(یکم محرم الحرام یوم شہادت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
حافظ احمدجمال ناصر
امن و سکون اور بنیادی ضروریات کا حصول عوام کا حق ہے اور ان کی فراہمی حکمرانوں کا فرض اور یہی رفاہِ عامہ کا بنیادی فلسفہ ہے۔ امن و سکون اور احساسِ تحفظ آج کے دور میں ناپید ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمران Good Governance (بہترین طرز حکومت) کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر اس کے عملی مظاہر ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے حکمران ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، قومی اداروں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں، قانون و آئین کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے اور اپنی نااہلیت و کرپشن چھپانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اسلام کی تاریخ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہدِ زریں ہے جو کہ رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لئے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کو باقاعدہ منظم شعبہ جات دیئے اور بعد ازاں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن و امان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار فراہم ہو گیا۔ معمول کے حالات ہوں یا ہنگامی حالات قحط ، سیلاب، زلزلہ اور جنگ ہر دو حالات میں عوام کی رفاہ وبہبود کے لیے تاریخی اقدامات کئے گئے۔ رفاہِ عامہ کے وسیع تر مقاصد کے حصول کے لئے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چند اقدامات کا ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے:
محکمہ پولیس کا قیام
اندرونی خلفشار اور برائیوں پر قابو پانا ایک اچھے حکمران کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم نے اس مسئلہ کے حل کے لیے پولیس کے محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا۔ سیدنا فاروق اعظم نے لوگوں کی فلاح اور بہتری کے لیے بہت سے ایسے قوانین نافذ کیے جن کا تقاضا انسانی اخلاقیات کرتی ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قیام امن کی خاطر پولیس کے محکمے کی بنیاد رکھی۔ اس سے پہلے شہروں اور قصبوں کی اندرونی حفاظت کا انتظام لوگ خود ہی کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہرے داروں کا تقرر کیا جن کا کام راتوں کو گشت کرنا اور تاریکی کے اوقات میں حفظ امن تھا۔ اس محکمہ کے ساتھ جیل بھی قائم کی۔ عرب میں اس سے پہلے جیل کا رواج نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف شہروں میں جیل خانے قائم کیے اور بعض جرائم کی سزائوں میں ترمیم کر کے قید کی سزا مقرر کی۔ مثلاً عادی شرابیوں کو شرعی حد جاری کرنے کے بعد جیل میں بھیجا جانے لگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قائم کردہ محکمہ پولیس کے آفیسر کو ’’صاحب الاحداث‘‘ کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ کو بحرین میں پولیس کے اختیارات دیے، تاکہ دکاندار ناپ تول میں دھوکا نہ دیں، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنا لے، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، علانیہ شراب نہ بکے۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو بازار کی نگرانی کے لیے مقرر کیا۔
(شبلی نعمانی، الفاروق، 2: 307)
