اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ.
(الاعراف، 7: 199)
’’(اے حبیب مکرم!) آپ در گزر فرمانا اختیار کریں اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔‘‘
اس آیت کریمہ میں تین احکامات مذکور ہیں:
1۔ اللہ رب العزت نے عفو و درگزر اپنانے اور لوگوں کی کوتاہیوں وغلطیوں سے درگزر کرنے کا طرزِ عمل اپنانے کا حکم دیا ہے۔
2۔ لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی دعوت و تبلیغ کرنے کا حکم دیا ہے۔
3۔ تبلیغ و اشاعت ِ دین، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے دوران اگر کوئی برے طریقے سے ردعمل دے، ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جو تکلیف دہ ہو اور Stressful ہو تو ان لوگوں کو اسی طرح جواب نہ دینے اور ان کی جہالت اکھڑ پن، زیادتی اور نا مناسب رویہ کو نظر انداز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی ان کے منفی یا دل آزردہ ردِعمل پر صبر کرنا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھنا۔
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خُذِالْعَفْوَ کے ذریعے واضح فرمادیا کہ سب سے پہلے خود معاف کرنے والے بنو اور معاف کرنے کا سلیقہ سیکھو۔ پھر اس کے بعد وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ کے مصداق اسلام کی تعلیمات اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پہنچانے کا عمل شروع کرو۔ آیتِ کریمہ کی اس ترتیب سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات دوسروں تک پہنچانے سے پہلے معاف کرنا اور درگزر کرنا سیکھنا ہوگا۔ اس دوران اگر منفی ردعمل ملے جو دل کو ٹھیس پہنچائے تو وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْنَ کے مصداق ایسے جاہلوں پر دھیان نہ دیں جو منفی جواب دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کے متعلق اپنے دل میں یہ سوچیں کہ وہ نہیں جانتے۔
یاد رکھیں! یہ تینوں چیزیں محض شریعت کے احکام پر عمل کرنے سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ طبیعت کو بدلنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہیں:
1۔ نافرمان: وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے احکام پر عمل نہیں کیا۔ ان کی زندگی میں اللہ کا حیا بھی نہ رہا، دین کی اہمیت بھی نہیں رہی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ان کی زندگی بن گئی۔
2۔ فرمانبردار: وہ لوگ جو اللہ، اس کے رسول اور شریعت کے تابعدار ہیں۔جنہوں نے اپنی زندگی میں یہ انتخاب کرلیا ہے کہ ہم دین کے مطابق چلیں گے۔انہوں نے شریعت، اللہ کے احکامات پر عمل اور اس کے فرمانبردار اور اطاعت گزار بندہ بننے کے راستے کو اختیار کیا ہے۔
شریعت پر عمل کرنا ان لوگوں کے لیے آسان ہے جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ ہے۔وہ لوگ جو جانتے اور سمجھتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے اطاعت گزار اور فرمانبردار بننا چاہتے ہیں اور جو پہلے ہی سیدھے راستے پر ہیں، ان کے لیے شریعت پر عمل کرنا آسان ہے۔اس کے برعکس وہ لوگ جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ نہ ہو، ان کے لیے اپنی طبیعت اور مزاج و عادت کو بدل کر احکاماتِ الہٰیہ کی طرف متوجہ ہونا مشکل ہے۔
زیر نظر تحریر میں ہمارا مخاطب یہ دوسرا طبقہ ہے جو پہلے ہی سے چاہتا ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمانبردار ہوں اور نیکی و اطاعت کے راستہ پر چلیں۔پہلا طبقہ یعنی نافرمان، وہ بھی اگر اس تحریر سے استفادہ کرنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی نفع دے گا مگر اس وقت مخاطب وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی سے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے راستے کو اختیار کرچکے ہیں اور اس سمت مزید آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے، اللہ کے حکم کی اطاعت اور شریعت کے احکام پر عمل کرنے کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔
فرمانبردار لوگوں کے لیے نافرمان لوگوں کی نسبت شریعت پر عمل کرنا آسان ہے۔ ان کے لیے مشکل امر اپنی طبیعت کو بدلنا ہے۔جب یہ طبقہ اپنی طبیعت نہیں بدلتا، تو شریعت پر عمل کرنے سے ملنے والے فیوض و برکات سے نفع نہیں اٹھا سکتا اور جو نفع شریعت پر عمل سے انھیں ملنا چاہیے تھا، وہ اس سے محروم رہتا ہے۔
طبیعت کیا ہے؟
شریعت کے بارے میں ہم میں سے ہر ایک اپنے علم کے مطابق آگاہ ہے کہ اللہ کے احکامات پر عمل کرنا اور اس کی منع کی گئی باتوں پر عمل نہ کرنا، شریعت ہے جبکہ طبیعت کے بارے میں زیادہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ جس کے سبب ہم اس کی اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوپاتے۔ یاد رکھیں! انسانی جسم کے ظاہر کو صورت کہتے ہیں اور انسان کی باطنی شخصیت کو طبیعت کہتے ہیں۔یہی طبیعت کبھی سیرت کہلاتی ہے اور کبھی اسے فطرت بھی کہتے ہیں۔ اگر اس کو مزید خاص کرنا چاہیں تو انسان کے اندر موجود (Inherent Characteristics) خصلتیں اور خوبیاں طبیعت کہلاتی ہیں۔اسی طبیعت سے مزاج نکلتا ہے۔
انسان کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ایک ظاہری وجود رکھتا ہے اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک باطنی وجود بھی رکھتا ہے۔ ظاہری وجود ہمارے تمام اعضاء پرمشتمل ہے، جن کے ذریعے ہم اپنی زندگی کے امور انجام دیتے ہیں۔جبکہ ہماری باطنی شخصیت تین امور پر منحصر ہے:
1۔ نفس: ہمارا نفس کس طرح سوچتا ہے؟ کیا چاہتا ہے اور کیسے کام کررہا ہے؟
2۔ عقل: دماغ کیا سوچتا ہے، کس طرح سوچتا ہے اور کس طرح کام کرتا ہے؟
3۔ دل: دل کی خواہش کیا ہے، یہ خواہش کیوں پیدا ہوتی ہے اور دل کس طرح اس کی طرف راغب ہوتا ہے؟
یہ تینوں چیزیں الگ الگ بھی ہیں مگر ان کے نتیجے میں انسان کی جو شخصیت بنتی ہے، اسے طبیعت کہتے ہیں۔ اسی طبیعت سے مزاج جنم لیتا ہے اور پھر اس مزاج سے اخلاق جنم لیتا ہے۔ اس طرح ہماری طبیعت اور اخلاق سے ہماری باطنی شخصیت وجود میں آتی ہے۔
گویا اصل میں طبیعت؛ نفس، عقل اور دل کے امتزاج کو کہتے ہیں۔ یعنی ہمارے نفس، دماغ اور دل، ان تین چیزوں کو جمع کرنے سے جوInvisible Entity وجود میں آتی ہے، اسے طبیعت کہتے ہیں۔ پس طبیعت سے مرادInner personality یا moral personality ہے۔
انسان کی اصل اس کی باطنی شخصیت ہے
باطنی شخصیت (inner personality) انسان کی اصل ہے۔ اگر اصل ٹھیک نہ ہو تو احکامِ شریعت پر عمل کرنا نقل ہے۔اگر باطنی شخصیت صحیح نہیں ہے تو شریعت کے احکام پر عمل کرنا کام نہیں دیتا، اس لیے کہ اصل ٹھیک نہیں۔ شریعت کو اپنانا آسان ہے مگر طبیعت کا بدلنا مشکل ہے۔ جب طبیعت نہ بدلے مگر شریعت کے احکام پر عمل درآمد ہوتا رہے تو اس سے ثواب تو ملتا ہے اس لیے کہ نقل میں بھی ایک محنت ہے۔مگر باطن میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا اور مَن تبدیل نہیں ہوتا۔ شریعت کی فرمانبرداری جتنی اعلیٰ ہوتو یہ جنت میں لے جاتی ہےاور اگر طبیعت اعلیٰ ہوجائے تو وہ اللہ سے ملا دیتی ہے۔ شریعت جنت تک لے جاتی ہے اور اگر شریعت؛ طبیعت بن جائے تو طبیعت بندے کو مولیٰ تک لے جاتی ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے یہ بات سمجھائی ہے کہ وَاْمُرْ بِالْعُرْف دین کی دعوت دینے، اچھائی، نیکی، بھلائی، سچائی، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات اور تعلیماتِ اسلام کی طرف لوگوں کو بلائیں مگر اس سے قبل ”خُذِ الۡعَفۡوَ“اپنی طبیعت کو بدلیں۔”خُذِ الۡعَفۡوَ“ میں طبیعت ہے اور ”وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ میں شریعت ہے۔اپنی طبیعت سنوارے بغیر جو شریعت کا حکم دے گا، اسے ثواب تو ملے گا مگر لوگ تبدیل نہیں ہوں گے۔تبلیغ ہوگی مگر تاثیر نہیں ہوگی۔ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں وَاۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ سے پہلے خُذِ الۡعَفۡوَ کو بیان کیا یعنی پہلے اپنا رویہ ٹھیک کرو۔دعوتِ دین شروع کرنے سے پہلے دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنا سیکھیں اور اچھے اخلاق، ہمدردی اور محبت اختیار کریں، تب ہی دعوت اور تبلیغ مؤثر، فائدہ مند اور کارآمد ثابت ہوگی۔ یہ انسانی فطرت ہے لوگ تبلیغ، تقریر اور خطاب سے اتنا اثر نہیں لیتے، جتنا سیرت و کردار سے اثر لیتے ہیں۔ جو تبلیغ کے ذریعے ہم کہنا چاہتے ہیں اگر وہ ہمارے اندر نظر آئے اور ہم وہ کر رہے ہوں تو اسے دیکھ کر لوگ جلد بدلتے ہیں اور اس کا اثر لیتے ہیں۔اس لیے اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے فرمایا:
لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ.
(الاحزاب، 33: 21)
”فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے۔ ‘‘
خطباء، مبلغین، واعظین، اساتذہ، وارثانِ منبر و محراب، سوشل میڈیا کے محاذ پر سرگرم سکالرز، طلبہ و طالبات اور والدین یاد رکھ لیں کہ اگر ہمارے کیے اور کہے ہوئے میں مطابقت نہ ہو تو اس سے لوگ دین سے متنفر ہوں گے۔ جس شخص کے کیے اور کہے میں تضاد ہے، اس کی زبان سے لوگ اور نوجوان نسل جب دین کی تعلیمات کو سنیں گے تو ان کی نفرت اس شخص سے نہیں بلکہ دین سے بھی ہوگی۔وہ اس بات سے بھی متنفر ہو جائیں گے جو اس نے کہی ہے۔وہ سمجھیں گے کہ یہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔یہ بظاہر؛ اچھا بننے، لوگوں سے نیکی کرنے، لوگوں کو معاف کرنے، درگزر کرنے، دل وسیع رکھنے، رحمت و شفقت سے پیش آنے، سچ بولنے، کسی کی بے عزتی و توہین نہ کرنے، ہر چھوٹے بڑے کی عزت کرنے، ہر ایک کا حیا کرنے، سخاوت کرنے، ادب کرنے، مہذب زبان استعمال کرنے، کسی کو گالی نہ دینے کا کہہ رہا ہے اور قرآن مجید و حدیث و سنت نبوی کی تعلیمات کی تبلیغ کررہا ہے مگر اس تعلیم دینے والے کے اپنے اندر غصہ بھی بھڑک رہا ہے، وہ ہر ایک پر تنقید بھی کررہا ہے، وہ دوسروں پر تہمت بھی لگا رہا ہے، الزام تراشی بھی کر رہا ہے، فتوے بھی لگا رہا ہے، کافر بھی بنا رہا ہے، اسلام سے بھی نکال رہا ہے، اس کی طبیعت میں جمہوری رویہ بھی نہیں ہے، اچھا Behavior بھی نہیں ہے، Moral values بھی نہیں ہیں، patienceبھی نہیں ہے، Self-control بھی نہیں ہے، Anger management بھی نہیں ہے، generosity بھی نہیں ہے اورhumanity بھی نہیں ہے۔نتیجتاً اس کی شخصیت کے اس تضاد کے باعث نوجوان اس دین کے پیغام سے متنفر ہو جائیں گے جو وہ دے رہا ہے۔
شریعت پر عمل کرنا ان لوگوں کے لیے آسان ہے جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ ہے اور وہ لوگ جن کی زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کا غلبہ نہ ہو، ان کے لیے اپنی طبیعت اور مزاج و عادت کو بدل کر احکاماتِ الہٰیہ کی طرف متوجہ ہونا مشکل ہے
یہ المیہ امتِ مسلمہ کے ساتھ ہورہا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ تبلیغ کا اثر کیوں نہیں ہورہا ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغ کرنے والے خود شریعت کی بات کررہے ہیں لیکن ان کی اپنی طبیعت؛ شریعت سے متضاد ہے۔اس سبب سے لوگ دین سے متنفر ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں پہلے طبیعت کی بات کی اور بعد میں شریعت کی بات کی۔ جب فرمایا خذ العفو، معاف کرنے والے بنو تو یہ بھی احکامِ شریعت میں سے ہی ایک حکم ہے مگر ایک ایسا حکم ہے جو طبیعت کو بدل رہا ہے، طبیعت کی تنگی دور کر رہا ہے اورطبیعت سے غصہ نکال رہا ہے۔ جس آدمی کی طبیعت میں غصہ ہے، وہ دوسرے کو معاف نہیں کر سکتا۔ اگر وہ بظاہر زبان سے معاف کر بھی دے مگر اس کا دل معاف نہیں کر رہا ہوگا، اس لیے کہ اس کے اندر گھٹن ہے۔ پس جس بندے کی طبیعت میں گھٹن ہے، وسعت نہیں ہے تو اس کا دین کی تبلیغ کرنا کوئی بھی اثرات مرتب نہیں کرتا۔
اس کے بعد پھر فرمایا: واعرض عن الجاھلین ؛جب طبیعت کو بدل کر شریعت کا حکم آگے پہنچائیں گے تو پھر استقامت بھی چاہیے۔ اس لیے کہ بے شک تبلیغ کرنے والے نے برا بھلا کہناچھوڑ دیا، دوسروں کو للکارنا، چیلنج کرنا اورالزام دینا چھوڑ دیااور ہر مثبت طریقہ اپنالیا، لیکن ابھی چیلنجز باقی ہیں۔ اس لیے کہ اچھی و مثبت بات، شریعت کا پیغام اور تبلیغ کے جواب میں منفی ردعمل آئے گا۔ ممکن ہے لوگ منفی جواب دیں تو اس مرحلہ پر جاہلوں کی باتوں پر کان نہ دھریں۔ان سے نہ الجھیں اور نہ رد عمل دیں بلکہ انھیں نظر انداز کریں۔
آیت مبارکہ کی ابتدا بھی معاف کرنے سے ہورہی ہے اور انتہا بھی معاف کرنے پر ہورہی ہے اور دونوں کے درمیان میں تبلیغ اور شریعت کا حکم ہے۔ اس آیت مبارکہ میں تین احکامات ہیں، جن میں سے دو احکام طبیعت سے متعلق ہیں اور ایک حکم شریعت کی تبلیغ سے متعلق ہے۔”خذ العفو، یہ حکم؛ طبیعت، معافی، وسعتِ قلبی، پیار و محبت اور سخاوت سے متعلق ہے اور آخری حکم ”واعرض عن الجاہلین، صبر، ضبطِ نفس، دوسروں کی منفی باتوں کو نظر انداز کرنے اور ان سے اچھے طریقے سے معاملہ کرنے سے متعلق ہے۔ ان دو احکام کے درمیان وامر بالعرف؛ شریعت کی تبلیغ کا حکم ہے۔ گویا اس آیت کا دو تہائی حصہ (66 فیصد) طبیعت کے متعلق ہے اور ایک تہائی حصہ (33 فیصد) شریعت کے متعلق ہے۔
طبیعت سے خلق اور اخلاق پیدا ہوتا ہے اور یہ اس وقت کام دیتا ہے جب طبیعت سے ”خذالعفو“کے مصداق تنگ نظری، تنگ ظرفی اور تنگ دلی ختم ہو جاتی ہے اور بندہ اپنے آپ سے ماورآء ہوکر سوچنے لگتا ہے۔ تنگ نظر آدمیalways capturing himself یعنی ہمیشہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے۔ جب کہ وہ شخص جس میں وسعت ا ٓجاتی ہے، اس کے من میں کوئی Stress ہوتا ہی نہیں ہے۔
اس آیت کریمہ میں مذکورہ تینوں درجات؛ معاف کرنے کا رویہ، دین و شریعت کی تبلیغ اور دوسروں کے منفی رد عمل کو نظر انداز کرنا اور ان کی طرف سے کیا جانے والا ہر ردعمل برداشت کرنا، ان تینوں کا ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ اگر ہم دوسروں کے منفی ردعمل کے جواب میں منفی ردعمل دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے رویے اور طبیعت؛ شریعت کے قابو (Control) میں نہیں ہیں بلکہ لوگوں کے رویوں اور اعمال کے قابو میں ہیں۔ جب ہمارے کردار و عمل پر دوسروں کا کردار و عمل اثر انداز ہو اور ہمارا ردعمل دوسروں کے ردعمل سے پیدا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا اپنی طبیعت پر کچھ کنٹرول نہیں ہے۔ گویا دوسرا جو کچھ کر رہا ہے، ہم اس میں Engage ہو گئے ہیں اور شریعت اور طبیعت کے اخلاص سے Disengage ہوگئے۔ اس طرزِ عمل سے نکلنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو غلط لوگوں اور ان کے غیر اخلاقی رویوں سے متاثر ہوکر اُن جیسا عمل کرنے سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
قرآن مجید میں حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت مبارکہ کے بیان کے لیے مذکور الفاظ و حروف کاانتخاب اور ان کی حکمت
آیئے! اب قرآن مجید کی روشنی میں حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ ۚ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ.
