شیخ الاسلام کی کتب کی تقریب رونمائی (اسلام آباد )

خصوصی رپورٹ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی 5 نئی علمی و تحقیقی کتب؛ الفتح الکبیر فی علوم التفسیر، تفسیر سورۃ الفاتحہ، القول المبین فی تفسیر ایاک نعبد و ایاک نستعین، الروض الباسم من خلق النبی الخاتم ﷺ اور الانوار من سیرۃ سید الابرار ﷺ کی پروقار تقریبِ رونمائی پاک چائنہ فرینڈشپ سینٹر اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ چیئرمین سپریم کونسل ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، تحریک منہاج القرآن کے جملہ مرکزی قائدین، اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے اس محفل میں خصوصی شرکت کی۔ 10 ستمبر 2025 ءکو منعقد ہونے والی یہ تقریب عشقِ رسول ﷺ کے دیوانوں اور علم و دانش کے پیاسوں کا ایک عظیم الشان اجتماع تھی۔ یہ نبی اکرم ﷺ کے 1500 ویں میلاد کی مناسبت سے سجائی گئی، اپنی نوعیت میں ایک منفرد اور یادگار تقریب تھی۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی نئی علمی و فکری تصانیف کو اس تقریب میں شریک اہل علم و دانش نے علم، تحقیق اور عشقِ رسول ﷺ کا شاہکار قرار دیا۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ممتاز اہلِ علم و دانش اور فکری رہنماؤں نے شیخ الاسلام کے علمی اور فکری مقام و مرتبے کا برملا اعتراف کیا۔ یہ اجتماع اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ جب علمی اور تحقیقی کام کو اخلاص کے ساتھ پیش کیا جائے تو اس کی خوشبو سرحدوں اور مسلکی اختلافات سے ماورا ہو کر ہر دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ یہ تقریب محض کتب کی رونمائی نہیں تھی بلکہ یہ ایک پیغام تھی کہ علم، محبت اور تحقیق ہی کے ذریعے باہمی ہم آہنگی، رواداری اور اتحاد کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔

اس پروقار محفل کا آغاز روح پرور تلاوتِ کلامِ پاک اور نعتِ رسولِ مقبول ﷺ سے ہوا، جس نے ہر دل کو نورِ ایمان سے منور کر دیا۔ نقابت کےفرائض محترم عین الحق بغدادی، محترم ڈاکٹر محمد فاروق رانا، محترم علامہ اشفاق چشتی، محترم احمد نواز انجم، محترم کرنل (ر) خالد جاوید اورمحترم انجینئر محمد رفیق نجم نے سر انجام دیے۔ عربی اور اردو زبانوں میں تصنیف کی گئی شیخ الاسلام کے علمی و فکری ویژن کی مظہر ان کتب کی تقریب رونمائی کے موقع پر مہمانانِ گرامی نے جن خیالات کا اظہار کیا، اس کی ایک اجمالی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

1۔ محترم خرم نواز گنڈا پور (ناظم اعلیٰ منہاج القرآن انٹر نیشنل) نے استقبالیہ کلمات میں جملہ شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اگر ہم گزشتہ چند دہائیوں پر نظر ڈالیں تو مغرب کے سامنے اسلام کا جو چہرہ پیش کیا گیا، وہ ایک ایجنڈے کے تحت تھا۔ اسلام کو دہشت گردی، شدت پسندی اور انتہا پسندی سے جوڑا گیا اور چند افراد کی حرکات کو تمام عالمِ اسلام کے چہرے پر چسپاں کر دیا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری وہ پیکرِ شجاعت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے 2010 ءمیں پاکستان میں فتنہ خوارج کی نشاندہی کی۔ انہوں نے دنیا کو بتایا کہ دہشت گردی کا یہ بدنما دھبہ اسلام کا اصلی چہرہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ اللہ رب العزت یا تاجدارِ کائنات ﷺ کی تعلیمات ہیں۔ اسلام کی اصل روح کو اجاگر کرنا اور دنیا کو اسلام کا حقیقی چہرہ متعارف کرانا، اسی طرح شدت پسندی اور انتہا پسندی کو رد کرنا، ان تمام کارناموں کا سہرا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر سجتا ہے۔ آج منہاج القرآن کی دینی، علمی، تحقیقی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے پورا عالم اسلام شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کی عالمگیر خدمات کا معترف ہے۔ جب تک اسلام علم، تحقیق اور سائنس سے جڑا رہا، اس کا ایک درخشاں دور تھا جس کی گواہی تاریخ دیتی ہے، لیکن جب مسلمانانِ عالم علم اور سائنس سے دور ہو گئے اور کتاب دوستی چھوڑ دی تو ان کا زوال شروع ہو گیا۔ شیخ الاسلام نے اپنی تصنیفات کے ذریعے نہ صرف قرآن حکیم کی تشریح کی بلکہ تاجدارِ کائنات ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کر کے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کر دی کہ آپ جیسا انسان نہ کبھی تھا، نہ ہے اور نہ ہی قیامت تک آئے گا، کیونکہ آپ ہی رحمۃ للعالمین ہیں۔ اسی طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی بین المذاہب روادرای اور المسالک ہم آہنگی کے حوالے سے گراں قدر خدمات بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

2۔ محترم محمد سرور منیرراؤ (مصنف، محقق، کالم نگار، ڈائریکٹر پی ٹی وی اکیڈمی) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ جب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں درس و تدریس کا آغاز کیا، تو میں بھی وہاں علمِ سیاسیات کا طالب علم تھا۔ وہ فطرتی طور پر ہی ایک معلم ہیں۔ 'طاہر' کا کیا مطلب ہے؟ اس کے جواب کے لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کے چہرے پر توجہ دیں۔ آپ انہیں اپنا مرشد، مجتہد، مصنف، عالم یا اسکالر کہہ سکتے ہیں، لیکن ان کے چہرے سے نکلنے والی روشنیاں اس طہارت کی ہیں جو علم، فکر اور تحریک میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ وہ شخص جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کررہا ہو۔ ایسے شخص کا چہرہ دوسروں کے مقابلے میں بڑا نمایاں ہوتا ہے اور اس کے چہرے سے نکلنے والی روشنی آپ کو اس کی طرف دیکھنے کی تحریک دیتی ہے۔

ڈاکٹر طاہرالقادری شیخ التفسیر یا شیخ القرآن نہیں بلکہ شیخ الاسلام ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ہمہ جہت اور ہشت پہلو ہے۔ ان کی عالمی اور دینی خدمات پر کئی پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہیں۔ ایک موضوع یہ ہے کہ انہوں نے روایتی دینی تعلیم اور جدید عصری علوم کو یکجا کر کے ایک ایسا علمی مقام حاصل کیا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمِ اسلام کے لیے بھی منفرد ہے۔ قرآن فہمی میں ان کی خدمات بے مثال ہیں اور ان کا ترجمۂ قرآن 'عرفان القرآن' ایک روشن مثال ہے۔ دوسرا پہلو ان کے تحقیقی اور تصنیفی کارنامے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا شمار ان چند اہل علم میں ہوتا ہے جن کی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ ان کی تصانیف کے موضوعات میں قرآن و سنت، فقہ، تصوف، جدید سماجی و سیاسی مسائل اور بین المذاہب تعلقات سب شامل ہیں۔ ان کی تصنیف 'اسلام اور دہشت گردی' نے عالمی سطح پر اسلام کے حقیقی پیغام کو اجاگر کیا ہے۔

