حمد باری تعالیٰ
روبرو ہے حرم تیری توفیق سے
در پہ حاضر ہیں ہم تیری توفیق سے
لائقِ بارگاہِ کرم ہم نہ تھے
ہوگیا ہے کرم تیری توفیق سے
دھل گئے سب گناہوں کے دفتر یہاں
ہوگئی آنکھ نم تیری توفیق سے
ملتزم سے لپٹنے کی تھی آرزو
رہ گیا ہے بھرم تیری توفیق سے
تیرے دامان رحمت سے لپٹے ہیں ہم
تیرے فضل و کرم تیری توفیق سے
عشق ہے سرزمین عرب سے ہمیں
گو ہیں اہل عجم تیری توفیق سے
مجھ گنہگار کے ناتواں ہاتھ میں
آج ہے ملتزم تیری توفیق سے
بوسہ سنگ اسود کی تاثیر نے
سب بھلائے ہیں غم تیری توفیق سے
روح گویا حرم کی فضائوں میں ہے
ہے یہ نعمت بہم تیری توفیق سے
آب زمزم کا ساغر لیا ہاتھ میں
بھول کر جامِ جم تیری توفیق سے
تو نے بخشا ہے شہزاد کو یہ ہنر
چل رہا ہے قلم تیری توفیق سے
{شہزاد مجددی}
نعت بحضور سرورِ کونین صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
کائناتِ حسن ہیں وہ، حسن کا شہکار ہیں
اُن کے پرتو سے مزین گلشن و گلزار ہیں
مسجدِ اقصیٰ بھی شاہد، حضرتِ جبریل بھی
انبیاء سب مصطفی کے طالبِ دیدار ہیں
کنجیاں حق کے خزانوں کی ہیں اُن کے ہاتھ میں
جس کو جو چاہیں وہ دیں، وہ مالک و مختار ہیں
کیوں ہجومِ غم میں ہاریں، حوصلہ ہم دوستو
بے سکوں کے جب محمد مصطفی غمخوار ہیں
کیا کریں گے پیش ہم، حسنِ عمل پیشِ خد
’’حشر میں ہم عاصیوں کا آسرا سرکار ہیں‘‘
اِک نگاہِ سید کونین کے ہیں منتظر
ہاتھ باندھے ہم بپیشِ احمدِ مختار ہیں
دیکھ ابوبکر و عمر، عثمان و حیدر کا مقام
انبیاء کے بعد سب سے محترم یہ چار ہیں
کاش ہمذالی کہیں اہلِ سخن، اہلِ وف
پُر محبت سے پیمبر کی، ترے اشعار ہیں
{انجینئر اشفاق حسین ہمذالی}