اللہ تبارک و تعالیٰ نے عرش کے نیچے ایک کعبہ فرشتوں کے لیے بنایا اس کا نام بیت المعمور ہے بعض احادیث اور روایات میں منقول ہے کہ ستر ستر ہزار ملائکہ ایک ایک بار بیت معمور میں داخل ہوتے ہیں جب وہ ستر ہزار فرشتے بیت المعمور میں عبادت کرلیتے ہیں تو حکم ہوتا ہے کہ زمین والے کعبے بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کے لیے نیچے اتر جائیں۔
فرشتے دن بھر کعبۃ اللہ کا طواف کرتے رہتے ہیں پھر وہی ستر ہزار فرشتوں کی جماعت طواف سے فارغ ہوکر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مدینہ طیبہ میں حاضری دیتی ہے۔ حضور علیہ السلام کے روضہ اقدس سے نور اور فیض کی خیرات لیتی ہے اور ایک روایت میں ہے وہ ستر ہزار فرشتے جو ایک بار حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری دے جاتے ہیں قیامت تک ان کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس کو فرشتوں کا سفر حج کہتے ہیں۔ فرشتے بھی احرام باندھتے ہیں جو بیت المعمور سے شروع ہے وہ پہلا کعبہ ہے جو آسمانوں کے اوپر ہے بعد ازاں فرشتے بیت اللہ آتے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں اس کے بعد پھر روضہ اقدس پر حاضری کے لیے جاتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے اس سلسلہ میں ایک شعر کہا ہے۔
حاجیو آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
کعبہ تو دیکھ چکے اب کعبے کا کعبہ دیکھو
حج کی تاریخ کا آغاز سیدنا آدم علیہ السلام کی حیات طیبہ سے ہوتا ہے۔ امام اذرقی تاریخ مکہ میں بیان کرتے ہیں جب حضرت آدم علیہ السلام زمین پر تشریف لائے تو کئی سو سال اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے رہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام نے ایک روز اپنے صاحبزادے حضرت شیث علیہ السلام سے فرمایا۔ بیٹے مجھے آج بھی جنت کے پھلوں کی یاد ستاتی ہے اور وہ پھل قربت الہٰی کے پھل تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی گریہ زاری اللہ کے حضور کرتے۔
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
سیدنا آدم علیہ السلام زمین پر آکر ان قربتوں کو یاد کرتے جب ان کا رونا بہت بڑھ گیا تو فرشتوں نے بھی عرض کیا مولا حضرت آدم علیہ السلام پر اپنا کرم کردے۔
باری تعالیٰ جانتے تھے کہ آدم علیہ السلام کیوں روتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام پر رحم فرمادیا۔ رحمت الہٰی جوش میں آگئی۔ فرمایا: فرشتو جنت کا ایک خیمہ اور پتھروں میں سے ایک پتھر حجر اسود لے چلو جو جنت کی یاد ہوگا آدم اور نسل بنی آدم کے لیے یہ پہلا کعبہ بن جائے گا۔
اس طرح جنت کے انوار میں سے ایک نور کی شمع اس خیمہ میں جلتی رہتی تھی پس حضرت آدم علیہ السلام کو روشنی بھی وہی جنت کی ملتی تھی، رہنے کے لیے خیمہ بھی جنت کا دے گیا اور پتھر جو بعد ازاں ہجر اسود بن گیا حضرت آدم علیہ السلام اس میں بیٹھ کر جنت کا نظارہ کیا کرتے۔ فرشتے، جنات اور شیاطین کو اس خیمہ کے گردو نواح میں نہ آنے دیتے یہ روئے زمین پر پہلا کعبہ تھا جو فرشتوں نے تعمیر کیا یہ کعبہ بناء ملائکہ ہے۔
پھر حضرت آدم علیہ السلام کو حکم ہوا اب اسی مقام پر پتھر گاڑھ کر خود گھر تعمیر کریں پھر اس مقام پر حضرت آدم علیہ السلام نے پتھر اور گارے سے گھر تعمیر کیا یہ کعبہ کی دوسری تعمیر تھی جو سیدنا آدم علیہ السلام کی بناء ہے۔ جس جگہ تک فرشتے کعبہ کی حفاظت پر مامور رہے وہ وہ حدود حدودِ حرم بن گئی پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس جگہ اللہ کا گھر کعبۃ اللہ تعمیر کیا جب آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تو حضرت حوا علیہا السلام مٹی گارا اٹھا کر لاتی تھیں حضرت آدم علیہ السلام اس کو اٹھا کے تعمیر کرتے تھے۔
وہ کام جو بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کیا وہ حضرت حوا علیہا السلام کرتی تھیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کیا وہ حضرت آدم علیہ السلام کرتے تھے تو دونوں نے مل کر کعبہ تعمیر کیا۔ پھر حضرت شیث علیہ السلام نے تیسری بار اس کعبہ میں توثیق کی اور اس کی تعمیر کو بڑھایا۔
جب طوفان نوح آیا تو اس کی چھوٹی دیواریں منہدم ہونے کے بعد زیر زمین چلی گئیں تھیں۔
مگر یہ امر الہٰی تھا اسی مقام پر جہاں کعبۃ اللہ تعمیر تھا وہاں حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو دور ویرانے میں چھوڑ آئیں جس کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:
رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ.
’’اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے‘‘۔
(ابراهیم، 14: 37)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اے باری تعالیٰ! میں اپنی بیوی اور بچے کو یہاں ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑے جارہا ہوں اس کا کوئی پڑوس نہیں ہے، کوئی ہمسائیگی نہیں ہے مگر ہاں ایک ہمسایہ ہے۔ تیرے گھر کے پاس ہے۔ جب اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو تعیر کعبہ کی۔
جب ابراہیم علیہ السلام کو تعمیر کعبہ پر مامور کیا تو اس وقت بادل کا ٹکڑا بھیجا۔ بادل کا ٹکڑا ایک مقام پر جاکر کھڑا ہوگیا اس جگہ کی کھدائی کی تو نیچے کعبہ کی بنیادیں موجود تھیں بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے، خانہ کعبہ کے عین اوپر بیت المعمور ہے جس پر بیت اللہ کی تعمیر کی گئی۔
قرآن مجید میں اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ (آل عمران، 3: 96) ’’بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لیے بنایا گیا‘‘۔ وہ برکت والا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا مرکز ہے۔ اس میں واضح اللہ کی نشانیاں ہیں اس گھر کے صحن میں مقام ابراہیم ہے۔
جب پتھر پر کھڑے ہوکر آپ کعبے کی دیواریں اٹھا رہے تھے یوں یوں دیوار اوپر جاتی تو پتھر بھی اوپر ہوتا جاتا اس پتھر پر کھڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبے کو تعمیر کرتے۔ سیدنا اسماعیل علیہ السلام گارا پتھر اٹھا اٹھا کر دیتے تھے۔
پھر اگلے انبیاء کے زمانے آتے گئے وہ اسی کعبے کا طواف کرتے تھے اور پرانی کتب میں درج ہے کہ تین سو سے زائد انبیاء علیہم السلام کے مزارات کعبۃ اللہ میں ہیں یہاں اللہ کی بڑی نشانیاں ہیں اور ان میں ایک نشانی مقام ابراہیم ہے فرمایا: وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّی (البقرة، 2: 125) ’’اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو‘‘۔ یہ ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے یہ ایک نشانی ہے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ ومن دخلہ کان امنا جو اس میں داخل ہوا امن پاگیا۔ وَﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلاً (آل عمران، 3:97) ’’اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج فرض ہے جو بھی اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو‘‘۔
جو لوگ زادراہ کی استطاعت رکھتے ہیں۔ صاحبان استطاعت پر فرض ہے کہ وہ اس گھر کا طواف کرے۔
مزید فرمایا میرا گھر صاف ستھرا کیا جائے کہ لوگ میرے گھر کا طواف کریں۔ خوش بخت ہیں وہ جو لوگ دور دراز کا سفر کرکے کعبۃ اللہ کا طواف کرنے آتے ہیں کعبے کا طواف کرنے والے اللہ کے مہمان ہوجاتے ہیں۔
