تخلیق آدم علیہ السلام پہلا عجوبہ قدرت اور آدم علیہ السلام کا تخلیقی امتیاز تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے غیر فطری طور تخلیق حوا علیہا السلام دوسرا عجوبہ قدرت اور حوا علیہا السلام کا تخلیقی امتیاز تھا اور تخلیق حضرت عیسیٰ علیہ السلام مافوق الفطرت ۔۔۔۔ عجوبہ قدرت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تخلیقی امتیاز تھا مابعد اول کرشماتی عجائب دونوں قدرت کاملہ کے تخلیقی معجزے تقدیس اور توقیر حوا علیہا السلام کی معراج ہیں۔ تخلیق حوا علیہا السلام ۔۔۔۔۔ احترام عورت کی منتہا ہی تو ہے۔ جب ضمیر آدم علیہ السلام اعضاتی مرحلے سے گزرا اور تخلیق بشر ہورہی تھی تو خالق کے حکم کی پیروی میں فرشتے بھی موجود تھے جب رب تعالیٰ نے روح پھونکی اور فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا جب تخلیق حوا علیہا السلام کی باری آئی تو ملائکہ سے بھی محض تقدس نسوانیت کے باعث حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے جنم دیا۔ یہ تقدس حوا علیہا السلام کا عروجی امتیاز تھا مذکورہ بالا تین مافوق الفطرت واقعات کے علاوہ خدا تعالیٰ نے عورت اور مرد کی تخلیق ایک ہی طریق پر کی ہے اور جد امجد ایک ہی ہے۔
هُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْکُنَ اِلَیْهَا.
(الاعراف، 7: 189)
’’اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا۔‘‘
یاد رہے کہ نپولین بونا پارٹ آج کہہ رہا ہے کہ مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ قرآن عظیم شاہد ہے کہ حضرت حوا علیہا السلام جب اول مادر کائنات بنائی گئی تو مابعد اس کے بطن عظیم سے جلیل القدر انبیائے کرام نے جنم لیا اور جد مادری سے خوب سیرت اور پاکیزہ رحموں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول اور انبیائے کرام پیدا ہوئے۔ ہر نبی کی ایک امت تھی جسے انبیائے کرام نے اچھی قوم بنایا اور سب امتوں کو امت مصطفوی گرادنا جاتا ہے کیونکہ سب کی بنیاد توحید اور رسالت مآب پر استوار تھی اور روز محشر سب امتیں حضور نبی اکرم ﷺ کے جھنڈے تلے اکٹھی ہوں گی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عظیم ماں کو صاحب کشف و الہام بنایا اور اس کے قلب اطہر پر کشف القا کیا کہ فرعون سے محفوظ رکھنے کے لیے موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں بند کرکے دریا میں ڈال دو ہم حفاظت کریں گے پھر خالق عظیم نے حضرت بی بی مریم علیہا السلام کے بطن میں جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے اپنی روح پھونک دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مقدس ماں بنادیا۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے:
قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِاَهَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا.