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے نظام پولیس کے تحت عربوں کے برے اخلاق کی اصلاح بھی کی۔ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ لوگ اپنے انساب پر فخر و غرور اور عام لوگوں کی حقارت، ہجو اور بدگوئی کرتے تھے۔ حضرت عمرص نے مساوات کا اس درجہ خیال رکھا کہ آقا و خادم کی تمیز اٹھا دی۔ ہجو کو ممنوع قرار دے دیا۔ شعر و شاعری کو روک دیا۔ کیونکہ عشق و ہوا پرستی کا یہ بہت بڑا ذریعہ تھا۔ شعراء کو تشبیب (عورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار) لکھنے کی ممانعت کر دی۔ روک تھام کی غرض سے شراب نوشی کی سزا بڑھا دی۔ پہلے شراب نوش کو 40 درے مارے جاتے تھے انہوں نے 80 درے مارے جانے کا حکم دے دیا۔ الغرض فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسلام کو اسی حیثیت سے چلایا، جس پاک اور مقدس طریقہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان سب باتوں سے یہ اثر پیدا ہوا کہ باوجود ثروت، دولت اور وسعت کے اس زمانے میں لوگوں نے اسلامی تعلیمات کو ہمیشہ مقدم رکھا۔
عہدہ قضاء کی ابتداء
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں مسلمانوں کو جب کسی معاملے میں مشکل پیش آتی تو اس کے حل کے لیے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی جاری رہا مگر عدل سے متعلق کوئی باقاعدہ ادارہ قائم نہیں ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قاضیوں کا باقاعدہ تقرر کیا جاتا تھا، ان کی تنخواہ بھی متعین کی جاتی تھی، عدل کا معیار بھی چیک کیا جاتا تھا اور اس منصب کے لیے اہلیت کو بھی دیکھا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے منصب عدل کی ابتدا کی۔
عدالت میں عدل قاضی کے ذریعے ہی ممکن ہے، مگر قاضی کیلئے نظم ونسق اور قواعد وضوابط کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ملک کے اطراف و اکناف میں قضاء کے منصب پر فائز لوگوں کو تحریری ہدایات فرمائیں۔ اس سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ (گورنر) کو منصب قضاء سے متعلق تحریری احکام صادر فرماتے ہوئے لکھا:
فإن القضاء فريضة محکمة وسنة متبعة فافهم إذا أدلی إليک فإنه لا ينفع تکلم بحق لا نفاذ له.
(دارقطني، السنن، 4: 607، رقم: 16)
’’ قضاء (عدالتی فیصلہ) محکم فریضہ اور اتباع کی جانے والی سنت ہے۔ پس سمجھ لے کہ جب تیرے سر پر کوئی فیصلہ ڈالا جائے تو محض ایسے حق بتا دینے سے کوئی نفع نہیں جس کو نافذ العمل نہ کیا جائے ‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قاضیوں کے انداز اور کردار سے متعلق فرمایا:
آس بين الناس في مجلسک وفي وجهک وعدلک حتی لا يطمع شريف في حيفک ولا ييأس ضعيف.
(نميري، اخبار مدينة، 1: 411، رقم: 1325)
’’ لوگوں کے درمیان اپنے چہرے سے، اپنی نشست و برخاست سے اور اپنے فیصلے سے امید دلائے رکھو تاکہ کوئی معزز آدمی تیرے ظلم کی وجہ سے بری طمع نہ کرے اور کوئی کمزور آدمی تیرے عدل سے مایوس نہ ہو‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان تمام امور کا اتنے احسن اندازسے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا تھا۔ قانون کے بنانے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی۔ اسلام کا عملی قانون قرآن مجید کی صورت میں موجود تھا البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لیے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضرورت تھی۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایات کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ملک میں عدل و انصاف کے لیے بہت زیادہ سنجیدہ اور مخلص تھے۔
جج کا کردار
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب منصب عدل پر فائز ہوتے تو اس بات کی پرواہ نہ کرتے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہو گا یا کس کے خلاف ہو گا؟ یہی اللہ کا فرمان اور دین کا طرہ امتیاز بھی ہے۔ اس طرح انسان بے باکی اور حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور عدل و انصاف کرتے ہوئے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی لحاظ نہیں ہوتا۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
ما أبالی إذا اختصم إلی الرجلان لأيهما کان الحق.
