اہل بیت سے محبت کرنا عقیدہ اہل سنت ہے۔ وہ شخص اہل سنت نہیں، جس کا دل محبت و مؤدتِ اہلِ بیت سے خالی ہے، اس کے اندر خارجیت نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ اہل سنت کی شناخت حُب و تکریمِ صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم ہے۔ یہ دونوں شاخیں مل کر حُب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بنتی ہیں۔ محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت اہل بیت کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وہ شخص جھوٹا ہے جو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر اس کا دل محبتِ اہلِ بیت سے خالی ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ 1400 سال کی تاریخ اسلام میں ہمارے کل آئمہ کا طریق، مسلک و مشرب اہل بیت اطہار کی محبت میں یہی رہا ہے۔ اہل سنت کے چاروں آئمہ فقہ امام اعظم ابوحنیفہ، سیدنا امام مالک، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کا مسلک بھی یہی ہے۔ وہ شخص جو محبت و مؤدت اہل بیت میں کم ہے، کمزور ہے یا ناقص ہے، وہ نہ حنفی ہے، نہ مالکی، نہ شافعی اور نہ حنبلی ہے۔
آیئے اِن آئمہ فقہ کی محبتِ اہلِ بیت کے حوالے سے وارفتگی کے چند مظاہر کا مطالعہ کرتے ہیں:
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
سیدنا امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں جتنے آئمہ اہل بیت حیات تھے، آپ ان میں سے ہر ایک کے شاگرد بنے۔ خود کو حنفی کہلانے والے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے ساتھ محبت کو دیکھیں کہ حنفیت میں کتنی مؤدتِ اہل بیت موجود ہے۔
- امام ابن ابی حاتم، امام مزی (تہـذیب الکمال)، امام ذہبی، علامہ عسقلانی، امام سیوطی اور دیگر آئمہ نے بیان کیا کہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مناقب پر سب سے عظیم کتاب ’’مناقب امام ابی حنیفہ‘‘ (امام موفق بن احمد المکی) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ گئے تو سیدنا امام محمد الباقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا:
فَاِنَّ لَکَ عِنْدِی حُرْمَةً کَحُرْمَةِ جَدِّکَ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِيْ حَيَاتِهِ عَلٰی اَصْحَابِهِ.
’’آپ کی حرمت اور تعظیم و تکریم میرے اوپر اس طرح واجب ہے جس طرح صحابہ کرام پر تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم واجب تھی‘‘۔
یعنی جو تعظیم و تکریم صحابہ کرام آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیا کرتے تھے، میں اسی طرح وہ تعظیم آپ کی کرتا ہوں چونکہ آپ کی حرمت و تعظیم اور محبت اور مؤدت میں مجھے حرمت و تعظیم اور مؤدت و محبتِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمنظر آتی ہے۔
(المناقب للموفق المکی صفحہ 168)
- حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو امام محمد جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ امام ابن المکی ’’مناقب ابوحنیفہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ تشریف لائے اور سیدنا امام ابوحنیفہ کو آپ کی آمد کا پتہ چلا تو آپ اپنے بہت سے اکابر تلامذہ کو لے کر سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں زیارت و علمی استفادہ کے لئے حاضر ہوئے۔ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس میں ادب و احترام سے پاؤں اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کا یہ خاص طریقہ کسی کا خوف، ہیبت اور کمال درجے کا ادب و احترام طاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ آپ کے شاگردوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو اس طرح بیٹھے دیکھا تو سارے اسی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔
امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ سارے لوگوں نے اپنے بیٹھنے کا طریقِ نشست بدل لیا ہے اور اس شخص کی طرح سارے بیٹھ گئے ہیں تو آپ نے ان سے پوچھا یہ کون ہیں جن کی تم سب اتنی تعظیم و توقیر کررہے ہو کہ جس طرح انہیں میرے سامنے بیٹھتے ہوئے دیکھا تم ساروں نے اپنی ہئیت اور طریقہ بدل لیا؟ انہوں نے کہا: یہ ’’ہمارے استاد ابوحنیفہ ہیں‘‘۔
یہ امام اعظم کی حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ بعد ازاں امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علمی و فکری استفادہ کیا۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد امام حسن بن زیاد لولؤی روایت کرتے ہیں:
سَمِعْتُ اَبَا حَنِيْفَهَ وَسُئِلَ مَنْ اَفْقَهَ مَنْ رَايْتَ؟
امام ابوحنیفہ سے پوچھا گیا کہ اس پوری روئے زمین پر جتنے اکابر آئمہ علماء کو آج تک آپ نے دیکھا سب سے زیادہ فقیہ کس کو پایا؟
آپ نے جواب دیا:
مَارَاَيْتُ اَفْقَهَ مِنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمّد الصَّادِق.
’’میں نے روئے زمین پر امام جعفر محمد الصادق سے بڑھ کر کوئی فقیہ نہیں دیکھا‘‘۔۔
- علاوہ ازیں سیدنا امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درج ذیل آئمہ اہل بیت اطہار کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا:
- امام زید بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور امام حسین کے پوتے)
- امام عبداللہ بن علی (یعنی امام زین العابدین کے بیٹے اور سیدنا امام حسین کے پوتے)
- امام عبداللہ بن حسن المثنیٰ (امام عبداللہ الکامل)
- امام حسن المثلث (امام حسن مجتبیٰ کے پڑپوتے)
- امام حسن بن زید بن امام حسن مجتبیٰ
- حسن بن محمد بن حنفیہ (سیدنا علی شیر خد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے)
- امام جعفر بن تمام بن عباس بن عبدالمطلب (حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کے پوتے)
الغرض امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اہل بیت اطہار کے نو اِمام حیات تھے اور آپ نے ہر ایک کے پاس جاکر زانوئے تلمذ طے کیا۔ آئمہ اطہار اہل بیت میں سے جو امام بھی بنو امیہ یا بنو عباس کی ظالمانہ حکومت یا کسی حکمران کے خلاف خرو ج کرتے، آپ خفیہ طور پر اپنے تلامذہ کے ذریعے بارہ/ بارہ ہزار درہم تک بطور نذرانہ آئمہ اطہار اہل بیت کی خدمت میں بھیجتے۔
آپ نے چیف جسٹس بننے کی حکمرانوں کی طرف سے دی جانے والی پیشکش کو قبول نہ کیا، اس کا بہانہ بناکر آپ کو قید میں ڈال دیا گیا حتی کہ آپ کا جنازہ بھی قید خانے سے نکلا۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے چیف جسٹس بننا قبول نہیں کیا تو کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ عمر بھر قید کی سزا دے دی جائے اور جنازہ بھی قید خانے سے نکلے؟ دراصل یہ حکمرانوں کا بہانہ تھا کہ ہمارا حکم نہیں مانا اور چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کیا۔ سبب یہ تھا کہ حکمران جانتے تھے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ گھر بیٹھ کر اہل بیت کے ہر شہزادے کی خدمت کرتے ہیں، ان کے ساتھ محبت و مؤدت کا اظہار کرتے ہیں۔ لہذا ان کو محبت اہل بیت کی سزا دی جائے۔ پس آپ نے محبت اہل بیت میں شہادت پائی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو اہل بیت اطہار سے شدید محبت و مؤدت تھی۔ حضرت امام جعفر الصادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی ہستیوں کے پاس اگر کوئی مسئلہ پوچھنے جاتا تو فرماتے:
اِذْهَبْ اِلٰی مَالِک عِنْدَهُ عِلْمُنَا.
’’مالک کے پاس چلے جاؤ، ہم اہل بیت کا علم اس کے پاس ہے‘‘۔
آپ کل آئمہ اہل بیت کے شاگرد تھے اور ان کی محبت و مودت میں فنا تھے۔ ایک طلاق کے مسئلے کو بہانہ بناکر بنو عباس کے حکمرانوں نے ان کو محبت و مودتِ اہل بیت کی سزا دی۔ یہاں تک کہ ان کے سر اور داڑھی کو مونڈھ دیا اور سواری پر بٹھا کر مدینے کی گلیوں میں گھمایا اور حکم دیا کہ سب کو بتاؤ کہ میں امام مالک ہوں۔ آپ کہتے جاتے: جو مجھے پہچانتا ہے پہچان لے کہ میں کون ہوں اور جو مجھے اس حال میں دیکھ کر نہیں پہچان رہا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں۔ اس واقعہ کے بعد آپ 25 سال تک گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور باہر نہیں نکلے۔
یہ دور بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں کا تھا کہ جہاں آئمہ اہلبیت اطہار کا نام نہیں لیا جاسکتا تھا۔ بنو عباس نے اہل بیت کے نام پر حکومت پر قبضہ کرلیا اور پھر چن چن کے ایک ایک اہل بیت کے امام اور اہل بیت کے محب کو شہید کیا۔ بنو عباس کا تعلق چونکہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ تھا لہذا اس تعلق کی وجہ سے یہ آئمہ کرام ان سے بھی محبت کرتے۔ ان کے ایمان اور محبت و مودت کا عالم یہ تھا کہ بنو عباس اُن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے مگر یہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ساتھ اُن کو حاصل نسبت کی وجہ سے معاف کردیتے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو عباسی خلیفہ جعفر بن سلیمان عباسی کے حکم پر جب کوڑے مارے جاتے تو آپ بے ہوش ہوجاتے، جب ہوش آتا تو کہتے:
اَعُوْذُ بِاللّٰهِ وَاللّٰه مَاارْتَفَعَ مِنْهَا سَوْطٌ عَنْ جِسْمِيْ اِلَّا وَاَنَا اجعله فِيْ حِلٍّ من ذٰالِکَ الْوَقْت لقرابته من رسول الله..
لوگو گواہ ہوجاؤ! باری تعالیٰ میں نے کوڑے مارنے اور مروانے والے کو معاف کردیا۔ جوں ہی ہوش آتا؟ پہلا جملہ یہی بولتے کہ میں نے معاف کردیا، پھر کوڑے لگتے، پھر کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہوجاتے۔ مگر ہوش میں آتے ہی انہیں معاف کردیتے۔
ذرا سوچئے! ان آئمہ کرام کے ہاں مودت، محبت، نسبت اور حرمت اہل بیت کا کیا عالم تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ اتنا بڑا ظلم آپ کی ذات کے ساتھ ہوا مگر آپ جوں ہی ہوش میں آتے تو کہتے کہ معاف کردیا، ایسا کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے لگ رہا تھا کہ شاید کوڑے کھاتے کھاتے میں مرجاؤں گا۔ ساتھ ہی ساتھ معاف اس لئے کرتا جارہا ہوں کہ بے شک مجھ پر ظلم ہورہا ہے مگر یہ لوگ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے خاندان میں سے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میری وجہ سے میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کے خاندان کا کوئی فرد دوزخ میں جائے۔ بے شک اس نے ظلم ہی کیوں نہ کیا ہو مگر میں اس کا سبب نہ بنوں۔ اس لئے ہوش میں آتے ہی ساتھ ہی ساتھ معاف کرتا جاتا ہوں۔
اس قدر ظلم و ستم کے باوجود حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے کے ساتھ حیاء کا تعلق برقرار رکھا۔ یہ عقیدہ اہل سنت والجماعت ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
امام شافعی پر اہل بیت کی محبت و مؤدت کی وجہ سے ملاؤں نے شیعہ اور رافضی ہونے کے فتوے اور تہمت لگائی۔ یاد رہے کہ چاروں آئمہ فقہ کی فطرت میں محبت اور مودت اہل بیت تھی، ان کے علم اور ایمان کا خمیر محبت اور مودت اہل بیت سے اٹھا تھا۔ امام شافعی نے اپنے دیوان میں ایک رباعی لکھی:
يَا آلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ حُبُّکُمْ
فَرْضٌ مِّنَ اللّٰهِ فِی الْقُرْآنِ اَنْزَلَهُ
’’اے اہل بیت رسول تمہاری محبت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرض کردی ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے‘‘۔
يَکْفِيْکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْفَخْرِاَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ لَا صَلاَة لَهُ
’’اے اہل بیت تمہاری عظمت اور تمہاری شان اور تمہاری مکانت کی بلندی کے لئے اتنی دلیل کافی ہے کہ جو تم پر درود نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنْ کَاْن رَفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلاَن اَنِّيْ رَافِضٌ
’’اگر آل محمد سے محبت کرنے کا نام رافضی/ شیعہ ہوجانا ہے تو سارا جہان جان لے کہ میں شیعہ ہوں‘‘۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور محبتِ اہلِ بیت
امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ آپ یزید کے بارے میں کیا حکم کرتے ہیں؟ انہوں نے جو فتویٰ دیا آفاقِ عالم میں آج تک اس کی آواز گونجتی ہے، فرمایا:
میرے نزدیک یزید کافر ہے۔ آپ کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے اس کو روایت کیا اور کثیر کتب میں آج تک بلااختلاف امام احمد بن حنبل کی تکفیر کا فتویٰ یزید پر آج تک قائم ہے۔ آپ کی مودت اور محبت بھی اہل بیت کے ساتھ لاجواب تھی۔
ان ساری باتوں کو کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ اہل سنت کہلاتے ہیں تو محبت و مؤدت اہل بیت سے گھبراتے کیوں ہیں۔ اس لئے کہ بعض خارجی الذہن لوگ، بعض فتنہ پرور شرپسند آپ کو شیعہ کہہ دیں گے، کسی کے شیعہ کہہ دینے سے کیا آپ شیعہ ہوجائیں گے؟ کوئی کسی کو کہہ دے کہ تم ہندو ہوگئے تو کیا صرف اتنا کہنے سے وہ ہندو ہوجائے گا؟ کئی ہندو شعراء نے نعتیں لکھی ہیں، کوئی کہہ دے کہ وہ مسلمان ہوگئے، تو کیا اتنا کہنے سے وہ مسلمان ہوگئے؟
یہ کچھ فتنہ پرور ملا ہیں جن کا ایجنڈا خارجیت کو فروغ دینا ہے، جن کا ایجنڈا محبت و ادبِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت آل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ختم کرنا ہے۔ اگر وہ اہل بیت کے ذکر اور ذکر حسین کا طعنہ دیتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ تم شیعہ ہوگئے تو ان کے پروپیگنڈہ پر لعنت ہوگی، قیامت کے دن مواخذہ ہوگا، کسی کے پروپیگنڈے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ کیا مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کی نسبت اور اہل بیت کے ساتھ تعلق کی پختگی میں ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ کسی کے پروپیگنڈہ کے ڈر سے چپ کرکے بیٹھ جائیں اور مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کے ذکر کو چھوڑ دیں۔ جب امام مالک نے کوڑے کھاکر ان کی محبت کی راہ نہیں چھوڑی۔۔۔ امام اعظم کا جنازہ جیل سے اٹھا مگر مودت نہیں چھوڑی۔۔۔ امام شافعی پر رافضی/ شیعہ ہونے کی تہمت لگی مگر مودت نہیں چھوڑی۔۔۔ امام احمد بن حنبل نے کوڑے کھائے فتوی دیا، محبت نہیں چھوڑی۔۔۔ تو پھر ہم کیوں اہل سنت والجماعت کا اپنا طریق چھوڑتے ہیں۔ کل اولیاء، ابدال، قطب، غوث اور ولی محبتِ و مؤدتِ اہل بیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ کوئی ولی مرتبہ ولایت کو نہیں پہنچتا جب تک اس کی ولایت کو سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توثیق نہیں ملتی۔۔۔ کوئی ولی شان ولایت کو نہیں پاتا جب تک مولا علی شیر خدا کی مہر نہیں لگتی کیونکہ وہ فاتح الولایت اور امام ولایت ہیں۔
سلسلہ قادریہ بھی آگے چل کر امام علی رضا کے ساتھ ملتا ہے۔ امام معروف کرخی، امام علی رضا کے ہاتھ پر توبہ کرکے ان کے مرید اور خلیفہ ہوئے ہیں۔ یہ طریق ولایت آئمہ اطہار اہل بیت کے ذریعے امام علی رضا، امام موسیٰ کاظم سے ہوتا ہوا امام جعفر صادق تک جاتا ہے۔ الغرض ولایت حضرت فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی خیرات ہے۔ اگر آپ طعنوں سے ڈرتے ہیں تو پھر آپ اہل سنت والجماعت نہیں ہیں۔ محبت اور مودت اہل بیت کو اپنے اندر زندہ کریں۔ یہ صرف اہل تشیع کا شعار نہیں ہے بلکہ یہ اہل سنت کا بھی ایمان ہے، کل امت کا ایمان ہے۔ کوئی بھی مکتب فکر ہو، خواہ شیعہ ہو یا سنی ہو، جس کی نسبت تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے، جو صاحب ایمان ہے وہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیت کے ساتھ محبت کئے بغیر مومن رہ ہی نہیں سکتا۔
ذکرِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بزبانِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
آیئے اب جامع ترمذی سے محبت اہل بیت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اگر جامع ترمذی میں موجود احادیث پر بھی شیعیت کی تہمت لگانی ہے تو اہل سنت ہونے کا دعویٰ کرنا چھوڑ دیں اور پھر ان خارجیوں، دشمنان اہل بیت اور دہشتگردوں کے پیچھے لگ جائیں۔ افسوس! سنی علماء ان تہمتوں کے ڈر سے اہل بیت کی محبت اور ذکر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھاگے جارہے ہیں۔ اپنی صدیوں کے طریقے اور مسلک سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ہمارے آئمہ کی کتب حدیث اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی تھیں جب تک حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرے نہ کرلیں۔
- جامع ترمذی میں امام ترمذی حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنتی نوجوانوں کے سردار ہونے کی حدیث روایت کرتے ہیں۔۔۔ کسی جگہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین کو اپنے سینے پر لٹانے۔۔۔ انہیں سونگھنے۔۔۔ ساتھ چمٹانے اور چادر میں چھپانے کی حدیث کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ کسی جگہ یہ روایت کرتے ہیں کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کو اپنا بیٹا قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ تو بھی ان سے محبت کر بلکہ ان کے چاہنے والوں سے بھی محبت کر۔۔۔ امام ترمذی اس روایت کو بھی بیان کرتے ہیں جس میں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کو اپنا پھول قرار دیا۔۔۔ حتی کہ خطبہ جمعہ کے دوران حسنین کریمین کے صغر سنی کی وجہ سے لڑکھڑا کر گرنے کے خدشہ کے پیش نظر انہیں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آگے بڑھ کر تھامنے اور پھر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ جمعہ میں حسنین کریمین کی اس کیفیت کو خود بیان کرنے کی روایت کا ذکر بھی جامع ترمذی میں موجود ہے۔۔۔ کسی جگہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے کندھوں پر بٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں چلنے کا ذکر موجود ہے۔
دراصل اس تمام اظہار سے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو دکھانا چاہتے ہیں کہ میرا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہسے اس قدر پیار ہے، لہذا تم بھی اتنا پیار کرنا۔ افسوس! حسنین کریمین کے ساتھ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پیار کا بھی آج ہمیں حیاء نہ رہا۔۔۔ حضور کی ان شفقتوں کا بھی حیاء نہ رہا۔۔۔ جنہوں نے حیا نہ کیا وہ تو بدبخت ہوئے، ان کا حشر تو جو ہوا سو ہوا، مگر ہم ان کے پیار سے پیچھے ہٹ جائیں تو ہم کیسے وفادار امتی رہیں گے؟ اگر خطبہ جمعہ میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین کے لڑکھڑانے، چلنے، سنبھلنے اور اٹھانے کا ذکر فرمارہے ہیں تو ہم عام مجلس میں ان کا ذکر کیوں نہ کریں۔ اگر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا لڑکھڑا کر گرنا برداشت نہیں ہوا تو ان کے سرکا کٹ کر نیزے پر چڑھنا کیسے برداشت ہوا ہوگا۔۔۔ گھوڑوں کی ٹاپوں میں ان کا روندھا جانا کیسے برداشت ہوا ہوگا۔
- الغرض امام ترمذی ایک سے بڑھ کر ایک فرمان رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حسنین کریمین کے حوالے سے روایت کرتے چلے آرہے ہیں، اس سے ان کے عقائد کا اظہار ہورہا ہے۔ ان احادیث کا چناؤ ان کے مذہب کی شناخت کا اظہار ہے۔ اس سے ان کے عقیدے کا پتہ چلتا ہے، ان کے رحجان طبع کا پتہ چلتا ہے، ان کے ذوق ایمانی کی خبر ہوتی ہے۔ (ان تمام احادیث کے مطالعہ کے لئے شیخ الاسلام کی کتاب ’’الاربعین: مرج البحرین فی مناقب الحسنین‘‘ کا مطالعہ فرمائیں)
اَنَا مِنْ حُسَيْن
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
حُسَيْنٌ مِنِّي ؤانَا مِنْ حُسَيْنٍ اَحَبَّ اﷲُ مَنْ اَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاطِ.
’’حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے ہیں اور میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کو محبوب رکھتا ہے جو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت رکھے۔ حسین امتوں میں سے ایک امت ہے‘‘۔
اس حدیث مبارکہ میں مذکور حُسَيْنُ مِنِّيْ کی سمجھ آتی ہے، اس لئے کہ پوتا، دادا سے ہوتا ہے۔۔۔ نواسا، نانا سے ہوتا ہے۔۔۔ بیٹا، باپ سے ہوتا ہے۔۔۔ جزئ، کل سے ہوتا ہے، حسین منی کا معنی یہ ہے کہ میں حسین کا مصدر ہوں۔ حسین، مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہیں۔ یہ معنی تو واضح ہے۔ مگر اَنَا مِنْ حُسَيْن ’’میں حسین سے ہوں‘‘، اس کا معنی کیا ہے؟
انا من حسین یہ ہے کہ میرا مظہر، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا صدور مجھ سے ہوا ہے مگر میرا ظہور، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوگا۔۔۔ میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصل ہوں اور وہ میری وہ فرع ہے جس سے درخت کا اصل پھل لگتا ہے۔۔۔ جو میرا پھل کھانا چاہے وہ شاخ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لے، میرا پھل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ لگے گا۔۔۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سارے کمالات، کرامات، عظمتیں، رفعتیں اور ساری شانیں مجھ سے ہیں، میرا انعکاس ہیں، اس کو جو کچھ ملا مجھ سے ملا۔۔۔ اور میرے کئی کمالات ابھی ایسے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں ہوئے وہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ظاہر ہوں گے۔۔۔ اگر وہ صبر کا پہاڑ ہوگا تو مجھ سے ہے۔۔۔ اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ استقامت کا پہاڑ ہوگا تو مجھ سے ہے۔۔۔ اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضا، تفویض اور توکل کا پہاڑ ہوگا تو مجھ سے ہے۔۔۔ اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناقابل شکست ہوگا تو وہ مجھ سے ہے۔۔۔ اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ عزم مصمم ہوگا تو وہ مجھ سے ہے۔۔۔ اگر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیاء، شرم، طہارت اور وفا کا پیکر ہوگا تو مجھ سے ہے۔۔۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب کچھ مجھ سے ہے مگر میرا ایک کمال ابھی ایسا ہے جو میری زندگی میں میرے جسم پر ظاہر نہیں ہوسکتا اور وہ شہادت ہے اس کو اللہ نے ملتوی کررکھا ہے۔ میری شہادت کا ظہور کربلا میں حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ہوگا۔۔۔ جس دن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوگا، دیکھنے میں وہ شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگی مگر حقیقت میں وہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کا باب مکمل ہوا ہے۔ میرے بعض کمالات کا اور میری شان شہادت کا ظہور جسمِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ہوگا۔ جو ظلم و ستم تم جسمِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کرو گے گویا وہ سلوک تم حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نہیں بلکہ مجھ سے کرو گے۔
شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیچا کرنے والو! اس سے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ تمہارا ایمان برباد ہوگا۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں بلکہ وہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ہے۔ باب سیرت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکمیل اور ظہور ہے۔ لہذا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں مجھ کو دیکھنا۔ پس جو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں انا من حسین کو دیکھتے ہیں وہ آج تک حسین حسین کرتے ہیں۔
میں محبت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دعویٰ نہیں کرسکتا، میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آپ کا سگ ہوجاؤں تو یہ بھی میری عبادت ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اپنا سگ قبول کرلیں تو میرا بیڑا پار ہوجائے، محبت کرنا تو اور اونچی بات ہے۔ اس دورِ خارجیت میں جب اہلِ بیتِ اطہار پر حملے ہوتے ہیں، ہم جان کی پرواہ کئے بغیر اور تہمتوں کی پرواہ کئے بغیر سینہ سپر ہوکر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عزت کے محافظ بن کے پھر رہے ہیں۔ ہم ان کی محبت اور مودت کے ڈنکے سرعام بجاتے ہیں۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا ایک امت ہیں
اس حدیث میں مزید فرمایا:
حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاط.
قاضی عیاض، صاحب تحفۃ الاحوزی (عبدالسلام مبارک پوری) اہل لغت اور دیگر آئمہ نے لکھا کہ ’’سبط‘‘ کی جمع ’’اسباط‘‘ ہے اور اس سے مراد قوم اور امت ہے۔ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ لوگو! حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تنہا ایک فرد نہ سمجھنا، یہ ایک فرد نہیں ہے بلکہ یہ امتوں میں سے ایک امت ہے۔ حسین تنہا ایک امت ہے۔ امام ابن الاثیر ’’النہایہ‘‘ (غریب الحدیث، حدیث کے غریب الفاظ کے معنی پر معتبر اور معتمد ترین کتاب) میں فرماتے ہیں کہ
اُمَّةٌ مِنَ الْاُمَمْ فِی الْخَيْر.
’’خیر کے باب میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ امتوں میں سے ایک امت ہیں‘‘۔
لوگوں کو یہ فکر ہے کہ 1400سال گزر گئے شہادت امام حسین کا ذکر ختم ہونے کو نہیں آتا حالانکہ اور شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔ جو لوگ نابینا ہیں، جنہیں اللہ نے شعور ایمانی نہیں دیا، جن کو معرفت وجدانی نصیب نہیں ہوئی، جن کو احادیث و فرامین نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت نہیں، وہ سوچتے ہیں کہ بڑی شہادتیں ہوئیں، ایک حسین ہی کی شہادت کا ذکر کیوں؟
مختصر جواب میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دے دیا کہ جتنی شہادتیں ہوئیں وہ اسی ایک ہستی کی شہادت تھی، جس کی شہادت ہوئی، وہ شہادت عظیم تھی مگر اسی مقدس ہستی ہی کی تھی جبکہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ایک فرد کی نہیں بلکہ پوری امت کی شہادت ہے۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر ایک فرد ہوتے تو شاید ان کی شہادت کا ذکر بھی عام شہادتوں کی طرح ہوتا مگر امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ایک امت میں بدل گئے ہیں۔ اب جس طرح آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت قیامت تک ختم نہیں ہوسکتی اسی طرح امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر قیامت تک ختم نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک فرد نہیں رہے بلکہ وہ پوری امت بن گئے۔ اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجتماعی تسلسل دے دیا۔۔۔ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حیات دائمی دے دی ۔۔۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذکر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجتماعیت دے دی۔
حسین جیتیں گے آخر، یزید ہارے گا
جناں سے آئی ہیں زینب یہ فیصلہ لے کر
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت سے یہ فیصلہ اللہ کی بارگاہ سے لے کر آئی ہیں اور دمشق کے منبر پر سنارہی ہیں، مدینہ کی گلیوں میں سنارہی ہیں، بدبخت یزید کے دربار میں سنارہی ہیں، سربازار سنارہی ہیں کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیتیں گے آخر یزید ہارے گا۔ لوگو! ہمارے سرقلم کرکے یہ نہ سمجھنا کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہوگیا، خانوادہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شکست کھاگیا اور یزید جیت گیا۔ نہیں یہ نہیں ہے بلکہ یزید ہارے گا۔ آج امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ہر آئے روز فروغ پاتاجارہا ہے اور یزید بدبخت کا نام و نشان نہیں ملتا۔ یزید کی قبر اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کا موازنہ کرلو! امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے حسن پر عرش بھی رشک کرتا ہے جبکہ دمشق میں باب الصغیر میں یزید کی قبر کوڑا کرکٹ کی جگہ ہے کیونکہ وہ ہارگیا۔
آقا علیہ السلام نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک امت کی مانند کہا۔ امت کا اشارہ کثرت کی طرف ہوتا ہے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک غیبی مستقبل کی خبر بھی دے دی کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ کربلا میں سارا خانوادہ ختم کردیا، صرف ایک زین العابدین زندہ رہ گئے۔ یہ نہ سمجھنا کہ ایک بیٹے سے نسل کتنی آگے بڑھ سکتی ہے۔ سن لو! هُوَ سِبْطٌ مِنَ الْاَسْبَاط... ایک زین العابدین سے پوری امت نکلے گی۔ آج یزید کی نسل کٹ گئی اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسل ساری دنیا میں پھیل گئی کیونکہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امت بنادیا۔
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک باب ہے۔ جس طرح سیرت محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلسل و دوام ہے کبھی انقطاع و اختتام نہیں ہوگا، اسی طرح ذکر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ذکرِ عظمت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پیغام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوام ہے، کبھی اختتام نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ شہادتیں بہت تھیں مگر کسی شہادت کا ذکر میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا، ذکر شہادت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کرنا خود سنت مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
سنِ شہادت اور قاتلوں کی نشاندہی
ہم ذکرِ امام حسین کی محافل سجاکر سنت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ادا کررہے ہیں۔اس لئے کہ ابھی شہادتِ حسین کو 57/58 سال باقی تھے مگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کربلا تک کا ذکر امت کو بتاگئے۔ حتی کہ سنِ شہادت کی بھی نشاندہی فرمادی، قاتلوں تک کا بھی بتادیا کہ کون ہوں گے؟
بنو امیہ کا وہ دور اہل بیت کی عداوت پر مبنی تھا۔ بنو امیہ کے تیار کئے ہوئے سرکاری مولوی و ملا اور حکمرانوں کے خاندانوں کے چھوٹے چھوٹے عیاش لونڈے مولا علی شیر خدا کو گالیاں دیتے اور گالیاں نکلواتے اور یہ تمام حقائق ہماری صحیح مسلم میں موجود ہیں۔ ’’لونڈے‘‘ کا یہ لفظ میں نے نہیں بولا بلکہ امام بخاری نے صحیح بخاری میں اس عنوان سے درج ذیل باب قائم کیا ہے اور یہ فرمان رسول ہے:
هَلَاکُ اُمَّتِيْ عَلٰی يَدَيْه اُغَيْلِمَةٍ سُفْهآء.
’’بنو امیہ کے بیوقوف لونڈوں کے ہاتھوں میری امت کی ہلاکت ہوگی‘‘۔
اس میں شہادت امام حسین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس حدیث رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ گلیوں میں چلتے پھرتے بآواز بلند توبہ کرتے تھے اور کہتے تھے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ اِمَارَةِ الصّبْيَانِ وَمِنْ رَاْسِ سِتِّيْن.
’’اے اللہ میں چھوٹے لونڈوں کے حکمران بننے اور سن 60ہجری کے شروع ہونے سے پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
نہ صرف خود بلکہ لوگوں کو بھی کہتے کہ
تَعَوَّذُ بِاللّٰهِ مِنْ سَنَة سِتَّيْنَ واِمَارَةِ الصِّبْيَن.
’’لوگو 60ہجری کے آنے سے اور لونڈوں کے حکمران بن جانے سے اللہ کی پناہ مانگو ‘‘۔
60 ہجری میں وہ کون سا لونڈہ تھا جو حکمران بنا؟ اس حدیث کو امام سیوطی نے الجامع الکبیر میں روایت کیا۔ امام ہندی نے کنزالعمال میں روایت کیا۔ امام سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں روایت کیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں روایت کیا اور بے شمار آئمہ، محدثین اور کتب میں اس کا مستقل تذکرہ آتا ہے۔ آج اگر میں یہ بات کروں یا کوئی اور اس طرح کی بات کرے تو اسے شیعہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا کا خوف کرنا چاہئے، انہیں شرم اور حیا ہونی چاہئے۔ فتح الباری میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ
وَقَدْ کَانَ اَبُوْهُرَيْرَة يکنی عن بعضه ولا يصرح به خَوْفًا عَلٰی نَفْسِهِ مِنْهُمْ.
