اس سلسلہ تحریرمیں ملکی سطح پر گذشتہ ماہ پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک تجزیہ پیش کیا جائے گا اور اس تناظر میں ان واقعات کے حقائق جانیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ذمہ دار کون ہے؟ خرابی کا تدارک اور حالات کی بہتری کیونکر ممکن ہے؟
معیشت کی مضبوطی، وزیراعظم کے دعوے غلط ہیں
شرح خواندگی میں کمی اور تحقیق سے بیگانہ پن کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران طبقہ اٹھارہا ہے۔ عوام کی سادگی اور حکمرانوں کی مکاری کم ہونے کا نام نہیںلے رہی۔ جن ممالک میں شرح خواندگی زیادہ اور عوام سیاسی اعتبار سے پختہ شعور رکھتے ہیں وہاں کے حکمرانوں کیلئے اپنے عوام کو دھوکہ دینا ناممکنات میں سے ہے۔ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں غلط بیانی، وعدہ خلافی ،دھوکہ دہی کے حوالے سے قانونی رویوں میں سختی حکمران طبقہ کیلئے عام شہریوں سے زیادہ ہے کیونکہ وہ حکمران اور لیڈر قوموں کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔
حال ہی میں پانامہ لیکس آنے کے بعد برازیل ،برطانیہ ،آئس لینڈ کے وزرائے اعظم کو عوامی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا، متعدد کو پارلیمنٹ میں وضاحت دینا پڑی اور کچھ کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔جمہوریت کے اندر عوامی دباؤ جمہوری رویوں کو پختہ کرنے اور جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کرتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد حکمران عوام سے کھل کر جھوٹ بولتے ہیں اور پھر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔
2013ء کے الیکشن میں 6 ماہ کے اندر لوڈشیڈنگ ختم کرنے ، کشکول توڑنے اور لوٹی گئی ملکی دولت واپس لانے کے نعروں کے ساتھ رائے عامہ کو گمراہ کیا گیا اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد حکمران جماعت نے نہ صرف اپنے وعدوں کو بھلا دیا بلکہ ان کا ہر قدم لوڈشیڈنگ میں اضافہ کرنے، کشکول کا سائز بڑا کرنے اور ملکی دولت کو بیرون ملک منتقل کرنے کی طرف اٹھا۔
شریف برادران نے ہر دور میں خود کو تاجر برادری ،صنعتکاروں کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا اور یہ تاثر دیا کہ ن لیگ اور شریف برادران ہی وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاکستان کی معیشت ،کاروبار اور صنعتی مسائل کو سمجھتے اور ان کو حل کرنے کی تدبیررکھتے ہیں ۔یہ جب بھی برسراقتدار آتے ہیں ملک کو ایشیا کا اقتصادی ٹائیگر بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر جس وقت رخصت ہوتے ہیں تو پاکستان پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹک رہی ہوتی ہے۔30 سال کا شریف برادران کا عرصہ اقتدار بتاتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو جتنا نقصان شریف برادران کے دور میں پہنچا گزشتہ 70سال میں نہیں پہنچا۔ ٹیکسٹائل، سپورٹس، لیدر، کاٹن، رائس ،آلات جراحی، قالین بافی کے شعبوں میں پاکستان دنیا کی مارکیٹ میں راج کرتا تھا اور ان شعبوں میں میڈان پاکستان کا مارکر معیار کی ضمانت ہوتا تھا مگر آج یہ مارکیٹ پاکستان سے چھن چکی ہے۔
8ستمبر کو پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی میں وزیراعظم نے ایک بار پھر 2 غلط دعوے کیے:
- سرمایہ ملک سے باہر جا نہیں رہا بلکہ آرہا ہے۔
- ہماری پالیسیوںسے ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے۔
