رمضان المبارک اپنی تمام تر فضیلتوں، رحمتوں ، برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ تشریف لایا اور ہمیں روحانی لذتیں اور راحتیں عطا کرنے کے بعد ہم سے رخصت ہو گیا۔ جب رمضان المبارک ہم سے رخصت ہو رہا تھا تو ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہمارا کوئی قریبی عزیز ہم سے جدا ہو رہا ہو۔ اس کیفیت کی وجہ رمضان المبارک کے ساتھ ہماری محبت، الفت اور قلبی وابستگی تھی۔ رمضان المبارک میں ہم پر اللہ تعالی کی خصوصی نوازشات ہو رہی تھیں، ہمیں انواع و اقسام کی نعمتیں نصیب ہو رہی تھیں، ہماری نیکیوں میں دھڑا دھڑ اضافہ ہو رہا تھا، رحمتوں کی برسات ہورہی تھی اور مغفرتوں اور بخششوں کی ندائیں دی جارہی تھیں۔ غرض ہمارا ایک ایک پل یادِ الٰہی میں بسر ہو رہا تھا۔ ہر طرف رحمت ہی رحمت، ہر سمت برکت ہی برکت اور ہر سو نعمت ہی نعمت نظر آرہی تھی اور بالآخر رمضان المبارک ہم سے وداع ہوگیا۔
ماہِ رمضان المبارک کی رخصتی سے ہم دل گیر بھی ہوئے اور آبدیدہ بھی، افسردہ بھی ہوئے اور غمگین بھی مگر کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ رمضان المبارک ہماری زندگی میں کیوں آیا تھا...؟ صیام و قیامِ رمضان کا کیا مقصد تھا...؟ رمضان المبارک کے ہم سے کیا تقاضے تھے...؟ اور کیا ہم نے وہ تقاضے پورے کئے...؟ ہمیں خود احتسابی کے ذریعے اپنی زندگی کے شب و روز کا جائزہ لینا ہو گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں...؟ ہم نے اس رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں سے کس قدر فائدہ اٹھایا...؟ ہم نے اپنے اکاؤنٹ میں کس قدر نیکیاں جمع کیں...؟ ہم نے اپنے ذاتی احوال کی کتنی اصلاح کی...؟ اپنے اعمال کو کتنا درست کیا اور اپنے اخلاق و اطوار کو کتنا پاکیزہ اور مزین کیا...؟ کیا ہم نے حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھا...؟ کیا ہم نے اپنے والدین رشتہ داروں اور ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا...؟ کیا ہم نے ماہِ صیام کے بعد بھی اعمالِ خیر پر کاربند رہنے کا عزم کیا...؟ اگر ہم خود احتسابی کے اس امتحان میں کامیاب قرار پائے تو ہم نے واقعی رمضان المبارک کے تقاضے پورے کئے،ورنہ ہمیں بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا۔
ماہِ صیام میں ہمارے شب و روز
ایک مسلمان کے شب و روز رمضان المبارک میں کس طرح گذرتے ہیں اور رمضان المبارک کے بعدکیسے گذرتے ہیں اس کا تقابلی جائزہ کچھ اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران ہر مسلمان نیکی اور خیر کے جذبے سے سرشار نظر آتا ہے۔ مساجد نمازیو ں سے بھر جاتی ہیں۔ ہر مسلمان نماز پنجگانہ جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے لیے کوشاں نظر آتاہے۔ عبادات اور تلاوت قرآن کے معمولات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ والدین، اہل خانہ اور قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ دوستوں اور ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کیا جاتاہے، سحر و افطار میں غرباء و مساکین کو شاملِ شرب و طعام کیا جاتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے خوب سخاوت کی جاتی ہے۔ حسنِ اخلاق کا بہترین مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اپنے بیگانوں سب کے ساتھ عاجزی و ملنساری کے ساتھ برتاؤ کیا جاتا ہے۔ بیماروں کے تیمار داری کے ساتھ ساتھ ان کے علاج معالجہ کے اخراجات کے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہسپتالوں میں مریضوں کو باقاعدگی سے کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ غرض اس ماہ مبارک میں ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ عمل خیر کا یہ جذبہ اور نیکی کا یہ داعیہ ماہ رمضان المبارک کی بدولت موجود ہوتاہے۔ ہر مسلمان فلسفہ صیام پر مقدور بھر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔ ماہ صیام میں اخلاصِ نیت اور طہارتِ عمل کے باعث دل کا آئینہ کینہ وبغض اور حسدو عناد جیسے رذائل سے پاک اور صاف ہو جاتا ہے۔ ہر مسلمان فرمانِ رسول ﷺ پر عمل کرتے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی سعی کرتا ہے۔