(کتاب الايمان قوله باب حفظ العلم ج1، ص216)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہبنو امیہ کے حکمرانوں اور ان کے متشدد جابر قسم کے لوگوں کے ظلم اور جبر کے خوف سے اُن کا نام نہیں لیتے تھے مگر اشارہ کرتے۔
حافظ ابن حجرعسقلانی فرماتے ہیں کہ
وَيُشِيْرُ اِلٰی خِلَافَةِ يَزِيْدِ ابْنِ مُعَاوِيَه.
’’حضرت ابوہریرہ (یہ کہتے ہوئے) یزید بن معاویہ کی حکومت کی طرف اشارہ کرتے‘‘۔
لِاَنَّهَا کَانَتْ سَنَة سِتِّيْنَ مِنَ الْهِجْرَة.
’’کیونکہ 60 ہجری میں اس کا دور حکومت شروع ہوا‘‘۔
پس یزید پہلا چھوکرا تھا، لونڈہ تھا، غنڈہ تھا، جابر تھا، دہشت گرد تھا، خائن تھا، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی قدروں کو پامال کرنے والا تھا، اہل بیت اطہار کا خون بہانے والا تھا، حرمت رسول کا دشمن تھا، حرمت کعبہ کا دشمن تھا، حرمت مدینہ کا دشمن تھا۔
امام حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں:
وَاسْتَجَابَ اللّٰهُ دُعَا اَبِيْ هُرَيْرَهَ فَمَاتَ قَبْلَهَا بِسَنَةِ.
’’اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور 59 ہجری میں (60 ہجری کے شروع ہونے سے ایک سال پہلے) آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وفات پاگئے‘‘۔
مقام شہادت کی نشاندہی
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام شہادت تک کی خبر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادی۔ یہ تمام باتیں ترمذی شریف سے بیان کررہا ہوں۔ چھوٹے درجے کی کتب حدیث سے بیان نہیں کررہا۔ یہ بھی مغالطے ہیں کہ شہادت امام حسین کے واقعات مستند کتب میں بیان نہیں ہوئے۔ میں کوئی تاریخ کی کتابوں طبرانی، ابن عساکر، البدایہ والنہایہ، ابن الاثیر، تاریخ الاسلام سے حوالے نہیں دے رہا بلکہ جامع ترمذی سے شہادت حسین کا ذکر کررہا ہوں۔ ہم شہادت حسین کی بات کریں اور اس کا تذکرہ اتنا والہانہ کریں تو ہم پر تشیع کا الزام لگتا ہے۔ ظالموں اور جاہلوں اس روش سے باز آجاؤ۔ پوری صحاح ستہ میں جابجا یہ واقعات مذکور ہیں۔ امام ترمذی، امام بخاری کے شاگرد بھی ہیں اور ایک حدیث میں امام بخاری کے شیخ بھی ہیں۔
- حضرت سلمیٰ سے روایت ہے فرماتی ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی اُمِّ سَلَمَةَ وَهِيَ تَبْکِي فَقُلْتُ مَا يُبْکِيکِ قَالَتْ رَاَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم تَعْنِي فِي الْمَنَامِ وَعَلَی رَاْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ فَقُلْتُ مَا لَکَ يَا رَسُولَ اﷲِ؟ قَالَ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا.
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، الرقم: 3780)
’’میں حضرت ام سلمی رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا آپ کیوں رو رہی ہیں؟ انہوں نے فرمایا میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا، آپ کی داڑھی مبارک اور سر انور گرد آلود تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میں ابھی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت میں شریک ہوا ہوں (میرا بیٹا حسین شہید ہوگیا ہے)‘‘۔
ثابت ہوا کہ 10 محرم الحرام کے دن تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میدان کربلا میں تھے اور آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ حسین ظاہری حیات میں تجھے میں نے کندھوں پر اٹھایا اور اپنی زبان چسائی، آج میری محبتوں اور شفقتوں کی لاج رکھ لینا۔ تجھے پالا اس لئے تھا کہ کربلا کے دن تو استقامت کا پہاڑ بن جائے۔
امام ترمذی جیسے ہمارے اماموں نے شہادت امام حسین کا ذکر اس جامع ترمذی میں کتنا کیا ہے ہے کوئی پڑھ کر تو دیکھے۔ اگر پڑھتے تو خارجیت کی گرد آپ پر نہ پڑتی، یہ کیفیت نہ ہوتی اور محبت اہل بیت سے اتنا کٹ نہ جاتے۔
- حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ
کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ زِيَادٍ فَجِيئَ بِرَاْسِ الْحُسَيْنِ فَجَعَلَ يَقُولُ بِقَضِيبٍ لَهُ فِي اَنْفِهِ وَيَقُولُ مَا رَاَيْتُ مِثْلَ هَذَا حُسْنًا قَالَ قُلْتُ اَمَا إِنَّهُ کَانَ مِنْ اَشْبَهِهِمْ بِرَسُولِ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم.
’’میں ابن زیاد کے پاس موجود تھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر انور لایا گیا تو وہ ایک چھڑی سے آپ کی ناک پر مارنے لگا اور کہا میں نے ان جیسا حسن نہیں دیکھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا وہ ان لوگوں میں سے تھے جو حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مشابہ تھے‘‘۔
بعض لوگ آج ان واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں، اس لئے کہ کسی ملا نے جو کہہ دیا، وہی آگے پھیلتا رہا۔ جس کی زبان جتنی لمبی ہے اس نے اتنا لوگوں کو ورغلایا۔ نتیجتاً لوگ اس قسم کے واقعات کو کہ شہادت ہونے کے بعد سرکٹے، نیزوں پر دربار ابن زیاد لائے گئے، یزید کے پاس دمشق لائے گئے، کہتے ہیں کہ یہ سارے من گھڑت قصے ہیں، یہ تاریخ کی کتابیں ہیں، شیعہ راویوں نے گھڑی ہیں۔ ارے بدبختو! اہل بیت سے اتنا بغض اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادوں سے اتنی عداوت کہ جو ظلم و جبر ہوئے ان کا صرف یزید کو تحفظ دینے کے لئے انکار کردو۔ یاد رکھو! یہ شیعہ راویوں کی بنائی ہوئی باتیں نہیں اور نہ تاریخ کی کمزور روایتیں ہیں بلکہ جامع ترمذی کتاب المناقب کی حدیث ہے اور اس طرح بے شمار کتب حدیث میں اس طرح کے واقعات روایت ہوئے ہیں۔ حتی کہ اس کو امام بخاری نے بھی صحیح البخاری میں روایت کیا ہے۔
ابن زیاد کا نام عبیداللہ بن زیاد بن ابی سفیان ہے۔ یہ یزید کا چچا زاد بھائی تھا۔ کیا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر انور کے ساتھ یہ سلوک اور چھڑی سے ناپاک جسارت کرنے والے کو ابھی بھی مسلمان سمجھا جائے؟ کئی لوگ ہیں جو ان کے مسلمان ہونے کی باتیں کرتے ہیں، ان کے کفر میں تامل کرتے ہیں اور ان کے بارے میں بین بین قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ تمام باتیں قیامت کے دن کھل جائیں گی۔ خدا کی قسم سیدہ فاطمۃ الزہراہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روز قیامت جسے چن چن کر کہہ دیا کہ یہ جنت نہیں جاسکتا تو وہ قطعاً جنت نہیں جاسکتا۔ اس لئے کہ وہ جنت کی مالکہ ہوں گی، وہی جنت میں جائے گا جس کو اجازت سیدہ کائنات، حسنین کریمین، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اور میرے مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا ملے گی۔
قاتلین حسین کا انجام
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے پے درپے احادیث روایت کرنے سے امام ترمذی کے عقیدے کا اندازہ ہورہا ہے۔ آپ خود تعین کرلیں کہ عقیدہ کیا ہے۔ ایک حدیث کو چننا اور اس کے بعد اگلی حدیث کو لاکر پڑھنے والے کی ذہن سازی کررہے ہیں اور محبت اہل بیت کے حوالے سے اپنا عقیدہ بیان کررہے ہیں۔
