ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین
ماہ رمضان المبارک بڑی برکتوں، سعادتوں اور نعمتوں والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو برکتیں اور سعادتیں اس مبارک مہینے کے ساتھ خاص فرمائی ہیں وہ کسی اور مہینے کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔ نیز جو برکتیں اس مبارک مہینے کے اندر کئے جانے والے نیک اعمال کے ساتھ مخصوص ہیں وہ دوسرے مہینوں میں انہی اعمال کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ اس مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے روزے اور رات کے قیام کے ساتھ خصوصیت عطا فرمائی ہے یعنی صیام رمضان اور قیام رمضان۔
نفلی روزہ رمضان المبارک کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی رکھا جاتا ہے اور رات کا قیام، رمضان المبارک کی راتوں کے علاوہ دوسری راتوں میں بھی ہوتا ہے مگر جو فضیلت ماہ رمضان کی راتوں کے قیام میں ہے وہ کسی اور رات کے قیام میں نہیں اور جو فضیلت، برکت اور سعادت ماہ رمضان کے روزوں میں ہے وہ کسی اور مہینے کے روزوں میں نہیں۔ اس لئے کہ ان اعمال کی اس مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ مہینہ بہت عزیز ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’رمضان میرا مہینہ ہے، ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ داروں کے اجر کے حوالے سے ارشاد فرمایا :
عَنْ سَهْلٍ بن سعد قال : قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم اِنَّ فِی الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَه الرَّيان يَدْخُلُ مِنْه صَائمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَدْخُلُ مِنْه اَحَدٌ غَيْرُهُمْ يُقَالُ اَيْنَ الصَّائِمُوْنَ فَيَقُوْمُون لَايَدْخُلُ مِنْهُمْ اَحَدٌ غَيْرُهُمْ فَاِذَا دَخَلُوْا اُغْلِقْ فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهَ اَحَدٌ.
(صحيح البخاری، کتاب الصوم، باب الريّان للصائمين)
’’حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریّان ہے، روزِ قیامت اس میں روزے دار داخل ہوں گے ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوجائیں گے، ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس دروازے میں سے داخل نہیں ہوگا اور جب وہ داخل ہوجائیں گے دروازہ بند کردیا جائے گا۔ پس اس سے روزہ داروں کے علاوہ کوئی داخل نہ ہوگا، ، ۔
جنت میں تو بہت سارے دروازے ہیں مگر ایک خاص دروازہ ہے اور اس دروازے کا نام باب الریّان ہے۔ عربی زبان میں ریّان کا ایک معنی خوبصورت پھوار والی بارش ہے۔ جس سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہے، نہ گرمی کی تپش رہے اور نہ بارش کا کیچڑ رہے۔
ریّان کا دوسرا معنی سیرابی ہے، یہ سیرابی، پیاس کے برعکس ہے، پیاس کو العطش کہتے ہیں اور شدید پیاسے کو عطشان کہتے ہیں لیکن اگر کوئی خوبصورت، ٹھنڈا، میٹھا مشروب پی کے سیراب ہوجائے، سیر ہوجائے تو عطشان کے مقابلے میں اسے ریّان کہتے ہیں۔ گویا عطش اور عطشان میں جتنی پیاس ہے، ریّان میں اتنی ہی سیرابی ہے۔
یہ دروازہ صرف ماہ رمضان کے روزہ داروں کے لئے مختص ہوگا، روزہ دار اس دروازے سے گزارے جائیں گے۔ اس کی حکمت کیا ہے؟