(الطبقات الکبری، 3: 290)
’’جب میرے پاس دو شخص اپنا کوئی مقدمہ لے کر آتے ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ حق کس کی طرف ہو‘‘۔
اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بہت بڑی اہمیت ہے اس کی اہمیت کو قرآن کریم بھی متعدد جگہوں پر ارشاد فرماتا ہے تا کہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارا بن سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور میں عدل کے قیام کے لیے اپنے عمال کو ہمیشہ نصیحتیں فرماتے تھے۔ آپ نے عمال کے نام ایک خط لکھا جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (عامل گورنروں) کو لکھا: لوگوں کو اپنے نزدیک حق میں برابر رکھو۔ ان کا قریبی اور دور والا برابر ہے اور ان کا دور والا بھی ان میں سے قریب ترین کے برابر ہے۔ نیز رشوت سے بچو، خواہش پر فیصلہ کرنے سے بچو اور غصے کے وقت لوگوں کی پکڑ کرنے سے اجتناب کرو اور حق کو قائم کرو خواہ دن کے کچھ حصہ میں کیوں نہ ہو‘‘۔
(کنزالعمال، 5: 320، رقم: 14444)
حضرت عمر نہ صرف جج کو تعینات کرتے تھے بلکہ اس کو ایسی ہدایات کے ساتھ نوازتے تھے کہ اس سے منصب قضاء پر اعتماد مضبوط ہوتا تھا اور ہر طرح کی معاشرتی برائیوں سے بچنے کا راستہ بھی اس میں موجود ہوتا تھا۔ یہی ہر دور کا تقاضا ہے جیسا کہ ابن عساکر نے بیان کیا ہے:
قال عمر لشريح حين استقضاه لا تشار ولا تضار ولا تشتر ولا تبع ولا ترتش.
(تاريخ مدينة دمشق، 33: 21)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب قاضی شریح کو منصب قضاء پر فائز کیا تو فرمایا: اب تم خرید وفروخت نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ دینااور نہ رشوت لینا‘‘۔
دوران خلافت عدالت میں پیشی:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان کسی چیز سے متعلق آپس میں جھگڑا تھا، حضرت عمرص نے فرمایا: آپ اپنے اور میرے درمیان کسی کو ثالث مقرر کر لیں، چنانچہ دونوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اپنا فیصل مقرر کر لیا۔ پھر دونوں ان کے پاس چل کر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہارے پاس اس لئے آئے ہیں تاکہ تم ہمارے درمیان فیصلہ کردو۔ جب دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر حضر عمر رضی اللہ عنہ کے لئے جگہ چھوڑ دی اور بولے: اے امیر المومنین! یہاں آئیے، حضرت عمر بے شک خلیفہ وقت تھے مگر اس وقت ایک سائل کی طرح حاضر تھے۔ حضرت زید کے اس طرز عمل پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هذا أول جورک جرت فی حکمک أجلسنی وخصمی.
’’یہ پہلا ظلم ہے (جو تم نے اپنے فیصلے میں ظاہر کیا ایسی صورت میں ) میں اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا پسند کروں گا‘‘۔
(ابن جعد، المسند، 1: 260، رقم: 1728)
اس کے بعد آپ دونوں حضرات حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گئے۔ حضرت ابی بن کعبص نے کسی چیز کے متعلق دعوی ظاہر کیا، حضرت عمرص نے انکار کر دیا۔ قاعدہ کے مطابق ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر گواہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر قسم آتی تھی لیکن حضرت زید بن ثابتص نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو فرمایا: امیر المؤمنین کو قسم اٹھانے سے تم معاف رکھو اور ان کے علاوہ میں کسی اور کے لئے ایسا مطالبہ کبھی نہ کرتا۔ مگر حضرت عمرص نے از خود قسم اٹھا لی۔ معاملہ حل ہوجانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ جب تک عمر زندہ ہے زید کبھی عہدہ قضاء پر فائز نہیں ہوسکتا کیونکہ عمر کے نزدیک تمام مسلمانوں کی عزت و آبرو برابر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدل وانصاف کرنے میں کسی سے بھی رعایت نہ برتتے تھے ۔ آقا وغلام اور اپنے پرائے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا تھا۔ شروع شروع مین انتظامی اور عدالتی عہدے ایک ہی شخص کے ماتحت ہوتے تھے مگر بعد میں انصاف کا محکمہ الگ کر دیا گیا۔ اس محکمہ کو قضاء کا محکمہ کہتے تھے۔ تمام ضلعوں میں عدالتیں قائم کی گئیں اور قاضی مقرر ہوئے۔ مقدمات کا فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں کیا جاتا اور اگر کسی معاملہ میں قرآن وسنت خاموش ہوں تو ایسی صورت میں اجتھاد سے کام لے کر فیصلہ کر دیا جاتا تھا۔
بیت المال کا مثالی اور باقاعدہ نظام:
عہد فاروقی میں بیت المال باقاعدہ ایک نظام کی صورت میں قائم ہوا۔ اس سے متعلق علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں:
ولم يکن النبی صلی الله عليه وآله وسلم بيت المال ولا لابی بکر الصديق و اول من اتخذ بيت المال عمر بن الخطاب.
(مناقب اميرالمومنين عمر بن خطاب، 87)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ادوار میں بیت المال (واضح) ادارہ کی صورت میں نہ تھا سب سے پہلے بیت المال کا قیام عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا ‘‘۔
صوبہ جات اور اضلاع کے حکام کو یہ ہدایت تھی کہ وہاں کے ضروری مصارف کے لئے رقم نکال کر بقیہ جس قدر ہو سال تمام ہونے پر مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دیا کریں۔ چنانچہ عمر و بن العاص والی مصر کو ایک فرمان لکھا جس کے یہ الفاظ تھے:
فاذا حصل اليک و جمعه اخرجت مند عطاء المسلمين وما يحتاج اليه ما لا بل منه ثم انظرفما فضل بعد ذلک فاحمله الی.
(شبلی نعمانی، الفاروق: 232)
’’یعنی جب تجھ کو کل مالیہ وصول ہو جائے اور تو اس کو جمع کر لے اور اس میں سے مسلمانوں کے وظائف اور ضروری مصارف نکال لے۔ اس کے بعد جو کچھ ہو اس کو میرے پاس بھیج دے۔‘‘
بیت المال میں جو کچھ آمدنیاں آتی تھیں ان کا حساب و کتاب نہایت صحیح طور سے مرتب کیا جاتا تھا۔ اکثر اوقات خود فاروق اعظم رضی اللہ عنہ زکوۃ اور صدقہ کے مویشیوں کو شمار کرتے اور ان کا رنگ، حلیہ، عمر دیکھ کر لکھا کرتے تھے۔
ذرائع آمدن کے استعمال کا قانون:
حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں بیت المال کی آمدنی زکوٰۃ، عشر، جزیہ، خراج اور مالِ غنیمت پر منحصر ہوتی تھی اور یہ تمام کفالت کے معاشرتی قانون کے تحت مستحق افراد پر خرچ کر دی جاتی تھی۔پس جب ملک وسیع ہو گیا اور آمدنی بڑھ گئی اور دفاتر بنائے گئے تو تمام مستحق افراد کی رجسٹریشن ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ما أحد من المسلمين إلا له في هذا المال حق.
(ابو عبيد، قاسم بن سلام، کتاب الاموال، 283، رقم: 525)
’’مسلمانوں میں سے ہر ایک کے لئے اس مال میں حق ہے۔‘‘
پھر اس کے بعد انتہائی توجہ کے ساتھ دیوان تشکیل دیا گیا اور بیت المال کو مختلف ڈیپارٹمنٹس (شعبوں) میں تقسیم کیا گیا اور ہر ڈیپارٹمنٹ کے لیے بجٹ خاص کر دیا گیا جس کو مختلف مدات پر خرچ کیا جاتا تھا۔ امام کاسانی نے اپنی کتاب بدائع الصنائع میں ان کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جو مال بیت المال میں بطور بجٹ رکھا جاتا تھا، اس کی چار اقسام ہیں:
- چراگاہ میں چرنے والے مویشیوں کی زکوٰۃ، عشر، مسلمان تاجروں سے حاصل کردہ ٹیکسز (Taxes)
- مال غنیمت اور زمین کے اندر سے چھپے ہوئے خزانوں میں پانچواں حصہ (جس کو فقراء، مساکین اور یتیم لوگوں پر خرچ کیا جاتا ہے)۔
- زمین کا خراج، جزیہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو مذہبی سکالرز پر اور مفادِ عامہ (Common interests) کے لئے خرچ کی جاتی ہیں۔ اس میں جج صاحبان اور فوج کی تنخواہیں شامل ہیں اور سڑکوں، مساجد، چھوٹی نہروں، پلوں اور ڈیم کی تعمیر کا خرچ بھی شامل ہے۔
- وہ مال جو ایسی میت کی وراثت سے لیا جائے جس کا مرنے کے بعد کوئی حقیقی وارث نہ ہو یا اس نے ایک خاوند یا بیوی چھوڑی ہو۔ ایسے اموال فقیروں، مریضوں کی ادویات، ان کے علاج اور مرنے والوں کے کفن خریدنے پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ مال لاوارث اور معذور افراد پر اور قاتل کی طرف سے واجب دیت کی ادائیگی پر خرچ کیا جاتا ہے اور اسی طرح جو کمانے سے عاجز ہو اور اس کے ذمہ (اپنے خاندان کا) نفقہ بھی ہو (تو اس پر بھی یہ اموال خرچ کئے جاتے ہیں)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ معاشرتی کفالت کے منصوبوں کی مالی سپورٹ ان سابقہ قوانین پر ہی depend نہیں کرتی بلکہ بیت المال کی بنیادی ذمہ داری معاشرتی کفالت کو یقینی بنانا ہے۔ بیت المال کے دیگر ذرائع آمدنی(Sources of Income) بھی ہیں کہ جن سے ملازمین کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں اور دفاع پر بھی خرچ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ عمرانی منصوبہ جات اور وسائل نقل و حرکت پر خرچ ہوتا ہے۔ اس چیز کی تائید سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہو جاتی ہے کہ جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:مسلمانوں میں سے کوئی ایسا (مستحق) آدمی نہیں کہ جس کا بیت المال میں حق نہ ہو۔
(ابو عبيد، قاسم بن سلام، کتاب الاموال، 310، رقم: 609)
فاروقی جذبہ خدمت خلق:
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ سے دس لاکھ کی رقم لے کر دربار فاروقی میں حاضر ہوئے تو آپ نے مسرت و تعجب سے فرمایا تم جانتے ہو دس لاکھ کتنا ہوتا ہے؟ فرمایا ایک لاکھ پر ایک لاکھ اس طرح دس مرتبہ کیا۔ حضرت فاروق اعظمص نے فرمایا: اگر یہ صحیح ہے تو اب ہر شخص تک وظیفہ پھیل جائے گا، ہر شخص کی مالی ضروریات پوری کی جائیں گی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ قسم کھا کر معاشی تحفظ کے حوالے سے یہ تاریخی جملے فرمائے:
واﷲ لئن بقيت لهم ليأتين الراعی بجبل صنعاء حظه من هذا المال وهو يرعی مکانه.
