اﷲتعالی نے کل انسانیت کو ایک آدم علیہ السلام کی نسل سے جنم دے کر پہلے دن سے ہی سماجی انصاف کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا کہ ’’لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیااور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد وعورت دنیامیں پھیلا دیے‘‘(سورۃ نسائ، آیت1)۔ اور اسی سماجی انصاف کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یوں بیان کردیا کہ ’’تم سب ایک آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہواور آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنے تھے پس کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے‘‘۔ مذاہب کی تقسیم میں بھی اﷲ تعالی نے کسی طرح کی تفریق سے کام نہیں لیا اوراپنی آخری کتاب میں برملا اعلان کر دیا کہ ’’بے شک ایمان والے ہوں یایہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی، جو کوئی بھی اﷲ تعالی پراور روز آخرت پر ایمان لائے گااور نیک عمل کرے گااس کااجر اس کے رب کے پاس محفوظ ہے اور اس کے لیے کچھ خوف اور غم نہیں‘‘(سورۃ بقرہ آیت62)۔ اﷲ تعالی کی ایک صفت ازلی ’’عدل‘‘ہے اور وہ رب، کل کائنات کے ساتھ عدل کرنے والا ہے۔ بظاہر ایک طرف سے محرومی ہے تو دوسری طرف سے اس کا بہترین ازالہ کر دیا، جیسے بینائی سے محروم کیا تو بے پناہ حافظہ عطا کر دیا، ذہنی صلاحیتیں کم تر ملیں تو جسمانی وجود کو قوت و طاقت سے بھر دیا، رنگت اور شکل و صورت میں مقابلۃ کمی بیشی کا شکار ہواتوخاندانی وجاہت سے اس کمی کو پورا کر دیاعلی ھذاالقیاس، غرض قدرت کے ہاں سے کل انسان ایک عدل اجتماعی کا مجسم پیکر بن کر اس دنیامیں بھیجے گئے۔
انبیاء علیھم السلام نے جو تعلیمات انسانیت تک پہنچائیں ان میں سماجی عدل کی ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت رہی۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کے چھوٹے (طبقے کے لوگ)جرم کرتے تو انہیں سزا دی جاتی اور جب ان کے بڑے (طبقے کے لوگ)جرائم کرتے تو انہیں چھوڑ دیاجاتا۔ جہاں جہاں انسانوں کے اس مقدس ترین طبقے کو اقتدار میسر آیا توانہوں نے انسانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا اور ظلم و جبر سے انسانی معاشروں کو پاک صاف کرتے چلے گئے۔ خاص طورپر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس معاشرے کی بنیاد رکھی اس کا تو خاصہ ہی سماجی عدل و انصاف ہے۔ نماز کے اندرپہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر جگہ ملتی ہے، کسی خان صاحب، چوہدری صاحب، ملک صاحب یا پیر صاحب وغیرہ کے لیے کسی طرح کی مراعات نہیں ہیں۔ بس جو پہلے آئے گا وہ مقرب ومعززجگہ پر مقام پائے گااور جودیر سے پہنچے گاوہ پچھلی صفوں میں کھڑاہوگا۔ اسی طرح روزے میں بھی معاشرے کے سب طبقات اورتمام افراد کے لیے ایک ہی وقت پر روزہ شروع ہوتاہے اور ایک ہی وقت پر اختتام پزیر ہوتاہے۔ عدل اجتماعی کی ایک اور تاریخ سازاور عہد آفریں مثال مناسک حج ہیں جن میں صدہا سالوں سے ایک بڑے کے گھرمیں سب انصاف کے پیمانوںکے مطابق مراسم عبودیت اداکرتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں محض اہلیت کی بنیادپر سب طبقات کے سب افرادکے لیے کل مناصب کے دروازے کھلے ہیں، معیشت کے میدان میں حرا م و حلال سب کے لیے برابرہیں، معاشرت کے میدان میں صرف تقوی ہی معیار عزت و توقیر ہے۔
خلافت راشدہ میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اپنے بام عروج پر نظر آئیں۔ خلفائے راشدین نے جس طرح کاسماجی انصاف عالم انسانیت کے سامنے پیش کیاویسااس آسمان نے پہلے کبھی دیکھااور نہ ہی شاید تاقیامت دیکھ پائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے تو ماہانہ مشاہرہ لینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ بعد ازاں شورائیت کے نتیجے میں صرف اتناوظیفہ قبول کیاجو ایک مزدورکی آمدن کے برابرتھااور دم آخریں یہ وصیت کر گئے کہ جتناکچھ وظیفہ کل دورخلافت میںوصول کیا، ترکے میں سے پہلے اس کی ادائیگی کی جائے اور پھر باقی ماندہ جائیداد تقسیم کی جائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورحکومت کل مورخین نے سنہرے حروف سے لکھاہے۔ جب روم جیسی سلطنت کا سفیر یہ کہنے پر مجبورہواکہ تمہاراحکمران عدل و انصاف کرتاہے اور بے غم سوتاہے جبکہ ہمارے حکمران ظلم و ستم کرتے ہیں اور خوف زدہ رہتے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے دنیابھر کی تاریخ کی واحد مثال پیش کی کہ شہادت تو قبول کرلی لیکن سرکاری افواج تک کواپنی ذاتی حفاظت پر مامور نہ کیاحالانکہ آپ وقت کے حکمران تھے۔ اور شیرخدا حضرت علی کرم اﷲوجہ جس تھان سے اپنے لیے کپڑا کٹواتے اسی تھان سے اپنے غلاموں کے لیے بھی کپڑے کٹواتے تھے اور لوگ آقااورغلام کو ایک ہی طرح کے کپڑوں میں دیکھ کر ششدر رہ جاتے۔
صرف تاریخ اسلام نے ہی سماجی عدل و انصاف کو اپنے معاشروں میں جگہ دی کہ مسلمانوں کے عروج سے قبل اور مسلمانوں کے زوال کے بعد پھر ایسی مثالیں انسانوں کے ہاں پیش نہ کی جا سکیں۔ کل انسانی تاریخ میں صرف مسلمانوں کے دور اقتدارمیں ہی ہندوستان میں خاندان غلاماں اور مصر میں مملوک خاندان کے لوگ برسراقتدار آئے اور اس زمین کے سینے پر پہلی بار غلاموں کو اقتدارکے تخت پر براجمان دیکھا۔ ہندوستان میں خاندان غلاماں کے بادشاہان دراصل منڈی میں خریدے گئے غلام تھے اور اپنی قابلیت و اہلیت کی بنیادپر سیاست کے اعلی ترین منصب پر فائز ہوئے اور جب ایک بادشاہ اس دنیاسے رخت سفر باندہ چکتاتو تو اس کی اولاد کو بادشاہ بنانے کی بجائے عمائدین سلطنت کسی اہل تر فرد کو یہ منصب پیش کرتے، اور یوں یہ سلسلہ آگے کو بڑھ جاتا۔ سلطان محمود غزنوی کو ایک شہری نے شکایت کی کہ رات گئے ایک فرد زبردستی اس کے گھر میں گھس کر اس کی بیوی سے زیادتی کرتاہے۔ بادشاہ نے کہاکہ اب جیسے ہی وہ تمہارے گھر آئے مجھے بلالینا۔ رات گئے بادشاہ اس شخص کے ساتھ اس کے گھرمیں دیوارپھلانگ کر داخل ہوا، کمرے میں داخل ہوکر پہلے چراغ گل کیا، پھر اس بدمعاش کا سر قلم کر دیا اور گھر والے سے کہا فوراََ مجھے پانی پلاؤ اور پھر اس بدمعاش کی شکل دیکھ کر شکر الحمدﷲ کہا۔ گھر والے نے پوچھا آپ گھر میں دیوار پھلانگ کر کیوں داخل ہوئے؟ بادشاہ نے کہا دروازے سے آنے میں تاخیر ہو جاتی اور ممکن ہے دروازے سے کھٹکا سن کر وہ بدمعاش فرار ہو جاتا۔ گھر والے نے پوچھا چراغ کیوں بجھایا؟ سلطان محمود غزنوی نے جواب دیا کہ مجھے شک تھا شاید یہ میرا بیٹا ہوگا جس کے دماغ میں شہزادگی کا خمار اسے اس بدمستی پر ابھارتاہو، روشنی میںشکل پہچان جانے سے انصاف کے درمیان شفقت پدری حائل ہو جاتی۔ گھروالے نے پوچھا فوراََپانی کیوں مانگا؟ بادشاہ نے جواب دیا کہ جب سے تم نے ظلم کی شکایت کی تھی میں نے انصاف کی فراہمی تک اپنے آپ پر کھانا پینا حرام کررکھاتھا۔ اور آخر میں اس نے پوچھا کہ آپ نے شکرالحمدﷲکیوں پڑھاتو بادشاہ نے کہا کہ وہ بدمعاش میرا بیٹا نہ تھا اس پر میں نے اﷲ تعالی کا شکر اداکیا۔ مسلمانوں کاایک ہزار سالہ دور اقتداراس طرح کی بے شمار مثالوں سے بھراپڑاہے۔ حتی کہ فی زمانہ جب کل دنیامیں یہودیوں، عیسائیوں، ہندؤں اور سیکولرافواج کے ہاتھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں تب بھی کسی مسلمان ملک میں ان اقلیتوں پر انتقاماََدست درازی نہیں کی گئی۔
ہندؤں نے چار ذاتوں کی آڑ میں سماجی انصاف کو ذبح کر دیا، بدھوں نے برما میں سینکڑوں نہیں ہزارہا مسلمان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کاقتل عام کیااورانکی بستیاں اور املاک نذر آتش کیں اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں تک کو نیست و نابود کر کے انصاف کا قلع قمع کر دیا، عیسائیوں کے کسی فرقے کاپوپ آج تک ایشیایاافریقہ سے نہیں آیاحالانکہ اس مذہب کے اکثریتی پیروکار ان دونوں براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں اور صلیبی جنگوں وسقوط قرطبہ سے آج تک دامن صلیب انسانی خون سے رنگارنگ ہے۔ یہودیوں نے تو انبیاء علیھم السلام جیسی ہستیوں کے بھی قتل سے دریغ نہ کیاتو باقی عدل و انصاف کے تقاضے وہ کہاں سے پورے کریں گے؟ جب کہ سیکولرازم توان سب سے بازی لے گیاہے جس نے بدترین اخلاقی و علمی بددیانتی سے ان مذاہب کے عمدہ ترین تصورات کو چوری کر کے اپنے نام سے منسوب کر لیاہے اور کذب و نفاق اور ظلم و ستم کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ الامان و والحفیظ۔ انتہاء تو یہ ہے کہ دیگر مذاہب بظاہر جو نظر آتے ہیں حقیقت میں بھی کم و بیش وہی ہوتے ہیںجبکہ سیکولرازم انسانیت کا نعرہ لگا کر انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتاہے، جمہوریت کا نعرہ لگا کر آمریت کو مسلط کرتاہے اور اسی طرح عدل و انصاف کا جھانسادے کر ظلم وبربریت اور کشت و خون کا بازار گرم کرتاہے۔ آلودگی کے نام پر معاشی جنگ، خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر معاشرتی جنگ، حقوق نسواں کے نام پر بدکاری کا فروغ، ’’چائلڈ لیبر‘‘کے نام پرخاندانوں کی بربادی، تعلیم کے نام پر جہالت اور سیکولر تہذیب کا پرچار اور گلوبلائزیشن کے نام پر کل انسانیت کوتہذیبی و ثقافتی غلامی کی زنجیروں میں ناک تک جکڑ لینا اس سیکولرازم کا تاریخی کردار ہے۔ پس اب تو تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ انسان نقصان میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، نیک عمل کیے، حق بات کی نصیحت کی اور صبر کی تلقین کی۔ سماجی انصاف صرف ایک ہی صورت میں اس عالم انسانیت کا مقد ربن سکتاہے جب قرآن و سنت کے اقتدار کا سورج مشرق سے طلوع ہوگا اور وہ وقت اب قریب آنے والا ہے۔ ان نشاء اﷲ تعالی۔