عقیدہ، دل کے اذعان (یقین/ اعتماد) کا نام ہے۔ علم کلام کا تعلق سراسر قلب سے ہے، اعضا و جوارح سے نہیں ہے۔ اعضا و جوارح سے جس علم کا تعلق ہے، اسے اصطلاح میں ’’فقہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں مگر چونکہ دل ایک امر مخفی ہے، بغیر علم غیب کے جس کی کیفیت کا جاننا ہر کسی سے ممکن نہیں، اسی لئے ظاہر کو اس کی علامت کے طور پر مقرر کردیا گیا۔ لہذا جب کوئی زبان سے کچھ کہتا ہے یا اپنے حرکت و عمل سے کوئی کام کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں کا عقیدہ یہ ہے، فلاں کا عقیدہ یہ ہے۔ آپ اس حدیث کو یاد کریں جب ایک موقع پر اسلامی فوج نے کفار پر یلغار کی تو کچھ لوگوں نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا، بعض صحابہ نے کلمہ سن کر ہاتھ روک لئے اور بعض صحابہ نے یہ سمجھ کر کہ اپنی جان بچانے کی خاطر اس وقت کلمہ پڑھ رہا ہے، یہ مانا نہیں جائے گا، ان میں سے ایک کو قتل کردیا۔ یہ خبر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان حضرات سے پوچھا کہ جب اس نے کلمہ پڑھ لیا پھر تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وہ صرف اپنی جان کی امان کی خاطر کلمہ پڑھ رہا تھا، دل سے کلمہ نہیں پڑھ رہا تھا، ورنہ پہلے ہی پڑھ لیا ہوتا۔ سرکار علیہ السلام نے فرمایا:
افلا شققت عن قلبه.
کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے؟ جب ظاہراً اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے اور ظاہر ہی باطن کا غماز ہے تو تمہیں اس کا اعتبار کرنا چاہئے تھا۔
حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ الہٰی میں بار بار استغفار کے طور پر کہا: خدایا! میں اس کے عمل سے بری ہوں، خدایا! میں اس کی حرکت سے بری ہوں۔ معلوم یہ ہوا کہ عقیدہ در حقیقت دل کے اذعان (یقین/ اعتماد) کا نام ہے اور ظاہر اس کا غماز و دلیل ہے۔
عقیدہ کی اقسام:
علمائے کرام نے عقیدے کے چار درجات بیان کئے ہیں:
- ضروریاتِ دین
- ضروریاتِ دین بالمعنی الاخص
- ضروریات اہل سنت
- ظنیات محتملہ
ضروریاتِ دین
پہلی قسم کا نام ضروریاتِ دین ہے۔ ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں، جن کے ماننے سے کوئی مسلمان ہوتا ہے اور جن میں سے کسی ایک کے انکار سے بھی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ جب تک تمام ضروریات دین کو نہ مانے وہ دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوگا۔ اگر اس کا علم اس کو تفصیلی ہے تو تفصیلی طور پر ماننا ضروری ہوگا اور اگر تفصیلی علم نہیں ہے تو اجمالی طور پر ماننا کافی ہوگا۔ تمام ضروریاتِ دین کے ماننے کے باوجود اگر کسی نے صرف ایک ضرورتِ دین کا انکار کردیا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس لئے کہ شئی کا وجود من حیث الماہیت تمام اجزا کے مجموعے سے ہوتا ہے اور تمام اجزاء کے موجود ہونے کے باوجود صرف ایک جز کا انکار کردینے سے شئی کی ماہیت کا تحقق نہیں ہوتا، جیسے منطق میں انسان نام ہے حیوان ناطق کا۔ جوہر، جسم مطلق، جسم نامی، حساس اور متحرک بالارادہ سب اس کی ماہیت کا جز ہیں۔ ان سب کے مجموعے کو انسان کہتے ہیں۔ اب اگر ان میں سے کسی ایک کا بھی انکار کردیا جائے اور بقیہ اجزا کو مانا جائے تو وہ انسان کو ماننا نہیں ہوا، بلکہ انسان کا انکار کردینا ہوا۔ ایسے ہی سارے ضروریات دین کو ماننا ضروری ہے، ان میں کسی ایک کا انکار پورے دین کا انکار ہے۔
