پاکستانی قوم کی ثقافتی ترقی ’’دین‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کے فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی معاشی ترقی کے لئے اس قوم میں ثقافتی ہم آہنگی کا موجود ہونا از بس ضروری ہے۔یہ ثقافتی ہم آہنگی کسی جغرافیائی حدود میں بسنے والی قوم کے مختلف اجزاء کی ثقافتوں کے امتزاج سے بننے والی ثقافتی یکجہتی سے وجود میں آتی ہے۔
اگر ثقافت کی بنیاد انسانی آزادی، انسانی مساوات اور یکساں معاشی مواقع کی ضمانت پر رکھی جائے تو دنیا میں موجود مسلم اکثریتی ثقافتوں اور غیر مسلم اکثریتی ثقافتوں کے مابین ایک خوبصورت امتزاج پیدا ہوسکتا ہے اور اس سے ایک ایسی عالمی ثقافت ابھر سکتی ہے جو انسان کو ترقی کی انتہائی منازل تک رسائی دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ انسانی آزادی، مساوات اور یکساں معاشی مواقع یہ تینوں باتیں در اصل دین (یعنی اللہ پر ایمان اور انسانی بھائی چارہ) کی بنیادی قدریں ہیں۔
کسی بھی ملک میں رہنے والے مختلف مذہبی، لسانی و نسلی گروہ جغرافیائی اعتبار سے دراصل ایک ہی قوم کا حصہ ہوا کرتے ہیں اور وہ ایک جیسے حقوق کے مالک ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مختلف قومیں مل کر انسانی بھائی چارہ کی بنیاد پر ایک ایسا گروہ تشکیل دینے کے قابل ہوسکتی ہیں جو انسانی ترقی کے لئے کام کرنے کے قابل ہوسکے۔ یہ سارا عمل انبیائے کرام علیہم السلام کے بتائے ہوئے دین کی بنیادی تعلیمات پر کاربند ہونے ہی سے ممکن ہے۔ اگر ہمیں آئندہ آنے والے ادوار میں ثقافتی ہم آہنگی پر مبنی انسانی بھائی چارہ تشکیل دینا ہے تو یہ ’’دین انبیاء‘‘ کو اپنا کر ہی ہوسکتا ہے۔
دنیا بھر میں آج تک مذہب کے نام پر جو فساد برپا ہوتا رہا ہے اور آج بھی برپا ہے، اور اس وجہ سے مختلف انسانی گروہوں میں جو فرق روا رکھا گیا ہے، وہ دین اور مذہب کے حقیقی مفہوم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ جب تک ایک طرف ہر دو تصورات کے درمیان فرق کو قطعی طور پر واضح نہیں کیا جاتا اور اسے عوامی شعور کا حصہ نہیں بنادیا جاتا اور دوسری طرف مختلف مذاہب کے مابین عقائد کے اختلاف کو برداشت کرنے کے اصول کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک انسانی بھائی چارہ کے اعلیٰ جذبات کی بنیاد پر ترقی یافتہ مغربی اقوام اور پس ماندہ و ترقی پذیر مشرقی اقوام میں قرب پیدا نہیں ہوسکتا۔ مسلم اقوام کو بنیاد پرستی کا جو طعنہ دیا جاتا ہے وہ بھی اپنے تمام مضمرات کے ساتھ بدستور قائم رہے گا جب تک دین اور مذہب کے اس فرق کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کرلیا جاتا۔
دین اور مذہب کے درمیان فرق
’’دین‘‘ سے مراد زندگی گزارنے کا طریقہ (Way of Life) ہے۔ ’’دین انبیاء‘‘ اس طرز زندگی کو کہیں گے جس کے بارے میں تمام انبیاء علہیم السلام نے یکساں اصول وضع کئے ہیں اور جس میں انسانوں کو مادی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی ترقی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ جبکہ ’’مذہب‘‘ صرف دین کے ایک گوشہ یعنی عبادات اور اس کے متعلقات کو زیرِ بحث لاتا ہے۔
گویا اسلام کی طرف دعوت دینا درحقیقت تمام انبیاء کرام کی بنیادی تعلیمات ہی کی طرف دعوت دینا ہے اور یہ کہ دنیا کے تمام انسانوں اور قوموں کو دین انبیاء ہی کی بنیاد پر متحد کیا جاسکتا ہے اور اسی بنیاد پر انسانوں کے مابین ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرکے اور معاشی انصاف و سماجی انصاف پر مبنی انسانی معاشرہ قائم کرکے، ایک اچھا قابل عمل نظام وضع کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اسلام سے مراد وہ روایتی مذہب ہرگز نہیں ہے جو فرقہ پرست مذہبی رہنمائوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔
تمام انبیاء کی طرف سے پیش کردہ دین کو ’’دین انبیاء‘‘ یا ’’اسلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ تمام انبیاء نے فی الاصل ناصحانہ انداز میں اللہ پر ایمان لانے اور دوسرے انسانوں کے ساتھ محبت اور بھائی چارہ سے مل جل کر رہنے ہی کی دعوت دی۔
انبیاء کی دعوت کے بارے میں جو بنیادی نقطہ یاد رکھنے کا ہے وہ یہ ہے کہ اس دعوت کو دوسروں سے منوانے کے لئے کسی قسم کی زبردستی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ اسے ماننا نہ ماننا ہر شخص کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کے تمام رسولوں نے ہمیشہ یہی اعلان کیا ہے کہ ہم سچائی کی طرف دعوت دینے والے، نصیحت کرنے والے، اللہ پر ایمان اور اچھے اعمال کے نتائج کی خوشخبری دینے والے اور اللہ کے انکار اور برے اعمال کے نتائج سے خبردار کرنے والے ہیں اور بس۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور نہ وہ کوئی ایسا نیا مسلک لے کر آئے ہیں جو دوسرے انبیاء نہیں لائے تھے۔ تمام انبیاء کی بنیادی دعوت ایک ہی تھی اور وہ ہر دور میں انسانوں کو سابقہ انبیاء کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے آئے تھے۔ انبیاء کی دعوت بارے اس بیّن حقیقت کو نظر انداز کردینے ہی کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں اور دوسری امتوں میں مختلف مذہبی فرقہ بندیاں پیدا ہوئیں اور ہر فرقہ محض فروعات کے بارے میں عقائد کے فرق کی بنا پر دوسرے فرقوں سے لڑنے جھگڑنے لگ گیا اور ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوگیا۔
ان حالات میں ضروری ہے کہ دانشوروں اور عوام دونوں کے شعور میں دین اور مذہب کے فرق کو واضح کیا جائے اور رجعت پسند عناصر (یعنی جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور ان کے حواری مذہبی اجارہ داروں) کی طرف سے اسلام اور مذہب کے نام پر جاہلانہ تصورات کے ذریعے عوامی شعور کو کند کرنے کی ہر کوشش کو مومنانہ فراست سے ناکام بنانے کا موثر عمل فوری طور پر شروع کردیا جائے تاکہ فرقہ پرست مذہبی عناصر اور دیگر اجارہ دار قوتوں کے یہ ہر دو حربے ناکام ہوں اور ہماری قوم (تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر) ترقی کی منزلوں کی جانب قدم بڑھاسکے۔ آیئے مذہبی طبقہ کی منفی سوچ کے انسانی زندگی پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں:
سیاست اور مذہبی منفی سوچ
انسانی زندگی کے بارے میں مذہب کے غلط تصور کے سیاست پر اثرات کے نقصان کا دائرہ کار ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو محیط ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ سیاست کے اثرات صرف اسمبلیوں کی تشکیل، قانون سازی اور لا اینڈ آرڈر تک محدود نہیں ہیں۔ اچھا یا بر ا سیاسی عمل سوسائٹی کے پورے تار و پود کو بنانے یا بگاڑنے کا باعث بنتا ہے اور سماجی و معاشی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی سیاسی عمل ہی کے ذریعے لائی جاسکتی ہے۔
عملی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا اور ان کے ذریعے اپنے ملک کی سیاست کا، جو حشر ہم دیکھ رہے ہیں وہ دراصل اس وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنی قیادت کے بارے میں ان رہنما اصولوں اور ذاتی مثالوں کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے جو اپنے اپنے وقت کے بہترین انسانوں یعنی انبیاء کرام نے ہمارے سامنے رکھے ہیں۔
ہمارے سیاست دان عام طور پر قومی و ملکی مفادات پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی و گروہی مفادات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ آج سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کے لئے سیاسی تربیت اور سماجی خدمت کے کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ صرف دولت کے انبار اور کسی سیاسی لیڈر یا کسی حکمران کے ساتھ رشتہ داری یا قریبی تعلق کا ہونا کافی ہے اور خود اسے جوڑ توڑ کا ماہر ہونا چاہئے۔ اسے اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ زندگی کے بارے میں کوئی مثبت سوچ مرتب کرے اور اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں فکر مند ہو اور ان کے متعلق ضروری معلومات فراہم کرنے کی تکلیف گوارا کرے۔ بس ’’اسلام‘‘ ’’قرآن‘‘ اور ’’شریعت‘‘ کے الفاظ اس کے نوک زبان ہونے چاہئیں خواہ وہ خود ان کے مطالب سے نآشنا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مسلم عوام اسلام اور اس کے تقاضوں کے بارے میں واضح تصور نہیں رکھتے، صرف اس سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں۔ اس لئے محض جذباتی انداز میں ان سے مخاطب ہوکر انہیں بیوقوف بنایا جاسکتا ہے اور اپنا مطلب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ’’مذہب‘‘ کے غلط تصور ہی نے فرقہ پرستوں کو اس بات کی شہہ دی ہے کہ وہ بھی خالی خولی نعروں کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بناکر سیاسی اکھاڑے میں کود پڑیں اور اپنی مخصوص مذہبی وضع قطع کے بل پر سادہ لوح مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنانے کی کوشش کریں۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کا بنیادی مقصد ملک کے مسائل کے حوالے سے اپنا منشور تیا رکرنا، مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل مرتب کرنا، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے پارٹی کو جمہوری بنیادوں پر منظم کرنا، معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو کسی مثبت اور بار آور سوچ کی بنیاد پر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا اور پھر منظم جدوجہد کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے اپنے منشور کے مطابق مفاد عامہ کے لئے حکومتی مشینری کو حرکت میں لانا ہوا کرتا ہے۔ مذہبی نعروں، فرقہ واریت اور تنگ نظری کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ سیاسی پارٹیاں بنانا سیاست کے اصول کے سراسر خلاف ہے۔ جہاں تک اسلام کے اصولوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں قوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ البتہ فروعات کے بارے میں مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں جن کے بارے میں افہام و تفہیم کا دروازہ کھلا رہنا چاہئے۔ اس لئے اسلام کو وجہ نزاع بنانا اور اس کے بل پر نعرہ بازی کی سیاست کرنا مناسب نہیں ہے۔