امام ترمذی نے اس حدیث مبارکہ کو بیان کرنے کے بعد قاتلین حسین کے انجام کی روایت کو بھی بیان کیا۔ اس روایت کا پس منظر یہ ہے کہ جب 66 یا 67 ہجری میں واقعہ کربلا کے 7 سال بعد بدلہ لیا گیا۔ ابن زیاد نے بغاوت کی تو مختار بن ابوعبیدہ ثقفی جو ان دنوں امیر تھا اس نے ابراہیم بن اشتر کی قیادت میں لشکر بھیجا کہ ابن زیاد کو قتل کرو اور اس کے سارے ساتھیوں کو بھی قتل کردو۔ پس مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی امارت میں ابن زیاد اور اس کے پورے لشکر کو ابراہیم بن الاشتر نے قتل کیا۔ قتل کرکے تمام قاتلینِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مختار ثقفی کے دربار میں بھیجے گئے جیسے یزید کے دربار میں گئے تھے۔ اس نے وہ سر مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے پاس بھیجے۔ انہوں نے امام زین العابدین کے پاس بھیجے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں انہیں نہیں دیکھنا چاہتا، یہ ہمارا منصب نہیں ہے۔ انہوں نے محمد بن حنفیہ کے پاس بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ تب یہ تمام سر واپس مکہ بھیجے گئے۔ ابراہیم بن اشتر نے وہ تمام سر جلاکر راکھ کردیئے۔ یہ تمام واقعہ کربلا کے چھ یا سات سال بعد ہوا۔
جب یہ تمام سر مکہ معظمہ میں اکٹھے کئے گئے تو وہاں ایک واقعہ پیش آیا جسے امام ترمذی بیان کرتے ہیں۔ عمارہ بن عمیر سے روایت ہے:
لَمَّا جِيئَ بِرَاْسِ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ زِيَادٍ ؤصْحَابِهِ نُضِّدَتْ فِي الْمَسْجِدِ فِي الرَّحَبَةِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِمْ وَهُمْ يَقُولُونَ قَدْ جَائَتْ قَدْ جَائَتْ فَإِذَا حَيَةٌ قَدْ جَائَتْ تَخَلَّلُ الرُّؤسَ حَتَّی دَخَلَتْ فِي مَنْخَرَيْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ زِيَادٍ فَمَکَثَتْ هُنَيْهَةً ثُمَّ خَرَجَتْ فَذَهَبَتْ حَتَّی تَغَيَبَتْ ثُمَّ قَالُوا قَدْ جَائَتْ قَدْ جَائَتْ فَفَعَلَتْ ذَلِکَ مَرَّتَيْنِ اَوْ ثَلَاثًا هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.
’’جب عبید اللہ ابن زیاد اور اس کے ساتھیوں کے سر لا کر مسجد کے صحن میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر رکھے گئے تو میں ان کے پاس گیا، لوگ کہہ رہے تھے: آ گیا آ گیا۔ اچانک دیکھا کہ ایک سانپ آیا، وہ ان سروں کے درمیان سے نکلتا ہوا ابن زیاد کے نتھنوں میں داخل ہو گیا۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر چلا گیا یہاں تک کہ غائب ہو گیا۔ لوگوں نے پھر کہا: آ گیا آ گیا۔ دو یا تین مرتبہ اس نے اس طرح کیا۔ (یعنی ہر مرتبہ ابن زیاد کے نتھنوں میں داخل ہوا، کچھ دیر اس کو اندر ڈسا اور پھر باہر نکل کر غائب ہوگیا) یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
گویا ابن زیاد کے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نتھنوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کا بدلہ سانپ نے لیا۔
میں کسی تاریخ کی کتاب سے یہ واقعہ نہیں بیان کررہا بلکہ یہ جامع ترمذی کی حدیث ہے۔ نیز یہ حدیث ضعیف بھی نہیں ہے، بلکہ صحیح سے بھی اونچے درجے کی ہے یعنی حسن صحیح ہے۔ اس کے کئی طرق صحیح ہیں، کئی طرق حسن ہیں۔ دوہرے درجے کی کمال ثقاہت و صحت کی حدیث ہے۔
آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں کی سواری کی لاج رکھ لی
سرِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزے پر چڑھا کر دمشق پہنچایا گیا۔ اس کا اشارہ بھی میرے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم دے گئے تھے۔ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کندھوں پر اٹھا کر مدینہ کی گلیوں میں چلنا گویا اس امر کا اظہار تھا کہ حسین آج میرے کندھوں پر تو بیٹھ کر مدینہ کے گلیوں میں چلا ہے کل کوفہ سے دمشق تک تیرا سر کٹ کے نیزوں پر چڑھ کر جائے گا۔ اس امتحان کے وقت اپنے نانا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر چڑھ کر کی ہوئی سیر کی لاج رکھنا۔
سن لیں! یہ باتیں کتب شیعہ کی نہیں ہیں۔ ہمارے خارجیت زدہ لوگوں نے عامۃ الناس کے ذہن پراگندہ کردیئے ہیں کہ جو اہل بیت اور حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کی بات کرے، بس اس پر تہمت لگادو۔ محبت اہل بیت و حسنین کریمین اہل سنت کا ایمان و عقیدہ ہے۔ ہمارے کُل امام اسے بیان کرنے والے ہیں۔ صرف امام ترمذی نے ہی نہیں بلکہ جملہ آئمہ و محدثین نے واقعہ کربلا کے واقعات، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حسنین کریمین سے محبت، بزبان مصطفی امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر اپنی اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔
امام احمد بن حنبل بھی واقعہ کر بلا کے مختلف واقعات کو روایت کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل کا مقام یہ ہے کہ آپ امام بخاری اور امام مسلم کے شیخ ہیں۔ مقدمہ ابن صلاح جیسی اصول حدیث اور فن حدیث کی کتابوں میں درج ہے کہ ان کی کتاب مسند احمد بن حنبل اتنی معتبر کتاب ہے کہ اس میں موجود 27 ہزار احادیث میں سے صرف چودہ پر موضوع کا حکم لگا ہے۔ بعض نے 2، بعض نے 5 پر حکم لگایا ہے۔ 27ہزار احادیث میں سے 14 پر جرح ہوئی۔ گویا حدیث کی اتنی اعلیٰ درجے کی کتاب مسند امام احمد بن حنبل ہے۔ اس اعلیٰ مقام کے حامل امام بھی اس کو روایت کررہے ہیں۔ میں کسی مورخ کی بات نہیں کررہا، کسی کتاب تاریخ سے نہیں لے رہا۔ اس مقام و مرتبہ کے حامل امام احمد بن حنبل نے فضائل الصحابہ میں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مقام شہادت کی خبر دینے کی روایت کو بیان کیا۔
- امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بھی روایت کیا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں ایک روز تشریف فرما تھے کہ مجھے فرمایا:
’’اے ام سلمہ! دروازے کا خیال رکھنا کوئی اندر داخل نہ ہو‘‘۔ اس اثناء میں کہ آپ دروازے پر نگہبان تھیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور اندر چلے گئے اور حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر جا چڑھے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو گود میں لے کر چومنے لگے تو فرشتے نے عرض کی:
اتحبه؟ قال: نعم قال ان امتک ستقتله وان شئت اتيک المکان الذی يقتل فيه فضرب بيده فاراه ترابا احمر.
’’کیا آپ اس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ فرشتے نے کہا ’’بے شک آپ کی امت اس کو قتل کردے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ دکھادوں جہاں یہ قتل کئے جائیں گے پس اس نے اپنا ہاتھ مارا اور آپ کو سرخ مٹی دکھا دی‘‘۔
دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ مٹی شیشی میں ڈال کر مجھے دے دی اور فرمایا :
يا ام سلمه رضی الله تعالیٰ عنه اذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی ان ابنی قدقتل.
’’ام سلمہ اس مٹی کو سنبھال کے رکھ لینا، دیکھتے رہنا جب یہ مٹی خون میں بدل جائے اس دن سمجھ لینا کہ حسین شہید ہوگیا‘‘۔
- امام سیوطی نے الخصائص میں اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت اصبغ بن بنانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
ايتنا مع علی موضع قبرالحسين فقال ههنا مناخ رکابهم وموضع رحالهم ومهراق دمائهم فئة من ال محمد صلیٰ الله عليه وآله وسلم يقتلون بهذه العرصة تبکی عليهم السماء والارض.
