ہندوستان کی روحانیت نے بہت سے برگزیدہ انسان پیدا کیے اور اقبال کا شمار بھی ایسے ہی انسانوں میں ہوتا ہے۔ ہاں وہی اقبال جسے دنیا شاعر مشرق، حکیم الامت، ترجمانِ خودی اور ترجمانِ حقیقت کے القابات سے نوازتی ہے۔ یہ تمام القابات بجا اور درست ہے لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔
وہ مفکر بھی ہے اور مبلغِ ارتقاء بھی، وہ حکیم بھی ہیں اور کلیم بھی، وہ خودی کا پیامبر بھی ہے اور بے خودی کا رمز شناس بھی، وہ توقیر آدم کا مبلغ بھی ہے اور تحقیر انسان سے درد مند بھی۔ اس کے کلام میں فکر و ذکر ہم آغوش بھی ہے اور خبر و نظر آئینہ یک دگر، لیکن اقبال کی تمام تر شاعری، ان کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمناے انقلاب ہے۔
اقبال وہ ہے جو صبح کا نقیب اور اجالوں کا ہمنوا ہے۔ جس نے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے کی بجائے حالات کا رخ موڑ کر اپنے افکارِ تازہ سے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں بلکہ پوری امت مسلمہ میں ایک نئی روح پھونکی۔ انہیں بلندیِ کردار، عملِ پیہم، جہدِ مسلسل، استقلال اور خود اعتمادی کا درس دے کر خوابِ غفلت سے بیدار کیا۔ مشرقی اور مغربی علوم کا رسیا یہ مرد قلندر اپنے سینے میں ملت کا درد محسوس کرتا تھا۔ لہذا اس نے قوم کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور درسِ آزادی سے دلوں کو گرمایا۔ اپنی شاعری سے ایک طرف انجمنِ حمایتِ اسلام کو رونق بخشی تو دوسری طرف توقیر آدم اور مقامِ آدم سے اشرف المخلوقات کو آگاہ کیا۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبّر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اقبال نے اسلام کی بنیادی اقدار اور دور حاضر کے سیاق وسباق میں بعض اہم سوالات پر غور کرنے میں پوری عمر صرف کردی۔ جن میں سے چند یہ ہیں:
عہد حاضر کے سائنسی اور فلسفیانہ خیالات کے موافق اور نامور موافق دھاروں میں اسلام کا کیا مقام ہے؟ ان نئے حالات میں ہمارے تیور کیا ہیں اور اپنے مطمح نظر تک پہنچنے کے لیے ہمیں کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے؟ قومی، نسلی، معاشرتی اقتصادی اور ثقافتی مخالفتوں کے ساتھ دنیائے حاضر میں اسلام کیا کار نمایاں سر انجام دے سکتا ہے؟
ان کے نزدیک اسلام محض ایک تدبیر نہ تھا بلکہ وہ ایک فعال طاقت تھا کہ جغرافیائی اور نسلی قیود سے انسان کی فکر و نظر کو آزاد کرے اور پرانی دنیا سے نئی دنیا تعمیر کرے۔ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی اس کو اپنے ہی راستے پر چلنا ہے۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ ’’اسلام خود ہی تقدیر ہے وہ کسی تقدیر کا تابع نہیں ہوگا۔‘‘
اقبال کی شاعرانہ صلاحیت اسرار خودی اور رموز بے خودی میں (جو فلسفیانہ مثنویاں ہیں) ازخود ابل پڑی۔ یہ بہت ہی نادر اور جمیل الفاظ میں اسلام کے حقیقی معنی اور پیغام کو پیش کرتی ہیں۔
اپنی کتاب "ریکنسٹرکشن آف ’’ریلیجیئس تھاٹس اِن اسلام‘‘ میں انہوں نے ایک فلسفہ پیش کیا ہے اور مسلم معاشرے میں نئی روح پھونکنے کی راہ بتائی ہے۔ انہوں نے بعض ایسی عظیم نظمیں کہی ہے کہ اردو فارسی یا کسی دوسری ایسی زبان میں کبھی نہیں کہیں گی جن سے ہم واقف ہیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ تمام نوع انسانی کو ایک سمجھتے تھے اور انسانی سرگرمیوں کے ہر پہلو سے ان کو دلچسپی تھی۔ وہ حصول علم و جذب باطنی کے لیے ہر سمت میں پہنچے اور پھر انہوں نے اسے لافانی حسن کے ساتھ ہم تک پہنچایا۔ اقبال ہمارے لئے باب ثقافتِ عالم ہیں۔
اقبال تصور پاکستان کے خالق ہیں۔ انہوں نے یہ عظیم خواب دیکھا۔ اگرچہ اس کو حقیقت کی صورت اختیار کرتے ہوئے دیکھنے کے لئے زندہ نہ رہے یا ان کی قرطاس فکر پر نوشتہ تقدیر الہی منعکس ہوا جس میں انہوں نے آنے والے حالات کی صورت دیکھی جو صرف چشم بینا کو نظر آتی ہے، کیونکہ اقبال روشن ضمیر تھے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
حیراں ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
وہ قوم جو راز سرفرازی سے نا آشنا تھی۔ تلاش رہبر منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ اسے راستہ دکھایا جس اسلامی مملکت کا تصور اقبال نے دیا جو قائد اعظم اور رہنمائے پاکستان کا مقصد تھا۔ ملت کی امنگوں اور آرزوؤں کا مرکز بن گیا۔ اقبال نے دنیا بھر کے مسلمانوں پر یہ بات واضح کردی کہ افراد کا ملت کے ساتھ وابستہ رہنا ہی وہ واحد عمل ہے کہ جس کی بدولت اسلام کے زریں اصولوں کو بنی نوع انسان کی تاریخ میں از سرِ نو تاریخ ساز کردار سونپا جا سکتا ہے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
اقبال نے مسلمانوں کے علمی اور روحانی ورثے کا گہری نظر سے جائزہ لیا اور اس میں سے حیات افشاء عناصر کو حیات کش عناصر سے الگ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ساتھ وہ مغربی علوم کا بھی ماہر تھا جس سے نہ ہمارے فقہاء آشنا تھے اور نہ ہمارے شعرا کو اس کی ہوا لگی تھی۔ مغربی علوم اور تہذیب و تمدن کو بھی اس نے حکیمانہ اور مجددانہ نظر سے دیکھا، اس کی خوبیوں کا اعتراف کیا اور مسلمانوں کو ان کے حصول کی تلقین کی لیکن اس تعمیر میں جو خرابی کی صورت مضمر تھی وہ بھی اس کی چشم بصیرت سے اوجھل نہ رہی۔
حکمت فرنگ میں جو مادہ پرستی اور محسوسات پرستی پیدا ہو گئی تھی، اس نے انسانی ترقی کو یکطرفہ کرکے انسانیت کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا تھا۔ اقبال نے ان میلانات کا تجزیہ کیا اور اس کے مسموم عناصر سے گریز و پرہیز کا مشورہ دیا۔
تمام ملت اسلامیہ میں کوئی مفکر ایسا نہیں گزرا جو ماضی و حال اور مشرق و مغرب کے افکار کا جامع ہو۔ آپ اس جامعیت کے ساتھ ایک تلمیذ الرحمن شاعر بھی تھے۔ اس تمام دولت کو اقبال نے اپنی شاعری میں بھر دیا۔ وہ خالی مرد حکیم ہوتا تو ملت کے نفوس میں اثرانداز نہ ہو سکتا۔ ایک باکمال شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے حکمت میں سوز دل کو سمو دیا کیا اور عقل و عشق کی آمیزش نے اس کو عارف رومی کا مرید اور جانشین بنا دیا۔ کیونکہ جلال الدین رومی میں بھی یہی کمالات اور محاسن جمع ہوگئے تھے۔ مگر تفکر اور تاثر کی جو وسعت اور گہرائی اقبال کے کلام میں نظر آتی ہے اس سے قبل کہیں نہیں ملتی۔
ایران کے ملک الشعراء بہار نے فراخ دلی سے اقبال کے کمال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری ہزار سالہ اسلامی فکر و نظر کا ثمر ہے۔ لیکن مغربی حکما کے بہترین افکار سے بھی اقبال نے فائدہ اٹھایا۔ کہیں ان کا نام لیا اور کہیں ان کے انداز تفکر کو اپنے انداز میں ڈال لیا ہے۔ مگر وہ کسی کا مقلد اور اور خوشہ چین نہیں۔ اس نے جس کو بھی دیکھا اپنی محققانہ نظر سے دیکھا،جو کچھ پسند آیا لے لیا اور جو کچھ جادۂ حقیقت سے ہٹا ہوا دکھائی دیا اس کی تردید کر دی۔
اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو خاص اہمیت دی۔ انہیں شاہین کے لقب سے نوازا، کیونکہ یہ پرندہ نہ صرف اپنی صفات میں دوسروں سے جدا ہے بلکہ اعلیٰ و ارفع بھی ہے
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
شاہین وہ پرندہ ہے جس کے عمل میں کاہلی نہیں برق رفتاری ہے، جس کی روح میں بے قراری ہے، جس میں محتاجی نہیں طاقت ہے، جس میں لالچ نہیں قناعت ہے، جو اپنی خودی سے غافل نہیں بلکہ اس کا محافظ ہے، جس کی ذہنیت میں غلامی نہیں آزادی ہے اور جس کا لہو سرد نہیں ہر لحظہ گرم ہے۔
اقبال کے اس شاہین کو کسی شکار کا لالچ نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے ایک کھیل یا شغل کے طور پر اپناتا ہے جو اس کی جان و روح کو بے قرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ اپنی آئندہ نسل سے بھی یہی توقع کرتا ہے اور اپنے بچے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے
جو کبوتر پر جھپٹنے میں مزا ہے اے پسر
وہ مزہ شاید کبوتر کے لہو میں بھی نہیں
اسی شاہین یعنی جواں مرد کا اقبال متلاشی ہے وہ قوم مسلم کے ہر فرد کو شاہین صفت دیکھنے کا آرزو مند ہے۔ وہ اسے خود دار، غیرت مند، محنت کش، جرات مند، اور خدمت گزار بنانا چاہتا ہے۔
اقبال کا پیغام وہ زندگی افروز پیغام تھا جو دلوں میں اتر کر خون کے ساتھ گردش کرنے لگا۔ مدتوں کی سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی۔ اس میں ولولۂ تازہ اور خود اعتمادی کاجذبہ ابھرا اور بیدار ہوا اور وہ غلامی کا حوا اپنے کندھوں سے اتار کر آزاد ہو گئی۔
؎نہیں اقبال ناامید اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی