بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ پاکستان کو ایک اسلامی، فلاحی، جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے، ایک ایسی ریاست جس کی نظریاتی بنیاد یںاسلامی اصولوں پر استوار ہوں، یہ ہے وہ مختصر سا نظریہ پاکستان جس کی بنیاد پر پاکستان کے لیے لاکھوں قربانیاں دی گئیں اور تاریخ عالم کی بے مثال جدوجہد بروئے کار لائی گئی اور لاکھوں قربانیاں دی گئیں، جو قومیں اپنے نصب العین پر کھڑی رہتی ہیں دنیا کی کوئی طاقت انہیں معتبر ہونے سے نہیں روک سکتیں اور جو قومیں اپنے نظریہ سے ہٹ جاتی ہیں انہیں زوال کے گڑھوں میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا، اسی آفاقی اصول اور نظریہ کے تحت ہی پاکستان کی سلامتی، بقائی، ترقی و استحکام ممکن ہے، قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم الامت علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ کا دو قومی نظریہ ایک ایسی ریاست کے قیام پر مبنی تھا جس کا نظام اسلام کے آفاقی ضابطہ حیات کے تابع ہو، وہی نظام جس کے تحت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی جس میں کفار و مسلمانوں کے درمیان ایک نظریہ کی بنیاد پر حد قائم کردی گئی، وہ حد لاالہ الا اللہ کا نظریہ تھا۔ یہ وہ نظریہ تھا جس کی بنا پر حضرت بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ نے عرب کے تپتے صحرا میں جسم و جاں پر ہر ظلم برداشت کیا مگر اپنے نظریہ سے انحراف نہ کیا بہرحال نظریہ پر جمے رہنے کا تعلق بھی قربانیوں سے ہے!
ریاستِ مدینہ میں نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحت ہر شخص کو خواہ مسلمان ہو یا مشرک مساوی انسانی حقوق حاصل تھے۔ یہی نظریہ پاکستان کے قیام میں بھی کارفرما تھا۔ در حقیقت نظریہ ہی کسی قوم کی تشکیل، بقا ء اور دوام کا ضامن ہوتا ہے۔ قوموں کی تہذیب و ثقافت، تمدن اور ترقی اُن کے نظریات اور نصب العین پر منحصر ہوتی ہے، جس کا نظریہ ہوتا ہے اسے قوم کہتے ہیں اور جس کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا وہ ہجوم ہوتا ہے اورہجوم کی کوئی سمت ہوتی ہے اور نہ کوئی منزل، اگر کسی قوم کی نظریاتی بنیادیں کمزور پڑ جائیں یا وہ اپنے نصب العین سے ہٹ جائے تو وہ زیادہ دیر اپنا قومی وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی لہذا ایک نظریاتی مملکت ہونے کے ناطے نظریہ پاکستان کی حفاظت ہمارا اولین فرض ہے۔ آج کے گلوبل ویلج اور اس کی نام نہادمادی ترقی نے معاشی اعتبار سے پسماندہ رہ جانے والی قوموں اور ملکوں کے نظریات پر کاری ضرب لگائی ہے، مفادات پر مبنی نظریات اور ابلاغ عامہ کے اس جدید دور میں پاکستانی نوجوان بھی لادینیت کا شکار ہوا ہے اور اپنی نظریاتی بنیاد سے ہٹ رہا ہے، ہمارے زوال کی کہانی دو طرفہ ہے، ایک تو ہم جدید زمانہ کی سائنسی ضروریات، کمالات سے نابلد رہے اور دوم اپنے نظریاتی انسٹیٹیوشنز بھی تباہ و بربادکر بیٹھے، جن میں تعلیمی اور دینی ادارے آتے ہیں نظریہ پاکستان کا مضمون فقط مطالعہ پاکستان کی ایک کتاب تک محدود ہو کررہ گیا۔ ہر دور میں نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنے کی ضرورت رہی ہے لیکن فی زمانہ اسے اجاگر کرنے کی جتنی ضرورت ہے شاید ماضی میں اتنی نہیں تھی، آج کا نوجوان بین الاقوامی کلچر و ثقافت کی آڑ میں گمراہ کیا جارہا ہے، اس کو اس کی بنیادوں سے ہٹادیا گیا ہے اور وہ دین سمیت اپنے سیاسی، سماجی عقائد میں شکوک وشبہات کا شکار ہے، یہ صورت حال معاشی تباہی سے کہیں زیادہ تباہ کن ہے، اب تو صورتحال اس حد تک تشویشناک ہو چکی ہے کہ نوجوان نسل کو مسلمہ عقیدہ توحید و رسالت کے حوالے سے بھی گمراہ کیا جانے لگا ہے۔ نظریات اگر عمل کی تجربہ گاہ سے نکل جائیں تو پھر شکوک و شبہات ہی رہ جاتے ہیںاور شکوک و شبہات اور تشکیک و ابہام کا شکار قومیں کولہوں کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں سرپٹختی رہتی ہیں اور انکی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
ہمیں فکری، روحانی اور نظریاتی زوال و انحطاط سے نکلنے کے لئے انفرادی و اجتماعی سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف نسلِ نو کی بامقصد تربیت ہو سکے بلکہ ملک و قوم سے محبت کے جذبات بھی فروغ پا سکیں۔ تبدیلی کے نظریہ کی علمبردار حکومت تعلیمی اداروں کو نظریہ پاکستان کی نرسری میں تبدیل کرے اور طلبہ کے لیے ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو اسے نظریاتی اعتبار سے بدراہ ہونے سے بچائے۔