مملکت خداداد پاکستان کا نام نہاد جمہوری نظام موروثی سیاست اور ’’ون مین شو‘‘کے نرغے میں ہے۔ موجودہ حکمران جماعت ہو یا سابقہ۔ کم و بیش سب وفاقی اور صوبائی جماعتوں کی سیاست موروثیت اور شخصیت کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ترجیحات متعین نہیں ہوسکیں۔ ملک کی سیاسی، معاشی، تجارتی اور خارجہ پالیسی جیسے بنیادی قومی معاملات محض اللہ کے سہارے پر چل رہے ہیں۔ دہشتگردی، کرپشن، غربت اور لاقانونیت آج بھی کور ایشوز ہیں جن کے حوالے سے حکومتی کردار مجرمانہ رویے پر مبنی ہے۔ مدارس کی اصلاحات، امن نصاب، نیکٹا کو فعال بنانا اور کوئیک رسپانس فورسز کے حوالے سے حکمران زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں جبکہ کروڑوں عوام کے جان و مال کو دہشتگردوں کی طرف سے آج بھی خطرات لاحق ہیں۔ حکومت نے دہشتگردی کے خاتمہ کی حالیہ جنگ سے علامتی توجہ بھی ہٹا لی ہے۔ پہاڑوں اور غاروں میں دہشتگردوں کے خلاف حاصل ہونے والے فوجی کامیابیوں کو سول حکومت شہروں میں ناکام بنارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ قومی ایکشن پلان اور اس پر ہونے والا قومی اتفاق رائے کہاں ہے؟
افواج پاکستان مسلح دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے ساتھ برسرپیکار ہیں جبکہ حکمران معاشی دہشت گردی کے ذریعے ملک و قوم کے جسم پر اپنے پنجے ہر آئے روز گاڑھتے چلے جارہے ہیں۔ 19 کروڑ عوام کو گروی رکھ کر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ صنعت اور زراعت کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان خودکشیاں کررہے ہیں۔ روزمرہ اشیاء، آٹا، سبزیاں، دالیں، دودھ تک عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضے لے کر اور قومی اداروں کو اونے پونے بیچ کر آئندہ نسلوں کا بال بال قرضوں کے جال میں جکڑا جارہا ہے۔ یوروبانڈ کی نیلامی قومی مفاد کی نیلامی ہے مگر افسوس حکومت کے ان معاشی جرائم پر پارلیمنٹ اور احتساب کے تمام ادارے خاموش ہیں۔ ہر پاکستانی کے ذمہ واجب الادا قومی قرضہ ایک لاکھ روپے سے بڑھ گیا ہے جو دو سال قبل 70 ہزار سے کم تھا۔ حکمران اپنی عیاشیوں کیلئے ایک طرف مزید قرضے لے رہے ہیں اور دوسری طرف قومی دولت کو بھی ایسے منصوبوں پر خرچ کررہے ہیں جن سے بالواسطہ منافع پھر انہی کی جیب میں جارہا ہے۔ ان کی دلچسپی صرف انہی منصوبوں تک ہے جن سے انہیں کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے جبکہ عوامی فلاح اور خوشحالی کے وہ منصوبے جن میں انہیں ’’آمدنی‘‘ کی توقع نہیں، ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے۔ یہ کھرب پتی حکمران بھاگ جائینگے اور آئندہ نسلیں کئی دہائیوں تک سود اور قرضے ادا کرتی رہے گی۔
موجودہ حکمرانوں اور موجودہ کرپٹ سسٹم کا مزید برقرار رہنا قومی مفاد میں نہیں۔ کرپشن کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے ’’بائی پاس ‘‘ آپریشن میں مزید تاخیر کی گئی تو بڑی مچھلیوں کو قابو میں لانا ممکن نہیں رہے گا اور اس ناکامی کے منفی اثرات آپریشن ضرب عضب پر بھی مرتب ہونگے۔ گذشتہ دور میں چند فرنٹ مینوں پر ہاتھ پڑا تو چیخ و پکار شروع ہو گئی اور کرپشن کے دلدادہ سیاستدان آستیں چڑھا کر اداروں کو بلیک میل کرنے لگے ہیں۔ قومی اداروں کو چاہئے کہ وہ کرپشن کے خلاف آپریشن ضرب عضب کی طرح کی کارروائی کر کے ملک اور قوم کو گندے انڈوں سے نجات دلائیں۔ وزارت خزانہ میں آج بھی کالے دھن کو سفید کرنے اور منی لانڈرنگ کو قانونی تحفظ دینے کے منصوبے اور سکیمیں بن رہی ہیں۔ ملکی اداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلی ترجیح میں کرپشن کے خلاف مہم کو تیز کریں۔ مگر مچھوں کی چیخ و پکار کو خاطر میں نہ لائیں۔ احتساب کے ادارے اپنے حصے کا آئینی کام کرتے رہتے تو کسی اور ادارے کو یہ قومی کام کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