(مریم، 19: 19)
’’(جبریل علیہ السلام نے) کہا: میں تو فقط تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، (اس لیے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔‘‘
بارہ ربیع الاول 571ء جب موسم بہار کی قسمت سنور گئی بہاروں کو بھی جوبن مل گیا۔ روئے کائنات کی مقدس مطاہرہ خاتون عظیم المرتبت جناب حضرت آمنہ علیہا السلام کے معطر و مطاہر بطن سے والی کونین سرور دو عالم محمد عربی ﷺ نے جنم لیا۔ پورا خطہ عرب روشن ہوگیا۔ بی بی آمنہ اور کائنات کی سب سے عظیم مقدس ماں بنادی گئی۔ پھر جب حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا عقد مبارک آقائے دو عالم محمد رسول اللہ ﷺ سے ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خاتون جنت حضرت فاطمۃ زہرا رضی اللہ عنہا کی مقدس ماں بنیں اور محمد رسول اللہ کو شرف ام سے نوازا پھر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہراء کے بطن سے حضرت امام حسین علیہ السلام اور حضرت امام حسن علیہ السلام اور بی بی زینب علیہا السلام نے جنم لے کر آپ کو فضیلت مآب ماں بنادیا۔
اسی طرح اہل بیت کی مقدس اور مطاہرہ شہزادیوں کے بطن ہائے مبارک سے اعلیٰ مرتبت امام ہائے زمانہ پیدا ہوئے۔ اہل بیت اطہار کا رتبہ اور توقیر قیامت تک قرآن کے ساتھ جوڑ دی کیونکہ حدیث مبارک ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:
قرآن اور اہل بیت ہمیشہ ہم نشین اور ساتھ ہیں دونوں قیامت کے روز میرے پاس حوض کوثر پر امت کی سفارش کے لیے آئیں گے۔ پھر یاد کرو تقدس و توقیر و حرمت مصطفوی کی امین وہ مطاہرہ اور منزہ خاتون عظیم کو، جنابہ والدہ عظیم المرتبت جناب حضور غوث اعظمؓ جنہوں نے شہنشاہ غوثیت مآب کی والدہ ماجدہ بننے کا شرف حاصل کیا اور آپ کے بطن مقدس میں آپ نے کم و بیش اٹھارہ پارے حفظ کرکے عالم ناسوت میں جنم لیا۔ وہ مقدس ماں جو حضور غوث اعظمؓ کو دودھ پلانے لگتی تو پہلے وضو فرماتیں پھر دودھ پلاتی تھیں۔ اسی طرح امت مسلمہ کے جلیل القدر اولیائے کرام نے پاکیزہ و مطاہرہ اور منزہ مائوں کے بطنوں سے جنم لیا رب کائنات کے صالحین اور متقی نفوس قدسیہ میں شمار کیے گئے۔
مابین مرد و زن حقوق میں مساوات:
ابن آدم علیہ السلام اور دختر حوا علیہا السلام کو اسلامی معاشرے میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ تاہم خودسری اور جسمانی خودمختاری کی ممانعت ہے۔ درست ہے عورت کو مرد کے ساتھ ساتھ سارے حقوق حاصل ہیں تاہم خود ارادی رائے اور خودمختاری رائے بالغ و عاقل عورت کو حاصل ہے لیکن اسلام خود مختاری اور بے راہ روی کی اجازت ہرگز ہرگز نہیں دیتا۔ قرآن نے خود مختاری کی حد مقرر کردی ہے اور مردوں کو فوقیت دی ہے اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ بلند کیا ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْهِنَّ دَرَجَةٌ.
(البقرة، 2: 228)
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے۔‘‘
اسی ضمن میں قرآن نے فرمایا:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ.
(النساء، 4: 34)
’’مرد عورتوں کے محافظ اور کفیل ہیں ۔‘‘
دختر حواؑ کی حفاظت ناموس اور اسلامی طریق پر تربیت کی ذمہ داری:
اسلامی معاشرے میں والدین اور شادی کے بعد شوہر ہی عورت کی حرمت و ناموس عزت کا ذمہ دار ہے والدین مسلمان بچی کی بالخصوص اور لڑکے کی بالعموم اسلامی طرز و طریق پر تربیت کرے کیونکہ حقوق و فرائض میں عدم توازن کے باعث لڑکے اور لڑکیاں بالخصوص بے راہ روی کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں۔ جب بری خصلتیں پختہ ہوجائیں تو عادت اور معمول ۔۔۔۔۔ کے سبب اولاد کی فطرت ثانیہ اور حق خود مختاری تصور ہونے لگتا ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تربیتی ۔۔۔۔۔۔ اولاد کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری میں فرمایا ہے کہ اولاد کی تربیت کا بہتر وقت انگلی پکڑ کر چلنے کی عمر ہے۔ اگر والدین نے بروقت اولاد کی تربیت کا قرآنی حکم اور اسلوب نہ اپنایا تو بے راہ روی، خود سری خصوصاً عورت کی فطرت ثانیہ اور حق خود مختاری بن جاتا ہے اور قرآن والدین اور اولاد کو جہنم کی آگ سے بچنے کی نوید سناتا ہے۔
قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ.
(التحریم، 66: 6)
’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔‘‘
ثابت ہوا کہ عدم تربیت اور نگہداشت اولاد کی پاداش میں بالخصوص لڑکی کی تربیت کے فقدان کے باعث والدین جہنم کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ جنہوں نے بروقت اسلامی اقدار کی پیروی میں غفلت اختیار کی اور برسر بازار آج کی عورت کا ننگے سر برملا یہ اعلان کرتا کہ ہمارے جسموں پر ہماری مرضی اور ہمارا حق ہے جبکہ شرعی احکام سے ناواقف بے تربیتی کی شکار بھٹکی ہوئی دختر حوا یہ نہیں جانتی کہ اس کا سرعام یہ نعرہ خود مختاری و رائے اور خود ارادی منشا پر دلالت نہیں کرتا بلکہ بے راہ روی اور خود سری کا کھلے عام اعلان ہے اور احترام حواؑ توقیر ردائے فاطمۃ الزہراءؓ اور حضرت زینب علیہا السلام کی توہین اور بے حرمتی ہے جس کی اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن قطعی اجازت نہیں دیتا۔
قبل از اسلام مختلف مذاہب میں معاشرتی تناظر میں عورت کا مقام:
مذہبی حوالے سے بحث آگے بڑھانے سے پہلے یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہوگی کہ دختر حوا کے حقوق کی پامالی نظریاتی بے راہ روی کے باعث ہے اور مذہب کی حقیقی تعلیمات میں تحریف کا نتیجہ ہے جبکہ اسلام تو عورت کی مرتضائی اور توقیر حواؑ کا فقط دعویدار ہی نہیں بلکہ ضامن اور امین ہے۔ حقائق کے تناظر میں دیکھیں تو ثابت ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ تقریباً ہر مذہب اور معاشرہ میں عورت کی نزاکت نسوانی اور اس کے حسن سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا رہا ہے اسے ہر معاشرے میں جنس کمزور تصور کیا گیا ہے اور ہمیشہ ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس کے حقوق سے اسے محروم کیا جاتا رہا ہے۔ اسلام سے قبل تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہر معاشرے میں دختر حواؑ کو ہر دور میں تضحیک و حقارت کے پیش نظر ہوس کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اسے فقط جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے اور دور جدید میں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ پڑھی لکھی تہذیب جدید کی ترقی یافتہ عورت جنسی بے راہ روی کے عجیب طریق پر گامزن نظر آتی ہے ملاحظہ ہو۔
دور جدید کی تہذیب یافتہ دختر حواؑ کا المیہ:
ہمارے اسلامی معاشرے کا بھی حیرت ناک المیہ یہ ہے کہ تہذیبی اور افکاری نظریاتی بے راہ روی کی مادر پدر آزاد دختر حواؑ آج عورتوں کی آزادی کی علمبردار بن کر سر بازار کھلے عام آزادی نسواں کے دلفریب نعرے الاپتی نظر آرہی ہے۔ مصلحت زمانی کے تحت جائزہ لیں تو اس کے پیچھے بھی عورت کے حسن سے فائدہ اٹھانے کی ہوس کارفرما نظر آتی ہے۔ افسوس ناک رویہ یہ ہے کہ قدیم ترین تہذیبوں اور معاشروں میں عورت کو بالجبر ہوس کا نشانہ بنالیا جاتا تھا اور دور جدید میں بے خود سر اور نام نہاد تہذیب یافتہ مادر پدر آزاد عورت آزادی کے چکمے میں آکر خود بخود عریانی کے شکنجے میں نہ صرف خود پھنستی جارہی ہے بلکہ چند ناسمجھ دختر حوا کو عریاں روی کی ترغیب دے رہی ہے۔
اسلامی نظریاتی معاشرے میں آزادی کے تالاب میں پنپنے والی چند گندی مچھلیاں پاکیزہ اور اچھی مچھلیوں کو گندہ و تعفن زدہ بنارہی ہیں۔ حل یہ ہے کہ جس پراگندگی کو والدین نہ سنوار سکے اور اپنی نظریاتی و اسلامی مادری/ پدری ذمہ داری سے روگردانی برتی اسے اسلامی ریاست اپنا جمہوری اسلامی فریضہ سمجھتے ہوئے قائد عظیم المرتبت قائداعظم محمد علی جناح کے نظریاتی اسلامی خطہ اراضی پاکستان میں معاشرتی تہذیبی بگاڑ کا شکار کچھ فی صد دختر حواؑ کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے اور غیر جانبدار نظریاتی و مذہبی تنظیموں اور علمائے حق کی مذہبی رہنمائی میں جانب بے راہ روی گامزن دختران حوا کا قبلہ درست کیا جائے۔ میری دانست میں یہ کار مشکل ضرور ہے ناممکن ہرگز نہیں ہے کیونکہ جس معاشرتی ڈھٹئای اور سینہ زوری کے ساتھ عورت اسلامی نظریاتی معاشرے میں اپنے اجسام نسوانی پر آزادی کے نام پر بے راہ روی اور خودمختاری کا غلاف تن زیب کیے ہوئے ہے۔ اسے معیوب اور بے توقیری حوا کا نام دینے کی بجائے جدید تہذیبی نظری وسعت پذیری کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔
قارئین گرامی قدر! اسلام سے قبل غیر اسلامی تہذیبی معاشروں اور مذاہب میں عورت کا مقام ملاحظہ ہو:
اسلام سے قبل غیر مسلم معاشروں و تہذیبوں اور مذاہب میں دختر حوا کی بے توقیری اور عورت کا مقام:
اول: رومہ کی تہذیب اور معاشرتی تمدن میں عورت کا مقام:
رومہ کی قدیم تہذیب میں عورت محکوم قرار دی جاچکی تھی کوئی کسی قسم کے تحفظات حاصل نہ تھے حتی کہ مرد اگر عورت کو قتل بھی کردیتا تو کوئی جرم نہ سمجھا جاتا تھا۔
دوم: قبل از اسلام سمیری تہذیب میں عورت کا مقام:
سمیری تہذیب میں عورت کی خریدوفروخت نہ صرف عام تھی بلکہ کوئی جرم نہ تھا۔ مرد کے لیے شادیوں کی کوئی پابندی نہ تھی جتنی چاہے کرے۔
سوم: ایرانی تہذیب و تمدن میں عورت کا مقام:
ایرانی معاشرتی تہذیبی اور تمدنی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی اخلاقی اقدار کی گراوٹ کا یہ عالم تھا کہ سگی بہن اور سگی بیٹی سے بھی نکاح جائز تصور ہوتا تھا۔ عورتوں کو رہبانیت اختیار کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ بیویوں میں خود کار تقسیم کا طریقہ مروج تھا۔ دو اقسام کی بیویاں ہوتی تھیں ایک قسم حق وراثت سے بھی محروم کردی جاتی تھی۔
چہارم: ہندوستانی معاشرتی تہذیب میں عورت کا مقام:
ہندوستان میں بھی عورت کی بے توقیر اور عزت کی گرانی بام عروج پر تھی۔ خاوند کی موت کے بعد عورت کو بھی رسم ستی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا اور زندہ جلادیا جاتا تھا۔
پنجم: مصری معاشرے میں عورت کا مقام:
ایران کی طرز معاشرت کے تحت سگی بہن اور بیٹی سے نکاح جائز تھا۔
ششم: یونانی تہذیب و تمدن میں عورت کا معاشرتی مقام:
یونانی تہذیب اور تمدن میں بھی عورت پر نہ صرف مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں بلکہ حقوق سے محروم رکھا جاتا تھا تاہم ظاہر داری میں یونانی فلاسفر عورت کے حق میں کچھ آواز اٹھاتے نظر آئے تاہم وہ بھی آواز کی حد تک تھے۔
ہفتم: چینی تہذیب و تمدن میں عورت کا مقام:
دیگر معاشرتی اور تہذیبی تناظر میں دیکھیں تو کسی حد تک چینی تہذیب میں عورت کو کچھ حد تک مقام حاصل تھا تاہم ناکافی اخیارات تھے۔
ہشتم: یہودیت کے پروردہ معاشرے میں عورت کا معاشی مقام:
یہودی مذہب کی پروردہ تہذیب میں یہ نظریہ پروان چڑھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بہکانے والی عورت تھی یعنی کہ (حضرت حواؑ اور حواؑ کا یہ گناہ نسل در نسل چلتا آرہا ہے۔ مرد کے زنا بالجبر کرنے کی صورت میں بھی عورت کو سزا کے طور پر اس مرد سے شادی کرنی ہوتی تھی۔ یہ معاشرتی طور عورت کی عصمت دری کی بدترین مثال ہے۔
نہم: عیسائیت کی پروردہ تہذیب و تمدن میں عورت کا مقام:
عیسائیت معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی گراوٹ میں عین یہودیت کے طرز و طریق پر گامزن تھے۔ عورتوں کو جبراً راہبہ بننے کی ترغیب دے کر گرجہ گھروں میں لے جایا جاتا تھا۔ اس وقت عورت عوام کے لیے مقدس پجارن اور راہبہ کا درجہ رکھتی لیکن پادریوں اور نامور پروھتوں کے لیے اپنی ہوس پوری کرنے کا آسان اور حاصل شدہ ذریعہ ہوا کرتی تھی۔
دہم: ظہور اسلام سے قبل عرب معاشرے میں قدیم تہذیب و تمدن کے باعث عورت کا مقام:
ظہور اسلام سے قبل عربوں کی معاشرتی و تہذیبی اور تمدنی حالت کے باعث معاشی طور پر عورت تذلیل و حقارت کی تصویر تھی بے توقیری دختر حواؑ انتہا کو تھی۔ انسانیت مردہ ہوچکی تھی روحانیت معدوم ہوچکی تھی، علم ناپید تھا حتی کہ ہر ستم کی ضلالت اور برائی علی الاعلان کی جاتی تھی۔ عورت کی تذلیل اور بے توقیری کے قصے فخریہ مجالس میں بیان کیے جاتے تھے اور قرآن نے اس دور کو دور جہالت گردانا ہے۔ عربوں میں دیگر معروف برائیوں میں سودخوری، غارت گری، رہزنی، چوری، لغویاتی عشق بازی، غرور و تکبر، سفاکی و ظلم و بربریت، قمار بازی (جوا بازی) تو عام تھے ہی تاہم جس روز الت اور گمراہی پستی کے گڑھے میں جس بدترین فعل کی وجہ سے گرچکے تھے وہ مرض خبیثہ یعنی کہ زنا و فحش گری تھی اور پھر عرب بدفعلی کے قصے عام مجلسوں میں بیان کرتے۔ بے راہ روی اور بدتہذیبی معاشرے کی دلدادہ فاحشہ عورتیں اپنے اپنے گھروں کے سامنے جھنڈیاں لگاکر بیٹھتی تھیں۔ (صحیح بخاری شریف، کتاب النکاح، جلد دوم، ص 769)
درحقیقت یہ نکاح کی چند ایسی صورتیں تھیں کہ وہ عملاً بدکاری اور زنا ہی تھا۔ عورت کو نکاح کا جھانسہ دے کر بدفعلی کی جاتی۔ الغرض بعثت نبوی ﷺ سے پہلے عورت تذلیل کے گڑھے میں دفن تھی عورت کھلم کھلا بے توقیری حوا کا موجب تھی۔ عورت وراثت میں اپنا حق نہ رکھتی تھی بلکہ وراثت کے طور شوہر کے وارثوں کے رحم و کرم پر ان کے مِلک تصور کی جاتی تھی۔ جنگوں میں عورت کو قیدی بناکر جبراً اسقاطِ حمل کردیا جاتا۔ عرب رواج میں لڑکی کی پیدائش ناقابل نفرت اور قابل شرم عمل گردانا جاتا تھا اور دختر کشی عام اور فخریہ کی جاتی تھی۔ ایک عرب نے حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ میں اعتراف کیا کہ میں نے آٹھ بچیاں یکے بعد دیگرے زندہ درگور کی ہیں۔ عورت سے شادی کرتے وقت معاہدہ کرلیا جاتا تھا کہ اگر اس کے بطن سے لڑکی پیدا ہوئی تو زندہ دفن کردی جائے گی۔ حیرت اور لمحہ فکریہ ہے کہ جس برائی اور تہذیبی گراوٹ کے باعث عرب معاشرہ لعنت زدہ اور ذلت زدہ تھا اور بعثت نبوی ﷺ کے بعد قلعہ رسالت مآب ﷺ میں عورت کو تحفظ توقیری بحال ہوا اور وقار حواؑ دوبارہ نصیب ہوا آج کی بہکی ہوئی بھٹکی ہوئی عورت اپنی خودسری کے باعث کھونا چاہتی ہے تاکہ پوری طرح پھر سے محکوم و ذلیل و خوار زندگی بسر کرے۔
بعثت نبوی ﷺ کے بعد عورت کا مقام و مرتبہ:
عورت اسلامی معاشرے کا ایک لازم ترین جز ہے۔ مذاہب عالم میں اسلام واحد مذہب ہے جس نے ایسی تہذیب و معاشرت تشکیل دی کہ جس میں عورت کو مقام معراج عطا کردیا۔ اسلام ہی ایسا منفرد مذہب ہے کہ جس نے عورتوں کے حقوق متعین کیے۔ اسلام عورتوں کے معاملات میں شستگی اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ اسلام عورتوں پر کسی بھی حوالے سے ظلم و زیادتی کی ممانعت کرتا ہے۔ اسلام ہر ممکن عورتوں پر روادارانہ رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بحیثیت انسان مرد و عورت کا مقام انسانیت برابر ہے قرآن نے مرد و عورت دونوں شرف بخشتے ہوئے فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ.
(التین، 95: 4)
’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! یاد رہے کہ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے مردوں کو بہترین ساخت میں تخلیق کیا ہے بلکہ تخلیق میں عورت کو بھی وہی افضلیت دی گئی ہے۔
قارئین گرامی قدر! مندرجہ عنوان یہ قرار پایا کہ صحیح معنوں میں عورت کا مقام وہ ہے جو اسلام نے دیا ہے اور یہی عورت کے ساتھ حقیقی رواداری کی عظیم دلیل ہے۔ اسلام نے عورت کو جانشین حواؑ بناکر معراج انسانیت بخشا۔ اسلام نے دختر حوا کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی ہونے کی حیثیت سے جو مقام و وقار، عزت، شرف اور تقدس عطا کیا ہے کسی اور مذہب اور معاشرے نے نہیں دیا۔ عنوان ہذا کا اصل مدعا عورت کے حق خودمختاری کا تعین ہے۔ خلاصۃً خودمختاری کی حدود ملاحظہ ہوں۔ یاد رہے کہ عورت کی خودمختاری بعینہ ارادگی تو ہے تاہم بے توقیری تقدس حوا قطعی قطعی اسلام اور قرآن کے کلیتاً خلاف ہے۔ اگر عورت مسلمان کہلانے کی سعادت حاصل کررہی ہے تو اسے اسلامی اور قرآنی شعار کے تابع باحیا اور باوقار نسوانی اوصاف حمیدہ کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا جتنی آزادی عورت کو اسلام نے دی ہے کسی اور مذہب اور معاشرے میں نہ ہے جس آزادی کی بھٹکی ہوئی بے راہ روی پر گامزن عورت بات کرتی ہے وہ آنے والی نسلوں کی بربادی ہے۔