درحقیقت روزہ اللہ کے لئے بھوک اور پیاس اپنانے کا نام ہے، روزہ دار اللہ کے لئے پیاس اپنا کر عطشان بن کے جائیں گے، اللہ فرمائے گا میری خاطر عطشان ہونے والے بندوںکو ریّان سے گزارو تاکہ جنت میں پہنچنے سے پہلے ہی سیراب ہوجائیں۔ پس آج کی پیاس وہاں کی سیرابی سے بدل جائے گی۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم آج کی پیاس کو برداشت کرکے وہاں کی سیرابی کے لئے اپنے آپ کو کس قدر کمربستہ کرتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعلان کردیا جائے گا کہ سوائے روزہ داروں کے اس دروازوں سے کسی اور کو گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اللہ فرمائے گا کہ یہ دروازے صرف انہی کے لئے مختص ہے جو میری خاطر بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر ہوگا اور آواز دی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پس اس آواز کو سن کر روزے دار میدانِ قیامت میں کھڑے ہوجائیں گے، عرض کریں گے مولیٰ ہم حاضر ہیں، اس وقت حکم ہوگا کہ تمام روزے دار جنت میں باب الریّان سے داخل ہوجائیں اور ساتھ ہی فرمایا جائے گا کہ ان روزے داروں کے سوا اس دروازے سے اور کوئی داخل نہ ہو اور جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا۔ یہ خاص نعمت و سعادت اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے حصہ میں رکھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جنت کے کئی دروازے ہیں جو نمازی ہوں گے ان کے لئے باب الصلاۃ ہوگا جو مجاہد ہوں گے ان کو باب الجہاد سے گزارا جائے گا جو صدقہ و خیرات کرنے والے ہوں گے وہ باب الصدقہ سے گزارے جائیں گے اور جو روزہ دارہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا، ، ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے نام پر ایک دروازہ رکھا ہے اور اس عمل کے کرنے والے اسی عمل کے نام والے دروازے سے گزریں گے۔ نمازی ہے تو دروازہ نماز ہے۔ ۔ ۔ مجاہد ہے تو دروازہ جہاد ہے۔ ۔ ۔ صدقہ خیرات کرنے والا ہے تو دروازہ صدقہ ہے۔ اس اصول پر چاہئے تھا کہ روزہ رکھنے والوں کے لئے باب الصیام ہوتا، جس طرح ہر عمل کا دروازہ، فقط اس عمل کے نام پر ہے مگر روزہ رکھنے والوں کے لئے دروازہ باب الصیام کے نام سے نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں، لہذا اللہ نے اس دروازے کے نام کو مختلف کردیا اور اپنی بارگاہ کی سیرابی کے نام پر باب الریّان بنادیا اور ارشاد فرمایا : کہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا۔ اگر اس دروازے کا نام باب الصیام ہوتا یعنی روزوں کے نام سے ہی دروازہ ہوتا تو اس دروازے کی قدرو منزلت بھی دوسرے اعمال والے دروازوں کے برابر ہوجاتی۔ یہاں نام عمل کے نام پر نہیں بلکہ عمل کے اجر کے نام پر رکھا ہے اور اجر کیا ہے؟ دیگر اعمال کے اجر نیکیاں ہیں، کسی نے کوئی نیک عمل کیا تو دس، سو یا سات سو نیکیاں مل گئیں یعنی اجر نیکیوں کی تعداد میں ملا۔
فَمَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُوْا اَمْثَالِهَا.
’’جو ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا اجر ملتا ہے، ، ۔
ہر عمل کا اجر تعداد کے حساب سے مقرر ہے اور ہر عمل کا دروازہ اس عمل کے نام پر مقرر ہے مگر روزے کے لئے اجر نہ نیکیوں کی تعداد میں ہے نہ دروازہ، عمل کے نام پر ہے بلکہ روزے کے اجر کے بارے میں فرمایا کہ
اَلصَّوْمَ لِيْ وَاَنَا اَجْزِيْ به
’’روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، ، ۔
وہ جزا کیا ہے؟ روزے کی جزا کو اللہ تعالیٰ نے دیگر اعمال کی طرح واضح نہیں فرمایا بلکہ چھپا کر رکھا ہے۔ اس اجر کی تھوڑی سی جھلک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے سامنے آرہی ہے۔
لصائم فرحتان يفرحهما اذا افطره فرح واذا لقی ربه فرح.