ماہ رمضان المبارک میں نیکیوں کی اس بہار کا دائرہ نہ صرف مساجد بلکہ گھر اور کوچہ و بازار تک وسیع ہو جاتا ہے۔ احترامِ رمضان میںاشیاء کے نرخ کم کر دیئے جاتے ہیں۔ ملازمین کو جلد چھٹی دے دی جاتی ہے تاکہ ان کی مشقت میں کمی ہو اور وہ جلد گھر پہنچ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ روزہ افطار کر سکیں۔
رمضان بازاروں میں حکومتی سطح پر اشیائے خوردو نوش کے نرخ مقرر کر دیے جاتے ہیں جن سے زائد وصول کرنے والے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ اسی طرح مختلف انضباطی ادارے حرکت میں آتے ہیں اور عوام کو سہولت بہم پہنچانے میں مصروف عمل ہو تے ہیں۔ رمضان المبارک میں ہر شخص نیکی اور خیر کے جذبہ سے سرشار نظر آتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بھلائی کر کے خوشی محسوس کرتا ہے۔
اسلامی کتب خانے جو سارا سال قارئین کی راہ تکتے رہتے ہیں رمضان المبارک میں آباد نظر آتے ہیں۔ علماء و واعظین کے دروس قرآن کا سلسلہ بھی پورا مہینہ جاری رہتا ہے۔ شادی ہال جو سارا ڈھول باجوں کی آوازوں سے گونجتے رہتے تھے، رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن اور درود و سلام کے نغمات ان کی فضا کو معطر کر رہے ہوتے ہیں۔
بعد از ماہِ صیام ہمارے شب و روز
لیکن جونہی رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے لوگ اپنے سابقہ معمول پر واپس آجاتے ہیں۔ ان کے تیور یکسر بدل جاتے ہیں۔ ان کے لہجے کی مٹھاس اور شیرینی یکایک کڑواہٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ان کی طبیعت کی نرمی اور خوش مزاجی ہوا ہو جاتی ہے اور وہ حسبِ سابق بد خو اور ترش رو ہو جاتے ہیں۔
مساجد میں مؤذن اور امام کے علاوہ محلے کے چند ضعیف العمر بزرگ جماعت کا انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ وہی مساجد جہاں چند روز قبل عبادت گزاروں کاتانتا بندھا رہتا تھا، آج وہاں بمشکل چند افراد نظر آتے ہیں۔
ایک مسلمان گھرانے کا جائزہ پیش کریں تو صورتِ حال کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک تمام افراد خانہ جس ذوق و شوق سے عبادتِ الٰہی میں مصروف نظر آتے تھے غیر رمضان میں وہ معدوم دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح دیگر دینی شعار اور اسلامی تعلیمات پر عمل میں بھی کمی ہوتی نظر آتی ہے۔
کوچہ و بازار میں چہل پہل تو دکھائی دیتی ہے لیکن لوگوں کے احساسات میں واضح طور پر رمضان المبارک کے مقابلے میں تفاوت نظر آتا ہے۔ غرض ہم جس مقام پر بھی چلے جائیں ہمیں اِلا ما شاء اللہ اسی طرح کی صورت حال نظر آئے گی۔
ماہ صیام کے بعد کی اس صورت حال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے بعد ہمارے معمولاتِ زندگی میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی۔
ماہِ صیام کے بعد ہمارے شب و روز کیوں نہیں بدلتے
کیا وجہ ہے کہ ماہِ صیام کے روحانی ریفریشر کورس (Refresher Course Spiritual ) کے بعد بھی ہم میں سے اکثر افراد کی زندگی میںوہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ آیئے! ان اسباب اور عوامل کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں وہ تبدیلی رونما نہیں ہوتی جس کا اسلام ان سے تقاضا کرتا ہے:
1۔ اس کی پہلی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی فلسفۂ صوم کو اپنی عملی زندگی پر نافذ ہی نہیں کیا۔
2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی اور معاشرتی زندگی ہر حوالے سے عدمِ توازن کا شکار ہے۔
3۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم غیر مستقل مزاج ہیں۔
اگر ہم فلسفۂ صوم کو عملی طور پر تمام شعبہ ہائے حیات پر نافذ کر لیں توباقی وجوہات کا ازالہ از خود ممکن ہے۔ یہ فلسفہ کیا ہے؟ اسے جاننے کے لیے قرآنی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
اسلام چونکہ تعمیرِ انسانیت اور فلاح انسانیت کا مذہب ہے اس لیے اس کی تمام تر تعلیمات کا مرکز و محور بھی یہی دو نکات ہیں۔ نماز، روزہ، جملہ عبادات اور تمام اعمالِ خیر کی اساس تقویٰ ہے۔ اسی تقویٰ کے ذریعے انسانی اخلاق و کردار کی تعمیر ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے:
یٰٓـاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقرة، 2: 21)
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو (بھی) جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جائو۔‘‘
جس شخص کو تقویٰ کی دولت مل جائے اس کا شمار زمرۂ متقین میں ہونے لگتا ہے۔ متقین وہ لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں ہی ان کی صفات بیان کی گئی ہیں کہ یہ لوگ قرآنی ہدایت کے وصول کنندہ ہیں، غیب پر ایمان لانے والے، نماز کو قائم کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں۔
متاعِ تقویٰ کی حفاظت
تقویٰ ایک ایک ایسی صفت ہے کہ جو انسان میں خیر اور شر، صحیح اور غلط، حق اور باطل، سچ اور جھوٹ کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ اسی وجہ سے اس متاع گراں قدر کو بہترین زاد راہ قرار دیا گیا ہے۔
وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِo
(البقرة، 2، 197)
اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو بے شک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔
اسی طرح تقوی کو بہترین لباس قرار دیا گیا ہے۔ جس طرح ظاہری لباس انسان کو سردی گرمی کے مضر اثرات اور ماحول کی آلودگیوں سے بچاتا ہے اس طر ح تقویٰ انسان کے باطن کو گناہ کی آلائشوں اور برے ماحول کے برے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌط.
(الأعراف، 7: 26)
اور تقویٰ کا لباس ہی بہتر ہے۔
قارئین کرام ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان جس طرح رمضان المبارک میں تقوٰی کا لباس پہن کر گناہوں کی آلودگی سے خود کو بچا لیتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ یہ لباس غیر رمضان میں بھی پہنے رکھے اور حسنِ اعمال کا سلسلہ کبھی رکنے نہ دے بلکہ اسے تا عمر جاری و ساری رکھے۔ نہ صرف وہ خود تقویٰ پر کاربند رہے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائے۔ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور گناہ اور معصیت کے کاموں میں عدم تعاون بھی اہلِ تقوی کی صفات میں سے ایک اہم صفت ہے جو معاشرتی اصلاح کے لیے ایک بہترین عمل ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو نیکی اور تقویٰ پر استوار کریں اور ان اعمال خیر کو ہمیشہ جاری و ساری رکھیں جو ماہ صیام میںخوش دلی سے کرتے رہے ہیں۔
ماہ صیام کے بعد ہمیں اپنے شب روز کیسے گزارنے چاہئیں
اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے وہ نیک اعمال زیادہ محبوب ہیں جن پر وہ مداومت اختیار کرتا ہے اور انہیںپابندی کے ساتھ ہمیشہ جاری رکھتا ہے۔ فرائض کی تکمیل کے بعد وہ نیک اعمال خواہ مقدار میں تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں مگر ان پر بندے کا دوام ہو۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ َ رضی اﷲ عنہاسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا:
أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَی اللهِ؟
’’کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ.
