقرب به العبدی الی اللّٰه؟
وہ کون سی چیز ہے جو اللہ کے بہت قریب ہے تاکہ بندہ اس پر عمل کرکے اللہ کے قریب ہوجائے؟
اگر ہم یہ سوال کسی عالم، فقیہ، واعظ یا حکیم سے پوچھیں گے تو ہر کوئی اپنے اپنے حساب سے جواب دے گا مگر اللہ والوں سے پوچھیں گے تو ان کا ایک ہی جواب ہوگا۔
حضرت سری سقطیؒ اس سوال کو سن کر رو پڑے اور فرمایا کہ آپ جیسا شخص مجھ سے یہ پوچھ رہا ہے، پھر آپ نے جواب دیا:
ان افضل ما یتقرب به العبد الی اللّٰه سبحانه ان یطلع اللّٰه علی قلبک وانت لاترید من الدارین غیره.
وہ چیز جو بندے کو اللہ کے بہت قریب کردیتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تیرے دل کی طرف دیکھے اور سوائے مولا کے ساری دنیا اور آخرت میں سے کسی چیز کی طلب تیرے دل میں نہ پائے تو وہ اس بندے کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور اپنا محبوب بنالیتا ہے۔
یعنی جس کے دل میں دنیا، آخرت، جنت یا کسی اور چیز کی طلب ہی نہیں ہے اور اس کا دھیان اللہ کے سواء کسی اور شے پر نہیں تو وہ ایسے شخص کو سارے فاصلے مٹاکر اپنے قریب کرلیتا ہے۔ جب اللہ کسی ایسے بندے کو اپنا کرلیتاہے تو اولیا، و عرفاء اور صوفیاء نے بیان کیا ہے کہ پھر ایک دن میں ستر سترمرتبہ بھی اللہ تعالیٰ اپنے ان مقرب بندوں کے دل کی طرف دیکھتا ہے۔ اس قول کو بعض زاہد لوگ نقل کرتے ہیں اور یہ سلف صالحین کی باتوں میں سے ہے کہ پہلے بہت سے لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ جو اللہ والوں سے یہ کہتے کہ مجھے اپنے دل میںتھوڑی سی جگہ دے دو۔ پوچھا جاتا کیوں؟ تو کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ستر بار ہر روز آپ کے دل کو دیکھتا ہے تو شاید کسی وقت مجھ پر بھی نگاہ پڑ جائے اور میں بھی اللہ کا منظور نظر ہوجاؤں۔
اللہ رب العزت ہمیں یہ فہم اور معرفت عطا فرمائے اور ہماری زندگیوں میں ایسی تبدیلی پیدا فرمائے کہ ہم اس راہ پر استقامت کے ساتھ چل پڑیں اور جب ہمیں اس کی قربت و صحبت کی یہ نعمت میسر آئے تو مرتے دم تک یہ نعمت کم نہ ہو اور ہم کبھی اس نعمت سے محروم نہ ہوں۔