ضروریاتِ دین کیا ہیں؟
ضروریات دین، دین کے ان بنیادی اعتقادات کو کہتے ہیں جن کا ثبوت قطعی اور بدیہی طور پر ہو۔ دین کی وہ باتیں جن کا علم ہمیں قطعی اور بدیہی طور پر ہو، وہ ضروریات دین میں داخل ہیں۔ ضروریات دین میں سے کسی ایک ضرورت دینی کا انکار کرنے والا بھی مسلمان نہیں ہے، چاہے وہ زندگی بھر اپنا سر عبادت کے لئے سجدے میں رکھے ہوئے کیوں نہ ہو۔
یقین قطعی کے تین معانی ہیں:
- قطعی بالقرائن
- یقین بالمعنی الاخص
- قطعی بالمعنی العام
- قطعی بالقرائن سے مراد یہ ہے کہ فی نفسہ بات یقین کی نہیں ہے، خبر واحد سے ثابت ہورہی ہے، چار یا پانچ لوگوں کی بات سے ثابت ہورہی ہے، مگر قرائن (لفظی/ عقلی) ایسے ہیں کہ ان کی بنیاد پر اس کے پڑھنے والے کو یا اس کے سننے والے کو یقین قطعی حاصل ہوجاتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے۔
- یقین بالمعنی الاخص کا مطلب یہ ہے کہ بات ایسی ہے کہ اہل علم کو تو سن کر یقین ہوجائے گا مگر عام لوگوں کو یقین نہیں ہوپائے گا۔
- یقین بالمعنی العام سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک ایسی بدیہی چیز ہے کہ جس کا یقین عام لوگوں کو ہوجاتا ہے۔ مثلاً سورج ڈوبنے جارہا ہو۔ آپ چار پانچ بجے کسی سے بھی پوچھئے کہ پچھم کدھر ہے؟ سورج نظر آرہا ہو تو بچہ بھی سورج دیکھ کر کہہ دے گا پچھم ادھر ہے۔ ہندو بھی کہہ دے گا کہ پچھم ادھر ہے۔ عیسائی و مجوسی بھی کہہ دے گا کہ پچھم ادھر ہے۔ عام لوگ آسانی سے اس کا یقین کرلیتے ہیں اسی کو یقین بالمعنی العام کہتے ہیں۔ ضروریات دین اسی قبیل سے ہیں۔
پس جان لیں کہ جس دینی مسئلے کا یقین بالمعنی العام ہوجائے وہ ضروریات دین سے ہے مثلاً کسی بھی مسلمان سے پوچھئے، چاہے وہ سال بھر میں ایک وقت کی نماز نہ پڑھتا ہو کہ اسلام میں نماز کی کیا حقیقت ہے؟ تو وہ کہہ دے گا کہ فرض ہے۔ روزہ، زکوٰۃ اور حج کی فرضیت ضروریات دین میں سے ہے۔
اسی طرح نماز کے لئے وضو کی حقیقت دریافت کرنے پر ہر خواندہ و ناخواندہ، شہری و دیہاتی بتادے گا کہ نماز کے لئے وضو فرض ہے، جو چار اعضا کے دھونے اور مسح کرنے سے عبارت ہے۔ لہذا نماز کے لئے وضو کی فرضیت اور اس میں چار اعضا کی تفصیل ضروریات دین میں سے ہے۔
لیکن ہاتھ دھونا ہے تو کہاں سے کہاں تک؟ چہرہ دھونا ہے تو چہرہ کی حد کہاں سے کہاں تک ہے؟ مسح کرنا ہے تو پورے سر کا، یا آدھے سر کا، یا چوتھائی کا، یا ایک بال کا؟ پائوں دھونا ہے یا مسح کرنا ہے؟ یہ چونکہ یقین بالمعنی العام نہیں، اسی لئے اس کا شمار ضروریات دین میں نہیں ہے۔ اگر کوئی ان تفصیلات میں سے کسی ایک کا انکار کرتا ہے تو اسے ضروریات دین کا منکر قرار نہیں دیا جائے گا لیکن اگر کوئی مطلقاً وضو کی فرضیت کا انکار کردے یا چار اعضا میں سے تین ہی اعضا بتائے یا دو ہی اعضا بتائے اور دو کا انکار کردے یا ایک کا انکار کردے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ضروریات کا انکار کرنا اور ہے اور اس کا علم نہ ہونا اور ہے۔ مثلاً کوئی بچہ جنگل میں پیدا ہوا، جنگل ہی میں پرورش پائی، شہر میں کبھی آنا نہیں ہوا، کسی ادارے کے قریب جانا نہیں ہوا، کسی عالم کی صحبت نہیں پائی، جس کی وجہ سے اسے ضروریات دین کی تفصیلات کا علم نہ ہوسکا تو یہ عدم علم ہے، انکار نہیں۔ مثلاً تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہمارے مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں تو آخری نبی ہونے کا یقین و ایمان رکھنا ضروریات دین میں سے ہوا۔ اب جو جنگل میں یا پہاڑ میں پیدا ہوکر وہیں رہ گیا، کبھی اہل علم کی صحبت نہیں پائی جس کی وجہ سے اس کے ذہن و فکر میں بھی یہ بات نہیں آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں کہ نہیں تو یہ صرف عدمِ علم ہے، انکار نہیں ہے کیونکہ انکار فرع ہے علم کی، جیسے اثبات فرع ہے علم کی۔ تو اگر کوئی نہیں جانتا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے ضروریات دین کا انکار کردیا، لہذا وہ مسلمان نہیں ہے، ہاں! جانے اور پھر نہ مانے تو وہ مسلمان نہیں رہے گا۔
اللہ کی وحدانیت، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور جو باتیں دوسرے انبیائے کرام علیھم السلام کی قرآن و حدیث میں اجمالاً یا تفصیلاً آئی ہیں، ان کو ماننا بھی ضروریات دین میں سے ہوگا بشرطیکہ وہ باتیں بین المسلمین بدیہی ہوں۔ لیکن قرآن و سنت کی کوئی بات نص، محکم یا مفسر سے تو ثابت ہو مگر بدیہی نہ ہو، اسے صرف اہل علم ہی جانتے ہیں تو چونکہ یہاں یقین بالمعنی العام کا تحقق نہیں ہوا بلکہ یقین بالمعنی الاخص ہے، علما ہی اس کو جانتے ہیں، عوام نہیں جانتے تو اس کا شمار ضروریات دین میں نہیں ہوگا۔
ضروریاتِ دین بالمعنی الاخص:
ضرورت و بداہت اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض آدمی زیادہ ذہین ہوتے ہیں، فوراً بات سمجھ جاتے ہیں جبکہ بعض آدمی کم ذہین ہوتے ہیں، دیر سے بات سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی ضروریات دین بھی افراد و اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوں گے۔
اگر کوئی قطعی بالمعنی الاخص کا انکار کرتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ منکر کون ہے؟ اگر عالم ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی اور اگر اس کا منکر عامی ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اسی کو علما نے ’’کفر فقہی‘‘ کا نام دیا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کفرِ فقہی ہے، کفرِ لزومی ہے، کفرِ التزامی نہیں ہے۔
اگر کوئی کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں کے لئے نبی تو ہیں، جنات کے لئے نبی نہیں، تو یہ بات عام مسلمانوں میں بدیہی نہیں ہے۔ صرف اہل علم کے مابین بدیہی ہے لہذا اگر کوئی ذی علم اس کا انکار کرے گا تو اس کی تکفیر کی جائے گی اور اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا، لیکن اگر عام مسلمانوں میں سے کسی نے انکار کیا تو اس کی تکفیر نہیں ہوگی، پہلے اسے بتایا جائے گا۔ اگر بتانے پر پھر بھی انکار کرے تو اب اس کی تکفیر کی جائے گی۔
ضروریاتِ اہلِ سنت:
اس سے نیچے یقین کا ایک اور درجہ ہے جو نہ تو عوام مسلمین میں قطعی کی حیثیت سے بدیہی طور پر ثابت ہے، نہ خواص مسلمین میں۔ یہ ضروریات اہل سنت کا درجہ ہے۔ 73 فرقے مسلمانوں کے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’میری امت 73 فرقے میں بٹے گی، ایک فرقہ ناجی ہوگا اور 72 فرقے ناری ہوں گے‘‘۔ وہ ناری 72 فرقے اور یہ ایک ناجی فرقہ سب مل کر مسلمانوں کے فرقے ہیں۔ وہ ناری بھی مسلمان اور یہ ناجی بھی مسلمان۔ ہاں! فرق یہ ہے کہ یہ ایک خوش عقیدہ، سنی المذہب مسلمان ہیں اور وہ 72 ناری، بدعقیدہ، بدمذہب، بدعتی اور گمراہ ہیں۔ الحاصل جو عقیدہ اہل سنت کے درمیان بدیہی ہوگا تو لامحلہ یقین ہوہی جائے گا، اسے ضروریات اہل سنت کہتے ہیں۔ جیسے ہر کلمہ گو کے لئے تمام ضروریات دین کو ماننا ضروری ہے، ایسے ہی ہر سنی کے لئے تمام ضروریات اہل سنت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ اگر اس میں کسی ایک امر کا بھی انکار کرتا ہے تو وہ سنی نہیں ہے، بدعتی ہے، گمراہ ہے، بے دین ہے۔
ضروریات اہل سنت کے علاوہ اہل سنت کے جو دیگر فروعی عقائد ہیں، اگر کوئی ان کا انکار کرتا ہے تو ایسا شخص بھلے خطاکار ہوگا، کبھی گناہگار ہوگا اور کبھی نہیں ہوگا، مگر سنی ضرور رہے گا۔
تین طرح کے عقیدے ہمارے سامنے آگئے:
- ایک وہ عقیدہ جس کے انکار سے آدمی حتماً، یقینا، اجماعاً کافر ہوجاتا ہے جسے ضروریات دین بالمعنی العام کہتے ہیں۔
- دوسرا وہ عقیدہ جس کے انکار سے فقہا کے نزدیک کافر ہوتا ہے اور متکلمین توقف کرتے ہیں، جسے ضروریات دین بالمعنی الاخص کہتے ہیں یا جس کے انکار کو کفر فقہی و لزومی سے تعبیر کرتے ہیں۔
- اور تیسرا عقیدہ ضروریات اہل سنت کا ہے جس کے انکار سے آدمی گمراہ ہوجاتا ہے۔
ان درجات کے بعد چوتھے اور پانچویں درجے کا عقیدہ ہوگا، لیکن ان میں سے کوئی بھی درجہ ایسا نہیں کہ اگر کسی نے اپنی سمجھ سے دلائل کی روشنی میں یا کسی کے اتباع میں اس کا انکار کیا تو عندالمتکلمین یا عندالفقہاء کافر ہوجائے۔ کافر ہونا تو بڑی بات ہے، گمراہ و بد دین بھی نہیں ہوگا بلکہ وہ سنی ہی رہے گا۔ مذکورہ تینوں سے ہٹ کر چوتھے درجے کے اعتقادکا انکار کرنے سے کسی کو خارج از سنیت یا گمراہ نہیں کہا جائے گا۔ اتحاد کے لئے بس ضروریات دین اور ضروریات اہل سنت میں اتفاق ضروری ہے، بقیہ لاکھ اختلافات ہوں ہمیں ان اختلافات کو نہیں دیکھنا چاہئے۔
جیسے اذانِ ثانی کا مسئلہ ہے۔ اذانِ ثانی میں اختلاف ضرور ہے مگر اذانِ ثانی مسجد کے اندر ہو یا باہر یہ سطحی، فرعی مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق نہ تو ضروریات دین سے ہے اور نہ ضروریات اہل سنت سے۔ لہذا اگر کوئی اذانِ ثانی مسجد کے اندر دینے کا قائل ہو تو اس کو خارج از سنیت قرار نہیں دیا جائے گا۔
اسی طرح میلاد شریف، قیام اور میلاد کے بعد یا نبی سلام علیک پڑھنے کے مسائل ہیں، اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں انکار نہیں کرتا ہے تو اس انکار کی بنیاد پر اسے نہ تو اسلام سے خارج کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سنیت سے خارج قرار دیا جاسکتا ہے، ہاں! اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی میں انکار کرے گا تو انکار کی وجہ سے نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی کی وجہ سے کافر ہوجائے گا۔