اسلام کے تربیتی پہلو کا تعلق افرادِ قوم میں اچھا کردار پیدا کرنا ہے تاکہ اس طرح کے افراد مل کر ایک ایسا سماجی ڈھانچہ ترتیب دے سکیں جو انسانی زندگی کو خوشگوار اور بار آور بناسکے۔ یہ کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے کارکن یا سیاسی لیڈر خود اپنی محنت کی کمائی پر گزارہ کرتے ہوئے قوم و ملک کی خدمت سرانجام دیں۔ ہاں اگر ریاست کو بعض مخصوص افراد کی، ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے، ہمہ وقت خدمات کی ضرورت پیش آجائے تو وہ حکومتی خزانے میں سے صرف اسی قدر لے سکتے ہیں جتنا کہ ایک عام آدمی کو سادہ، فقر و فاقہ سے آزاد اور پروقار زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہو۔ یہ نہیں کہ سرکاری معاوضوں اور دیگر ضروری مراعات کے ساتھ ساتھ وہ حکومتی اثرو رسوخ کے ذریعے مِلیں اور کارخانے بھی لگائیں اور بڑے بڑے کاروبار چمکائیں اور اس طرح ان اصل حق داروں کو ان کے حق سے محروم کردیں جو صلاحیت تو رکھتے ہیں مگر اثرو رسوخ نہیں رکھتے۔
مفاد پرست افراد کے اس طرز عمل کی وجہ سے اب ضروری ہوگیا ہے کہ اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر حکومت کی کرسیاں حاصل کرنے والوں کو، جمہوری عمل کے ذریعے عوام کو شعور دلاکر، سیاست کے میدان سے باہر کردینے کا عمل بلا تاخیر شروع کردیا جائے۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب کہ ’’دین‘‘ اور ’’مذہب‘‘ کے فرق کو اس حد تک لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کردیا جائے کہ مفاد پرست اور استحصالی عناصر مذہب کو آلہ کار کے طور پر استعمال نہ کرسکیں۔
عوامی مفادات اور مذہبی منفی سوچ
مذہبی سوچ کے منفی اثرات عوام کے مفادات یعنی سیاسی حاکمیت، سماجی مساوات، معاشی ترقی، تعلیم، صحت، روزگار، رہائش وغیرہ پر بھی پڑے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر ترتیب دی گئی فرقہ بندی کا تاریخ میں کردار ہمارے سامنے ہے۔ مذہب کے پردے میں پہلی زد ہر ملک کے استحصال زدہ مظلوم عوام کے حق حکمرانی پر پڑتی ہے۔ مذہبی پیشوائوں کی طرف سے ’’ملک پر عوام کی حاکمیت‘‘ کے مسلمہ اصول کو ’’پوری کائنات پر اللہ کی حاکمیت اعلیٰ‘‘ کے اصول کے ساتھ گڈ مڈ کرکے ’’عوام کی حاکمیت‘‘ کو ’’اللہ کی حاکمیت‘‘ کی نفی قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ عوام کی کسی ملک پر حاکمیت کو تسلیم کئے بغیر جمہوریت کا تصور ہی مکمل نہیں ہوتا اور ایک اقلیتی استحصالی گروہ کا اکثریت پر ناروا تسلط ختم کیا ہی نہیں جاسکتا اور نہ ہی ان کے ظلم و ناانصافی سے عوام کو آزاد کرایا جاسکتا ہے۔ عوامی حاکمیت کو تسلیم کئے بغیر عوامی نمائندگی کا سارا جمہوری ڈھانچہ ہی زمین بوس ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں، زمینداروں، سمگلنگ، منشیات فروشی، بلیک مارکیٹنگ اور استحصال صنعتکاری کے ذریعے بنے ہوئے دولتمندوں، بیورو کریسی اور مذہبی پیشوائوں کے باہمی گٹھ جوڑ کے ذریعے اسمبلیوں میں عوام کی صحیح نمائندگی ہی نہیں ہونے دی جاتی۔ اسمبلیوں کی تمام تر نشستیں دولتمندوں اور فرقہ پرست ملائوں کے باہمی تعاون کی وجہ سے استحصالی طبقوں کے قبضے میں چلی جاتی ہیں اور عوام حسب سابق اپنے مفاد کے حق میں قانون سازی کے اختیار سے محروم رہتے ہیں۔
اسلام جو معاشی نظام دیتا ہے اس کا اصل الاصول یہ ہے کہ خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ معاشرے میں نادار اور مفلوک الحال افراد موجود ہوں تو اپنی ضرورت سے زیادہ جو کچھ کسی انسان کے پاس جمع ہوجائے وہ اس میں سے ایسے لوگوں پر خرچ کردے جن کی ضرورتیں پوری نہیں ہورہی ہیں۔ کسی کے پاس دولت کا جمع ہونا اور اس کے دل میں دولت سے محبت پیدا ہونا دین اسلام کی تعلیمات کی نفی ہے۔ لیکن مذہبی سوچ رکھنے والے افراد زبانی دعوئوں کے باوجود عملاً انفاق سے گریز کرتے ہیں اس لئے کہ مذہب کا نظریہ اسلام کے ساتھ رسمی وابستگی تو پیدا کرتا ہے مگر انسانی بہتری کے لئے قربانی کا جذبہ نہیں ابھارتا۔ وہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں ایک جھوٹی انا تو پیدا کردیتا ہے لیکن ان کے حق میں جذبہ ایثار و تعاون پیدا نہیں کرپاتا۔