(آل عمران، 3: 159)
اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔
اس آیت کریمہ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طبیعت بیان کی گئی ہے۔اس آیت کریمہ میں استفہام کا مفہوم ہے کہ اے میرے حبیب ﷺ آپ پر اللہ کی کیا عجیب رحمت ہے؟آپ اتنے نرم خُو، ملائم اور شفقت بھرا دل رکھتے ہیں کہ یہ سارے لوگ جو ہر وقت آپ کے ارد گرد پھرتے ہیں، جھرمٹ بنائے رکھتے ہیں، آپ کو تکتے رہتے ہیں، آپ کے ایک اشارے پر گردنیں کٹوا دیتے ہیں، سیکڑوں زخم اپنے جسم پر کھا کر لہو لہان ہوتے ہیں مگر پھر بھی جب آپ بلاتے ہیں تو دوڑے دوڑے چلے آتے ہیں۔ اگر آپ سخت دل اور سخت طبیعت ہوتے تو یہ آپ کو چھوڑ کر جا چکے ہوتے۔
اس آیت کریمہ کا ایک ترجمہ تو وہی ہے جو اوپر درج کیا گیا ہےمگر اس آیت کا ایک اور زاویہ بھی ہے جو ترجمہ میں موجود نہیں اور وہ اس آیت کا تجویدی و تعبیری زاویہ ہے۔ قرآن مجید کو احسن انداز میں پڑھنے کے قواعد کا علم علمِ تجوید ہے۔ تجوید کے کچھ خاص قواعد ہیں۔ تجوید کے قواعد اور اس آیت کریمہ کے الفاظ و حروف اور معانی کے درمیان ایک خوبصورت مطابقت ہے۔ آیت کریمہ کا پہلا حصہ؛ ” فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ “جس میں آقا ﷺ کی طبیعت بیان کی گئی، اس کے تجویدی قواعد، ان الفاظ کا مزاج و طبیعت اور ان کی تعبیری مطابقت اور ہے جبکہ دوسرے حصہ؛ ”وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ“اس حصے کے ہر ہر لفظ اور حرف کی تجوید کا مزاج اور طبیعت اور ہے۔
شریعت کی فرمانبرداری جتنی اعلیٰ ہو تو یہ جنت میں لے جاتی ہےاور اگر طبیعت اعلیٰ ہوجائے تو وہ اللہ سے ملا دیتی ہے۔ شریعت جنت تک لے جاتی ہے اور اگر شریعت؛ طبیعت بن جائے تو طبیعت بندے کو مولیٰ تک لے جاتی ہے
اللہ رب العزت نے اس آیت کے ان دو حصوں میں جو الفاظ اور استعمال کیے ہیں، ان الفاظ اور حروف کا معنوی اثر، معنی و تعبیر اور تجوید کے قاعدہ کا مزاج بالکل الگ ہے۔یعنی دونوں حصوں میں اللہ تعالیٰ نے حرف بھی الگ استعمال کیے ہیں اور ان کا مزاج اور طبیعت بھی الگ ہے۔ یہ قرآن مجید کا معجزہ ہے۔ حروف کے مزاج کی سائنس تو آقاe کے زمانے میں ایجاد نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی علمِ تجوید ایجاد ہوا تھا۔ ان دونوں حصوں کے حروف کے مزاج کی خبر تو علم تجوید کے قواعد بنائے جانے کے بعد سامنے آئی اور اس وقت ان میں فرق کیا گیا۔ اہلِ لغت، اہلِ تجوید اور اہلِ قرأت باریکیوں میں اترے تو لوگوں کو اس زاویہ سے سمجھ آئی مگر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طبیعت کے بیان کے لیے ان حروف کا استعمال کرنا کہ وہ حروف بھی طبیعت محمدی ﷺ کے عین مطابق ہیں اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طبیعت کو ظاہر کرتے ہیں، یہ قرآن مجید کا معجزہ ہے۔ آیئے! اس زاویہ سے اس آیت کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1) فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم؛ کاتجویدی و تعبیری تجزیہ
1۔ اس آیت میں پہلا لفظ”فَبِمَا “ہے۔ جس کا پہلا حرف ’’ف‘‘ ان حروف میں سے ہے جن کے اندر صفتِ ہمس پائی جاتی ہے۔ ان حروف کو حروفِ مہموسہ کہتے ہیں۔ صفتِ ہمس کا مطلب یہ ہے کہ یہ 10 حروف (ف، ح، ث، ہ، خ، ص، س، ش، ک، ت) Whispering tone میں آہستگی (Slowly)کے ساتھ بولے اورپڑھے جاتے ہیں۔ جب ان حروف کو پڑھیں تو سانس بڑی آہستگی اور نرمی سے جاری رہنا چاہیے۔اس آیت میں چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی طبیعت کا بیان ہو رہا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی اس طبیعت کے بیان کو جن حروف سے ذکر کیا، ان میں بھی نرمی (softness) ہے۔اس حرف کے اندر ایک mercifulnessہے۔پس اس آیت کریمہ کا آغاز حروفِ ’’ف‘‘ سےکرکے اللہ تعالیٰ نےآقا علیہ الصلوۃ والسلام کی softnessاورgentlenessکا پیغام دیا۔
2۔ ”فَبِمَا “کے بعد فرمایا: ”رَحۡمَۃٍ “، یہ لفظ بذاتِ خود اپنے وجود میں محبت و شفقت پر دلالت کرتا ہے۔
3۔ اس آیت میں ایک لفظ؛ لِنۡتَ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ میں موجود حرف لام کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر حرفِ لام، اسمِ جلالت اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال ہو تو اس میں ترقیق ہوتی ہے یعنی یہ رقیق پڑھا جاتا ہے۔ اس کی آواز باریک (thin) ہونی چاہیے، بھاری (thick ) نہیں ہونی چاہیے۔ پس لفظ ’’لِنْتَ‘‘ میں لام بھی thin, light and whispering tone کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔
4۔ لِنۡتَ کے لفظ میں دوسرا حرف ”نون “ہے، اس کے اوپر جزم دے کے اس کی آواز کو بھی نرم کرتے ہوئے اس کا بھاری پن ختم کر دیا۔
5۔ لفظ لِنۡتَ کی”ت‘‘ بھی حروفِ مہموسہ میں سے ہے۔ گویا اس میں بھی humility اور softness ہے۔
6۔ اس آیت میں ایک لفظ ”لَہُمۡ “ہے، اس کا پہلا حرف ’’ل‘‘ ہے، جسے یہاں بھی ترقیق (thin) پڑھا جائے گا۔
گویا اس آیت کریمہ کے پہلے حصہ فبما رحمۃ من اللہ لنت لہم میں آقاe کی طبیعت بیان کی گئی ہے اوراس میں اللہ تعالیٰ نے الفاظ کے اندر جو بھی حرف منتخب فرمایا، ان میں سے ہر ایک حرف نرمی اور رحمت کی صفت کا حامل ہے۔ وہ بھاری نہیں بلکہ نہایت ہلکی اور لطیف آہنگ رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت بیان کرنے کے لیے وہی حروف استعمال کیے جن حروف کی اپنی طبیعت بھی نرم اور مہربان لہجے کی ہے۔
(2) ولوکنت فظا غلیظ القلب لانفضوا من حولک کا تجویدی و تعبیری تجزیہ
آیئے! آیتِ کریمہ کے دوسرے حصہ؛ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ کا بھی اس طرح تجزیہ کرتے ہیں:
1۔ اس حصہ میں”فَظًّا“ کا مطلب سخت جو اور سخت طبیعت ہے۔ اس لفظ کا پہلا حرف؛ ’’ظ‘‘ ہے۔ یہ حروفِ مستعلیہ میں سے ہے۔حروفِ مستعلیہ میں آواز بھاری اور اونچی ہوتی ہے۔ ان کو ادا کرنے کے لیے نرم، دھیمی اور نازک آواز استعمال نہیں ہوتی۔ان حروف کے مزاج میں عالی پن، علو اوراونچا پن ہے۔جب یہ حروف پڑھے جاتے ہیں تو انہیں اونچی اور بھاری آواز میں پڑھا جاتا ہے۔
2۔ اس آیت مذکور ایک لفظ ’’غلیظ‘‘ ہے۔ اس لفظ کا پہلا حرف’’غ‘‘ بھی حروفِ مستعلیہ کے سات حروف (خ، ص، ض، غ، ط، ق، ظ)میں سے ایک ہے۔ لفظ ’’غلیظ‘‘ کا آغاز بھی حروفِ مستعلیہ میں سے ’’غ‘‘ کے ساتھ ہے اور اختتام بھی حروفِ مستعلیہ میں سے ’’ظ‘‘ پر ہے۔
3۔ ’’القلب‘‘ میں”ق“اور ’’ب‘‘ دونوں حروفِ قلقلہ میں سے ہیں۔ان حروف کی ادائیگی میں جنبش پائی جاتی ہے۔ یہ سکون کے خلاف ہے۔ حروفِ قلقلہ کوEco lettersکہتے ہیں۔یہ اونچی آواز میں ادا کیے جاتے ہیں اور آواز پلٹ کر واپس آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نےجہاں نبی اکرم ﷺ کی طبیعت مبارکہ بات کی، وہاں ایک بھی بھاری اور اونچی آواز والا حرف استعمال نہیں کیا بلکہ سبھی الفاظ دھیمے اور خفیف مزاج والےاستعمال کیے۔جیسے حضور نبی اکرم ﷺ کی طبیعت میں نرمی ہے، ویسے ہی بیان کردہ ہر لفظ او رہر حرف میں نرمی ہے۔جہاں طبیعتِ محمدی ﷺ بیان ہو رہی ہے، ان الفاظ میں ’’سکون‘‘ کا اظہار ہے اور جہاں دوسراانداز بیان کیا ہے، وہاں تحرک ہے۔
مفسرین نے تفاسیر میں اس موضوع کو کبھی بیان نہیں کیا۔ میری کتاب جو مقدمہ تفسیر قرآن پر ہے، میں نے اس میں قرآن مجید کے اعجازِ بیانی کے چند ابواب قائم کیے ہیں، اس کے اندر ان چیزوں کو جزوی طور پر بیان کیا ہے۔وہ بیان بھی تجوید کے قواعد سے نہیں بلکہ بیان کے قواعد سے ہے اوروہ ایک مختلف رنگ ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ آقاe کی طبیعت کو رب العزت نے اس خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ یہ راز جو میں نے ابھی بیان کیا، یہ عقدہ تو بعد میں اس وقت کھلا جب علم ِتجوید وجود میں آیا۔یہ الفاظ اور حروف آقاe نے تو تشکیل نہیں دیے تھےبلکہ یہ تو اللہ کی وحی ہیں جو آقاe پر جبرائیل امینe لے کر آتے تھے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ جہاں جو معنی درکار تھا، وہاں لفظ اور حرف بھی وہ استعمال ہوئے جن کے اندر معنی بھی وہی تھا۔
اس آیتِ کریمہ کے اس انداز سے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ نرمی آقا ﷺ کی طبیعت ِ مقدسہ کا نمایا ں اور nucleus point ہے۔ جو لوگ چاہیں کہ انھیں محمدی طبیعت کا فیض ملے اور وہ محمدی طبیعت، فطرت، مزاج اور اخلاق کی پیروی (follow) کرنا چاہیں، ان کےلیےلازم ہے کہ وہ اپنی طبیعت میں نرمی پیدا کرلیں اور اپنے اندر سے سختی کو دور کرلیں۔
(جاری ہے)