(صحيح البخاری کتاب الصوم)
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی دیدار کے وقت، ، ۔
ریّان کا معنی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنے سے مزید واضح ہوجائے گا کہ روزے کے عمل کے مطابق اس کا دروازہ اس کے نام پر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ اعمال کے اجر نیکیوں کی تعداد کے لحاظ سے بتادیئے گئے اسلئے درازے کا نام بھی عمل کے نام پر رکھ دیا گیا مگر چونکہ اللہ نے روزے کے اجر کا اعلان نہیں کیا اس لئے اس اجر کے نام پر دروازے کا نام رکھ دیا گیا کہ روزے داروں کا دروازہ سیرابی کا دروازہ ہے اور سیرابی کس چیز کی؟ فرمایا کہ روزے دار کے لئے میرے دیدار کے سوا کسی اور شے میں سیرابی ہے ہی نہیں۔ فرمایا : اے روزے دار تو نے میری خاطر بھوک برداشت کی، آج اپنے دیدار کے ذریعے تیری بھوک کو رفع کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر پیاس برداشت کی آج اپنے دیدار کے شربت سے تیری پیاس کو دور کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے نفس کی لذتوں کو خیر باد کہا آج میں اپنے دیدار کے ذریعے تجھے اپنی قربتوں کی لذت عطا کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے اوپربہت سی راحتیں حرام کرلیں آج میں اپنے وصال کی راحت سے تمہیں ہمکنار کرتا ہوں۔
پس یہ سیرابی اللہ کی قربت سے، اللہ کے وصال اور دیدار سے ہے۔
جمالِ یار کی حسرت میں جو مریض ہوا
جمالِ یار ہی ان کا طبیب ہوتا ہے
اسی مفہوم کو کسی شاعر نے فارسی میں یوں بیان کیا۔
از سرِ بالین من برخیز اے نادان طبیب
درد مندے عشق را دارو بجز دیدار نیست
’’(مریض کہتا ہے) اے معالج آپ میرے سرہانے سے اٹھ جائیں (آپ کی دوائی میں میری مرض کا علاج نہیں ہے میں تو در مندِ عشق ہوں اور مریضِ عشق کا علاج محبوب کے دیدارکے سوا کچھ نہیں ہوتا، ، ۔
اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کو اپنے عاشقوں میں شامل فرمایا اس لئے روزہ داروں کا اجر اپنی ذات کا دیدار مقرر فرمایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے اپنے دروازوں سے بلایا جائے گا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
بِاَبِيْ وَاُمِّی يَارَسُوْلَ اللّٰه فَهَلْ يُدْعٰی اَحَدٌ مِنْ تِلْکَ الْاَبْواب کُلِّهَا.
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (یہ تو آپ نے فرمادیا کہ ہر شخص ایک ایک دروازے سے بلایا جائے گا) کیا کوئی ایسا بھی ہوگا جسے ہر دروازے سے آواز آئے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ہاں ایسا بھی کوئی ہوگا جس کا نام ہر دروازے سے پکارا جائے گا ابوبکر مجھے یقین ہے کہ آپ بھی انہی میں سے ہوں گے۔
اس حدیث سے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہورہی ہے وہاں لفظ مِنْہُمْ اس بات کی نشاندہی بھی کررہا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے کئی ایسے خوش نصیب ہوں گے جن کا نام جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا۔
روزہ داروں کو اللہ کے خاص مہینے سے نسبت کی بناء پر یہ فضیلت حاصل ہوگی کہ ان کے لئے باب الریّان خاص ہوگیا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبت حاصل ہوئی ان کا درجہ سب جنتیوں میں ممتاز ہوگیا۔ پس یہ نسبت جسے بھی مل جائے وہ بلند ہوجاتا ہے، مہینہ کو مل جائے تو وہ بلند، انسان کو مل جائے تو وہ بلند، عمل کو مل جائے تو وہ بلند۔
جس شے کو بھی نسبت مل جائے اسی کو افضلیت ملتی ہے پس ماہ رمضان المبارک کو اللہ سے نسبت ہے، روزہ داروں کو رمضان سے نسبت پس اس نسبت کی بناء پر اللہ نے انہیں غیر معمولی درجات عطا فرمائے پس ان نسبتوں کو حاصل کرنے کے لئے محنت و مجاہدہ کرنا پڑتا ہے اگر ماہ رمضان کے روزوں، اس کا قیام اور اس پر استقامت قائم رہے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے حصول کی جانب کوششیں نسبت کو ملحوظ رکھ کر کی جائیں تو اللہ تعالیٰ برکتیں اور سعادتیں عطا فرماتا ہے۔ اللہ رب العزت ماہ رمضان المبارک کی خصوصی نعمتوں سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔ (آمین)
رمضان المبارک میں معمولاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رمضان المبارک کے ماہِ سعید میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انہیں معمولات کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہم بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہء پر عمل کر کے اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں کو لوٹ سکیں۔
معمولاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اجمالی جائزہ
اجمالی طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولات رمضان المبارک کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے :
- صیامِ رمضان : اس سے مراد ماہ رمضان کے دوران اپنے اوپر روزوں کی پابندی کو لازم ٹھہرا لینا ہے۔
- قیامِ رمضان : رمضان المبارک کی راتوں میں نماز تراویح، تسبیح و تہلیل اور کثرت سے ذکر و فکر میں مشغول رہنا۔
- ختم قرآن : دورانِ ماہ رمضان المبارک مکمل قرآن پاک کی تلاوت کا معمول۔
- اعتکاف : رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے ایام بہ نیت اعتکاف مسجد میں بیٹھنا۔
- نمازِ تہجد : سال کے بقیہ مہینوں کی نسبت رمضان المبارک میں نماز تہجد کی ادائیگی میں زیادہ انہماک اور ذوق و شوق کا مظاہرہ۔
- صدقہ و خیرات : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینے میں عام مہینوں کی نسبت صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے۔ اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا۔
i۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعا فرمانا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے۔
عن انس بن مالک قال : کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اذا دخل رجب قال : اللهم بارک لنافی رجب و شعبان و بلغنا رمضان.
( المعجم الاوسط، 4 : 558، رقم حديث : 3951)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔
ii۔ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے پر خصوصی دعا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر خصوصی دعا فرمایا کرتے تھے :
کان اذا راي هلال رمضان قال : هلال رشد و خير، هلال رشد و خير امنت بالذي خلقک.
1. مصنف ابن ابی شيبه، 10 : 400، رقم حديث : 9798.
( المعجم الاوسط، 1 : 212، رقم حدیث : 313)
جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے : یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے۔ میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا۔
iii۔ رمضان المبارک کو خوش آمدید کہنا
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال کرتے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرام سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا۔
جب رمضان المبارک ک مہینہ آتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے دریافت کرتے
ما تستقيلون؟ ماذا يستقبلکم؟ (ثلاث مرات)
(الترغيب والترهيب، 2 : 105)
تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے۔ (یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)
اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان الله يغفر في اول ليلة من شهر رمضان اهل لکل هذه القبلة.
(الترغيب والترهيب، 2 : 105)
تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کردیا جاتا ہے۔
iv۔ رمضان اور شعبان میں روزوں کا اتصال
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھ کر ماہ رمضان کی تیاری اور استقبال کیا کرتے تھے۔
عن عائشة رضی الله عنها قالت : کان أکثر صيامه سوی رمضان فی شعبان.
(سنن النسائی، 1 : 306، کتاب الصيام، رقم حديث : 2179)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف ماہ شعبان میں ہی کثرت کے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے۔
اکثر اوقات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیتے تھے۔
عن عائشة وام سلمة قالتا : ما کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يصوم شهرا سوی رمضان الاشعبان فانه کان يصله برمضان.
(المعجم الکبير، 23 : 256، رقم حديث : 529 - 527)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے روزے رکھا کرتے تھا، اس لئے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عن ام سلمة قالت : ما رايت رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم يصوم شهرين متتابعين الا انه کان يصل شعبان برمضان.
(سنن النسائی، 1 : 305، 306، کتاب الصوم، رقم حديث : 2175)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں ہی پورے ماہ کے روزے رکھا کرتے تھا اس لئے کہ یہ رمضان کے ساتھ متصل ہے۔
v۔ روزے میں سحر ی و افطاری کا معمول
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عن انس، قال قال : رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم تسحروا فان فی السحور برکة.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
(صحيح البخاری، 1 : 257، کتاب الصوم، باب برکة السحور من غير ايجاب، رقم حديث : 1823 )
اس ایک دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
فصل ما بين صيامنا و صيام اهل الکتٰب اکللة السحر.
(صحيح مسلم، کتاب الصيام، باب فضل السحور، رقم حديث : 1096)
حضرت ابوقیس نے حضرت عمرو بن العاص سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عن ابی سعيد الخدری قال قال : رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم السحور کله برکة فلا تدعوه.
(مسند احمد بن حنبل، 3 : 12)
سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔
فان اللّٰه و ملائکته يصلون علی المستحرين.
(مسند احمد بن حنبل، 3 : 12)
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں۔
روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو، خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
برکت سے کیا مراد ہے؟
برکت سے مراد اجر عظیم ہے کیونکہ اس سے ایک تو سنت ادا ہوتی ہے اور دوسرا روزہ کے لئے قوت و طاقت مہیا ہوتی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس حدیث میں برکت سے مراد دوسر ے دن کے روزے کی قوت حاصل کرنا ہے۔
حدیث مبارکہ میں بھی اس فائدے کا ذکر ملتا ہے :
عن ابن عباس قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : استعينوا بطعام السحر علی صيام النهار و بقيلولة النهار علی قيام الليل.
دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔
(سنن ابن ماجه، 123، کتاب الصيام، باب ما جاء فی السحو، رقم حديث : 1693)
برکت سے مراد ثواب و اجر کی زیادتی ہے، کیونکہ سحری کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
و اما البرکة التی فيه فظاهرة لانه يقوي علي الصيام و ينشط له و تحصل بسببه الرغبة في الازدياء من الصيام. و قيل لانه يتضمن الاسقيقاظ، والذکر و الدعاء في ذالک الوقت الشريف و قت تنزل الرحمة و قبول الدعاء و الاستغفار.
سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ (شرح نووی، 7 : 206)
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں :
قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر.
(صحيح مسلم، 1 : 350، کتاب الصيام، باب فضل السحور، رمق حديث : 1098)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔
اسی طرح دوسری حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذا سمع النداء احدکم والاناء علی يده فلا يضعه حتی يقضی حاجته منه.
(سنن ابی داؤد، 1 : 328، کتاب الصوم، رقم حديث : 2350)
جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے۔
حدیث قدسی ہے کہ :
قال اللّٰه تعالی احب عبادی الی اعجلهم فطراً.
(جامع الترمذی، 1 : 88، کتاب الصوم، باب ما جاء فی تعجيل الافطار، رقم حديث : 700)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔
vi۔ سحری میں تاخیر
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔
عن ابن عباس رضی الله عنه قال قال : رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم امرنا ان تعجل افطارنا نوخر سحورنا.
(السنن الکبری، 4 : 238)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
عن سهل بن سعد رضي الله عنه، قال قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : لا تزال امتي علي سنتي ما لم تنتظر يفطرها النجوم.
حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میری سنت پر اس وقت تک برابر قائم رہے گی، جب تک کہ وہ روزہ افطار کرنے کے لئے ستاروں کا انتظار نہ کرنے لگے گی۔ (مواردالضمان : 891)
آپ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا، جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔
حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سحری کھانے کی برکت کئی طرح سے حاصل ہوتی ہے، مثلا اتباع سنت، یہود و نصاری کی مخالفت، عبادت پر قوت حاصل کرنا، آمادگی عمل کی زیادتی، بھوک کے باعث جو بدخلقی پیدا ہوتی ہے، اسکی مدافعت سحری میں کئی حقدارو اور محتاجوں کو شریک کرلینا، جو اس وقت میسر آجاتے ہیں۔
علامہ ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روزے کا مقصد چونکہ پیٹ اور شرم گاہ کی خواہشات کو توڑنا اور درجہ اعتدال میں لانا ہے۔ لیکن اگر آدمی اتنا کھا جائے کہ جس سے روزے کے مقاصد پورے نہ ہوں، بلکہ ختم ہی ہو کر رہ جائیں۔ تو یہ روزہ کی روح کے خلاف ہے۔ جبکہ عیش پسند لوگ ایسا کرتے ہیں کہ دن بھر کی کسر شام کو اور رات بھر کی کسر سحری کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
vii۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روزہ افطار فرمانا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اذا افطر احکم فليفطر علي تمر فانه برکة فان لم يجد فليفطر علي ماءٍ فانه طهور.
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔
(جامع الترمذی، 1 : 83، کتاب الزکوة، رقم حديث : 658)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کو بہترین سحری قرار دیا :
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم : نعم سحور المومن التمر.
(سنن ابي داؤد، 1 : 327، کتابالصوم، باب من سمي السحور الغداء، رقم حديث : 2345)
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ انسان پر شیطان ہمیشہ پیٹ کے راستے حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ حصولِ رزق کی کوششوں میں پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اسے حرام کی طرف راغب کر دیتا ہے اور بھوک کے ہتھیار سے اسے شکار کر لیتا ہے۔ گویا رزق حرام کی راہ شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے، لہذا فکرِ معاش اور روزگار کی پریشانیوں سے نجات پا کر ہی عبادت کا حقیقی لطف اور کیف و سرور نصیب ہوتا ہے۔
بہترین عمل۔ ۔ ۔ عمل مداومت
اسلام اعتدال اور توازن کی راہ پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور وہ معاملات و عبادات میں افراط و تفریط کی روش اختیار کرنے کو بنظرِ استحسان نہیں دیکھتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو اسی راہ پر عمل پیرا ہونے کی تعلیم فرمائی ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک دفعہ چند صحابہ رضی اللہ عنہ جن میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عمرو بھی تھے، صائم الدہر اور قائم الیل رہنے پر متفق ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو حضرت عبداللہ بن عمرو کو طلب فرمایا، جو مکالمہ ہوا وہ انہی صحابی سے مروی حدیث پاک میں ملاحظہ فرمایئے :
قال لی رسول اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم يا عبداللّٰه ألم أخبر انک تصوم الدهر و تقوم الليل فقلت بلي يا نبي اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم قال فلا تفعلن نم و قم و صم و افطرفان لجسدک عليک حقاً و ان لعينک عليک حقاً و لضيفک عليک حقاً و ان لزورک عليک حقا لاصام من صام الدهر، صوم ثلاثة ايام من کل شهر صوم الدهر کله، صم کل شهر ثلاثة ايام.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے طلب کیا اور فرمایا : اے عبداللہ مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دن کو روزہ رکھتے ہو اور رات کو قیام کرتے ہو۔ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایسا ہی ہے)۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کیا کرو روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو (رات کو) قیام بھی کرو اور سوؤ بھی اس لئے کہ تمہارے بدن کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے مہمانوں کا بھی تم پر حق ہے، جس نے ہمیشہ کا روزہ رکھا اس نے (کوئی) روزہ نہیں رکھا، ہر ماہ کے تین روزے ہمیشہ کے روزوں کا ثواب رکھتے ہیں، اسلئے بہتر ہے کہ تم ہر ماہ میں تین روزے رکھو۔
(صحيح مسلم، 1 : 365، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر، رقم حديث : 182)
ایک اور حدیث مبارکہ جسے حضرت ابن قیسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا، اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایامِ بیض یعنی چاند کی تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں کے روزے رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا :
من صام من کل شهرثلاثة ايام فذلک الدهر.
(جامع الترمذي، 1 : 327، کتاب الصوم، رقم حديث : 762)
جس نے ہر ماہ تین روزے رکھے، ایسا ہی ہے، جیسے وہ زندگی بھر روزے رکھنے والا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ حکمت آموز ارشادات عبادت میں میانہ روی اور اعتدال کو ملحوظ رکھنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کا لب لباب یہ ہے کہ سب سے بہتر اور افضل عمل وہ ہے، جو خواہ مقدار میں تھوڑا ہی ہو، لیکن اسے پابندی وقت اور محافظت و مداومت کے ساتھ جاری رکھا جا سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
احب الامر الي اللّٰه مادام عليه صاحبه، و ان قل
(صحيح مسلم، 1 : 365، کتاب الصيام، باب صيام النبي صلی الله عليه وآله وسلم في غير رمضان، رقم حديث : 782)
اللہ تعالی کی بارگاہ میں سب سے اچھا عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ وہ قلیل ہو۔
اسلام دین فطرت ہونے کے ناطے زندگی کے ہر معاملے میں نظم و ضبط (Discipline) پابندی وقت، (Punctuality) اور باقاعدگی (Regularity) پر زور دیتا ہے، لیکن ہم نے اپنی کوتاہ نظری سے ان تصورات کو مغرب سے آئی ہوئی چیز سمجھ رکھا ہے، حالانکہ وہ اسلامی تعلیمات کا جزوِ لاینفک ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دنیاوی اور دینی معاملات کو انہی تصورات کے سانچے میں ڈھالیں اور افراط و تفریط سے نجات حاصل کر کے دنیوی و اخروی کامیابیوں اور کامرانیوں سے بہرہ ور ہوں۔