آج تو حال یہ ہے کہ فلاں صاحب فاتحہ میں نہیں بیٹھا تو سنی نہیں ہے، مزار پر چادر نہیں چڑھاتا تو سنی نہیں ہے۔ اگر کوئی بیچارہ ٹرین چھوٹنے کے خوف یا رفع حاجت کی غرض سے بغیر صلوٰۃ و سلام پڑھے باہر نکل آیا تو اس کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ فجر یا جمعہ کی نماز کے بعد صلوٰۃ و سلام پڑھنا ہمارے ہاں ایک دستور ہوگیا ہے۔ اگر موقع و محل کا اعتبار کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام پیش کیا جائے تو یہ سعادت کی بات ہے۔ مگر یہ نئی نئی بدعتیں ایسے لازمی طور پر ہورہی ہیں کہ اگر کسی کو ٹرین پکڑنی ہو اور وقت نکلا جارہا ہو یا نماز پڑھتے پڑھتے رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہوئی جس کی وجہ سے بیچارہ سلام میں شریک ہوئے بغیر مسجد سے نکل کر چلا گیا تو لوگ اسے بھی سنی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نہ صرف عام لوگ بلکہ بڑے بڑے علماء کا بھی یہی حال ہے حالانکہ ان چیزوں کا ضروریات اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نیچے درجے کی چیزیں ہیں۔
ظنیات محتملہ:
عقائد کی ایک قسم ظنیات محتملہ ہے۔ یعنی یہ مسئلہ ایساظنی ہے جو قرائن کی بنیاد پر یقین کی سرحد میں داخل ہوگیا ہے۔ اب اگر کوئی انکار کردے اور یہ انکار جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دشمنی کے طور پر نہ ہو، ورنہ تو اول وقت ہی میں اسلام سے خارج ہوجائے گا بلکہ دلائل کی روشنی میں ہو تو اسے خطا کار کہا جائے گا۔ عاصی کہا جائے گا، گمراہ نہیں کہا جائے گا، سنی رہے گا، اگرچہ خطا کار و عاصی ہوگا۔
اس لئے کہ کوئی ضروری نہیں کہ جو چیز قرینے سے ہمارے نزدیک ثابت ہو اور ہم کو یقین دلادے، وہی چیز اسی قرینے سے دوسرے کے نزدیک بھی ثابت ہوجائے اور دوسرے کو بھی یقین دلادے۔ مثلاً قرائن کی بنیاد پر امام اعظم کو یقین ہوگیا کہ لفظ قرئو سے مراد حیض ہے جبکہ قرائن کی بنیاد پر امام شافعی کو یہ یقین ہوا کہ لفظ قرئو سے طہر مراد ہے۔ قرائن کی وجہ سے جس کو جس کا یقین ہوجائے اس کو دوسرے پر تھوپا نہیں جاسکتا کہ ہم نے جو سمجھا وہی تم سمجھو، ہماری جو سمجھ میں آیا وہی تم بھی اپنی سمجھ بنا لو۔ ایسا کہنا ہرگز مناسب نہیں۔ ہاں! راجح و مرجوح کا اعتبار کیا جائے گا۔ ہم کو جو راجح معلوم ہوگا ہم اسے اپنالیں گے اورمرجوح کو ترک کردیں گے، لیکن جو مرجوح کو اپنا رہا ہے اسے ہرگز گمراہ و بے دین یا فاسق و گنہگار نہیں کہیں گے۔
ہمارے ہاں جہاں کسی نے کسی سے کچھ اختلاف کیا فوراً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے، اہل سنت کے عقیدے کے برخلاف ہے لیکن سوال ہے کہ کس طرح کے عقیدے میں برخلاف ہے، اس پر کوئی غور نہیں کرتا۔ اگر ضروریات اہل سنت کے عقیدے کے برخلاف ہے تو اس کو خارج از سنیت قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اسے بھی اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اگر ضروریات دین بالمعنی الاخص کے خلاف ہے تو بھی متکلمین کے مذہب پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، ہاں فقہا کے مذہب پر تکفیر ہوسکتی ہے۔