وزیراعظم کے یہ دعوے سفید جھوٹ ہیں کہ معیشت کمزور نہیں بلکہ بہتر ہورہی ہے۔آزادی کے جدید تصور میں معاشی آزادی بنیادی نقطہ ہے۔وہ قومیں جو معاشی اعتبار سے آج آزاد نہیں ہیں وہ 100 سال پرانے Colonialism کا شکار ہیں۔ وہ جسمانی اعتبار سے تو غلام نہیں لیکن اپنے اعمال اور افعال کے حوالے سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ایسی قومیں اور ان کے حکمران بظاہر آزاد ہیں مگر وہ آزادی کے ساتھ ٹیکس کم یا زیادہ نہیں کر سکتے۔ٹیکس لگانے اور ٹیکس وصول کرنے میں بھی انہیں آزادی حاصل نہیں ہوتی۔اپنی تاریخ، ثقافت اور تہذیب کے تحفظ کے حوالے سے بھی وہ قوانین بنانے اور نافذ کرنے میں آزاد نہیں ہوتے۔
معیشت کی ’’مضبوطی‘‘ کی حقیقت:
وزیراعظم پاکستان نے معیشت کی جس مضبوطی کا دعویٰ کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ
- گزشتہ3سال میں مجموعی قرضوں میں 5 ہزار 7سو ارب کا اضافہ ہوا ۔جون 2010 ء میں مجموعی قرضے 8 ہزار 9 سو 11 ارب تھے ۔جون 2016 ء میں قرضوں کا حجم 25 ہزار ارب ہو چکا ہے۔جون 2007ء میں واجب الادا قرضہ 40.5ارب ڈالر تھا جو جون 2016ء میں بڑھ کر73ارب ڈالرہو گیا ۔ن لیگ جب برسراقتدار آئی تو مجموعی ملکی قرضہ 48ارب 10 کروڑ ڈالرتھا۔جون 2015ء سے جون 2016 ء کے درمیانی ایک سال میں 7.8ارب ڈالر کا ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ لیا گیا۔ 2002ء میں پیدا ہونے والا ہر بچہ 63 ہزار کا مقروض تھا آج جون 2016 ء میں ہر بچہ 1 لاکھ 7 ہزار کا مقروض ہے۔
- بجٹ خسارے میں گزشتہ مالی سال کی نسبت رواں سال 21.3ارب روپے کااضافہ ہوا۔پاکستان اس وقت 12 سو ارب روپے سے زائد رقم سود کی مد میں ادا کررہا ہے جو دفاع (757ارب )اور ترقیاتی بجٹ (593 ارب)سے کہیں زیادہ ہے۔
- اسی طرح وزارت خزانہ کی قائمہ کمیٹی میں 2016 ء میں پیش ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے بیرونی ممالک گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 2کھرب 91ارب 17کروڑ ڈالر سے زائد زرمبادلہ منتقل کیا گیا۔ سب سے زیادہ زرمبادلہ 2015ء میں 64 ارب 22کروڑ ڈالر بیرون ملک منتقل کیا گیا۔ مالی سال 2011ء میں 49 ارب 20کروڑ 30لاکھ امریکی ڈالر کا زرمبادلہ بیرونی ممالک منتقل کیا گیا جبکہ مالی سال 2012ء میں 54 ارب 73کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان سے دیگر ممالک میں منتقل کیا گیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق مالی سال 2013ء میں 59ارب 19 کروڑ 60لاکھ ‘ مالی سال 2014ء میں 63ارب 81کروڑ 90لاکھ امریکی ڈالر کا زرمبادلہ دیگر ممالک میں منتقل کیا گیا۔
کیا اسے معیشت کا استحکام کہتے ہیں۔۔۔؟وزیراعظم بتائیں 3 سال میں وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کاکتناسرمایہ پاکستان لیکر آئے۔۔۔؟ آخر ان کے بیٹے لندن میں بلینز ڈالر کا سالانہ پراپرٹی کا کاروبار کرتے ہیں۔۔۔؟پانامہ لیکس کے انکشافات کو پانچ ماہ ہو گئے لیکن وزیراعظم پاکستان اس کا جواب دینے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ الٹا اپوزیشن کو بلیک میل کررہے ہیں ۔مذکورہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سرمائے کے پاکستان آنے کا وزیراعظم کا دعویٰ زمینی حقائق کے منافی ہے۔
حکومت میں آنے سے پہلے سوئس بینکوں میں پڑا ہوا 200ارب ڈالر کا سرمایہ پاکستان لانے کا وعدہ کیا گیا مگر اب اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت کوئی ایساقانون ہی نہیں ہے جو لوٹی گئی دولت کو واپس لانے کے حوالے سے بروئے کار آ سکے ۔ایف بی آر بھی صرف ان کیسز کو دیکھ سکتا ہے جو پانچ سال پرانے ہیں۔ پانچ سال کے بعد کے جو کیسز ہیں ان کو ایف بی آر بھی نہیں دیکھ سکتا کیونکہ یہ پورا نظام مک مکا اور ملی بھگت پر مبنی ہے۔ اس لیے ایسے قانون بنائے گئے ہیں جو کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں۔
سب سے بڑی مثال 9ستمبر کا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس میں نیب کی طرف سے رضا کارانہ لوٹی گئی رقم کی واپسی پر کسی قسم کی کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہ آنا آئین اور نیب قوانین سے متصادم قراردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل بنچ نے عبوری فیصلے میں قرار دیا کہ ’’بادی النظر میں نیب کی رضاکارانہ سکیم آئین پاکستان اور نیب آرڈیننس سے متصادم ہے۔ سپریم کورٹ نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے نیب کی رضاکارانہ سکیم سے فائدہ اٹھانے والے سرکاری ملازمین کی فہرستیں طلب کر لی ہیں اور صوبائی وفاقی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ عدالت کو بتایا جائے کہ متعلقہ اداروں نے رضا کارانہ سکیم سے فائدہ اٹھانے والے ملازمین کیخلاف کیا اقدامات کیے۔نیب کی رضا کارانہ سکیم کے ذریعے کسی بھی سرکاری ملازم کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پہلے کرپشن کرے اور پھر اعتراف کے بعد رقم واپس کر کے دوبارہ عہدے پر فائز ہو جائے اور چیئرمین نیب ایسے فرد کو کلین چٹ دے دیں‘‘۔
ملک قرضوں کی دلدل میں دھنس چکا مگر عوام کی حالت زار نہیں بدل سکی۔ آخر قرضہ کہاں گیا۔۔۔؟ ملک تاریخ کے بدترین قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے۔ یہ قرضے اگر ملک اور عوام کے مفاد میں لیے گئے تو اس کے اثرات اور ثمرات کہاں ہیں۔۔۔؟ عوام کی حالت زار بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب کیوں ہو گئی۔۔۔؟
زمینی حقائق:
عوامی بہتری کے حوالے سے زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ
- اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی نظام 60سال پرانا اور 56 لاکھ بچے آؤٹ آف سکول ہیں۔لاہور سمیت پورے پنجاب میں اساتذہ اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر ہیں اور بچوں کو سکولوں میں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔پاکستان سوشل اینڈLiving سٹینڈرڈ سروے 2014 ء کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی 60فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد پر آگئی۔
- پاکستان کونسل آف ریسرچ برائے آبی وسائل کے مطابق 82فیصد پانی زہر آلود ہے۔ 52 فیصد پاکستانی سیوریج اور صاف پانی کی سہولت سے محروم ہیں ۔گندا پانی پینے سے شہری مختلف جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
- اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 3 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے۔
- ورلڈ بینک نے پاکستان سے متعلق اپنی 2015 ء کی رپورـٹ میں کہا کہ پاکستان کے معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کو کرپشن سے خطرہ ہے۔پلڈاٹ کی اپریل کی 2015 ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 15 ارب ڈالر کی کرپشن ہوتی ہے۔
- 2015ء میں قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں 17لاکھ سے زائد مقدمات التواء کا شکار ہیں۔
وزیراعظم کے مذکورہ بالا دونوں دعوے غلط اور قوم سے ایک اور دھوکہ ہیں۔ جس ملک میں پانامہ لیکس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کھلے ثبوتوں کے باوجود ذمہ داروں کیخلاف کارروائی نہ ہو سکے وہاں ترقی اور جمہوریت کے جھوٹے دعوؤں کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں۔