(مسند احمد، 1: 42، رقم: 292)
’’ اللہ کی قسم! اس مال کو جمع نہیں رکھوں گا، ہر (مستحق) شخص کو اس سے وظیفہ اس کے گھر پہنچادونگا۔ مقامِ صنعاء (یمن) کی پہاڑیوں پر رہنے والے چرواہوں کو اس مال سے وظیفہ ان کے گھروں تک پہنچایا جائے گا۔‘‘
رفاہِ عامہ کے لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا اقدام بیت المال کے ادارے کا قیام ہے جس سے شیر خوار بچوں سے لے کر بزرگ اور معذور افراد تک کو وظیفہ ملتا تھا۔ اسلامی ریاست میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو بے روزگاری کی وجہ سے افلاس کا شکار ہو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المال کے ادارے کو اتنا شفاف اور منظم کر دیا تھا کہ ایک پائی تک ادھر ادھر نہ ہوتی اور حق دار کو اس کا حق ہر صورت میں مل جایا کرتا تھا۔ بلاشبہ یہ اقدام رفاہی خدمات میں ایک بہت بڑی اور قابل قدر خدمت ہے۔
عہد فاروقی میں نئے شہروں کا قیام:
آبادی اور رہائش انسانی زندگی کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کے باعث شہر میں آبادی کا تناسب زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں جن میں سب سے اہم Law and Order کی صورت حال کا خراب ہونا ہے۔ ظاہر ہے ایک زیادہ بڑی آبادی کو منظم رکھنا زیادہ مشکل کام ہے۔ اس کے لیے منظم رکھنے والے اداروں کو بھی اسی تناسب سے بڑا اور بھرپور ہونا چاہیے۔
اسلامی ریاست میں سیدنا فاروق اعظم وہ خلیفہ ہیں جنہوں نے ایک مخصوص تعداد میں آبادی کے بڑھنے کے بعد نئے شہر بسانے کی پالیسی پر عمل کیا۔ اس سے پہلے نئے شہروں کا قیام اتفاقاً یا فوجی ضروریات کے تحت عمل میں آتا تھا۔ یہ نبوی تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رفاہِ عامہ کے پیش نظر کئی نئے شہر بسائے تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث انتظامی صورت حال خراب نہ ہو اور لوگوں کی فلاح و بہبود پر اثر انداز نہ ہو۔
عہد فاروقی میں نئے قائم ہونے والے شہر کوفہ، بصرہ موصل اور فسطاط ہیں۔ ان کے قیام کی وجوہات دو طرح کی ہے:
- عرب مجاہدین کو مختلف علاقوں کی آب وہوا موافق نہیں آتی تھی، اس کی وجہ سے ان کی صحت اور ان کے چہرے کے رنگ میں نمایاں فرق محسوس ہوتا تھا۔
- دوسری وجہ فوجی مہمات کے پیش نظر ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں فوجی چھائونیاں قائم ہو سکیں تاکہ محاذ جنگ پر آنا جانا آسان ہو جائے اور دشمن کے لیے یہ چھائونیاں دفاع کا کام دے سکیں۔
کوفہ اور بصرہ کے مکانات حضرت عمر صکی اجازت سے گھاس پھونس اور بانس سے بنائے گئے تھے۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد کوفہ اور بصرہ میں آگ لگ گئی اور تمام مکانات جل کر راکھ ہو گئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر صسے اینٹ اورگارے کی عمارتیں بنانے کی اجازت طلب کی، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اجازت دی لیکن یہ شرط عائد کر دی کہ:
افعلوا ولا يزيدن أحدکم علی ثلاثة أبيات.