متکلمین اس کی تکفیر سے توقف کرتے ہیں اور آج حال یہ ہے کہ ہم میں سے کسی نے دانت سے ناخن کترلیا تو اس کی تکفیر کردیتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ’’ناخن دانت سے کترنا خلاف سنت ہے اور یہ کام چونکہ مولانا نے کیا ہے جن کو اس کا خلاف سنت ہونا معلوم ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا نے دانستہ طور پر سنت کا انکار کیا اور جو دانستہ طور پر سنت کا انکار کرے یا سنت کو ہلکا جانے، وہ کافر ہوجاتا ہے، لہذا مولانا کافر‘‘۔ افسوس! آج کل تکفیر کی اس طرح کی دلیلیں دی جاتی ہیں۔
یاد رکھیں! جو چیز تواتراً ثابت ہو اور بدیہی ہوجائے اسے ضروریات دین کہتے ہیں۔ نماز کی فرضیت ضروریات دین میں سے ہے لیکن زید و بکر نے واقعی نماز کی فرضیت کا انکار کیا ہے، اس کا کیا ثبوت ہے؟ اس کا ثبوت بھی بداہت و تواتر سے ہونا چاہئے تب جاکر کہیں تکفیر کی جاسکے گی۔
آج اگر کوئی شخص مفتی کے پاس آکر کسی معاملہ پر فتویٰ پوچھے تو حالت یہ ہے کہ بس استفتا آتے ہی قلم اٹھا کر ایک طرف سے کافر کہنا شروع کردیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ انہیں دارالافتا میں کافر بنانے ہی کے لئے بٹھایا گیا ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایک مسلمان کا کفر بچانا ایک ہزار کافر کو اسلام کے دائرے میں لانے سے بہتر ہے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ایک ہزار مسلمان جائیں تو جائیں لیکن ہم ایک کو کافر ضرور ٹھہرائیں گے، یہ درالافتا کا حال ہے۔
اہل سنت کے علماء تکفیر کی خاطر کبھی قلم مت اٹھائیں، ہاں! اگر کوئی کفر کرکے دائرہ اسلام سے نکل گیا ہو تو اس کو تنبیہاً کہہ دیں کہ تم اسلام کے دائرے سے نکل گئے ہو۔ کسی کو اسلام سے نکالنے والا رویہ مت اپنائیں۔
معرفتِ تاویل:
مسئلہ تکفیر کے سلسلے میں تاویل کا جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ تاویل صرف اللفظ عن الظاہر کو کہتے ہیں یعنی لفظ کو اس کے ظاہری معنی سے دوسرے معنی کی طرف پھیردینا۔ جب تک کلام میں تاویل کا امکان باقی ہوگا، کسی مسلمان کی تکفیر کی جائے گی نہ تضلیل۔ کسی قول کا صرف کفری ہوجانا تکفیر کے لئے کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ اور بھی چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں، یہ تمام چیزیں جب تک سامنے نہ ہوں تب تک تکفیر نہیں ہوگی۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی قول بظاہر کفری ہوتا ہے مگر اس میں دیگر معانی کے احتمالات ہوتے ہیں۔ حضرت اورنگ زیب عالم گیر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ کی تدوین کروائی۔ مورخین کے مطابق اس زمانے کے چالیس جید علمائے کرام کی اکیڈمی نے مل کر کام کیا اور اسے شائع کروایا۔ فتاویٰ عالمگیری کی ’’کتاب الردۃ‘‘ میں ان چالیس علمائے کرام نے متفقہ طور پر ایسے الفاظ تحریر کئے ہیں جن کے کہنے سے آدمی دائرہ اسلام سے خار ج ہوجاتا ہے۔ لیکن ان میں سے بہت سے کلمات ایسے ہیں جن کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ عالمگیری کے حاشیے میں لکھا ہے کہ
قال المصنف: من قال هذا فهو کافروالحق لا.
’’مصنف کہتے ہیں کہ ایسا کہنے والا کافر ہوجائے گا جب کہ حق یہ ہے کہ کافر نہیں ہوگا‘‘۔
اس طرح کے بے شمار مواقع ہیں جہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے حاشیہ تحریر فرمایا اور جن باتوں کو ان علما نے کفری قرار دیا تھا، ان میں کئی معنی نکالے اور فرمایا: ہاں! یہ معنی کفری ہے، اگر کسی نے یہی معنی مراد لئے تو کافر ہوگا اور اگر دوسرا یا تیسرا معنی مراد لیا تو کافر نہ ہوگا۔ پتہ چلا کہ کسی کو کافر کہنے میں جلدی نہ کرنا چاہئے۔ ’’شرح مہذب‘‘ میں ہے کہ علماء کو دارالافتا میں اس لئے نہیں بٹھایا گیا کہ وہ کسی کو کافر قرار دیں۔
ہر مفتی تکفیر کا فتویٰ نہ دے!
دارالافتا اصولاً فقہی مسائل بتانے کے لئے ہوتا ہے اور فقہ کا موضوع احوال مکلفین ہے۔ لہذا ہر آدمی کو اپنے موضوع ہی کے دائرے میں رہنا چاہئے۔ آپ نماز کا مسئلہ بتایئے، روزے کا مسئلہ بتایئے، زکوٰۃ کا مسئلہ بتایئے، مگر کفر کے مسائل آپ نہ بتایئے۔ اگر آپ کے پاس کوئی کلام کا مسئلہ آئے تو آپ اس سے کہہ دیجئے کہ میں فقیہ ہوں، متکلم نہیں ہوں، کسی متکلم کے یہاں چلے جائو۔ البتہ آپ اتنا کرسکتے ہیں کہ آپ کی نظر میں جو قابل اعتماد متکلم ہو اس کے پاس سائل کو جانے کے لئے کہہ دیجئے تاکہ اس کے لئے آسانی پیدا ہوجائے۔ اگر کوئی علم تفسیر کا مسئلہ آجائے تو آپ دارالافتا میں تفسیر کرنے مت بیٹھ جایئے، آپ سائل سے کہیے کہ میں مفتی ہوں، میرا کام فقہی مسئلہ بتانا ہے، تفسیر کے لئے فلاں مفسر موجود ہے، ان کے یہاں چلے جائیں۔
ہاں! اگر اللہ نے آپ کو جامع علم بنایا ہے، آپ خود مفسر بھی ہیں، متکلم بھی ہیں، فقیہ بھی ہیں، محدث بھی ہیں، حساب داں بھی ہیں، فرائض داں بھی ہیں تو ٹھیک ہے مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ آدمی تمام جہات پر حاوی ہو۔ اگر آپ صرف ایک جہت پر حاوی ہوں تو صرف اسی پر بات کریں۔ دوسری جہت سے متعلق سوال پر کسی اور کے پاس بھیج دیں، اس میں آپ کی توہین نہیں ہے بلکہ سراسر عزت ہے۔ اس لئے کہ اگر آپ نے دوسرا موضوع چھیڑ دیا اور خطا ہوگئی تو عنداللہ بھی گرفت ہوگی اور عندالناس بھی بے عزتی ہوگی۔ لوگ ہنسیں گے اور کہیں گے کہ کیسے مفتی صاحب ہیں، بے ہوش و حواس فتویٰ دے دیتے ہیں۔
آج ہمارے غلط کردار کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے فتوے کی وقعت ختم ہوتی جارہی ہے۔ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے، لوگ کہتے ہیں فلاں جگہ کے فتویٰ کا کیا اعتبار ہے، فلاں جگہ کے فتویٰ کا کیا اعتبار ہے۔ بھائی ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس لئے کہ فلاں جگہ سے بار بار ایسا ہوا کہ لوگ کہنے لگے کہ فلاں جگہ کے فتوے کا اعتبار ہی کیا ہے۔
