رفیق نبوت، پیکر صداقت، صوفی امت، چراغ رشد و ہدایت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبداللہ، کنیت ابوبکر، صدیق اور عتیق، لقب تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام عثمان تھا اور کنیت ابوقحافہ تھی جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سلمیٰ تھا اور ام الخیر کی کنیت سے پکاری جاتی تھیں۔
حسب و نسب اور خاندانی پس منظر
آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش خاندان سے تھا اور چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ کا خاندان بکریوں کے ریوڑوں کی پرورش کرتا تھا اور اسی نسبت سے بنوبکر یعنی بکریوں والے کہلاتے تھے۔
خالق کائنات اللہ جل جلالہ نے آپ کو یہ بھی شرف عطا فرمایا کہ آپ کے والدین، آپ کی اولاد، آپ کے پوتوں اور نواسوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا اور صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔
قبول اسلام
خلیفہ اول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو بڑی آسمانی کتب انجیل اور توراۃ میں پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے تذکرے پڑھ چکا تھا اور علاوہ ازیں یہودیت و نصرانیت کے جید علماء کی زبانی بھی آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے سن چکا تھا۔ میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنگت اور معیت میں گزرے اور میں نے آپ میں وہ تمام آثار و علامات نبوت دیکھ لی تھیں جو کہ میں سابقہ کتب سماویہ میں پڑھ چکا تھا اور راہبوں کی زبانی سن چکا تھا۔ لہذا میں اسی وقت ان پر ایمان لے آیا تھا اور میں اس انتظار میں تھا کہ آپ اعلان نبوت فرمائیں اور میں ایمان لانے کا اظہار کروں پھر ایسا ہی ہوا جب آقائے نامدار، فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ مردوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے جس کو بھی اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس نے جھجھک اور تردد سے کام لیا لیکن ایک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی واحد ذات ہے کہ جس کے اندر ایمان لانے اور اسلام قبول کرنے میں کوئی تردد یا ججھک نہیں تھا بلکہ بلا تامل فوراً ایمان لے آئے‘‘۔
دعوت و تبلیغ اسلام
حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے فوراً بعد دوسروں کو بھی اسلام کی دعوت دینا شروع کردی۔ آپ کی دعوت کے نتیجے میں درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مشرف بہ اسلام ہوئے:
- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ
- حضرت عبید بن زید رضی اللہ عنہ
- حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ
سابقہ کتب سماویہ میں ذکر
جماعت صحابہ میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا تذکرہ سابقہ کتب سماویہ میں آیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے۔ ایک دفعہ تجارت کی غرض سے آپ ملک شام تشریف لے گئے تو وہاں بحیرہ راہب نامی ایک یہودی عالم سے ملاقات ہوئی۔ اس راہب نے آپ کو ایک خواب کی تعبیر بتاتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس نبی کی تابعداری کریں گے جس کا سب کو انتظار ہے۔ وہ زمانہ قریب ہے جب اس آخری پیغمبر کا ظہور ہوگا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ رضی اللہ عنہ یمن کے سفر پر تھے تو وہاں بھی آسمانی کتب کے ایک بہت بڑے عالم سے ملاقات ہوئی۔ اس راہب عالم نے آپ کو دیکھتے ہی گرم جوشی سے استقبال کیا اور خوشخبری دی کہ آپ میں وہ جملہ علامات موجود ہیں جس کا ذکر آخری رسول کے ساتھی کے طور پر آیا ہے۔
اس عالم نے کہا: یہ علامات و نشانیاں اس شخص کے بارے میں ہیں جو نبی آخرالزماں پر سب سے پہلے ایمان لائے گا، اس کا ساتھی ہوگا اور نبی کی وفات کے بعد اس کا جانشین ہوگا۔
اوصاف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متصف
اگر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی روزمرہ زندگی کے احوال پر ایک طائرانہ نگاہ دوڑائیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ آپ کی عادات، اخلاق، خصائل اور اوصاف، رسول مکرم، نبی محتشم، مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات و خصائل اور اوصاف حمیدہ کا عکس اور پرتو ہیں۔
مکہ مکرمہ میں کفارو مشرکین نے جب مسلمانوں پر ظلم و ستم بڑھا دیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشہ کی جانب ہجرت کا حکم دیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا ارادہ کرلیا۔ اس نیت سے جب آپ مکہ مکرمہ سے تھوڑی دور پہنچے تو وہاں پر ایک قریشی کردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے بتایا کہ میں ہجرت کرکے حبشہ جارہا ہوں تو اس نے کہا:
تم جیسا شخص نہ نکل سکتا ہے اور نہ نکالا جاسکتا ہے، تم نادار کے لئے سامان مہیا کرتے ہو، صلہ رحمی کرتے ہو، لوگوں کے قرضوں کا بوجھ اٹھاتے ہو، مہمان نواز ہو، حق کے معین اور مددگار ہو۔
ابن الدغنہ کے بیان کردہ اوصاف پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ تقریباً یہ وہی اوصاف حمیدہ ہیں جن کا ذکر حضرت ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے پہلی وحی کے نزول کے بعد حضور پرنور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابت کیا تھا۔
شان ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بزبان رسول صدیق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مرتبہ آپ کو جنت کی بشارت اور خوشخبری دی اور عشرہ مبشرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی آپ کا نام نامی اسم گرامی سرفہرست تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق سے فرمایا کہ تم دوزخ سے خدا کے آزاد کردہ ہو، اسی روز سے آپ رضی اللہ عنہ کا لقب عتیق ہوگیا۔
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! میں نے سب کے احسانوں کا بدلہ اتار دیا ہے مگر میں آپ کے احسانات کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کا منتظر ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی آپ کے احسانوں کا بدلہ دے گا۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی اور فرمایا: اے ابوبکر! تو غار حرا میں بھی میرے ساتھ تھا اور حوض کوثر پر بھی میرے ساتھ ہوگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مرتبہ سوال کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس سے محبت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ عائشہ سے پھر سوال ہوا کہ مردوں میں سے سب سے زیادہ کون محبوب ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ عائشہ کا باپ یعنی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔
جلیسِ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
پیکر صداقت، رفیق نبوت، آفتاب ولایت، جلیسِ قبرِ رسول حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے 63 سال کی عمر پائی۔ آپ نے دو سال، تین ماہ اور گیارہ دن نظام خلافت کو چلایا۔ 22 جمادی الثانی کو وفات پائی۔ خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آپ کاجنازہ پڑھایا اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے۔