’’کوئی ایک بھی شخص تین کمروں سے زیادہ پر مشتمل مکان نہ بنائے‘‘۔
(تاريخ الامم والملوک، 2: 479)
اس شرط کی وجہ سے تمام لوگوں کے گھر ایک ہی جیسے ہو گئے، سب کے حالات یکساں ہو گئے، امیر اور غریب کے فرق کا خاتمہ ہو گیا۔
حضرت عمر فاروق صنے جب نئے شہر آباد کیے تو ان سے متعلق تمام سہولیات کو پیش نظر رکھ کر تعمیر کی گئی ۔ حضرت عمر کے دور میں نئے شہروں کو آباد کرنے کی حکمت کو اگر بغور دیکھا جائے تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ کام باقاعدہ منظم طریقے سے کرتے تھے۔ جیسا کہ آج کے دور میں یورپ میں جب بھی کوئی شہر آباد کیا جاتا ہے تو پہلے اس کا مکمل سروے کر کے ایک ماڈل بنایا جاتا ہے جس میں ساری سہولیات اور آسائش کو واضح کیا جاتا ہے پھر اس کے مطابق اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ اس سارے فارمولے اور کام کی بنیاد حضرت عمر فاروق کے آباد کیے ہوئے شہروں سے ملتی ہے۔
جب کوفہ کا شہر آباد کیا گیا تو اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ اس میں سڑکیں اور مکانات کے درمیان پختہ گلیاں ہوں۔ اس سے متعلق حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد صکو یہ تحریر لکھی:
’’جب مسلمانوں کا کوفہ کی تعمیر پر اتفاق ہو گیا تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ابو الہیاج کو بلا بھیجا اور انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ان تحریری ہدایات سے مطلع کیا کہ سڑکیں چالیس گز کی ہوں اور اس سے کم درجے کی تیس گز کی ہوں اور کم از کم بیس گز چوڑی ہوں۔ گلیاں سات گز کی ہوں، اس سے کم تر نہ ہوں بنو ضبہ کے قطعات کے علاوہ عام قطعات ساٹھ گز کے ہوں‘‘۔
(تاريخ الامم والملوک، 2: 479)
قحط اور ہنگامی حالات میں عوام کی خدمت:
سیلاب، زلزلے اور قحط سالی وغیرہ میں یہ بات ضروری ہے کہ مصیبت زدہ لوگوں کی نہ صرف خیمے اور کھانے پینے کی چیزیں فراہم کرکے مدد کریں بلکہ انہیں بقیہ لوگوں کی طرح باعزت زندگی فراہم کریں۔ جب ملکی خزانہ مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں اس طرح کی معاشرتی ذمہ داری ادا کرنے سے عاجز ہو تو ملک مالدار لوگوں سے ان کی جائیدادوں کے مطابق ٹیکس لاگو کر سکتا ہے تاکہ ان مصائب کا مقابلہ کر سکیں۔ یہ تعاون، نیکی اور تقویٰ کی بنا پر ہو گا جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ نیز یہ اخوت و بھائی چارہ کی بنا پر ہے اور معاشرے کے لئے ایک ایساشعار ہے جس کی شرعی قوانین اور شرعی نصوص تائید کرتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات پر عمل کر کے ایک مثال قائم کی ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب قحط سالی ہوئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے شہروں کے گورنروں کو حکم بھیجا کہ وہ متاثرین کی کھانے پینے کی اشیاء اور اموال کے ساتھ ہر ممکن مدد کریں۔ پس ان کے لئے ہر والی شہر نے اپنی استطاعت کے مطابق مال بھیجا اور آپ رضی اللہ عنہ نے وہ مال لوگوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جس سے قحط دور ہوگیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور فرمایا:
فواﷲ لو أن اﷲ لم يفرجها ما ترکت أهل بيت من المسلمين لهم سعة إلا أدخلت معهم أعدادهم من الفقراء، فلم يکن اثنان يهلکان من الطعام علی ما يقيم واحدًا.
(بخاری، الادب المفرد: 198، رقم: 562)
’’خدا کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ اس قحط کو دور نہ فرماتا تو میں مسلمانوں کے گھروں میں سے کسی گھر کو نہ چھوڑتا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسعت دی ہے مگر یہ کہ ان کے ساتھ ان کے شمار کے مطابق فقراء میں سے بھی داخل کر دیتا۔ اس طرح سے اس کھانے سے دو آدمی ہلاک نہ ہوتے جو کھانا ایک آدمی کے لئے کافی ہوتا ہے۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایثار:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مدینہ اور اطراف مدینہ میں جب قحط پڑا تو ہوا چلتی تھی تو راکھ کی طرح مٹی اڑتی تھی، اس وجہ سے یہ سال عام الرمادہ (راکھ کا سال) کہا جاتا ہے۔ حضرت عمر عوام کے دکھ درد کو سمجھتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے منصب امارت پر موجود ہونے کے باوجود یہ اعلان کیا:
الا يذوق سمناً ،لا لبناً ولا لحماً حتی يحييی الناس من اول الحيا.
(تاريخ الامم والملوک، 2: 508)
’’میں (حضرت عمر) گھی، دودھ اور گوشت کا ذائقہ اس وقت تک نہیں چکھوں گا جب تک کہ عام مسلمان پہلی بارش سے فیض یاب نہ ہوں‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط کا سارا سال اپنی اس بات پر قائم رہے یہاں تک کہ لوگ پہلی بارش سے فیضاب ہوئے۔ بازار میں غلہ آنا شروع ہوا تو آپ کے غلام نے بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ آپ کے لیے چالیس (درہم) میں خرید لیا۔ بعد ازاں غلام نے آپ کو یہ بتایا کہ آپ کا کیا ہوا عہد پورا ہو گیا اور وہ آپ کے لیے بازار سے گھی اور دودھ کا کنستر خرید لایا ہے، اس پر حضرت عمر نے فرمایا:
فتصدق بهما، فانی اکره ان آکل اسرافا،کيف يعنينی شان الرعية اذا لم يمسسنی ما مسهم.
(المنتظم، 4: 250)
’’تم ان دونوں چیزوں کو خیرات کر دو۔ کیونکہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھاؤں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہوگا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے‘‘۔
حضرت عمر بے شک خلیفہ وقت تھے مگر آپ رضی اللہ عنہ کبھی بھی اپنے اس منصب کو خاطر میں نہیں لائے بلکہ ہمہ وقت مخلوق خدا کی خدمت میں مصرف رہے، اور اسی کو مطمعِ نظر بنائے رکھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
لقد رأيته عام الرمادة وإنه ليحمل علی ظهره جرابين وعکة زيت في يده وإنه ليعتتب هو وأسلم.
(ابن عساکر، تاريخ مدينه دمشق، 44: 347)
’’میں نے رمادہ کے سال (قحط سالی) میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ اپنی کمر پر دو بوریاں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں روغن زیتون کا پیالہ تھا، آپ اور اسلم (جو آپ کا غلام تھا) باری باری وہ سامان اٹھا کرلے جا رہے تھے‘‘۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اس بات کا سخت اہتما م کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ میں کوئی شخص فقر و فاقے میں مبتلا نہ ہو۔ ملک میں جس قدر اپاہج یا مفلوج ہوں، ان کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر دی جائیں۔ لاکھوں آدمی ایسے تھے جن کو گھر بیٹھے خورا ک ملتی تھی۔ خوراک کی مقدار کو متعین کرنے کے لئے آپ رضی اللہ عنہ نے 30 افراد کے لئے دو وقت کا کھانا تیار کرایا اور یوں یومیہ خرچ کا اندازہ لگا کر ان کے وظائف مقرر کر دیئے۔
(فتوح البلدان، 446)
جب ریاست میں عوام کو کوئی مشکل پیش آ جائے تو ایسی صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر حال میں ذاتی طور پر اخلاص پر مبنی کوشش کی جس سے اس مشکل میں کمی واقع ہو اور ساتھ ہی ساتھ مختلف علاقوں کے عمال کو بھی اس بات کی تلقین کی کہ وہ اس مشکل میں ساتھ دیں تاکہ معاملہ باسانی حل ہو جائے۔ اس کے لیے آپ کا تدبر اور فہم قابل تعریف ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی انتظامی صلاحیتوں، طرزِ حکومت اور عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات آج کے حکمرانوں کے لئے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہیں۔ ان حکمرانوں کو چاہئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس طرزِ حکمرانی کی روشنی میں اپنے اعمال و کردار کا محاسبہ کریں، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر قربان نہ کریں اور ہر صورت مملکتِ پاکستان اور عوام پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کو مقدم رکھیں۔ مگر افسوس! ہمارے حکمرانوں نے اسلام کی ان شخصیات کی تعلیمات و کردار کو یکسر فراموش کررکھا ہے اور ہر آئے روز عوام کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