’’جو ہمیشہ کیا جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہو‘‘
(صحیح البخاریِ ج: 5، ص: 2373، رقم: 6100)
رمضان المبارک کے رخصت ہو نے کے بعد ہمارے اعمالِ صالحہ کا سلسلہ ختم نہیں ہونا چاہیے بلکہ طاعات و عبادات اور ریاضات و مجاہدات کا سلسلہ جاری رہے تب ہی ماہِ صیام کے بعد ہم اس ماہ مبارک کے روحانی ثمرات کو سمیٹ کر اپنی آئندہ زندگی کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں بسر کرسکتے ہیں۔ ماہ صیام کے دوران ہم درج ذیل اوصاف کی تربیت حاصل کرتے ہیں:
1۔ صبر و استقامت
2۔ ضبطِ نفس
3۔ مجاہدۂ نفس
4۔ محاسبۂ نفس
5۔ عبادت و ریاضت
6۔ خدمتِ انسانیت
7۔ اعمالِ خیر پر مواظبت
8۔ حسن اخلاق
9۔ حسنِ معاشرت
10۔ معاشرتی برائیوں سے کنار ا کشی
11۔ شہوات و خواہشاتِ نفسانیہ سے چھٹکارا
یہ اور اس جیسی بے شمار صفا ت ہیں جو رمضان المبارک میں ہماری تربیت کا حصہ رہی ہیں۔ ہم عام دنوںمیں بھی اپنی شخصیت کو ان اوصاف سے آراستہ کر سکتے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ ان تمام اعمال صالحہ اور امورِ خیر کو ماہِ صیام کے بعد بھی اپنی زندگی کے معمولات کے طور پر جاری رکھے۔ جس طرح رمضان المبارک میں انسان روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر بدنی اور مالی عبادات میں بھی مشغول رہتا ہے، ایام رمضان کے بعد ہم دیگر مہینوں میں بھی اس پریکٹس کو جاری رکھ سکتے ہیں۔
تزکیۂ نفس
رمضان المبارک کے بعد ہمارا نفس ہمیں نیک اعمال سے روکنے کی کوشش کرے گا، لہٰذا ہمیں سب سے پہلا کام اپنے نفس کا تزکیہ کرنا ہے۔ نفس امارہ انسان کو برائی پر اکساتا رہتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادفرماتا ہے:
وَمَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ ج اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ م بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
(یوسف، 12: 53)
’’اور میں اپنے نفس کی برأت (کا دعویٰ) نہیں کرتا، بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما ۔‘‘
اگر ہمارے دل و دماغ میں یہ حقیقت راسخ ہوجائے کہ ایک دن ہم نے اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے تو یہ ڈر ہمارے نفس کو بری خواہشات سے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ نے تزکیہئِ نفس کو انسان کی کامیابی و کامرانی اور فلاح و نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo
(الشمس، 91: 9)
بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)۔
جس شخص نے اپنے نفس کو بری خواہشات اور معصیت کی میل کچیل سے پاک کر کے اس میں نیکی کے بیج کی آبیاری نہ کی وہ ناکا م نامراد ہوا۔ اس حوالے سے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
(الشمس، 91: 10)
اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔
شیخ الاسلام مد ظلہ العالی اپنی کتاب حقیقت تصوف (ص208) میں تزکیہ نفس کے حوالے سے رقم فرماتے ہیں:
’’ جس نے نفس کو خواہشات کی آلودگیوں سے پاک کر لیا اس کے لئے جنت کا مژدہ جانفزا ہے کیونکہ اس نے مقصدِ حیات کو پا لیا اور نفس جیسے بدخواہ اور رہزن کی چالوں سے بچتا ہوا صراط مستقیم پر گامزن رہا اور اس طرح منزلِ مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
اگر ہم اپنی اخروی فلاح و نجات چاہتے ہیں اور ماہ رمضان المبارک کی سعادتوں، برکتوں اور رحمتوں سے اپنے دامن کو معمور رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نفس کی فریب کاریوں، عیاروں اور مکاریوں سے ہر لحظہ ہوشیار رہنا ہوگا اور اس کے دامِ تزویر سے بچنا ہوگا۔ ماہ رمضان المبارک کے اثرات غیر رمضان میں بھی ہماری سیرت و کردار کی طہارت و پاکیزگی سے نظر آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے احوال کی اصلاح کی توفیق ارزانی فرمائے! آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