اسلام کے اصولوں پر قائم کی گئی ریاست ہر انسان کو روزگار، صحت اور تعلیم کی ضمانت دیتی ہے۔ لیکن مذہبی سوچ اس اصول کی نفی کرتی ہے اور ان بنیادی انسانی ضرورتوں کو ثانوی حیثیت دیتی ہے۔ اولین حیثیت اس کے نزدیک رسمی عبادات کی ہے۔
تعلیمی نظام اور مذہبی منفی سوچ
مذہبی سوچ ملک کے تعلیمی نظام پر بھی منفی اثرات ڈالتی ہے۔ دین اسلام ایک مخصوص طرز زندگی کا نام ہے۔ اس طرز زندگی کی تعمیر کے لئے مختلف علوم و فنون سے استفادہ کیا جانا چاہئے لیکن زندگی کو مختلف خانوں میں بانٹ دینے والے مذہبی درس و تدریس کے نظام کو تعلیم کے زمرہ میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ مدرسوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دی جانے والی موجودہ تعلیم میں دین اسلام (مذہب اسلام نہیں) کے نقطہ نظر کے مطابق بہتری تو لائی جاسکتی ہے لیکن ’’دینی مدارس‘‘ کے نام پر ایک ایسی مخلوق تیار کرنا جس کا معاشرتی زندگی اور پیداواری عمل میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار نہ ہو، کسی طرح بھی درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ’’دینی مدرسوں‘‘ کے نام سے اس وقت جو نظام تعلیم رائج ہے وہ دراصل مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مذہبی پیشوائوں کا اپنے اپنے مسلک کے مطابق بنایا ہوا ہے جس میں اسلام، اصل ایمان، حقیقت دین، محکمات، امن، محبت اور اعمال صالحہ کے بارے میں کم اور رسوم عبادات، فقہی موشگافیوں اور متشابہات کے بارے میں زیادہ پڑھایا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں تو ان مدارس میں سرے سے کچھ بتایا ہی نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ اسلامی تاریخ کے جن فلسفیوں اور سائنس دانوں کے افکار سے یورپ نے اپنی نشاۃ ثانیہ میں فائدہ اٹھایا تھا ان کا بھی ذکر تک ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ مذہبی مدارس کس قسم کے انسان تیار کرنے جارہے ہیں اور ان کا افراد قوم کی علمی و ثقافتی اور مادی و روحانی ترقی میں کیا کردار ہوسکتا ہے۔
مذہبی سوچ کے حاملین کا ’’عورت‘‘ بارے نقطہ نظر
مذہبی سوچ رکھنے والوں کا عورت کے بارے میں بھی ایک خاص نقطہ نظر ہے جو عورتوں کی ترقی میں حائل ہے۔ ان کے نزدیک عورت، مرد سے کم تر مخلوق ہے اور اسے ہمیشہ مرد کے زیردست بن کر ہی رہنا ہے۔ وہ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کئے ہوئے ہے کہ اس ملک میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تقریباً 52 فی صد ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ کسی بھی معاشرے کی صحیح تعمیر اس کے بغیر ہوہی نہیں سکتی جب تک مرد و عورت دونوں کو اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کو پوری طرح پروان چڑھانے کے مساوی مواقع حاصل نہ ہوں اور ان سے فائدہ اٹھا کر وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرسکیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں یہ مذہبی سوچ کس حد تک رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ عورتوں کی عزت و ناموس کا مردوں کے ہاتھوں غیر محفوظ ہوجانا بھی اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ عورتوں کی حیثیت دینی نقطہ نظر سے کیا ہے یہ بات قرآن کی تعلیمات کے ذریعے بھی اور خاتم النبین حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے عمل سے بھی واضح کردی گئی ہے کہ دونوں کے مابین اک فطری تفاوت کے سوا صلاحیتوں اور حقوق و فرائض کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔
اقلیتیں اور مذہبی منفی سوچ
پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے بارے میں بھی مذہبی سوچ رجعت پسندانہ ہے۔ وہ مذہبی اقلیتوں کو پاکستانی معاشرہ کا حصہ نہیں مانتی۔ مذہبی منفی سوچ اسے انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کی بہتری کے لئے سرگرم عمل ہونے کے بجائے نسلی، لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے اور قوم کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی بھائی چارہ کو فروغ دینا ممکن نہیں رہتا اور معاشرے میں یگانگت اور ہمدردی کے اعلیٰ جذبات پرورش نہیں پاسکتے۔ اس کے برعکس دین اسلام کا تصور کسی بھی ملک کی مذہبی اکثریت کے ساتھ بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو ایک ہی قوم کا جز قرار دیتا ہے اور سب کو ایک جیسے حقوق کا حق دار تسلیم کرتا ہے۔
ثقافت اور مذہبی منفی سوچ
کسی بھی قوم کی ثقافت اس قوم کے ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ہونے کا پیمانہ ہوا کرتی ہے۔ معیشت قوم کی مادی ترقی کو آگے بڑھانے کا آلہ ہے جبکہ ثقافت اس کی روحانی ترقی کا ذریعہ۔ ثقافت کا تعلق علم و ہنر، فن تعمیر، فنون لطیفہ، لوک کہانیوں، تہواروں، میلوں اور تصوف کی رعنائیوں سے ہے۔ ثقافت انسانی تعلقات میں لطف و کرم، جودت و رحمت، ذوق جمال، جنسی پاکیزگی اور باہمی ہمدردی و تعاون کی راہیں ہموار کرتی اور افہام و تفہیم اور تحمل و بردباری کے اوصاف پیدا کرتی ہے۔ گویا انسانی زندگی کو سکون و آرام اور خوش پوشی و خوش اخلاقی اور حسن جمال کے زیوروں سے آراستہ کرنے میں ثقافت کا بہت بڑا کردار ہے۔ دین، ثقافت کو انسانوں میں تمام اعلیٰ اوصاف کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بناتا ہے۔
لیکن مذہب کے نام نہاد علمبردار سادہ لوح عوام پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے ثقافت کے اثر سے ابھرنے والے تمام اعلیٰ جذبات کو خشک و بے نتیجہ مذہبی رسومات کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ یہ مذہبی رہنما اللہ تعالیٰ کے انسان کے ساتھ محبت کے رشتے اور انسانی کوتاہیوں سے درگزر کرنے کی صفت کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے بجائے ان کے دماغوں پر خدا کے غیض و غضب، دوزخ کے خوف اور جنت کی لالچ کو مسلط کرکے انہیں جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں اور پھر اللہ کی خوشنودی دلانے کے لئے پرفریب طریقوں سے لوگوں کے دکھ درد کا علاج کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو نیک اعمال اور فرائض کی ادائیگی کے بغیر ہی جنت کے سرٹیفیکیٹ بھی تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔
حکومتی معاملات اور مذہبی منفی سوچ
مذہبی نقطہ نظر کی وجہ سے پوری حکومتی مشینری بھی متاثر ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ صدر اور وزیراعظم سے لے کر وزراء اور اعلیٰ حکام تک اپنی ضرر رساں پالیسیوں اور جوڑ توڑ کی کارروائیوں کو مذہب کے پردے سے ڈھانپنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وہ اپنی کوتاہیوں کو عوام کے سامنے جوابدہی کے احساس کی بنیاد پر محنت و جانفشانی اور نیک نیتی سے دور کرنے کے بجائے ’’اللہ کے فضل و کرم سے‘‘، ’’ان شاءاللہ‘‘، ’’اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہے‘‘، جیسے بناوٹی الفاظ استعمال کرکے اپنی عوامی مفاد کی منافی سوچ اور کارروائیوں کو عوام کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ اللہ کا نام اس طرح استعمال کرتے ہیں جیسے اللہ کی ذات کا تعلق صرف انہی سے ہے اور بقیہ انسانی مخلوق سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وہ نام نہاد مذہبی پیشوائوں کو بھی استعمال کرتے ہیں جو اپنے زیر اثر لوگوں کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ حکومت عوام کے مفاد کے لئے مستعد ہے اگرچہ وہ استحصالی طبقوں ہی کی کیوں نہ ہو اور عوامی مفاد کے منافی کام کررہی ہو۔
مذہبی فکر کا اثر عمومی طور پر چھوٹے حکومتی اہلکاروں پر بھی پڑتا ہے۔ وہ اپنے کاموں کو پوری آمادگی سے نمٹانے کی بجائے تقدیر کا جھوٹا سہارا لیتے ہیں یا پھر بے جا مراعات اور رشوت کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔
اس ساری بحث سے مقصود یہ بات واضح کرنا ہے کہ انبیاء کرام نے جو اپنے اپنے وقت کے بہترین انسان تھے، اس وقت کے انسانوں کے لئے دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لئے جو طریقے بتائے ان میں بنیادی نقطہ ’’ایمان اور عمل صالحہ‘‘ کا تھا۔ اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ تمام انسان مساوی حیثیت کے مالک ہیں اور ان کے بنیادی حقوق یکساں ہیں، کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے انسان کو سیاسی، معاشی یا سماجی حیثیت سے اپنا زیردست بنائے۔ انسانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ہر قسم کی نسلی، گروہی، لسانی، مذہبی و فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر رکھ کر اپنی فطری صلاحیتوں کو ایک دوسرے کے تعاون سے بروئے کار لائیں اور اپنے ہم مسلک، ہم قوم اور انسانی رشتے میں منسلک دوسری قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس کام میں لگائیں کہ وہ قدت کے عطا کردہ ذرائع و وسائل کو استعمال میں لاکر مادی و روحانی ترقی کی انتہائی منزلوں تک پہنچیں اور اس راہ میں انسانی کمزوریوں کو حائل ہونے سے باز رکھنے کے لئے اس حقیقت کو ہمہ وقت یاد رکھیں کہ اس کائنات اور انسان کو بنانے والی ہستی نے جو نظام وضع کیا ہے اس میں انسانی اعمال کی جوابدہی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں، ایک انسان کو زندگی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کے اجتماعی عمل میں دوسرے انسانوں سے جو واسطہ پڑتا ہے اس کی بنیاد محبت و شفقت، عفوو درگزر، اعتماد و تعاون، افہام و تفہیم اور تحمل و بردباری پر ہونی چاہئے۔ یہی انسانی زندگی کا مقصد وحید ہے۔
رہیں عبادات، تو یہ دراصل اللہ کی ہستی کے اقرار، اللہ کی بندگی کے اظہار، تکمیل ذات اور زندگی کی جدوجہد میں کامیابی کے لئے اللہ سے استعانت اور قدم قدم پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ عبادات، سچائی کی راہ پر قائم رہنے اور برائی کی قوتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے مددگار قوتیں ہیں بشرطیکہ ان کا رشتہ عقل و شعور کے ساتھ جوڑا جائے اور محض رسم عبادت کے طور پر انہیں ادا نہ کیا جائے۔ ’’دین انبیاء‘‘ کی تعلیم میں سماجی ذمہ داریاں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ عبادات کی ادائیگی کا ایک جامع نظام بھی موجود ہے۔ سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو نظر انداز کرکے عبادات میں انہماک ایک باطل تصور ہے جو مذہبی سوچ ہی کا وضع کردہ شاہکار ہے۔ اس سوچ کے بھنور میں سے ہم جس قدر جلد نکل آئیں گے اسی قدر سبک رفتاری سے ہم دین اسلام کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکیں گے۔