تیسری ڈاکٹر یٹ ان کے اصلاحی اور احیائی کردار پر ہو سکتی ہے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے اس دور میں جب اسلام کی تصویر مسخ کی جا رہی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی بلند اور واضح آواز میں یہ اعلان کیا کہ یہ سوچ اسلام سے کوئی تعلق نہیں رکھتی اور اس حوالے سے ایک تاریخی دستاویز بھی تحریر کی۔ آج منہاج القرآن انٹرنیشنل نوے سے زیادہ ممالک میں روحانی اور سماجی خدمات کا مرکز ہے۔ میں نے بہت سے ممالک کا سفر کیا ہے اور میں حیران رہ جاتا ہوں کہ ہر جگہ انھوں نے شمعیں روشن کر رکھی ہیں۔ ہر جگہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پھول بکھرے ہوئے نظر آئیں گے۔

ان پر ایک اور ڈاکٹر یٹ ایک عظیم مبلغ اور خطیب ہونے کی حیثیت سے ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کا فنِ خطابت اور فنِ ابلاغ ہے۔ وہ دیہات کے ایک عام سامع کو بھی اسی مؤثر انداز میں مخاطب کرتے ہیں جس طرح وہ آکسفورڈ اور ہارورڈ کے اسکالرز سے بات کرتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو ان کا عالمی مقام اور اس کا اعتراف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بارہا دنیا کے بااثر ترین مسلم اسکالرز میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ ان کی تقاریر، کتب اور لیکچرز دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ دراصل ڈاکٹر طاہرالقادری ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک ہیں اور ان چنیدہ افراد میں سے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔

3۔ محترم سیداظہرعباس (سینئرڈائریکٹر، ریلیجیس ایجوکیشن) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ایک مردِ قلندر اور ایک مردِ آہن کی سوچ، گفتگو اور ان سنگِ میلوں کی بات ہو رہی ہے جو انہوں نے اپنے علم، حکمت اور تدبر سے حاصل کیے۔ وہ اس پُرآشوب دور میں اسلام کے سپاہی بن کر سامنے آئے جب واقعی کسی معتدل شخص کی ضرورت تھی۔ یہ ڈاکٹر علامہ محمد طاہرالقادری کی ہی شخصیت ہے جنھوں نے جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی گفتار، کردار اور تعلیمات کو نہ صرف دنیا میں اجاگر کیا بلکہ ایک ایسی نسل تیار کی جو انتہا پسندی کے خلاف تھی اور جس نے سینہ سپر ہو کر اس کا مقابلہ کیا۔ آج یہ کہنا بہت آسان ہے، لیکن جب جناب طاہرالقادری صاحب نے یہ علم اٹھایا تو اس وقت یہ بڑے دل گردے کا کام تھا۔

جناب ڈاکٹر طاہرالقادری نے قرآن مجید اور ذاتِ مصطفیٰ ﷺ انہی دو چشموں سے امت کو فیضیاب کیا اور ایک نئی جہت دی۔ انہوں نے اپنا پیغام نہ صرف پاکستان کے نوجوانوں کو دیا بلکہ اسے پوری دنیا میں پھیلایا۔ آج ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عالم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی معتدل اسلامی شخصیت بھی ہیں کہ جن کا ذکر کرکے ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ وہ ایک پاکستانی مسلمان ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جنہوں نے علم کے گلشن میں ایسے ایسے پھول لگائے کہ ہر پھول کی اپنی خوشبو ہے۔ وہ نہ صرف ذہنوں کو معطر کرتی ہے بلکہ انسان کی روح میں ڈھل کر کردار کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور یہی وہ کردار ہے جس کی ضرورت اس وقت مسلمانوں کو ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت بہت بڑی ہے اور اس پر گھنٹوں گفتگو کی جا سکتی ہے۔ کاش ہم سب ان کے افکار کو اپنائیں اور ایک سچے اور کھرے مسلمان بن جائیں۔

4۔ محترم محمد نعیم علی گجر ایڈوکیٹ (صدراسلام آبادبارایسوسی ایشن) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے اپنے کچھ مشاہدات شرکاء کے ساتھ شیئر کیے کہ مجھے کچھ روز قبل برطانیہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس ملاقات کے دوران بہت سے اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا اور کئی حوالوں سے رہنمائی ملی۔ ایک ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات کے دوران میں اس وقت حیران رہ گیا کہ جب شیخ الاسلام کو ہوٹل میں دیکھ کر کئی لوگ ان سے ملاقات کے لیے آئے۔ ایک پاکستانی بزرگ نے کہا کہ برطانیہ میں مقیم ہم مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو بہت سے مسائل مثلا بچوں کے دین و ایمان کو بچانا، نوجوان نسل کو راہ راست پر رکھنا، کسی کی فوتگی کی صورت میں تجہیز و تکفین کا انتظام کرنا، وغیرہ کا سامنا تھا۔ مگر جہاں جہاں منہاج القرآن کے اسلامک سنٹرز ہیں، انھوں نے ہمارے ان تمام معاملات کو احسن طور پر حل کیا۔ وہاں موجود کئی پاکستانی اور مسلم فیمیلیز نے بھی اپنے اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیااور ڈاکٹر صاحب کے کارناموں اور خدمات پر بات کی۔ میں یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو پاکستان نہیں ہے، اگرچہ پاکستان میں بھی ماشاءاللہ ڈاکٹر صاحب کا اپنا ایک مقام اور کردار ہے مگر بیرون ممالک ایسا منظر دیکھ کر مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونے لگا۔

5۔ محترم ڈاکٹر محسن ضیاء قاضی (چیئرمین شعبہ اسلامیات، مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد) نے اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہناتے ہوئے کہا کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980ء میں جس تحریک کی بنیاد رکھی تھی، آج وہ دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک میں علم اور تحقیق کے ایک ایسے شجر کی صورت اختیار کر چکی ہے جو اپنے ثمرات سے دنیا کو مستفید کر رہی ہے۔ اگر آپ ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی کا مشاہدہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کی پوری زندگی رسول اللہ ﷺ سے محبت، الفت اور وارفتگی کی حد تک عقیدت سے عبارت ہے۔ آپ نے رسول ﷺ کے اصحاب اور آل کی محبت اور عقیدت پر ڈٹ کر پہرہ دیا۔ علمی اور تحقیقی اعتبار سے آپ نے سیکڑوں اسکول، کالج، مدارس اور اسلامک سینٹرز قائم کیے ہیں جو پوری دنیا میں کام کر رہے ہیں۔ 1980ءسے آج تک شیخ الاسلام کا مطمع نظر صرف اور صرف دین کی خدمت رہا ہے، چاہے وہ علمی اور کتابی حوالے سے ہو یا لوگوں کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے۔ آپ کی ساری زندگی رسول اللہ ﷺ کی ذات اور دینِ اسلام کی عظمت و رفعت کی محافظت کے لیے وقف رہی ہے۔

شیخ الاسلام کی جن کتب کی تقریبِ رونمائی ہورہی ہے، ان میں سے ہر ایک کتاب ایک خوبصورت علمی شہکار ہے۔ ان کتب میں ان تمام موضوعات پر بات کی گئی ہے جن پر اپنے اور غیر دونوں اعتراضات کرتے ہیں۔ آپ نے ان اعتراضات کا علمی محاکمہ فرمایا ہے اور دلائل سے عقائد صحیحہ کو بیان کیا ہے۔ اللہ کے حضور دعا ہے کہ وہ اس تحریک کو، آپ کی علمی کاوش کو اور آپ کے اس سلسلے کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔

6۔ محترم ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم (ڈائریکٹر اقبال چیئر بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات پنجاب یونیورسٹی میں ہوئی جب وہ لاء کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کے باعث وہ مشہور تھے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی طالب علم یا استاد ان کے بارے میں بتاتا کہ ایک ایسے پروفیسر آئے ہیں جو گفتگو کریں تو قادرالکلامی ان پر ختم ہو جاتی ہے اور تحریر کریں تو تحریر خود بخود حاضر ہو جاتی ہے کہ ہم آپ کے لیے حاضر ہیں۔ میں ان کی بہت سی تحقیقی کتب دیکھ چکا ہوں، اسی سبب مجھے ان سے بہت محبت ہے۔ شیخ الاسلام نے جس خوبصورت اور جامع انداز میں تحقیق کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو اپنی کتابوں میں شامل کر کے ان کی صداقت ثابت کی ہے، وہ مجھ جیسے طالب علم کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ اور ایک عظیم خدمت ہے۔ انہوں نے عالمِ اسلام کے لیے قرآن، رسول اللہ ﷺ اور دیگر شخصیات کے حوالے سے اپنی تحریروں کے ذریعے عظیم خدمات سر انجام دی ہیں۔ مجھے مختلف ممالک میں ان کے مراکز دیکھنے کا بھی موقع ملا، ان میں سے ہر مرکز اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی جن کتب کی رونمائی آج ہو رہی ہے، وہ تمام کتب اعلیٰ تحقیقی نوعیت کی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی ہر کتاب علمی اور تحقیقی اعتبار سے ہر استاد کے لیے ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے علماء اور اساتذہ بہت سی چیزیں بیان کرتے ہیں، لیکن ان میں مکمل حوالوں اور تحقیق کے ساتھ مواد موجود نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر طاہرالقادری پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہے۔ ان کی یہ کتابیں اور تعلیمات ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

7۔ محترم علامہ ڈاکٹر محمد تنویر علوی (ناظم اعلی جامعہ محمد یہ اسلام آباد) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تصنیف کا میدان کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ جب آدمی اس میدان میں قدم رکھتا ہے، تو اس کی فہم اور عدل کی گہرائی جانچ لی جاتی ہے اور اس کی قدر و قیمت سامنے آ جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ ماشاء اللہ 'کثیرالتصانیف' ہیں۔ دنیا میں ہر دور میں مصنفین آتے رہے ہیں لیکن 'کثیرالتصانیف' ہونے کا اعزاز چند مصنفین کے حصے میں آیا ہے۔ جیسے قدیم دور میں محمد ابن جریر طبری، ابنِ حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی رحمھم اللہ تعالیٰ جیسی شخصیات شامل ہیں۔ اگر ہم عہدِ حاضر کی بات کریں تو ہمیں کثیرالتصانیف شخصیات میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری سر فہرست نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تصنیفات کا ایک بنیادی امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے قدیم علمی ذخیرے کو نئی نسل تک پہنچانے کے لیے اسے دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے اور اسے ایک آسان اور دلنشین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ یہ ان کی تصنیفات کا ایک نمایاں وصف ہے۔ ایک اور اعزاز جو ڈاکٹر صاحب کی تصنیفات میں نظر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں انتہائی وسیع المطالعہ بنایا ہے۔ کوئی علم و فن ایسا نہیں جو ان کی نظروں سے اوجھل ہو۔ الحمدللہ ہر فن پر ان کی کتابیں موجود ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تمام تصنیفات میں قرآن و سنت سے دلائل اور اہلِ بیت اطہار علیھم السلام سے محبت اور ان کا دفاع کرنا نمایاں وصف ہے۔ اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب کی تمام کتابوں کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور انہیں انسانیت کے لیے مفید سے مفید تر بنائے۔ اور لوگوں کو ان سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے۔

8۔ محترم ڈاکٹر جسٹس (ر) سید محمد انور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چند ماہ قبل لاہور میں منہاج یونیورسٹی کے اندر ایک بہت بڑا بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوا تھا، جس میں تیس سے پینتیس ممالک سے اسلامک اکنامک سے وابستہ علماء شامل تھے۔ اس سیمینار میں مجھے بھی بلایا گیا تھا۔ وہاں شیخ الاسلام کے متعلق میں نے ایک جملہ عرض کیا تھا، جسے میں اپنی گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے دہرانا چاہوں گا کہ آج کی اس دنیا میں علمی میدان کے اگر کوئی ذوالقرنین ہیں تو وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔ ایک لمحے کے لیے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ شاید یہ مبالغہ تو نہیں، مگر آج مجھے اس محفل میں شریک ہو کر یقین ہو گیا ہے کہ یہ بالکل مبالغہ نہیں تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس نے بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات گرامی سے وفا کی، اس کا ثمر وہی ہوتا ہے جو ہمیں نظر آ رہا ہے۔ میں نے جو جملہ ابتدا میں عرض کیا، اس کا اعادہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اسے مبالغہ نہ سمجھیں۔ ایک ایسی شخصیت جن کا وجود اس وقت عملاً کینیڈا میں ہے، اس کے باوجود ان کی ہستی کا اثر پوری دنیا پر مستقل طور پر موجود ہے۔ معنوی طور پر وہ اپنے صاحبزادے محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی شکل میں موجود ہیں اور عملی طور پر وہ اپنی کتابوں کی صورت میں ہمارے درمیان ہیں۔

آج جن کتب کی رونمائی ہے، سوال یہ ہے کہ کیوں یہ کتابیں دیگر کتب سے مختلف ہیں، جبکہ اسی موضوع پر اور کتابیں بھی مل سکتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کتب 'لٹریچر ریویو' کے لحاظ سے اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں۔ جس موضوع پر بھی یہ لکھی گئی ہیں، اس موضوع پر موجود تمام اسلامی دنیا کا مواد اس میں یکجا ہے۔ یہ وصف ڈاکٹر حسن صاحب کو بھی ورثے میں ملا ہے اور بدرجہ اتم ملا ہے۔ ان کے پی ایچ ڈی Thesis میں اس کا ظہور جا بجا نظر آتا ہے۔

قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا۔ لیکن علامہ طاہرالقادری جیسی شخصیات کو دیکھ کر ایک آس اور امید ہے کہ ابھی علم نہیں اٹھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عالم کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ آج کے دور میں جیتا ہے، وہ ماضی یا کسی اور دور میں نہیں جیتا۔ ان تمام کتب کا اگر عمیق مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے بہت ہی شائستگی اور کامیابی سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری روایت، جس سے جڑا رہنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے، کس طرح آج بھی ہماری رہنما ہے اور کل بھی ہماری رہنما رہے گی۔ یہ وہی عالم کر سکتا ہے جسے آج کا، گزشتہ کل کا اور آنے والے کل کا پورا ادراک ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ہر کتاب میں، تقریباً ہر صفحے پر، یہ پیغام دیا ہے کہ کس طرح سیرت النبی ﷺ اور قرآن کریم ہماری رہنمائی آج بھی کرتے ہیں اور ان شاء اللہ ہمیشہ کرتے رہیں گے۔

ان کتب میں علمی اعتبار سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہ طلبہ اور علماء سب کو مد نظر رکھنی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے جو عجیب و غریب اشکالات اور ابہامات پیدا کیے جاتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے ان کو بھر پور طریقہ سے رفع کیا ہے اور موضوع سے متعلق مستند عربی عبارات بھی شامل کی ہیں۔ پہلے صرف فٹ نوٹ اور حوالہ دیا جاتا تھا، لیکن ان کی کتب میں عربی عبارتوں کا بالخصوص اہتمام کیا گیا ہے تاکہ بات کو مستند بنایا جا سکے اور لوگوں کا ایمان پختہ کیا جا سکے۔ اس سے ہر کتاب کا اثر اور تاثیر دگنی ہو گئی ہے۔

9۔ محترم عبداللہ حمید گل (چیئرمین تحریک جوانان پاکستان) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ 'چھوٹے ذہن' لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، 'درمیانے ذہن' واقعات پر گفتگو کرتے ہیں اور 'عظیم ذہن' خیالات (ideas) پر بات کرتے ہیں۔ میرے نزدیک 'عظیم ترین ذہن' وہ ہوتے ہیں جو نہ صرف عظیم خیالات سے دنیا کو روشناس کرتے ہیں بلکہ ان پر عمل کر کے بھی دنیا کو دکھاتے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت کا مطالعہ کریں تو وہ اس آخری زمرے میں آتے ہیں۔ وہ عظیم ذہن نہیں بلکہ عظیم ترین ذہن ہیں۔ انہوں نے نہ صرف عظیم خیالات دیے بلکہ دنیا کے 90ممالک میں ان کی عملی تعبیر بھی دکھائی۔ آپ ڈاکٹر بھی ہیں، پروفیسر بھی ہیں، شیخ القرآن بھی ہیں، شیخ الحدیث بھی ہیں اور پھر شیخ الاسلام بھی ہیں۔ آپ نے ایک ایسی نسل کی رہنمائی ہے جو دنیا میں ایک مختلف سوچ پیدا کر رہی ہے۔ یہ امر حیران کن ہے کہ ایک مختصر سے عرصہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے کتنا طویل سفر کیا۔ پاکستان سے شروع ہوئے اور آج پوری دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔

وہی علم نافع ہوتا ہے جو اللہ کے نام سے پڑھا جائے۔ اسی لیے کہا گیا کہ "پڑھ اپنے رب کے نام سے"۔ یہ وہ علم ہے جو ڈاکٹر طاہرالقادری ہمیں دے رہے ہیں۔ علم بانٹنے والے لوگ امر ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی یا سانسوں کی پرواہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ لوگوں کی سوچ اور فکر میں بستے ہیں۔ بہت سارے لوگ دنیا میں آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی کتب کی ایک طویل فہرست ہے جو یقیناً ایک خزانہ ہے۔ میں اکثر غیر ملکی سفارت خانوں میں جاتا ہوں تو وہاں کے سفراء ڈاکٹر طاہرالقادری کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے علم کی وجہ سے بھٹکے ہوئے لوگ بھی راہِ راست پر آرہے ہیں۔ یہ وہ سچائی ہے جس کو دنیا اور مغرب بھی سمجھ رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جانے تو جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خود بھی عظیم ہیں اور وہ لوگ جو ان سے وابستہ ہیں وہ بھی عظیم ہیں۔

10۔ محترم علامہ ڈاکٹر پیر سید علی رضا بخاری (سجادہ نشین بساں شریف آزاد کشمیر) نے شرکاء سے مخاطب ہوئے کہا کہ ربیع الاول میں رسول ﷺ کی آمدِ مسعود کے موقع پر شیخ الاسلام کی یہ کتب امتِ مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔ ان کتابوں میں علم، تحقیق، عشق، محبت، ذوق و شوق اور علم کا وہ نور موجود ہے جو آپ کی تعلیمات کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کتابیں نہیں لکھتے، وہ انقلاب لکھتے ہیں۔ ان کے علم میں تاثیر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا حضور سرور کون و مکان ﷺ کی ذاتِ گرامی سے عشق، محبت، اعتقاد، ذوق، شوق، کیف اور سرور کا تعلق اور رشتہ ہے۔ یہ فنا فی الرسول کی کیفیت ہی علم میں تاثیر پیدا کرتی ہے۔ صوفیاء کے ہاں یہی تاثیر کہیں وجد، کہیں حال، کہیں کیف، کہیں سرور، کہیں عشق و مستی اور کہیں نعرہ مستانہ کہلاتی ہے۔ یہ مختلف انداز ہیں، لیکن جب تک "حال" نصیب نہ ہو، "قال" مکمل نہیں ہوتا۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ حضرت ڈاکٹر طاہرالقادری نے وہ سمتیں عطا کی ہیں جہاں "قال" کے ساتھ "حال" ملتا ہے۔ آج کی اس جدید دنیا میں ہمارے ماضی کے دانشور، محققین اور اسکالرز کی زبان میں ڈاکٹر طاہرالقادری آج ہم سے مخاطب ہیں اور ہمیں علم پہنچا رہے ہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ وہ عشقِ مصطفی ﷺ کی خیرات اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ جب یہ تعلق قائم ہو جائے، تو اس سے بات بنتی ہے۔ جیسا کہ کسی نے لکھا تھا:

"صد کتاب و صد اوراق در نار کن
سویِ دلدار، جانبِ دلدار کن"۔

سو کتابوں اور سو اوراق کو آگ میں ڈال دےاور اپنے دل کو دلدار کی جانب متوجہ کر لے۔ یعنی، کتابوں اور اوراق سے لائبریریاں بھرنے سے بات نہیں بنتی۔ بات تب بنتی ہے جب علم نفع بخش ہو جائے اور ’احیاء العلوم‘، ’احیاءالقلوب‘ کا سبب بنے۔ یہ کام ڈاکٹر طاہرالقادری نے کر دکھایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظریات کی اس جنگ کے میدان کے فاتح ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے عشقِ محمد کی طاقت کی بنا پر پاکستان کا نظریاتی طور پر دفاع کیا۔ یہاں پر انتہا پسندی اور نفرت انگیز نظریات کو رد کیا اور امتِ مسلمہ کی رہنمائی کی۔ اللہ تعالی اس سرسبز و شاداب گلستان کو آباد رکھے اور اس فیض کے چشمے کو جاری و ساری رکھے۔

11۔ محترم علامہ عارف حسین واحدی (مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان و ممبر رحمت للعالمین اتھارٹی حکومت پاکستان) نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں علومِ قرآن، حدیث اور دیگر تمام شعبوں میں محنت کی ہے، اسی طرح انہوں نے اپنے فرزندان کی بھی بہترین تربیت کی ہے۔ جہاں وہ اتنی خوبصورت تصانیف کر رہے ہیں، اپنی اولاد کی بھی ایسی تربیت کی ہے کہ ان شاء اللہ ان کے آثار بھی اسی طرح جاری و ساری ہیں۔ میں یہاں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ ان کی خدمات اور تصانیف انتہائی قابلِ قدر ہیں۔ یہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، اللہ ان کے راستے خود کھول دیتا ہے۔ ایک طویل عرصے سےڈاکٹر صاحب نے دنیا میں ایک صحیح اور مثبت اسلام متعارف کرانے کے لیے اور اسلام کا خوبصورت اور روشن چہرہ پیش کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے اور وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔ آج ان کی کتب کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے اور ہر شعبے، ہر موضوع پر ان کی تحقیق موجود ہے، جس سے ہر کوئی استفادہ کر سکتا ہے۔ میں نے مشہدِ مقدس، دانشگاہِ علومِ اسلامیہ رضوی سے علومِ قرآن میں تعلیم حاصل کی ہے۔ جب میں نے علومِ قرآن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی ایک کتاب کھولی، جو ایک جلد میں انتہائی فصیح عربی میں ہے، تو میں نے دیکھا کہ میں نے اپنے اساتذہ کی متعدد کتابوں میں جو پڑھا تھا، وہ سب کا سب ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی اس ایک کتاب میں موجود ہے۔

وہ ایک ایسی علمی شخصیت ہیں جنہوں نے ہر میدان میں قدم اٹھایا ہے اور محنت کی ہے۔ سیدہ طاہرہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا اپنے والد حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے ایک حدیث نقل کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جو چالیس دن کے لیے اللہ کے ساتھ مخلص ہو جائے، اس کا اوڑھنا، بچھونا، اٹھنا، بیٹھنا، زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی رضا کے لیے ہو، تو اللہ اس کے دل میں علم و حکمت کے خزانے پیدا کرتا ہے اور جہاں ضرورت ہو، وہ اس کی زبانِ اقدس پر جاری ہوتے ہیں"۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب اس حدیث کا مصداق ہیں۔ وہ اتنے خلوص کے ساتھ اللہ پر توکل کر کے اللہ کی راہ میں جدوجہد کر رہے ہیں کی کہ آج وہ سرخرو ہیں۔ پوری دنیا میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت جانی پہچانی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایران اور عراق میں بھی ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کیا جا رہا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ چونکہ وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں، ان کا ایک جذبہ ہے، ایک تڑپ ہے، ایک ولولہ ہے اور ان کا ایمان ہے کہ اگر میں جدوجہد کروں گا تو اللہ اس میں رنگ لائے گا۔

ان کے اندر عشقِ مصطفیٰ، عشقِ رحمت للعالمین ﷺ موجود ہے۔ میں نے ان کو کئی دفعہ دیکھا ہے، جب وہ پاک پیغمبر اور ان کے اہل بیتِ اطہار کا ذکر کرتے ہیں تو ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہےاور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے وہ الحمدللہ کامیاب ہیں اور امت کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے 'امتِ واحدہ' کے قرآنی تصور کو عملی طور پر اجاگر کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ ایک دفعہ علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب کے ساتھ میری بات ہو رہی تھی تو انہوں نے فرمایا اس ملک میں سب سے پہلے، اس ماحول میں جب فرقہ واریت عروج پر تھی، جب تکفیر عروج پر تھی، جہاں مسلکوں کو آپس میں لڑایا جا رہا تھا اور مسلمان کو مسلمان کے پیچھے خنجر لے کر دوڑایا جا رہا تھا، اس ماحول میں سب سے پہلے جس نے خوبصورت قرآنی آواز بلند کی وہ علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب تھے۔

حضور نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ حضور کائنات کے معلم ہیں۔ علم ہی ہماری میراث ہے۔ اس وراثت کو علماء لے کر چل رہے ہیں اور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ان کے سرخیل ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے اور ہم ان سے استفادہ کریں گے۔ میں نوجوانوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آج کے اس دور میں، موبائل، سوشل میڈیا اور مختلف چیزیں دیکھنے کے بجائے، ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی شکل میں جو قیمتی خزانہ ہے، ان کا مطالعہ کریں اور اس کے ذریعے آگے بڑھیں تاکہ معاشرے میں وہ انقلاب آئے جس کے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب خواہش مند ہیں اور جس کے لیے حضور اکرم ﷺ کو مبعوث کیا گیا تھا۔ خداوندِ کریم ہمیں ان کے آثار سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ان کی عمر طولانی فرمائے اور ان سے پوری امت کو فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

12۔ محترم ڈاکٹر ابوبکر (چیئرمین شعبہ اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد) نے شرکاء تقریب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جھنگ کی سرزمین، 1951، ڈاکٹر فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ کا گھر اور 19 فروری کو ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہی بچہ کل بڑا ہو کر زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا فلاک کی سیڑھیاں چڑھے گا اور وہ شیخ الحدیث، شیخ القرآن اور شیخ الاسلام بن کر امام الامہ کا لقب پائے گا۔ صحیح معنی میں عالم وہ نہیں جو اپنے کندھوں پر کتابوں کا بوجھ لاد لے، بلکہ عالم وہ ہے جس کی زبان سے لوگوں کی زندگیوں کے دھارے بدل جائیں۔ حسد اور رشک دو الگ الگ تصور ہیں۔ اہل ایمان کے لیے اللہ نے رشک کا انتخاب کیا ہے۔ ان مبارک چہروں پر صرف رشک کیا جا سکتا ہے، حسد کرنے والا اپنا دامن جلائے گا۔ لوگ عزتیں دنیا کی راہوں میں تلاش کرتے ہیں، مگر میں نے دیکھا ہے کہ جنہیں اللہ نے عزتوں کے تاج عطا کیے ہیں، ان کا تعلق گنبد خضرا سے جڑا ہے۔ آج اگر کوئی ایک شخص آپ کو دینِ اسلام کے چہرے پر پڑی گرد و غبار ہٹاتا دکھائی دے گا تو وہ ہاتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہیں۔ میرا شعبہ ’اسلامک بینکنگ اور فنانس‘ ہے۔ آج علم کی دنیا کو اس کی خبر نہیں، لوگ کسی اور کا نام لیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماڈرن اسلامک بینکنگ اور فنانس کو دینِ اسلام کی ڈگر پر چلانے کا سب سے پہلا تصور پاکستان میں شیخ الاسلام نے دیا تھا۔

اللہ کا احسان ہے کہ اللہ نے عالمِ اسلام میں اور بالخصوص ملک پاکستان کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ کچھ لوگوں کا کردار ہوتا ہے جو ان کی داستانوں کو عالم کے جریدے پر رقم کرتا ہے۔ کوئی اپنی جان سے گزر کر رقم کر جاتے ہیں، کوئی کسی اور انداز میں۔ آنے والے ایک ہزار سال بعد بھی اگر کوئی ڈاکٹر طاہرالقادری کو جانتا ہو گا تو وہ ان کی تصنیفات اور منہاج القرآن کی وجہ سے جانتا ہو گا۔ اخلاقی انحطاط کے اس دور میں، جہاں ہماری نسل ہاتھوں سے اس طرح نکلتی نظر آ رہی ہے جیسے بند مٹھی سے ریت، ایسے میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اسی نسل کو گنبد خضرا سے وابستہ کر رہے ہیں۔ یہ کوئی عام بات نہیں ہے۔

ایک موقع پر مجھے حضرت قبلہ پیر محمد امین الحسنات شاہ صاحب کے ساتھ خلوت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس وقت کو غنیمت جانا اور ایک سوال پوچھ لیا۔ میں نے کہا: "حضور!بہت ساری آوازیں کانوں میں سننے کو ملتی ہیں کہ لوگ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے بارے میں طعن و تشنیع کرتے ہیں، خاص طور پر شیخ الاسلام کے لقب پر۔ " اس پر انہوں نے تین باتیں پنجابی زبان میں فرمائیں: فرمایا: "پتر! میں انہاں لوکاں کولوں پوچھداں، مینوں اے دسو، ڈاکٹر طاہرالقادری دے لیول دا خطیب پاکستان چھوڑ، عالم اسلام وچ کوئی ہے؟ لے آؤ، میں اوس نوں شیخ الاسلام من لیساں۔ " پھر فرمایا: "ڈاکٹر طاہرالقادری دے لیول دا کوئی مصنف اور مؤلف لے آؤ، میں اس نوں من لیساں۔ " تیسری بات یہ فرمائی: "ڈاکٹر طاہرالقادری دے لیول دا کوئی اک بندہ لے آؤ، جس نے دنیا وچ مصطفی دے دین دے اتنے ادارے قائم کیتے ہون، جتنے ڈاکٹر طاہر القادری نے کیتے نے۔ " پھر آخر میں فرمایا: "اگر کوئی نہیں، تے ڈاکٹر طاہرالقادری شیخ الاسلام ہے۔ " اللہ تبارک و تعالی ہمارا یہ سرمایہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔

13۔ محترم خورشید ندیم (تجزیہ و کالم نگار، چیئرمین رحمت للعالمین اتھارٹی حکومت پاکستان) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف مکاتبِ فکر اور طبقہ ہائے زندگی کے نمائندہ اجتماع میں میری یہ شرکت میرے لیے باعثِ عزت ہے اور اس عوامی پذیرائی کی گواہی ہے جو علامہ طاہرالقادری صاحب کے حصے میں آئی۔ بلا تکلف یہ کہا جا سکتا ہے کہ "یہ سعادت بزورِ بازو نیست"۔ یہ عالم کا پروردگار ہے جو عزتوں اور ذلتوں کے فیصلے کرتا ہے۔ ساری عزتیں اسی کی ہیں اور وہ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے لوگوں کی نظروں سے گرا دیتا ہے۔ اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ نے فرمایا کہ "لوگوں کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے، وہ اسے جس طرف چاہے پھیر دیتا ہے"۔ علامہ طاہرالقادری صاحب کی یہ مقبولیت، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اسی مقبولیت سے نوازی جائے اور ان کے علمی کام کو ان کے لیے توشہِ آخرت بنا دے۔

انسان دنیا میں مختلف صلاحیتیں لے کر آتا ہے، لیکن بعض لوگوں پر اللہ کا خصوصی کرم ہوتا ہے کہ وہ انہیں ایک سے زیادہ صلاحیتوں سے نوازتا ہے، جیسے بولنے، لکھنے، انتظام کرنے، اہتمام کرنے اور قیادت کرنے کی صلاحیت۔ کم لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ ایسی متنوع صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ صلاحیتوں کا یہ تنوع انسان کے لیے ایک آزمائش بن جاتا ہے کہ وہ کس شعبے کا انتخاب کرے، کیونکہ ایک عمر میں ہر شعبے میں نام پیدا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ علامہ طاہرالقادری صاحب بھی انہی لوگوں میں سے ہیں جنہیں اللہ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں طبع آزمائی کی اور اس کے نتائج بھی نکلے۔ لیکن میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ ان کا اصل میدان علم اور تعلیم ہی تھا اور اس میں ان کی خدمات بلا شبہ غیر معمولی ہیں۔

ہم اپنی روایت میں پڑھا کرتے تھے کہ ہمارے ائمہ میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ بسیار نویس ہونے کے باوجود اعلیٰ درجے کے علمی لٹریچر کو وجود بخشتے تھے۔ امام سرخسی کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ کنویں میں قید ہو کر تیس جلدیں املاء کروا دیں۔ دورِ حاضر میں بلا شبہ یہ اعزاز ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے حصے میں آیا کہ انہوں نے اتنا کچھ لکھا اور اسے غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ عالم کے پروردگار کی طرف سے ان پر خصوصی عنایت ہے۔

ہماری علمی اور دینی روایت میں ہم نے خواتین کو دین اور اس کی تعلیم سے دور رکھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی ایک بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے ہماری خواتین کو علمِ دین کی طرف متوجہ کیا۔ یہ ایک غیر معمولی Contribution ہے، کیونکہ خاتون کو علمِ دین کی طرف متوجہ کرنے کا مطلب ایک پوری نسل کو دین کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ یہی وہ گود ہے جس میں ایک پوری نسل نے پرورش پانا ہے۔ اس لحاظ سے اپنے ہم عصر اہل علم میں یقیناً انہیں یہ شرف حاصل ہے۔ اس تقریب میں اتنی تعداد میں موجود ہماری بیٹیاں اور بہنیں اس بات کی دلیل ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کو دین کی طرف صحیح اور اصل اسلوب میں گفتگو کر کے متوجہ کیا۔

ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا دوسرا بڑا Contribution یہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مسلکی تقسیم سے بلند کرنے کی کوشش کی۔ کسی عالم کے لیے یہ شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے آپ کو کسی ایک مسلک کا علمبردار بنا کر کھڑا ہو جائے۔ عالم وہی ہے جو اس طرح کی انسانی بنائی ہوئی دیواروں سے بلند ہوتا ہے اور علم کو "الحکمۃ ضالۃ المؤمن" کے تحت جہاں بھی ملتا ہے، اسے تلاش کرتا ہے اور اپنے دامن میں جمع کر لیتا ہے۔ علامہ صاحب ایک خاص پس منظر میں پیدا ہوئے اور آگے بڑھے، لیکن انہوں نے خود کو اس سے بلند کر لیا۔ اس "جرم" کی پاداش میں انہیں اپنے ہم مسلک لوگوں کی گالیاں بھی کھانا پڑیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ گالیاں بھی ان کے لیے اللہ کا انعام اور ان کی پذیرائی کی دلیل ہیں۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ساجد نقوی صاحب کے ساتھ مل کر اعلامیہ وحدت پر دستخط کیے اور شیعہ سنی خلیج کو کم کرنے کی شعوری کوشش کی تھی۔ اس دور کے لوگوں کو یاد ہو گا کہ بڑے بڑے لوگوں نے کس طرح کے فتوے انہیں دیے تھے، لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے مسلک کی تنگ نظری سے بلند ہو کر امتِ مسلمہ اور سارے مسلمانوں کے تناظر میں سوچا۔

آپ جانتے ہیں کہ دورِ جدید میں مذہبی انتہا پسندی کا جو فتنہ پیدا ہوا اور جس نے مسلم معاشرے کو بکھیر کر رکھ دیا، اس کے خلاف ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے بہت پہلے ایک فتویٰ جاری کیا تھا۔ آپ کے علم میں ہے کہ انہوں نے اس انتہا پسندانہ تعبیرِ دین کے خلاف پانچ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل مدلل فتویٰ دیا اور یہ ایک عالم کے شایانِ شان ہے کہ وہ اپنے عہد کے بڑے فتنوں کے خلاف کھڑا ہو جائے اور لوگوں کے سامنے وہ دین بیان کرے جو اس کے خیال میں حق ہے۔ انہیں یقیناً اپنے ہم عصر اہل علم پر یہ امتیاز حاصل ہے۔ چند لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اس دور کے ان بڑے فکری فتنوں کے خلاف اپنی جان کو خطرات میں ڈالا، لیکن اس کے باوجود حق کی بات کی۔ دین کی تجدید کا کام بنیادی طور پر ایسا ہے کہ اس کے لیے آپ کو اپنے عہد کے لوگوں کی پسند ناپسند سے بلند ہونا پڑتا ہے۔

میری اپنی طبیعت میں مبالغہ آرائی نہیں ہے، لیکن میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں کہ دین کے ایک طالب علم کے طور پر میں یہ بات پورے وجدان کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دین کا کوئی طالب علم اس علمی کام سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا جو ڈاکٹر صاحب کے صریر خامہ کا نتیجہ ہے۔ آج کی یہ تقریب کسی طویل گفتگو کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میری یہاں حاضری صرف اس لیے ہے کہ اس دور کے ایک طالب علم کے طور پر میں اس بات کی گواہی دوں کہ علامہ صاحب نے جو علم اور دین کی خدمت کی ہے، وہ ہم جیسے طالب علموں کے لیے بہت رہنمائی اور خیر کا سبب بنی ہے۔ اللہ تعالی آپ سب کی اس گواہی کو قبول کرے جو یہاں تشریف لائے ہیں اور اسے ان کی آخرت کے لیے اور ان کے خدا کے حضور میں بخشش کا سبب بنا دے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

14۔ محترم ڈاکٹر آفتاب احمد رائے ( سربراہ شعبہ تقابلی مطالعہ برائے مذاہب عالم، اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد) نے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کا ایک غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ معیاری تحقیق (quality research) پر پورا اترتی ہیں۔ ریسرچ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کو 'اوریجنل' ہونا چاہیے، یعنی اس کے ذریعے علم میں کچھ نیا اضافہ ہونا چاہیے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحقیق کو متعلقہ (relevant) ہونا چاہیے، جو معاشرتی مسائل کا حل پیش کرے، وہ پالیسی سازوں کے لیے رہنمائی فراہم کرے اور عالمی علمی مباحثوں کو جنم دے۔ تیسری اہم چیز اس کی پختگی ہے۔ کیا تحقیق کا طریقہ کار ٹھوس اصولوں پر مبنی ہے یا نہیں؟ کیا یہ قابلِ تقلید (replicable) ہے یا نہیں؟ چوتھی اہم چیز یہ ہے کہ ان کتابوں کے اثرات معاشرے، علمی اداروں، جامعات، مدارس اور پوری دنیا و خطے پر کس طرح مرتب ہو رہے ہیں؟ اس حوالے سے سوال یہ ہے کہ کیا یہ پالیسی سازوں کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہیں؟ چوتھی بات یہ ہے کہ تحقیق کے کچھ اخلاقی اصول (ethics) ہوتے ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

میں یہ بات بلا مبالغہ اور پورے یقین کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ معیاری تحقیق کے ان بنیادی اصولوں پر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتابیں پوری اترتی ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک عہد ساز اور پہلودار شخصیت ہیں۔ ان کی فکر میں اعتدال اور توازن نظر آتا ہے۔ عقائد کے حوالے سے ناصبیت اور رافضیت دونوں کا رد کرتےہوئے صحابہ اور اہل بیت اطہار دونوں مقدس طبقات کی محبت و عقیدت کا درس دیا ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اہل بیت کے مقام کو بھی اجاگر کیا ہے اور صحابہ کرام کی محبت بھی امت اور مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ فرقہ واریت کے خاتمہ کے حوالے سے ان کی اہم کتاب 'فرقہ پرستی کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے؟' ایک نایاب کام ہے۔ وہ ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ہمارے اندر بہت سارے مشترک پہلو ہیں، لیکن ہم ان کو چھوڑ کر اختلاف کو کیوں اپنا لیتے ہیں؟ ہمیں مشترک پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان کی سرزمین پر کسی عالم یا کسی تحریک کے بانی نے اگر تکفیریت کے خلاف سب سے بلند آواز اٹھائی ہے تو وہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔

ہماری اخلاقی قدریں مٹتی نظر آ رہی ہیں اور آج ہم دین اور روحانیت سے دور ہو رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تصوف اور روحانیت پر نہ صرف شب بیداریاں اور ذکر و اذکار کی مجالس منعقد کروائیں، بلکہ قرآن و سنت کی بنیاد پر کئی کتب بھی تصنیف کیں۔ انہوں نے ان مستشرقین کے اعتراضات کا بھی جواب دیا جو تصوف کو عجمی پودا کہتے ہیں۔ آپ نے تصوف کو قرآن و سنت سے تفصیل سے ثابت کیا۔ اسی طرح اگر سیرت الرسول کی بات کی جائے تو12 جلدوں پر مشتمل ان کا ایک ضخیم علمی کام ہمارے سامنے ہے، جس میں ایک منفرد اور اچھوتا پہلو اس کا مقدمہ ہے۔ اس کتاب کے موضوعات میں آج کے جدید مسائل کے جوابات قرآن، حدیث، سنت اور مختلف تہذیبوں کی روشنی میں تفصیل سے دیے گئے ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ ہر شخص ہر فن میں ماہر نہیں ہو سکتا اور کوئی ایک پہلو غالب ہو سکتا ہے، مگر لوگوں کے اندر عرفان اور شعور کو اجاگر کرنے اور ان کو اپنے حقوق سے روشناس کرانے کے لیے ڈاکٹر طاہرا لقادری نے جو رہنمائی فراہم کی اور تحریک چلائی ہے، وہ مثالی ہے۔

15۔ محترم صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمن (سابق وی پی انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک ایسی عہد آفرین شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی وسعتِ علم، ندرتِ فکر اور استقامت سے لوحِ تاریخ پر ایسے نقوش ثبت کیے ہیں کہ زمانے کا گرد و غبار ان کے نام اور کام پر کبھی پردہ نہیں ڈال سکتا۔ یہ وہ شخصیت ہیں جو جھنگ سے ایک ستارہ بن کر ابھریں، آسمانِ علم و حکمت پر چاند بن کر چمکیں اور اپنی ضیا پاشیوں سے جہاں مشرق کے طالبانِ علم کے دل و دماغ کو منور کیا، وہاں مغرب کے ناقدانہ ماحول میں دلائل کے انبار لگا دیے۔ کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی جامعات کے دانشوروں کو بھی ان کے ہاتھ چومتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس افراتفری اور فرقہ پرستی کے دور میں نفرت اور عداوت کی دیواروں کو ختم کرنے اور امت کے اتفاق و اتحاد کے لیے جس روانی سے قلم کا استعمال کیا اور جس آہنگ سے صلح و محبت کا پیغام عام کیا، وہ ان کے لیے شیخ الاسلام کے لقب پر مہرِ تصدیق ثابت ہو رہا ہے۔

گو ہوا تند و تیز ہے، لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جسے حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جہاں طالبانِ علم کی فکر کو روشن کیا، وہاں دلوں کے قبرستان میں آبیاری کا بھی خوب اہتمام کیا۔ ذکر و فکر کی مجالس اور درود و سلام کی برسات میں انہوں نے نوجوانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ لاہور کا شہرِ اعتکاف ہو یا مشرق و مغرب میں ان کی قیادت میں برپا ہونے والی درود و سلام کی مجالس، عشقِ رسول ﷺ کی وہ شمع جو انہوں نے نئی نسل کے دلوں میں روشن کی ہے، رب ذوالجلال کی قسم وہ ایسی بلند اور منظم ہے کہ آج اس کے نیچے بدی کی آوازیں دبتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتب کے مطالعہ سے سیرت اور حدیث و سنت دونوں علمی دھاروں کے درمیان ایک جزوی تعلق تشکیل پاتا ہے اور ان کے مابین ٹکراؤ کے تصور کی نفی ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ مستشرقین کی فکر کی تشکیل کے بعد علمِ سیرت کو قصداً کمزور ثابت کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ حدیث اور سیرت کا یہ باہمی ربط واضح کرتا ہے کہ دونوں علم ایک دوسرے کی تکمیل اور تائید کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان دونوں علمی جہتوں میں جس پختگی اور فکری تسلط کے ساتھ توازن قائم کیا ہے، وہ اپنی نوعیت میں ایک علمی اور تحقیقی کارنامہ ہے۔ اور ان کی یہ کوشش بعض حوالوں سے بہت ہی ممتاز نظر آتی ہے۔ موضوع، اسلوب اور مواد کے اعتبار سے ان کی تصنیفات اسلامی تاریخ کی ان گراں قدر تصنیفات سے مشابہ دکھائی دیتی ہیں جو زہد و ورع، تہذیبِ اخلاق و نفوس، اسلامی آداب، ترغیب و ترہیب اور اسلامی اخلاقیات پر مرتب کی گئی ہیں مگر مواد اور اسلوب کی مماثلت کے باوجود جامعیت، تنوع اور تحقیق کے اعتبار سے بہت بلند ہیں۔

16۔ محترم پیر سید اجمل حسین شاہ مبشر ہمدانی (سجادہ نشین دربار عالیہ میرا شریف) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا۔ اگر اللہ کی وحدانیت اور عشق کی بات کی جائے تو اس راہ میں رہنمائی کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری ہی نظر آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت اور ان کے عشق کی بات ہو تو اس جانب بھی رہنمائی کرنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری ہی دکھائی دیتے ہیں۔ آلِ محمد علیھم السلام کی محبت میں اگر کوئی شخص ڈوبا ہوا نظر آتا ہے تو وہ ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی عزت و تکریم کی حفاظت کی بات ہو تو سرفہرست بھی ڈاکٹر طاہرالقادری ہی ہیں۔ آپ ایک عظیم شخصیت ہیں اور متعدد علوم کے ماہر ہیں۔ آج اگر کسی شخص کے پاس تھوڑا سا بھی علم آ جائے تو وہ سب سے پہلا قدم پیر بننے کی طرف اٹھاتا ہے لیکن آپ ڈاکٹر طاہرالقادری کو دیکھیں، تمام علوم پر دسترس رکھنے والا اور سیکڑوں کتابوں کا مصنف ہونے کے باوجود بھی اس مردِ درویش میں کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ میں اپنے نام کے ساتھ "پیر" لکھواؤں۔ آج سارے پیر یہاں آتے ہیں، کیوں آتے ہیں؟ اس لیے کہ اس شخص نے وہ سارا کام کر دیا ہے جو پیروں کو کرنا چاہیے۔

اتنی کتابیں لکھنے والے اور صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ ایک تحریک اور ایک مشن لوگوں کو دینے والے اگر اس شخص کو مجدد نہ کہا جائے تو پھر کس کو بنایا جائے؟ آج لوگوں کو اپنی آنکھوں پر پڑی ہوئی گرد کی وجہ سے ان کا مقام نظر نہیں آتا۔ بخدا، عشقِ رسول کے علاوہ میں نے اس شخص کی زبان سے کبھی کوئی گفتگو نہیں سنی۔ میں خوشامد کرنے والا نہیں ہوں، میں بہت غیور قسم کا آدمی ہوں۔ جو حق ہو، وہ کہنے میں شرم محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخصیت کو جامع بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عمر دراز عطا فرمائے اور مسلمانوں کی یہ قیادت ہمیشہ زندہ اور پائندہ رہے اور ان کا سایہ تمام مسلمانوں پر قائم و دائم رہے۔

17۔ فضيلة الشيخ الأستاذ الدكتور أحمد بدرة نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ صدی میں مسلم امت کو مغربی ثقافتی یلغار اور جدید علوم کی ترقی کی وجہ سے غیر معمولی فکری اور تہذیبی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال نے کچھ ذہنوں میں یہ تاثر پیدا کیا کہ اسلام جدید دور کے مسائل کا کوئی عملی حل پیش نہیں کر سکتا۔ اس فکری انتشار کے دور میں، میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو ایک مجدد کے طور پر دیکھتا ہوں، جو نصوصِ شریعت کے علم اور دورِ حاضر کے حالات کی سمجھ کو یکجا کرتے ہوئے مسائل کا حل پیش کر رہے ہیں۔ وہ قرآن کی عالمگیریت اور سنت کی جامعیت کو ثابت کرتے ہوئے ایک متوازن نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جو دینی اصولوں کو پختگی سے تھامے ہوئے ہے اور جدیدیت کے تقاضوں سے بھی دانشمندی سے نمٹتا ہے۔

18۔ محترم پیر سید علی جنید الحق گیلانی (سجادہ نشین گولڑہ شریف) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کی اس بابرکت محفل میں شریک ہو کر مجھے نہایت مسرت ہوئی اور اس خوشی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اہلِ علم و اہلِ دل حضرات ایک چھت تلے جمع ہیں۔ عالم اسلام میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک پہچانا ہوا اور معتبر نام ہیں۔ ان کی علمی و فکری خدمات رہتی دنیا تک اپنی مثال آپ رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دین کی خدمت کے لئے منتخب کرتا ہے اور بے شک یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اس عظیم مشن کے لئے چن لیا۔ ان کی تصانیف نہ صرف مستند اور تحقیقی معیار پر پورا اترتی ہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لئے قیمتی سرمایہ بھی ہیں۔ ہر طالب علم اور محقق ان کتابوں سے بے پناہ فیض حاصل کر سکتا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کی متعدد کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ہر بار یہ محسوس کیا کہ یہ تصانیف دراصل علم کا سمندر ہیں جن میں سے نئی روشنی اور نئی سمت ملتی ہے۔ انہوں نے میدانِ علم میں نہایت جرأت مندانہ قدم رکھا اور ہمیشہ حق کی آواز بلند کی۔ وہ اہلِ سنت کا سرمایہ ہیں اور علم و تحقیق کا ایک زندہ شاہکار ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کسی اور لقب کی محتاج نہیں، ان کا سب سے بڑا قابلِ فخر لقب القادری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے غیر معمولی کام لیا ہے اور ان کی کاوشوں سے آج لاکھوں لوگ ایمان و عمل کی روشنی پا رہے ہیں۔ ان کی تصانیف کا مطالعہ صرف علمی فیض نہیں بلکہ روحانی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ ہمارے روحانی خانوادے سے ان کا ایک خاص تعلق رہا ہے اورہم ان کے خطابات کو نہایت شوق سے سنتے ہیں۔ آج کی اس تقریب نے مجھے اپنے خانوادے کی اس روایت کی یاد دلا دی ہے کہ ہمیشہ اہلِ حق اور اہلِ علم کی قدر و منزلت کی جاتی رہی۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی و دینی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی عمر و صحت میں برکت عطا کرے اور ان کی تصانیف کو تا قیامت امت کے لئے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بنائے۔

محترم پیر سید علی جنید الحق گیلانی کی خصوصی دعا سے یہ علمی و فکری خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