جو خدمت کعبۃ اللہ کی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کوعطا کی وہ آج تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلہ بنو ہاشم کو سونپی گئی اور ان کی نسلوں میں چلی آرہی تھی۔ فرمایا جب میرے گھر کو صاف ستھرا کرکے اس اونچے ٹیلے پر چڑھ کر آواز دو۔ لوگوں کو میرے گھر کے حج کے لیے بلاؤ۔ لوگ پیدل اور دبلی پتلی اونٹنیوں پر بھی چل کر آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو بے آب و گیاہ ریگستان میں چھوڑ آؤ جہاں میرے بندے بستے تو نہیں اس کے پیچھے راز یہ تھا کہ یہ خطہ زمین میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے منتخب ہوچکا تھا۔ آج تو آبادی نہ تھی مگر آنے والے وقتوں میں یہاں آبادی ہونے والی تھی اس آبادی میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیدا ہونا تھا۔ یہاں خاندان قریش اور بنو ہاشم نے آباد ہونا تھا یہاں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کے گھر نور حق نے جلوہ گر ہونا تھا۔ یہ وہ خطہ زمین تھا جس کو ساری دنیا سے بہتر آباد ہونا تھا۔ یہاں آقا کی ولادت ہونی تھی۔ رسم بھی یہی ہے پہلے مکان بنایا جاتا ہے پھر مکین کو بنایا جاتا ہے۔ مکان بنالیا پھر آباد کرنے والے مکین آگئے تو عرض کیا! تیرا حکم تھا گھر تو میں نے بنادیا ہے اب تو مجھے مزدوری بھی دے گا! ہاں دوں گا مزدوری یہ ہے اس محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری اولاد میں دے دے تاکہ لوگ جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کریں تو مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دادا کہیں جب اپنی زبان پر میرا ذکر لائیں اپنی جد کہہ کر لائیں اور یہ کہیں کہ میں اپنے دادا ابراہیم کی اولاد سے پید اہوا ہوں اور میری طبیعت ٹھنڈی ہوجائے تو اس پتھر پر کھڑے ہوکر دعا مانگی اور اس دعا کے نتیجے میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا ہوئے۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اپنے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے پیدا ہوا ہوں۔ دعا اس پتھر پر کھڑے ہوکر مانگی پس اس پتھر کی بڑی اونچی شان ہوگئی ہے۔ وہ پتھر ہے یہاں کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مجھ سے اپنا یار مانگا تھا اور میں نے دینے کا وعدہ کرلیا تھا اور بھی کئی پتھروں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدم تو لگے ہوں گے۔ مگر کسی پتھر پر قدموں کا نشان باقی نہ رہے اور ضرورت نہ تھی کسی اور پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نشان باقی نہ رہا اس پتھر پر اس لیے باقی رکھا تھا تاکہ رہتی دنیا تک لوگ جانیں کہ یہ وہ پتھر ہے جہاں مزدوری کا سودا ہوا تھا۔ یہ وہ پتھر ہے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لانے کی دعا ہوئی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے وعدہ ہوا تھا پھر صرف قدم کے نشان نہیں لگائے۔ فرمایا اس پتھر کو کعبے میں رکھا جائے اسے مقام ابراہیم علیہ السلام بنایا جائے۔ حکم ہوا لوگو جب میرے کعبے کا طواف کرلو، طواف کرنے کے بعد اس پتھر کے سامنے آجاؤ مقام ابراہیم علیہ السلام پر یہاں آکر دو نفل پڑھو تاکہ تمہاری جبینیں میرے حضور سجدے میں جھکیں تو میرے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا شکریہ ادا ہو۔ یہ کعبہ، یہ حج آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں ایمان اور معرفت کا نور عطا فرمائے۔