سٹیٹس کو کی جماعتوں اور نیم خواندہ لیڈر شپ نے وسائل سے مالا مال ملک کو ایتھوپیا اور صومالیہ کے درجے پر لا کھڑاکیا۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کیلئے پاکستان میں کوئی روزگار نہیں جبکہ نااہل اور کرپٹ قیادت نے پاکستان کو کمیشن خوروں اور ٹھیکیداروں کی جنت بنا دیا ہے۔ جو جماعت 30 سالہ اقتدار میں عوام کو صاف پانی کی سہولت نہ دے سکی اس سے مزید توقع رکھنا وقت کا ضیاع ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے غربت کی بجائے غریب کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں خواتین سمیت پسے ہوئے طبقات کو تحفظ ملے، عوام کی فلاح و بہبود کے کام ہوں اور انسانی اقدار پروان چڑھیں۔ قوموں کی زندگیوں میں فیصلوں کی گھڑیاں آتی ہیں، وہ شعور وبصیرت سے فیصلہ کرتی ہیں اور انکی پہلی و آخری ترجیح ملک و قوم کا مفاد ہوتاہے۔ عوام قاتلوں، ٹیکس چوروں اور لٹیروں کو مسترد کر کے باوقار مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اربوں، کھربوں روپے کا فنڈز ہڑپ کر کے الیکشن لڑنے والی پارٹیاں ملک و قوم کی وفادار نہیں ہو سکتیں۔
اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے پابندی کے باوجود پنجاب حکومت بلدیاتی انتخابات سے قبل ترقیاتی فنڈز کو انتخابی مہم کیلئے بھرپور استعمال کیا اور کررہی ہے۔ حکمران جماعت کے امیدوار اس خطیر رقم کے اجراء کو انتخابی مہم کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ جیسے ہی بلدیاتی انتخابات کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے انتخابی مہم کا آغاز کیا، وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی تصاویر پر مشتمل اشتہاری مہم کا آغاز کر دیا اور ان اشتہاروں کی ادائیگی بھی قومی خزانے سے ہی ہورہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس اشتہاری مہم کے ذریعے انتخابی عمل پر نہ صرف اثرانداز ہورہے ہیں بلکہ اپنے اختیارات اور قومی وسائل کا بھی ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ افسوس! الیکشن کمیشن نے اس بلواسطہ پری پول رگنگ کا کوئی نوٹس بھی نہیں لیا۔
دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کی راہ میں یہ ظالم نظام اور کرپٹ حکومت سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ملک بچانے کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے کرپشن کے سیاسی ایٹم بم ناکارہ بنائے جائیں۔ لنگڑی جمہوریت کسی مرض کی دوا نہیں۔ پارلیمنٹ تو پہلے ہی عضو معطل ہے مگر اس کا کٹھ پتلی کردار بھی نظر نہیں آرہا۔ ملک میں جاری معاشی دہشتگردی کا خاتمہ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ شفافیت کے دعوے کرنے والے وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے وزیر کی رشوت خوری کے ناقابل تردید ثبوتوں کے باوجود اس کے جرم پر ایک سال پردہ ڈالے رکھا۔ نندی پور منصوبہ کی کرپشن اور بدانتظامی نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ دھرنے کے خلاف ایک چھتری کے نیچے جمع ہونے والے جمہوریت کے نام نہاد چیمپئنز پارلیمنٹ سے بالا بالا چیخ و پکار کرتے پھررہے ہیں، اب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اپنی نام نہاد جمہوریت اور اصولوں کا دفاع کیوں نہیں کرتے؟
پاکستان ہمیشہ کی طرح اندرونی اور بیرونی خطرات کی زد میں ہے۔ ان حالات میں ہر ذی شعور کو اپنے حصہ کی شمع جلانا ہوگی اور ایک ایسا مثبت انقلابی کردار اداکرنا ہوگا جو اس مملکت خداداد کے اندھیروں کو ختم کرسکے اور امن و محبت اور خوشحالی کو اس دھرتی کا مقدر بناسکے۔