پوری دنیا میں اگر نظریات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ جب کبھی انقلابی تصورات پیدا ہوئے ہیں، پروان چڑھے ہیں یا نظریات وجود میں آئے ہیں تو ان کا آغاز خوابوں سے ہوا ہے۔ کوئی ایک خواب دیکھنے والا ہوتا ہے جو ان تصورات اور نظریات کو اپنے علم اور اپنے جذبات سے سینچتا ہے، انھیں اپنی ملک دوستی، عوام دوستی اور علم دوستی کی حرارت میں رکھتا ہے اور پھر انھیں پروان چڑھا کر ایک دعوت کی صورت میں لوگوں کے سامنے رکھتا ہے کہ آؤ! میں نے یہ خواب دیکھا ہے، تم بھی یہ خواب دیکھو اور میرے اس خواب میں میرے ساتھ شریک ہو جاؤ۔ بالآخر خوابوں سے شروع ہونے والے انقلابی تصورات اور نظریات، ولولوں، جذبوں اور امنگوں کے سائے میں پروان چڑھتے چڑھتے تحریکوں کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔ بعد ازاں یہ تحریکیں جب استقامت اور حکمت و بصیرت کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی ہیں تو اس دھرتی پر انقلاب برپا کردیتی ہیں۔
ایسی ہی کچھ تاریخ تحریک منہاج القرآن کی بھی ہے۔ ہماری قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بھی اپنی نوجوانی کے ایام میں اس سرزمین پر انقلاب برپا کرنے کا خواب دیکھا۔ یہ خواب اس ملک کے نظام کو بدلنے اور امتِ مسلمہ کو زوال کے اندھیروں سے نکال کر عظمت اور عروج کے انوار میں داخل کرنے کاخواب تھا۔ انھوں نے یہ خواب اس علاقہ (جھنگ) میں دیکھا جہاں ان کے پاس کوئی وسائل اور ذرائع نہیں تھے مگر وہ دلِ زندہ اور فکرِ تازہ لیے ہوئے تھے۔ ان کا ولولہ جواں تھا۔ انھوں نے اس خواب میں اپنے ہم خیال نوجوانوں کو جوڑنا شروع کر دیا۔ جب علاقے کے نوجوان اس عظیم نوجوان کا خواب سنتے تھے تو انھیں بات کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ شہر جھنگ کے چھوٹے سے محلے میں بیٹھ کر یہ نوجوان پوری دنیا کی باتیں کرتا ہے، سرزمینِ پاکستان کے نظام کو بدلنے کی باتیں کرتا ہے، جبکہ ان کے پاس وسائل ہیں اور نہ ساتھ دینے والے مضبوط دست و بازو ہیں۔
وہ نوجوان شاید اس بات سے ناآشنا تھے کہ انقلابیوں کو اسی لیے انقلابی کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا عجیب کام کرتے ہیں جو لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے۔ جو لوگوں کی سمجھ میں آجائے، وہ انقلاب نہیں ہوتا بلکہ وہ تو نظام ہوتا ہے۔ انقلابی شخصیت کی سمجھ عامۃ الناس کو اس لیے نہیں آتی کہ وہ ہمیشہ معاشرے کی روش سے ہٹ کر دوسری جانب چلتی ہے۔ سارا جہاں ایک سمت بہتا ہے جبکہ انقلابی دوسری سمت بہتا ہے۔ اسی سبب وہ اور اس کے جملہ کام معاشرے میں رہنے والوں کو عجیب لگتے ہیں۔
شیخ الاسلام نے جو خواب دیکھا، اس خواب کو انھوں نے پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کو دکھا دیا اس میں شریک کر لیا۔ انھوں نے لاکھوں لوگوں کو اس قافلے کا حصہ دار بناتے ہوئے ایسا درد بانٹا ہے کہ پہلے وہ درد ایک سینہ محسوس کرتا تھا، اب لاکھوں سینے وہ درد محسوس کرتے ہیں۔ پہلے وہ اکیلی ذات رات کو جاگتی تھی، اب ایسا درد انھوں نے بانٹا ہے کہ لاکھوں لوگ اس درد میں راتوں کو جاگتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو خود بھی خواب دیکھتے ہیں اور پھر زمانے کو دکھا بھی دیتے ہیں۔ ایسے باہمت و باکمال لوگ پھر اپنے خواب کو صرف خواب نہیں رہنے دیتے بلکہ اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے ایک کارواں بھی تشکیل دیتے ہیں۔