طلبہ کو ایک نصیحت:
حصولِ تعلیم میں مشغول طلبہ کل جب آپ تعلیم سے فارغ ہوکر عملی زندگی میں قدم رکھو گے تو خدارا! اس وقت آپ جس فن کے ماہر ہوںگے اسی فن سے متعلق سوالات کے جواب دینا۔ اگر کوئی دوسرے فن کا سوال کرے تو دوسرے فن کے جاننے والے کی طرف پھیر دینا۔ دارالافتا میں سوال آئے تو کیا ضروری ہے کہ میں ہی لکھنے بیٹھ جائوں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ فلاں علامہ بہتر جانتے ہیں، ان سے پوچھ لیجئے۔ اگر زبان و ادب کا معاملہ آئے تو میں اس کو متعلقہ عالم کے پاس بھیج سکتا ہوں۔ یہ کہہ دینے میں کہ یہ میرا فن نہیں ہے، ہماری سبکی نہیں ہے بلکہ عزت ہے، ہمارا احترام ہے۔ مگر آج عالم یہ ہے کہ اگر ایران، طوران کا بھی کوئی سوال ہو تو دارالافتا کے مفتی صاحب تو مفتی صاحب، ہمارا طالب علم بھی نہیں کہے گا کہ میں نہیں جانتا۔
کچھ لوگ ٹیلیفون پر الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ تم کو کیا ضرورت پڑ گئی، دع مالا یعود، بے ضرورت ان کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟ کہنے لگتے ہیں کہ حضرت! فلاں آدمی نے پوچھا ہے، اگر نہیں بتائوں گا تو میرا وقار چلا جائے گا، لوگ کہیں گے کہ کیسا مولانا ہے، اس بات کو نہیں جانتا؟ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر مولانا ہے تو کیا ساری باتوں کا علم ہونا ضروری ہے؟ کیا ڈاکٹر تعلیم یافتہ نہیں ہوتا؟ مگر کیا وہ ہوائی جہاز بھی اڑانا جانتا ہے؟ کیا ہوائی جہاز نہ اڑا پانے پر اس کو بھی یہی طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ قابل نہیں ہے؟ درحقیقت اس طرح کی بات کرنا سراسر حماقت ہے۔
الحاصل! جس فن سے ہمارا تعلق نہیں ہے، کیوں ہم اس فن کو ہاتھ لگائیں اور کیوں ہم اس فن پر فتویٰ لکھنا شروع کردیں۔ میرے عزیزو! جب آپ کا وقت آئے تو آپ یہ سب نہ کریں۔ آپ صرف اتنا کریں کہ اگر دارالافتا میں فقہی مسائل آئیں تو بتادیں ورنہ دوسرے کی طرف پھیردیں۔
ففقہی کتابوں میں جو الفاظ دیکھیں کہ ’’اس کو کفر قرار دیا ہے‘‘۔ ان الفاظ کی بنیاد پر کسی شخص واحد کو کافر نہ قرار دے دیں۔ فقہا فرماتے ہیں ہم نے یہ الفاظ اسی لئے لکھے ہیں تاکہ قاری پڑھ کر سمجھ جائے اور اس طرح کی باتوں سے پرہیز کرے۔ یہ نہیں کہ کسی کو کافر کہنے کے لئے لکھے ہیں بلکہ صرف ڈرانے کے لئے لکھے ہیں تاکہ قاری ڈرے اور اس طرح کے الفاظ سے پرہیز کرے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اور آپ کو توفیق دے کہ ہم صحیح معنوں میں دین اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