باشندگانِ ارضِ وطن کی خطا معاف
کون سن لیتا ہے خاموشی کے ہونٹوں کی صدا
کون پڑھ لیتا ہے آنکھوں میں حروفِ مدعا
وادئ حرف و صدا میں کس کا سکہ ہے رواں
کس کے در پر سرنگوں ہے عظمتِ کون و مکاں
پھول برستی ہے کس کے حکم سے میری بیاض
دستگیری کون فرماتا ہے بندوں کی ریاض
آتشِ نمرود کو گلزار کردیتا ہے کون
ذوقِ خوابیدہ کو بھی بیدار کردیتا ہے کون
کون دریاؤں کو دیتا ہے روانی کا شعور
کون دو عالم کے سرانجام دیتا ہے امور
کون سجدوں کو بنادیتا ہے محرابِ یقیں
کون آدم کو عطا کرتا ہے انوارِ مبیں
کون مجھ سے گنہ گاروں پہ کرتا ہے کرم
کون مجھ سے بھی خطا کاروں کا رکھتا ہے بھرم
کون دیتا ہے سہارا جسم کی دیوار کو
کون رکھتا ہے ترو تازہ مرے افکار کو
کون اشکِ بے نوا میں آج ہے جلوہ نما
وہ خدا تیرا، میرا خدا، سب کا خدا
{ریاض حسین چودھری}
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کرم کی آ س لگائے فقیر آئے ہیں
دلو ں کو جھولی بنائے فقیر آئے ہیں
بصد نیا ز سر و چشم، سیّدِ عالم
درِ کرم پہ جھکائے فقیر آئے ہیں
حضو ر دو ر سے آئے ہیں لاج رکھ لیجے
نہ خالی کو ئی بھی جائے فقیر آئے ہیں
خدا بھی جن کا ہے مدّاح ان کی چوکھٹ پر
لبوں پہ نعت سجائے فقیر آئے ہیں
کہا ں مجا ل کہ آتے حضو رِ شا ہِ زمن
حضو ر ہی بلا ئے فقیر آئے ہیں
قبول ہوں گی یہاں ساعتیں حضوری کی
یقیں یہ دل میں بسائے فقیر آئے ہیں
حریمِ نُور پہ تسکینِ جاں کو ہمذالی
نگا ہِ شوق جما ئے فقیر آئے ہیں
(انجنیئر اشفاق حسین ہمذالی)