تحریک منہاج القرآن جس کا آغاز آج سے 45 سال قبل 17 اکتوبر 1980ء کو انقلابی تصورات کے خواب سے ہوا، آج وہ جیتی جاگتی اتنی بڑی حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اس سے وابستہ ہیں اور اس کی فکر کے امین بن چکے ہیں۔ یہ قافلہ اب قافلہ نہیں رہا بلکہ فکری،نظریاتی، انقلابی، بابصیرت اور درد مند لوگوں کا سمندر بن چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سمندر کو سلامت رکھے اور اس کا تلاطم، جذبہ اور جوش مزید بڑھتا چلا جائے تاکہ ہر باطل اور فرسودہ نظام کو خس و خاشاک کی طرح بہا دے۔ اللہ تعالیٰ اس قافلہ کے سالار شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے تاکہ نظریاتی لوگوں کا یہ گلشن اپنے محبوب قائد کے افکار سے تازگی لیتا رہے، مہکتا رہے، کھلتا رہے اور ہمیشہ سر سبز و شاداب رہے، یہاں تک کہ اپنے قائد کی قیادت میں ان کی کی دکھائی ہوئی منزل کو پا لے۔
زوال کے اسباب کی تشخیص اور ماضی کی اصلاحی تحریکوں کا کردار
انقلابی نظریات اور تصورات خوابوں سے شروع ہوتے ہیں لیکن ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ سب سے پہلے راستے کا تعین کیا جائے۔ جب راستے کا تعین کر لیں تو منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس راہ میں درپیش رکاوٹوں کا صحیح معنی میں جائزہ لیا جائے۔ اگر انسان ان رکاوٹوں سے چشم پوشی اختیار کرے تو اس کے جذبات رائیگاں چلے جاتے ہیں۔ اگر اسے اپنی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا صحیح معنیٰ میں ادراک اور اندازہ نہ ہو تو محنت و ریاضت ضائع چلی جاتی ہے۔ اس لیے منزل کو پانے کے لیے اشد ضروری ہے کہ خواب دیکھا جائے، پھر خواب دیکھ کر راستے کا تعین کیا جائے اور راستے کا تعین کرنے کے بعد منزل تک پہنچنے کی راہ میں درپیش تمام رکاوٹوں کا جائزہ لیا جائے۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، ہر موقع پر تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام نے اس کا ایسا آبرو مندانہ اور قابلِ عمل حل عطا فرمایا ہے کہ جس سے نہ صرف مرض کی تشخیص ہوتی ہے بلکہ اس کا حل بھی میسر آتا ہے
اسلام کی تاریخ چودہ سو سال سے زائد عرصے پر محیط ہے اور اس دوران مختلف ادوار گزرے۔ کبھی سنہرے ادوار تھے مگر آج زوال کا شکار۔۔۔ کبھی دینِ متین اور اس کے ماننے والے عروج اور ترقی کی بلندیوں پر تھے مگر آج پستیوں اور اندھیروں میں ہیں۔۔۔ کبھی مسلم تہذیب عروج و ترقی پر تھی اور دیگر اقوام اور تہذیبیں ان کی طرف دیکھا کرتی تھیں مگر آج یہی امتِ مسلمہ عالمِ مغرب کی طرف دیکھ رہی ہے اور اپنے ہر دنیاوی معاملہ میں ان کی محتاج اور دست نگر ہے۔ ترقی کے یہ مناظر جو آج ہمیں مغرب میں نظر آتے ہیں، طویل عرصہ قبل یہی مناظر امتِ مسلمہ میں نظر آتے تھے مگر گزشتہ چند سو سال سے امتِ مسلمہ زوال کے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے۔
ہر دور میں امتِ مسلمہ کو زوال سے نکالنے کے لیے تحریکیں اور جماعتیں معرضِ وجود میں آئیں۔ یاد رکھیں! تحریک منہاج القرآن پہلی جماعت نہیں ہے، جس نے امت کے زوال اور درد کا ادراک کیا۔ اس کا احساس صدیوں میں بہت مرتبہ کئی لوگوں میں پیدا ہوا کہ ہم نے وہ عروج کھو دیا، وہ ترقی کی منازل اور عزت کا مقام و مرتبہ کھو دیا اور آج ہم زوال کا شکار ہیں۔ نہ اپنی مرضی سے جیتے ہیں اور نہ آزادی سے اپنے فیصلے کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کی پالیسی بھی اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتے۔ ہماری خارجہ اور معاشی پالیسی بھی کوئی اور بناتا ہے، ہماری مذہبی اقدار بھی ہمیں کوئی اور بتاتا ہے اور ہماری تعلیمی پالیسی بھی کوئی اور بناتا ہے۔ یہ حال فقط پاکستان کا نہیں ہے بلکہ امتِ مسلمہ کے 56دیسوں کا یہی حال ہے۔ ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہو کر بھی کوئی ایک مسلمان ریاست آزاد نہیں ہے۔ امتِ مسلمہ کےاس زوال کا احساس مختلف ادوار میں کیا گیا۔
جب کبھی اس زوال کو محسوس کیا گیا اور اپنے ہاتھ سے ترقی، عزت اور وقار کو جاتے دیکھا گیا تو دردمند لوگ چیخےاور انہوں نے تحریکیں اور تنظیمیں قائم کیں، ادارے بنائے اور اپنے درد کے اظہار کے لیے لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا۔ کبھی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی صورت میں ایک شخصیت سامنے آئی جو پاک و ہند کے خطے کے اندر لوگوں کو ندا دیتے ہیں۔ ایک طبقہ ان سے جڑ جاتا ہے مگر یہ کام ایک خاص نہج پر رہتا ہے،تحریک میں تبدیل نہیں ہوتا۔ کبھی ہم عالمِ عرب اور افریقہ میں دیکھتے ہیں کہ وہاں کچھ شخصیات وجود میں آ جاتی ہیں جو اسی درد کو محسوس کرتی ہیں۔ اس کی ایک مثال اخوان المسلمین ہے۔ کبھی جمال الدین افغانی کی صورت میں ایک شخصیت زوال پر بات کرتی ہے اور لوگوں کو جمع کرتی ہے اور کبھی امام حسن البنا کی صورت ہمیں نظر آتی ہے۔ الغرض مختلف طبقاتِ معاشرہ میں مختلف شخصیات سامنے آتی رہیں اور امت کو اس دورِ زوال سے نکالنے کےلیے اپنی صلاحیت کے مطابق کاوشیں کرتی رہیں۔
مختلف ادوار میں پیدا ہونے والی ان تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ہم انھیں تین گروپس میں تقسیم کر سکتے ہیں جو آتے ہوئے زوال کو دیکھ کر دردمندی کی صورت میں وجود میں آئیں۔ یہ تحریکیں غلط نہیں تھیں، ان کے جذبات صحیح دردمندی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ ان کے جذبات کی خالصیت کی علامت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں امت کے لیے کچھ کرنا ہے، ہمیں آقاe کے مظلوم غلاموں کے لیے کچھ کرنا ہے، ہمیں بے سہارا لوگوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ ان تحریکوں کو درج ذیل تین طرح کے گروپ میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
(1) سلفی تحریکیں
ایک تحریکوں کا گروپ وہ ہے جسے سلفی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک کے ذمہ داروں نے امت کے زوال کا سبب جاننا چاہا اور امت کے مرض کے نبض شناس بنے تو انہوں نے کہا کہ ’’اصل مسئلہ تقلید میں ہے۔ ہم علماء اور فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور پرانی کتب کی تقلید کرتے ہیں، اس کے سبب ہم زوال کا شکار ہوگئے۔ ہمیں براہ راست قرآن اور سنت سے لینا چاہیے۔ ہم نے اللہ رب العزت اور قرآن کو چھوڑ کر محبت و عشقِ مصطفیﷺ کی صورت میں ایک اور نیا دروازہ کھولا ہے اور یہ ہی زوال کا اصل سبب ہے۔ ‘‘ پس اس سوچ اور مسئلہ کے اس حل کے ساتھ جو تحریکیں وجود میں آ گئیں وہ سلفی بن گئیں۔
ان کی اس سوچ سے عقائد میں گمراہی پیدا ہونا شروع ہوئی اور انتہا پسندی وجود میں آئی۔ آغاز انہوں نے امت کے درد میں کیا لیکن گمراہی اس وقت شروع جب انہوں نے زوال کی تشخیص غلط کی اور کہا کہ امتِ مسلمہ کو درپیش مسئلہ تقلید ہے۔ پس اس غلط تشخیص کا نتیجہ بھی غلط نکلا اور عقائد میں گمراہی اور فتنہ پھیل گیا۔
(2) لبرل تحریکیں
دوسرا طبقہ اور گروہ لبرل تحریکوں کا وجود میں آیا۔ اس کی مثال سید جمال الدین افغانی، مفتی عبدہ، سید قطب اور دیگر شخصیات ہیں جو عرب اور افریقہ میں وجود میں آئیں۔ ان شخصیات اور ان کی قائم کردہ تحریکوں کو میں لبرل تحریکیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان شخصیات اور تحریکوں نے عقیدہ پر بات نہیں کی۔ اس لیے اگر ان لبرل تحریکوں اور ان کی شخصیات کا مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ جان ہی نہیں سکتے کہ وہ کس عقیدہ کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسلمانوں کا زوال علمِ دین اور عقیدہ سے متعلق نہیں ہے۔ مغرب نے چونکہ سائنسی ترقی بہت کر لی ہے، مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں، مسلمان قدامت پسند (conservative) ہیں، پسماندہ ہیں، پرانی اقدار کے ماننے والے ہیں اور ہر وقت صرف مدرسے میں علمِ دین کی بات کرتے ہیں، اس سبب سے وہ زوال کا شکار ہیں۔ ہمیں عالم ِمغرب کی پیروی کرنا ہے، ہمیں سائنس اور جدید تحقیقی انداز کو لے کر چلنا ہے۔ ‘‘
نتیجتاً یہ لوگ دین کو پیچھے چھوڑنے والے بن گئے۔ انہوں نے سیاست کو اپنایا اور مسلم مفکرین سیاسی میدان میں آگے بڑھے۔ انھوں نے اپنی اصل یعنی روحانیت کھو دی۔ اخلاق، اصلاحِ احوال، قرآن، سنت اور دینی و روحانی مضامین کو چھوڑیا۔ جب یہ مذہبی مفکرین سیاسی مفکرین بن گئے تو انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد شروع کردی۔ پاکستان میں بھی آج کئی ایسی جماعتیں نظر آتی ہیں جو مذہبی روپ کے اندر صرف سیاست کرتی ہیں۔ یہ اسی لبرل تحریکوں کا بچا کچھا سامان ہے۔
اس طبقہ نے بھی اپنی سمجھ کے مطابق امت کے زوال کی تشخیص کی لیکن منزل نہیں پا سکے۔ انھوں نے بھی تحریکیں اور سیاسی جدوجہد شروع کی مگر جب انھیں اپنی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا ہوا، مخالفتوں کا سامنا ہوا، حکومت کی طرف سے مظالم کا سامنا ہوا۔ ان مذہبی رہنماؤں کو اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران جب اس بات کا ادراک ہوا کہ ہم مغرب کو سائنسی میدان میں نہیں ہراسکتے اور ہر قدم پر انھیں جب مخالفت کا سامنا ہوا تو پھر یہ جمہوری اصول (democratic norms) بھی بھول گئے، یہ چونکہ اپنی اصل میں مذہبی رہنما تھے، لہذا انھیں فوری جذبۂ جہاد یاد آیا اور جہاد کی کال دینے لگے۔ یہیں سے ان میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی (militancy) داخل ہوگئی اور انھوں نے اسلحہ اٹھا لیا۔ ان لبرل تحریکوں کے بڑے بڑے مفکرین خود بھی عسکری بن گئے۔ بعد ازاں یہ تحریکیں اور ان کے رہنما بھی ختم ہو گئے۔ بے شمار شہادتیں اور جانیں بھی دیں مگر مرض کی درست تشخیص نہ کرسکنے کے سبب یہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف مائل ہوگئے۔ ان لبرل تحریکوں کا آغاز امتِ مسلمہ کے درد کو محسوس کرنے سے ہی ہوا کہ امت کو کچھ مدد چاہیے، امت کے لیے کھڑا ہونا ہے۔ یہ دردمندی کے اظہار میں اپنے ملک و قوم کے لیے باوقار طریقے سے کچھ کرنے کے جذبے سے معرضِ وجود میں آئے لیکن تشخیص غلط کر کے جذباتی ہو گئے اور انتہا پسندی کی طرف چلے گئے۔
(3) سیکولر تحریکیں
امت کے زوال کو عروج میں بدلنے کے خواہشمندوں میں سے تیسرا گروہ ان تحریکوں کا ہے جو سیکولر تحریکیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی بنیاد کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ یہ دین بیزار طبقات تھے۔ ان میں سے اکثر مغرب کے مفکرین ہیں۔ انہوں نے اپنا دین مستشرقین کو پڑھ کر سیکھا۔ انہوں نے اپنی بنیاد پر سوال اٹھا دیے کہ قرآن مجید کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ یہ کبھی احادیث کا انکار کرنے لگے کہ احادیث کا وجود یقینی نہیں ہے، لہذا ہمیں اس پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔ کبھی کہا کہ دین کی ازسرِ نو تعبیر (interpretation) کر دی جائے کہ اس میں ہر طرح کی گنجائش پیدا ہوسکے۔ یعنی یہ تحریکیں اپنی اصل کو خود کریدنے لگ گئیں اور قرآن اور سنت پر بھی انگلی اٹھانے لگ گئیں۔ عالم مغرب، امریکہ، یورپ، آسٹریلیا الغرض ہر جگہ معاشرے میں انھوں نے اپنے افکار کو پھیلانا شروع کیا۔ لازمی بات ہے کہ انھوں نے بھی مرض کی غلط تشخیص کی نتیجتاً یہ بھی ناکام ٹھہرے۔
منہاج القرآن اور امتِ مسلمہ کے زوال کی تشخیص
مذکورہ تینوں طبقات اور گروہوں نے نعرہ یہی لگایا کہ ہمیں امت کے درد کا احساس ہے، امت کا یہ زوال ہم نہیں دیکھ سکتے، ہم حضور نبی اکرمﷺ کی امت میں افلاس، غربت اور غلامی نہیں دیکھ سکتے۔ انھوں نے اپنی سوچ کے مطابق زوال کی تشخیص کی اور پھر خود ہی اس کا علاج تجویز کیا مگر غلط راہوں پر چلے گئے۔ ایک گروہ نے اپنی بنیادیں ہی رد کر دیں، دوسرے متشدد ہو گئے، اور تیسرے عسکری بن گئے۔ ان میں سے کوئی بھی طبقہ حقیقی مقصد اور راہ میں توازن (balance) قائم نہیں کر سکا۔ وہ توازن اور اعتدال کا راستہ جو تاجدارِ کائناتﷺکی عطا تھی۔
اس طرح مختلف ادوار گزرتے گزرتے ایک ایسا دور آیا جس کے اندر تصوف کی بات کریں تو تصوف میں گمراہی اور رسم پرستی عروج پر تھی اور تصوف بیچا جا رہا تھا۔۔۔ علمِ دین کی بات کریں تو علمِ دین جمود کا شکار ہو گیا تھا اور اس میں کوئی اضافہ نہیں تھا۔۔۔ امراء، جاگیردار، سرمایہ دار، لوگ ہی سیاست کرتے تھے اور برسرِ اقتدار آتے تھے۔۔۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے ایک واضح فرق تھا جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا تھا۔۔۔ عوام الناس کو اپنے حقوق کا تصور ہی نہیں تھا اور ہر شعبہ میں اصلاحات صرف نعرہ ہی بن کے رہ گئی تھیں۔۔۔ امتِ مسلمہ بالخصوص پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی اپنے عروج پر چلی گئی تھی اور صورتِ حال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر عالمِ مغرب کا کوئی شخص کسی مسلمان کو دیکھتا تو اسے دہشت گرد کہتا تھا۔
جذبات میں گھبرا کر جو اپنی فکر بدل لے، وہ مجدد نہیں ہوتا بلکہ مجدد اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔ وہ شمع کے گرد نہیں گھومتا بلکہ وہ خود شمع ہوتا ہے اور جہاں اس کے گرد گھومتا ہے
چنانچہ جیسا کہ ہر دور میں درد محسوس کرنے والے، درد شناس اٹھتے رہے، اسی طرح اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری جیسی ایک شخصیت پیدا کی۔ آپ بھی امت کے ہمہ جہتی زوال کو دیکھ کر اسے عروج میں بدلنے کی خواہش لے کر میدانِ عمل میں آئے اور 17 اکتوبر 1980ء کو تحریک منہاج القرآن کی بنیاد رکھی۔ آپ میں اور ماضی میں قائم ہونے والی تحریکوں کے اندر ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ آپ ایک ایسے مردِ حق ہیں کہ اللہ کی توفیق اور حضور نبی اکرمﷺ کے نعلینِ پاک کے تصدق سے مرض کی صحیح تشخیص کی۔ پہلے دالوں کی عقل پر جذبات حاوی آ جاتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی شخصیت دی جو متوازن (balanced) ہے۔ فکری محاذ اور انقلابی محاذ پر ان کے جذبات ان کی عقل پر حاوی نہیں ہوئے۔ آج کے دور میں جو شے چاہیے تھی، انھوں نے اسی شے کی بات کی اور آگے بڑھے۔ آپ نے امت کے مرض کی نہ صرف درست تشخیص کی بلکہ قابلِ عمل حل تجویز کرتے ہوئے اسے روبہ عمل لانے کے لیے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ کامیابی کے ساتھ آگے بھی بڑھ رہے ہیں۔
ہم تحریک منہاج القرآن سے پہلے مختلف ادوار میں معرضِ وجود میں آنے والی تحریکوں کا جائزہ لے چکے کہ کوئی تحریک اور اس کی قیادت جذبات میں آ کر سیاست اور عسکریت پسندی کی طرف چلی گئی کہ اپنا حق چھین کر لیں گے۔۔۔ کوئی کہتا ہے متشدد ہو جاؤ۔۔۔ کسی نے کہا کہ اسلام کی اصل کے ساتھ (معاذاللہ) مسئلہ ہے۔ مگر جب ہم تحریک منہاج القرآن کی قیادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شکل میں ایک ایسی متوازن قیادت اور شخصیت کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ وہ یہ نداء دیتے ہوئے ہیں کہ نہ ہماری اصل کے ساتھ مسئلہ ہے، نہ ہمیں متشدد ہونے کی ضرورت ہے، نہ انتہا پسند ہونے کی ضرورت ہے اور نہ عسکریت پسند ہونا ہے بلکہ ہماری راہ وہی ہے جو تاجدارِ کائناتﷺکی ہے۔ حقیقت میں تحریکیں بہت سی اٹھیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دور میں تاجدارِ کائناتﷺ کا صحیح نمائندہ عطا فرمایا، نائب الرسولﷺعطا فرمایا کہ جس نے تاجدارِ کائناتﷺکی فکر کو صحیح انداز میں سمجھا اور ہمیں سمجھایا۔ ان پر جذبات حاوی نہیں آئے بلکہ جو حقیقت ہے، اسی کو سمجھ کر لوگوں تک پہنچایا۔
تحریکِ منہاج القرآن کی انفرادیت
سوال یہ ہے کہ شیخ الاسلام کے افکار اور ان کی تحریک تحریکِ منہاج القرآن کس طرح پہلے زمانوں میں بپا ہونے والی تحریکوں سے جدا ہے؟ آپ کے افکار بقیہ سے مختلف کیسے ہیں؟ وہ کیا شے ہے جو آپ کو دوسروں سے جدا کرتی ہے؟
اس بات پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ ہر دور میں حالات کو تبدیل کرنے کے لیے افکارِ تازہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ افکارِ تازہ ان طریقوں کی صورت میں وجود میں نہیں آسکتے، جن افکار و نظریات پر ماضی میں تحریکیں چلتی رہیں۔ آج اگر کوئی کہے کہ میں نے نئی بات کرنی ہے اور وہ عسکریت پسندی و انتہا پسندی کو اپنائے، تو یہ نئی بات نہیں ہے۔ کوئی کہے کہ خودکش بمبار بن جاؤ اور حکمرانوں کے محلات میں داخل ہو جاؤ، تو یہ افکار تازہ نہیں ہیں۔ کوئی کہے کہ میں اسلام کی اصل کو رد کرتا ہوں، یہ میری فکرِ تازہ ہے، کوئی کہے کہ میں نے یہ فکرِ تازہ دینی ہے کہ میں محبت و عشقِ رسولﷺ پر سوال اٹھاؤں گا، کوئی کہے کہ میری فکرِ تازہ یہ ہے کہ میں سیکولر بنوں گا، کوئی کہے کہ میری فکرِ تازہ یہ ہے کہ ہم تقلید کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم کیوں اہل اللہ اور بزرگانِ دین کا احترام کریں، تو یاد رکھیں کہ یہ افکارِ تازہ نہیں ہیں۔ ماضی میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے افکارِ تازہ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ انہوں نے نہ پرانے بزرگوں کا احترام کم ہونے دیا ہے۔۔۔ نہ ائمہ کی تقلید چھوڑی ہے۔۔۔ نہ تاجدارِ کائناتﷺکی محبت کے سوا کچھ اور درس دیا ہے۔۔۔ نہ سائنس اور جدید ترقی کے خلاف بات کی ہے کہ عالمِ مغرب عالمِ کفر ہے، ان کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔۔۔ انھوں نے ایسا کچھ نہ کہا بلکہ سائنس کی بات کی ہے اور علم و سائنس سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔۔۔ آپ نے سیکولر ایجوکیشن کے خلاف بات نہیں کی بلکہ کہا ایک ہاتھ سے علمِ دین تھامو اور دوسرے ہاتھ سے ماڈرن ایجوکیشن تھامو اور ان دونوں طرح کی تعلیم میں اپنا مقام پیدا کرو۔۔۔ آپ نے نئی بات کرنے کے نام پر تصوف سے بیزاری کا اعلان نہیں کیا بلکہ کہا میں رسمی تصوف کے خلاف ہوں، اصل تصوف عملی تصوف ہے۔ ایسے صوفی بن جاؤ جو اس دنیا میں بھی کامیاب ہو اور آخرت میں بھی کامیاب ہو، جو اس دنیا میں بھی تاجدارِ کائناتﷺکے لیے جیتا ہو اور جس کا شمار آخرت میں بھی آقاe کے غلاموں میں ہو۔۔۔ آپ نے تاجدارِ کائناتﷺکے عطا کردہ کسی بھی نظام اور اصل تعلیمات پر کوئی سوالیہ نشان نہیں اٹھایا بلکہ ہر شے کی اس دور میں تجدید (revival) کی ہے۔۔۔ دینِ اسلام کی حقیقی تعلیمات کے اوپر پڑی ہوئی گرد کو ہٹایا ہے اور اس کا اصل رخ دنیا کو دکھایا ہے۔۔۔ آپ نے اصل سے لوگوں کو جوڑا ہے اور اس دور میں ایک بار پھر شراب کوہن کو نئے جام میں پیش کیا ہے۔
تحریکِ منہاج القرآن اور پیش آمدہ مسائل کا حل
تحریک منہاج القرآن ماضی میں اور حال میں چلنے والی تمام متشددانہ، لبرل اور سیکولر تحاریک سے بالکل جدا ہے۔ اس کے اندر وہ خوبصورت توازن (balance) موجود ہے جو امتِ مسلمہ کو عروج و بلندی پر فائز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ان شاء اللہ ایک دن ہم اس میں کامیاب بھی ہوں گے۔ ماضی میں برپا ہونے والی کئی تحریکوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا کہ اب اجتہاد نہیں ہوسکتا اور کئی نے کہا کہ ہر آدمی اجتہاد کرسکتا ہے۔
شیخ الاسلام نے اس حوالے سے ایک ایسی متوازن (balanced) بات فرمائی کہ دینِ اسلام کا رخِ روشن دنیا کے سامنے واضح ہوگیا۔ آپ نے کہا اجتہاد اسی کو زیب ہے جو مجتہد ہے۔ اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ اس کی وجہ سے اسلام کا جسد زندہ ہے۔ اس طرح آپ نے متوازن فکر سے کام لیا۔ آپ نے ہر مسئلہ میں قرآن و سنت کی عطا کردہ اصل تعلیمات کی روشنی سے امتِ مسلمہ کو درپیش نئے مسائل کا حل ایک متوازن سوچ و فکر کے ساتھ عطا فرمایا۔
قومی و بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو، ہر موقع پر تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام نے اس کا ایسا آبرو مندانہ اور قابلِ عمل حل عطا فرمایا ہے کہ جس سے نہ صرف مرض کی تشخیص ہوتی ہے بلکہ اس کا حل بھی میسر آتا ہے۔ وہ کسی بھی معاملہ میں اپنے جذبات کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتے بلکہ حکمت و بصیرت کے ساتھ معاملات کو حل کرتے نظر آتے ہیں۔ اس راہ پر چلتے ہوئے خواہ انھیں کیسی ہی مشکلات اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے، وہ نورِ بصیرت کی روشنی میں آگے بڑھتے رہتے ہیں اور بالآخر اُن کی بات روزِ روشن کی طرح ہر ایک پر عیاں ہوجاتی ہے۔
دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج کی بات ہو۔۔۔ تحفظ ناموس رسالت کی بات ہو۔۔۔ سیاسی وانتخابی نظام کی اصلاح کی بات ہو۔۔۔ معاشی و معاشرتی اصلاحات ہوں۔۔۔ دین کے فروغ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہو۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف فتویٰ ہو، الغرض ہر مسئلہ پر وہ حق بات کہتے ہیں اور حق کا علم لہراتے ہیں۔ خواہ سارا جہاں ان کے خلاف کھڑا ہو،وہ بے پرواہ ہو کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ کوئی عالم کیا کہتا ہے،مسالک کیا کہتے ہیں، سارا جہاں کیا کہتا ہے، انھیں ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوتی، وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی توفیق کے ساتھ مستقل مزاج ہو کر اپنے موقف پر ڈٹے رہتے ہیں۔ یہ ان کے علمی مقام و مرتبہ اور نورِ بصیرت کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ انھیں معلوم ہے کہ انھوں نے ہر صورت لوگوں کو صحیح راہ دکھانی ہے۔
پھر بعد ازاں تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ ان کا کہا سچ ثابت ہوتا ہے۔ وہ تو ہمیشہ بروقت خبردار کر دیتے ہیں، یہ ہماری سمجھ بوجھ ہے کہ ہم اپنے قائد کی اس فکر کو نہیں سمجھ پاتے اور عوام الناس اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ شیخ الاسلام لوگوں کی طرح جذباتی ہوکر فیصلے نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ایک مجدد کا کام حق کہنا اور لوگوں کو حق کی طرف واپس لے کر آنا ہے۔ جذبات میں گھبرا کر جو اپنی فکر بدل لے، وہ مجدد نہیں ہوتا بلکہ مجدد اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔ وہ شمع کے گرد نہیں گھومتا بلکہ وہ خود شمع ہوتا ہے اور جہاں اس کے گرد گھومتا ہے۔ مجدد اپنی بات کہہ دیا کرتا ہے، جب جس کو سمجھ آ جائے، وہ پروانہ بن کے لوٹ آئے، وہ شمع کی مانند اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔
شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کی فکر دوسروں کی فکر اس لیے مختلف ہے کہ شیخ الاسلام متوازن (balanced) سوچ و فکر کے حامل ہیں۔ وہ آغاز سے ہی ایسا کام نہیں کرتے جسے بعد میں رد کرنا ہو۔ وہ ہمیشہ آقاe کی بارگاہ سے ملنے والی خیرات سے سوچتے ہیں، اسی خیرات سے عطا کرتے ہیں، پیکرِ استقامت بنے حق بات پر ہمیشہ ڈٹے رہتے ہیں اور جس فکر کو عام کرنا ہو،اس فکر کو ہمیشہ عام کرتے رہتے ہیں۔
تحریکِ منہاج القرآن: فکر اور عمل کا حسین امتزاج
شیخ الاسلام نے اس نظام کو تبدیل کرنے کے لیے نہ صرف فکر عطا کی بلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔ آپ نے صرف خطابات نہیں کیے، صرف کتابیں نہیں لکھیں، صرف تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام نہیں دیے اور نظام کو صرف فکری طور پر چیلنج ہی نہیں کیا بلکہ تحریک بناکر اور دنیا کے 90 ممالک کے اندر ادارے قائم کرکےاس کے لیے عملی جدوجہد بھی کی ہے۔ صرف سوال نہیں اٹھایا بلکہ ہر سوال کا ہمیشہ حل عطا کیا۔ ان کے خطابات، کتب اور ادارے اس بات کے گواہ ہیں کہ انھوں نے معاشی، تعلیمی اور سیاسی مسائل کے باقاعدہ قابلِ عمل حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دے کر امت کو افکارِ تازہ سے روشناس کروایا ہے۔
ان کی سیاست پر اعتراض کرنے والے اصل میں سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ آپ سیاست کے اندر نہ ڈکٹیٹر شپ کے قائل ہیں اور نہ ہمارے ہاں رائج ڈیموکریٹک (democratic) نظام کے قائل ہیں جس کے اندر گدھے اور گھوڑے کی ایک قیمت لگتی ہے۔ آپ ہمیشہ ایسے نظامِ سیاست کے قائل رہے جس کے اندر اہل لوگ برسرِ اقتدار آئیں اور عامۃ الناس کو ان کے حقوق ملیں۔ آج تحریک منہاج القرآن ہو یا پاکستان عوامی تحریک، شیخ الاسلام کے ان ہی افکار تازہ کو عام کرنے میں مصروفِ عمل ہے اور آج بھی مصطفوی معاشرے کے قیام اور بیداریِ شعور کے لیے دستک دے رہی ہے۔
اس فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام میں اگر ہم اپنا حصہ لینا چاہتے تو قطعاً مشکل نہیں تھا مگر ہم نے اپنا مقصد نہیں بیچا۔۔۔ اپنی قدریں نہیں بیچیں۔۔۔ حق نہیں بیچا۔ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ غلط کو غلط کہتے ہیں اور حق بات پر قائم ہیں۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم اس نظام کا حصہ نہیں بنے۔ کل بھی حق کہتے تھے، آج بھی حق کہتے ہیں اور آئندہ بھی حق کہیں گے۔ ہمارا قائد لوگوں کے جذبات کے پیچھے نہیں جاتا۔ ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں یہ روش مکینِ گنبدِ خضریٰ سے ملی ہے، ہم اسی پر ڈٹے رہیں گے، شعور کی بیداری کرتے رہیں گے اور لوگوں کے اذہان پر دستک دیتے رہیں گے۔
مصطفوی انقلاب کا سفر جاری ہے۔ ہمارا ہر اگلا قدم، اگلا لمحہ اور اگلا دن ہمیں ہماری منزل کے قریب لے جا رہا ہے۔ ہمارا قافلہ اپنے قافلہ سالار کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ حکمت عملیاں بدلتی رہتی ہیں، لیکن منزل وہی ہے جسے ہم سب جانتے ہیں۔
آیئے! تحریک منہاج القرآن کے 45 ویں یومِ تاسیس کے موقع پر عہد کریں کہ ہم نے استقامت کے ساتھ اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنا ہے۔ لوگوں کے اذہان پر دستک دیتے رہنا ہے اور شعور کی بیداری کی مہم کو جاری و ساری رکھنا ہے۔ بیداری شعور ہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم اس سرزمینِ پاکستان کو ایک مصطفوی معاشرے میں بدل سکتے ہیں اور لوگوں کے احوال بدل سکتے ہیں۔ اسی شعور کی بیداری کے ذریعے لوگوں کی تقدیر سنور سکتی ہے، اس لیے ہمیں اس شعور کی بیداری کی دستک دیتے رہنا ہے تاکہ ہم عوام الناس میں مصطفوی معاشرے کے قیام کا احساس زندہ کر سکیں۔