(الخصائص الکبریٰ، 2:126)
’’ہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ قبر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ پر آئے تو آپ نے فرمایا یہ ان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون بہنے کا مقام ہے۔ آل محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین و آسمان روئیں گے‘‘۔
الغرض واقعہ کربلا اور حسنین کریمین سے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو آئمہ حدیث، صحابہ، ازواج مطہرات، اہل بیت اطہار کے لوگ روایت کرتے رہے۔ اب یہ شہادت کا ذکر کوئی تاریخی عام واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرف تو سیرت محمدی کا باب ہے اور دوسری طرف اس شہادت کا تذکرہ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود کرگئے ہیں۔ اب جس طرح حدیث مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ختم نہیں ہوسکتی اسی طرح ذکر حسین بھی ختم نہیں ہوسکتا بلکہ دائماً زندہ رہے گا کیونکہ اس کا تذکرہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمادیا ہے۔
- امام احمد بن حنبل کی فضائل الصحابہ، امام طبرانی کی المعجم الکبیر، خطیب بغدادی کی تاریخ بغدادی، حافظ ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب، امام ابن عبدالبر کی الاستیعاب میں بھی اس حوالے سے مستند احادیث موجود ہیں۔ میں کتب تاریخ کی بات نہیں کررہا کہ کوئی یہ کہہ کر جھٹلا دے، اس کی اہمیت گھٹادے، اس کا تذکرہ مٹادے کہ یہ تاریخی رواتیں ہیں، من گھڑت اور ضعیف ہیں، نہیں بلکہ یہ مستند آئمہ کرام و محدثین نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہیں۔ جب بے شمار آئمہ حدیث کسی حدیث کو لے لیں اور استدلالاً، اسناداً بیان کریں اور پھر اس کو رد نہ کریں، اس پر جرح نہ کریں بلکہ قبول کریں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا یہ مذہب و اعتقاد ہے۔ معناً یا اسناداً انہوں نے اسے قبول کیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
رايت النبی صلیٰ الله عليه وآله وسلم فيما يری النائم ذات يوم بنصف النهار اشعث اغبر بيده قارورة فيها دم فقلت: بابی انت وامی ماهذا؟ قال: هذا دم الحسين واصحابه ولم ازل التقطه منذاليوم فاحصی ذالک الوقت فاجد قتل ذالک الوقت.
’’ایک دن دوپہر کے وقت میں نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی سونے والا کسی کو دیکھتا ہے (یعنی خواب میں) کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے اور گرد آلود ہیں اور آپ کے ہاتھ میں ایک بوتل ہے جو خون سے بھری ہوئی ہے۔ میں نے عرض کیا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟‘‘ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے جس کو میں آج سارا دن (صبح سے لے کر اب تک بوتل میں) اکٹھا کرتا رہا ہوں‘‘ (حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) میں نے اس وقت کو یاد رکھا (جس وقت یہ خواب دیکھا تھا) پس میں نے پایا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت شہید کئے گئے تھے‘‘۔
پس یہ بات طے ہوگئی کہ کربلا کے دن 10 محرم الحرام کو تاجدار کائنات شہادت حسین کا نظارہ کرنے خود کربلا میں موجود تھے، حوصلہ دے رہے تھے اور دیکھ رہے تھے کہ ان یزیدیوں کی جفا کا عالم کیا ہے اور میرے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفا کا عالم کیا ہے۔
جس شہادت پر مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم خود موجود ہوں اس دن کو منایا نہ جائے، اس شہادت کا ذکر نہ کیا جائے تو وہ کیسا امتی ہے؟ اس بدبخت کا آقا علیہ السلام کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ کسی اور شہادت پر آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سارا دن کھڑے ہوکر خون شیشی میں جمع نہیں کرتے رہے۔ شیشی میں شہیدوں کے خون کو جمع کرتے وقت آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کیا بیتتا ہوگا۔
سرِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اعجازی شان
امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں، امام الآجوری نے الشریعہ میں، امام ابن عساکر، امام سیوطی اور کبار آئمہ حدیث نے روایت کیا ہے کہ جب شہدائے کربلائے معلی کے سر کاٹ کے نیزوں پر لے کر جانے والے قافلے کے راستہ میں ایک منزل پر ایک گرجا تھا۔ رات گزارنے کے لئے قافلہ نے وہاں قیام کیا اور بقول ابن کثیر وہ لوگ آپ کا سر مبارک پاس ہی رکھ کر شراب پینے لگے کہ اتنے میں پردہ غیب سے ایک آہنی قلم نمودار ہوا اور دیوار پر خون سے لکھا:
اترجو امة قتلت حسين
شفاعة جده يوم الحساب
’’کیا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کرنے والے یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے روز ان کے نانا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی شفاعت کریں گے؟‘‘۔
- امام سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں، امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق، علامہ شوکانی نے فیض القدیر میں، امام شامی نے سیرت شامیہ میں اور دیگر بہت سے آئمہ محدثین نے بیان کیا کہ یزید بدبخت کے حکم سے شہداء کے سروں اور اسیران کربلا کو تین روز تک دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا۔ حضرت منہال بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
والله رايت راس الحسين حين حمل وانا بدمشق وبين يدی الراس رجل بقرا سورة الکهف حتی بلغ قوله تعالیٰ: ام حسبت ان اصحاب الکهف الرقيم کانوا من ايتنا عجبا، فانطق الله الراس بلسان ذرب فقال: اعجب من اصحاب الکهف قتلی وحملی.
’’خدا کی قسم! میں نے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر کو نیزے پر چڑھے ہوئے دیکھا اور میں اس وقت دمشق میں تھا۔ سر مبارک کے سامنے ایک آدمی سورہ کہف پڑھ رہا تھا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ام حسبت ان اصحاب الکہف والرقیم۔۔۔ (کیا تونے جانا کہ بے شک اصحاب کہف اور رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ تھے) پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سرمبارک کو گویائی دی اور اس نے بہ زبان فصیح کہا کہ اصحاب کہف (کے واقعہ) سے میرا قتل کیا جانا اور میرے سر کا نیزہ پر اٹھایا جانا عجیب تر ہے‘‘۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قتل کیا جانا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر انور کو تن سے جدا کرکے نیزے پر چڑھا کر دمشق کے بازاروں میں پھرایا جانا، یہ اصحاب کہف کے واقعہ سے کہیں عجیب تر ہے کیونکہ اصحاب کہف نے تو کفار کے خوف سے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور ترک وطن کرکے ایک غار میں پناہ لی تھی مگر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے اہل بیت اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ جو ظلم و ستم اور ناروا سلوک ہوا وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو اسلام اور ایمان کے دعویدار تھے۔ اصحاب کہف عام لوگ تھے جو اپنے اس عمل کی بدولت مقام ولایت پر فائز ہوگئے تھے جب کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جگر کے ٹکڑے اور نواسے تھے۔ اصحاب کہف نے اگرچہ کئی سو سال کی نیند کے بعد اٹھ کر کلام کیا تھا لیکن بہر حال وہ زندہ تھے مگر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر انور کا جسم سے جدا ہوجانے کے کئی روز بعد نیزے کی نوک پر بولنا یقینا اصحاب کہف کے واقعہ سے عجیب تر ہے۔
یزید کی رعونت
جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سر انور یزید کے پاس لاکر اس کے آگے رکھا گیا تو اس نے تمثیلاً یہ اشعار پڑھے۔
ليت اشياخی ببدر شهدو
جزع الخزرج فی وقع الاسل
قد قتلنا الضعف من اشرافکم
وعدلنا ميل بدر فاعتدل
’’اے کاش! بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیاخ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں سے چیخنا چلانا دیکھتے۔ ہم نے تمہارے دوگنا اشراف کو قتل کردیا ہے اور یوم بد رکے میزان کے جھکاؤ کو برابر کردیا ہے‘‘۔
(البداية والنهاية، 8: 192)
بدبخت یزید کے پیروکار غور سے سنیں، یزید کی خلافت پر عقیدے رکھنے والے غور سے سنیں، یزید کی فکر کے علمبردار غور سے سنیں، اس نے کہا میں نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جانے والے کفار قریش کا آج بدلہ لے لیا ہے۔ گویا وہ اپنے آپ کو انہی کفار مکہ کے ساتھ متعلق کررہا ہے۔
آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا جواب دو گے!
امام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، امام طبری نے تاریخ میں، امام ابن الاثیر نے الکامل میں اور امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں روایت کیا ہے کہ امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہما اجڑا اور لٹا قافلہ لے کر جب دمشق سے واپس مدینہ پہنچے تو حضرت ام لقمان بن عقیل بن ابی طالب اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ باہر آگئیں اور روتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
ماذا تقولون ان قال النبی لکم
ماذا فعلتم وانتم آخر الامم
بعترتی وباهلی بعد مفتقدی
منهم اساری وقتلی ضرجوا بدم
ماکان هذا جزائی اذ نصحت لکم
ان تخلفونی بسوء فی ذوی رحمی
’’لوگو! کیا جواب دو گے جب نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہونے کے باوجود کیا کیا؟ میرے بعد میری اولاد اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کہ ان میں سے بعض کو تم نے اسیر کیا اور بعض کا خون بہایا۔ میں نے تم کو جو نصیحت دی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں سے برا سلوک نہ کرنا، اس کی جزایہ تو نہ تھی‘‘۔
(البدايه والنهايه، 8: 198، ابن اثير، 4: 89)
میں نے تمہیں شرک کی آلودگیوں سے نکال کر توحید کا نور دیا۔۔۔ میں نے تمہیں گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان اور اسلام کی روشنی عطا کی۔۔۔ میں نے اس گری ہوئی انسانیت کو عظمت کا بام عروج عطا کیا۔۔۔ میں نے تمہیں اللہ سے ملایا۔۔۔ تمہیں پوری دنیا کا فاتح بنایا۔۔۔ ایمان، اسلام، احسان، تقویٰ اور زہد کی منزلیں دی۔۔۔ ہدایت دی، قرآن دیا اور قیامت تک تمہیں آخرالامم اور خیرالامم بنایا۔ سارا کچھ کرکے اس تبلیغ رسالت کے بعد میں نے کہا قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا بس اتنا کرنا کہ میری قرابت کا حیا کرنا۔ میں دیکھوں گا میرے بعد میری اہل بیت اور میرے شہزادوں کے ساتھ کیا کرتے ہو۔ اگر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تم سے پوچھ لیا کہ حسین وہ تھا جس کو میں نے اپنا بیٹا کہا اور حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن کے ساتھ ملاکر اپنی چادر میں ڈھانپا تھا اور عرض کیا تھا کہ اللهم هولاء اهل بيتی اے اللہ یہ میری اہل بیت ہیں۔ اگر حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارے اس سلوک اور اپنے احسان بارے پوچھ لیا تو کیا جواب دو گے۔۔۔؟
محبت صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم
صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار ان دونوں کی محبت ہمارے لئے اسوہ ہے۔ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار ان دونوں کی محبت کو اپنا زینہ، توشہ اور اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنانا چاہئے۔
آقا علیہ السلام نے اہل بیت کی محبت کے حوالے سے فرمایا:
اَحِبُّوْا اللّٰهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ بَهِ مِنْ نِعْمَةِ.
اللہ نے جو تم کو نعمتیں دی ہیں ان نعمتوں کے حیاء سے خدا سے محبت کیا کرو۔۔۔
وَاَحِبُّوْنِيْ بِحُبِّ اللّٰه
اور اللہ کی محبت کے حیا سے مجھ سے محبت کیا کرو۔۔۔
وَاُحِبُّوا اَهْلَ بَيْتِی بِحُبِّی
اور میری محبت کے سبب سے میری اہل بیت سے محبت کیا کرو‘‘۔
- حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ
حب آل محمد يوما خير من عبادة سنة.
’’اہل بیت محمد کی محبت میں ایک دن گزارنا پورے سال کی نفلی عبادت سے افضل ہے‘‘۔
- آقا علیہ السلام نے یہاں تک فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّی يُحِبَّکُمْ ِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِقَرَابَتِي.
(اخرجه احمد بن حنبل فی المسند، 1/ 207، الرقم: 1772)
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میںمیری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘
- امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے کہ امام حسن مجتبیٰ فرماتے ہیں کہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لکل شئی اساس، اساس الاسلا م حب اصحاب رسول الله وحب اهل بيته.
ہر شے کی ایک بنیاد ہوتی ہے، اسلام کی بھی ایک بنیاد ہے۔ اسلام کی بنیاد دو محبتیں ہیں: ایک حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی محبت، دوسری اہل بیت کی محبت‘‘۔
اہل بیت کو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’امان لامتی‘ فرمایا یعنی ’’اہل بیت میری امت کی امان ہیں‘‘۔
صحابہ کو آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ’نجوم لامتی‘ فرمایا یعنی ’’یہ میری امت کے ستارے ہیں‘‘، ’بايهم اقتديتم اهدتيتم‘ جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔
پس اہل بیت کی محبت اور احترام سے دوزخ کے عذاب سے امان ملے گی اور صحابہ کی محبت، احترام اور اقتداء کرنے سے گمراہی سے نجات اور ہدایت ملے گی۔ گویا اِن کی محبت بھی امان اور اُن کی محبت بھی امان۔ دونوں محبتیں حقیقت میں شمعِ مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرنیں ہیں۔
آقا علیہ السلام کے ساتھ جس کو محبت کا دعویٰ ہے وہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت سے محبت کرے۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اگر انگوٹھی ہے تو امام حسین اس کا نگینہ ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری اہل بیت کا حسن و زینت ہیں۔ قیامت کے دن واللہ اس شخص کی شفاعت نہیں ہوگی جس پر سیدہ فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ناراض ہوں گے۔ جن کو آقا نے جنتی جوانوںکے سردار کہا اگر ان کا دل کسی سے دکھی ہے تو وہ جنت میں کیسے داخل ہوسکتا ہے، اس لئے کہ یہ جنت کے وارث ہیں۔ پس ان سے محبت و مودت کریں۔۔۔ ان کی اتباع و اطاعت کریں۔۔۔ ان سے تمسک رکھیں اور ان کا توسل اختیار کریں، اس لئے کہ ان کا وسیلہ ہی کام آئے گا۔
صحابہ کرام نے عمر بھر پوری زندگی ان کا توسل رکھا۔ صحیح بخاری میں آتا ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قحط پڑا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب حیات تھے۔ امیرالمومنین رحمۃ اللہ علیہخود حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو استسقٰی کے لئے کھڑا کرتے اور ان سے توسل کرتے اور کہتے باری تعالیٰ! جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ تھا تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرتے تھے اب حضور کے چچا زندہ ہیں، ان سے توسل کرتے ہیں۔ الغرض حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے کا جو فرد ان کو مل جاتا ا س سے توسل کرتے، ان سے محبت کرتے، ان سے تمسک کرتے کیونکہ اسی میں امان، ہدایت، آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی اور اللہ کی رضا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عقائد کو درست کریں۔ محبت الہٰی، محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت اہل بیت، محبت صحابہ اور محبت اولیاء و صالحین ان پانچ محبتوں پر خود کو جمع رکھیں۔ خارجیت کی فکر سے کبھی خود کو متاثر نہ ہونے دیں۔ جھوٹی تہمتیں لوگوں کو راہ حق سے بہکانے اور ہٹانے کے حیلے ہوتے ہیں، اس سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں اور اپنے عقیدہ کو طاقتور بنائیں۔ ایمان کا جو راز امت کے جمیع آئمہ، اولیاء صلحاء و صالحین کے ہاں صدیوں سے چلا آرہا ہے اسی طریقے کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ یہی مسلک، منشور اور طور طریقہ تحریک منہاج القرآن کا بھی ہے اور منہاج القرآن کی دعوت بھی پوری دنیا کے لئے یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ہمیں حب رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، حب صحابہ، حب اہل بیت اور حب اولیاء و صالحین پر جمع رکھے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم