ماہ رمضان امت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے یہ مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں پروردگار کی خاص رحمتوں اور برکتوںکا نزول فراخی رزق، ایک دوسرے کی خیر خواہی اور جنت میں داخل ہونے کے لیے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا مہینہ ہے۔آخری کتاب و شریعت کے نزول کے ساتھ ہی آنحضور ﷺ کو نبوت کی بشارت دی گئی۔ امت مسلمہ پر نازل ہونے والے اس انعام و اکرام کی خوشی اور شکرانے کے طور پر مسلمانوں پر ایک ماہ کے روزے رکھ کر اضافی عبادت کا تحفہ ملا اور پروردگار نے ارشاد فرمایا:
یٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
(البقرة، 2: 183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
اس آیہ کریمہ سے وضاحت ہورہی ہے کہ مسلمانوں سے پہلے بھی دیگر امتوں پر روزے فرض قرار دیئے گئے تھے تاکہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ درجات پر فائز ہوسکیں۔ رمضان المبارک کی اہمیت رسالتمآب ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے بہت واضح ہورہی کہ جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ
’’اگر معلوم ہوجائے کہ رمضان کی کیا اہمیت ہے تو امت تمنا کرے سارا سال ہی روزے ہوں۔‘‘
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ذکرو فکر، تسبیح و تہلیل، کثیر تلاوت و نوافل اور صدقہ و خیرات کا باعث بنتا ہے۔ اس مہینے کو پاکر دنیا کا ہر مسلمان اپنے اپنے ایمان اور تقویٰ کے مطابق حصہ لے کر اپنے جسم و روح کے لیے تقویت کا سامان فراہم کرتا ہے۔
اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ کہ روزہ گناہوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ اس حدیث سے صاف واضح ہورہا ہے کہ روزہ دار صرف اپنے آپ کو کھانے پینے سے ہی نہیں روکتا بلکہ روزہ دار کو فحش گوئی، بیہودی اعمال، لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ سے پرہیز کرنے سے اجتناب کرنے کا بھی حکم دیتا ہے کہ اگر اس طرح کا کوئی معاملہ روزہ دار کو پیش آجائے تو وہ مدمقابل کو صرف اتنا ہی کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور وہ ایک بہت بڑی معاشرتی برائی سے بچ سکے گا۔ کیونکہ ایک طرف اگر نیک اعمال کرنا باعث اجرو ثواب ہے تو دوسری طرف برائیوں سے اپنے آپ کو بچانا بھی انتہائی اہم ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ آپ نے صحابہ کرامؓ سے دریافت فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ
’’مفلس کون ہے؟‘‘ تو صحابہ نے عرض کی جو شخص صاحب مال نہ ہو وہ مفلس ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ
میری امت کا مفلس وہ ہے کہ جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ جیسے اعمال اپنے ساتھ لے کر آئے گا لیکن اگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی۔ کسی پر کوئی تہمت لگائی ہوگی کسی کا ناحق مال کھایا ہو یا کسی کو ناحق قتل کیا ہو تو اس کی نیکیاں مظلوموں میں تقسیم کردی جائیں گی اور اگر اس کی تمام نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو اس مظلوم کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں ڈال دیئے جائیں گے۔
اسی طرح روزے کی فضیلت کے حوالے سے حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت سال کے آغاز ہی سے اگلے سال تک رمضان المبارک کے لیے سجا دی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جب رمضان المبارک کا پہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جو جنت کے درختوں کے پتوں سے حور عین پر پھیل جاتی ہے۔ پس وہ حور عین یہ دعا مانگتی ہیں۔ اے اللہ ہمارے لیے اپنے بندوں میں ایسے شوہر بنا جن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور ہم سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے روزے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لعلکم تتقون یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے۔ شائد کہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔
یہاں پر یہ نہیں فرمایا کہ اس سے تم یقینا متقی و پرہیزگار بن جاؤ گے۔
اس آیت سے واضح ہورہا ہے کہ روزے کا نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر منحصر ہے نہ کہ صرف روزہ رکھ لینے سے اور جب تک انسان روزے کے اصل مقصد کو حاصل نہیں کرلیتا یعنی تقویٰ و پرہیزگاری تب ہی روزہ اس کے لیے فائدہ مند ہے اگر اس نے روزہ رکھ کر تقویٰ و پرہیزگاری حاصل نہیں کی تو اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔
نبی اکرم ﷺ نے مختلف انداز سے روزے کی فضیلت و اہمیت سمجھائی جیسا کہ یہ حدیث مبارکہ
’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا ہی نہ چھوڑا تو اس کا کھانا اور پانی چھڑا دینے سے اللہ کو کوئی حاجت نہیں۔‘‘
اسی طرح حضور کے فرمان کے مطابق:
’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا ان کے پلّے کچھ نہیں پڑتا اور بہت سے راتوں کو کھڑے رہنے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا ان کے پلّے کچھ نہیں پڑتا۔‘‘
لیکن روزے کے اصل مقصد کی طرف نبی کریم ﷺ نے توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’یعنی جس نے روزہ رکھا ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے۔‘‘
رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنے اندر بے پناہ محاسن و فضائل سمیٹے ہوئے ہے جیسا کہ قیام اللیل، اجتماعیت، تلاوت قرآن، دعا، انفاق فی سبیل اللہ، لیلۃ القدر اور اعتکاف جن کو پاکر انسان بے پناہ ثمرات حاصل کرسکتا ہے۔ روزے کا سب سے پہلا ثمر ایمان کی از سر نو شادابی و توانائی ہے۔ ایک مومن بندہ روزہ رکھ کر اللہ تعالیٰ کے علیم خبیر ہونے پر ایمان رکھتا ہے اور اسی کے مالک یوم الدین ہونے کا یقین اسے دین و دنیا کی بھلائیاں پانے کی طرف راغب کرتا ہے۔ وہ اپنے دن بھر کی مصروفیات میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر مانتے ہوئے اپنی بہت سی خواہشات پر غلبہ حاصل کرتا ہے۔ اس سے واضح ہورہا ہے کہ انسان کی اصلاح کے لیے دو طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ نمبر ایک قلبی کیفیت میں بھی انقلاب اور تبدیلی پیدا کی جائے اور ظاہری و بیرونی تبدیلی کے ذریعے عملی برائیوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ اسلام نے تربیت کے جو طریقے اختیار کیے ہیں اس میں فرد کی ظاہری و باطنی اصلاح کا پہلو ہے۔
اسی لیے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
’’سنو جسم میں گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارے جسم میں بگاڑ پیدا ہوجانا ہے اور پھر فرمایا یہ لوتھڑا دل ہے۔‘‘
لہذا اس حدیث کے مطابق انسان میں قلبی کیفیات کو لانے کے لیے اپنے اندر پاکیزہ میلانات کو پیدا کرنے کے لیے نماز کے بعد اگر کسی عبادت کا مقام ہوسکتا ہے تو وہ روزہ ہے اور روزے کا دوسرا نمبر اخلاص ہے۔ دوسری عبادت کا علم کسی نہ کسی طرح دوسرے افراد کو ہوسکتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جب تک روزہ دار اپنی زبان سے اس کا اظہار نہ کردے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکتی۔ اس عبادت میں ریاکاری اور نمائش کا کم سے کم امکان پایا جاتا ہے۔ اسی بناء پر نبی اکرم ﷺ نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا تھا کہ
’’روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘
روزے سے انسان میں صبر یعنی ضبط نفس اور اپنی خواہشات پر قابو پانے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ روزے کی وجہ سے انسان میں جذبہ شکر ابھرتا ہے اور خدا کی نعمتوں کی قدرو منزلت اسے معلوم ہوتی ہے اور پھر یہ جذبہ اسے اپنے محسن آقا کی حقیقی محبت سے وابستہ کردیتا ہے اور جب یہ مقام حاصل ہوجائے تو پھر عبادات و اطاعت بھی دو چند ہوجائے گی اور اللہ کی بڑائی و عظمت بیان کرنے کا حکم بھی اسی لیے ہے کہ انسان اپنے اندر جذبہ شکر کو بڑھائے اور اللہ کی ان نعمتوں پر سجدہ شکر بجا لائے۔
اسی طرح عبادت میں کثرت کا تصور بھی انسانی نفس کی تربیت کا نام ہے جیسا کہ قیام اللیل جس میں اپنے آرام کو چھوڑ کر رات کے آخری پہر میں روزہ دار اللہ کی یاد میں اٹھتا ہے۔ یہاں بھی روزہ دار اپنے نفس کی خواہشات کو ترک کرتے ہوئے اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے جس سے اسے روحانی اور قلبی سکون حاصل ہوتا ہے جو آرام سے بہت قیمتی ہے۔
رمضان اور قرآن کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن.
کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔
اور رسول اللہ ﷺ اس مہینے میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ دورہ قرآن فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح پوری امت مسلمہ بھی آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رمضان شریف کو ختم کرتے ہیں۔
انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہوئے بھی انسان رمضان المبارک میں اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر اداکرتا ہے اور اس طرح انسان اپنے خالق و مالک سے قریب ہوجاتا ہے۔اجتماعیت میں عبادت کرنا بڑی سعادت کا باعث ہے۔ لیلۃ القدر ایسی رات ہے کہ جس میں کی جانے والی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے اور اس رات میں یہ دعا پڑھنا چاہیے کہ
اللهم انک عفو تحب العفو فاعف عنی.
ایسے ہی رمضان المبارک میں مسلمانوں کو اعتکاف جیسی نفلی عبادت کا موقع بھی ملتا ہے تاکہ انسان یکسوئی کے ساتھ گوشہ نشین ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ از سر نو اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرسکے اور مخصوص دعاؤں کے ذریعے اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں پر استغفار طلب کرے کیونکہ الدعاء مع العبادۃ۔
ایک مسلمان جب اللہ سے دعا مانگتا ہے تو پروردگار فرماتے ہیں کہ جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو ان سے کہہ دو کہ میں قریب ہوں۔ دعا کرنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے لوگوں کو چاہیے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں۔
اس سے واضح ہورہا ہے کہ دعا میں جب بندہ اپنے پروردگار کو پکارتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی اس پکار کا جواب دیتا ہے جیسا کہ قرآن کی یہ آیت
ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ.
(المومن، 40: 60)
لہذا رمضان المبارک ایسا بابرکت مہینہ ہے کہ جس کے بے شمار فضائل و مناقب قرآن و سنت میں موجود ہیں اور صحابہ کرامؓ کا سنت نبوی پر متواتر عمل ہمیں یہ ترغیب دیتا ہے کہ اس ماہ مقدس کے تمام تقاضوں کو کامل خلوص کے ساتھ ادا کرتے ہوئے دنیا و آخرت کی نعمتوں کو سمیٹیں اور اپنے پروردگار کے حکم بجا لاتے ہوئے اس ماہ مبارک کی تمام فیوض و برکات سے فیضیاب ہوسکیں۔