اقوام کی تاریخ میں کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 14 اگست 1947ء کا دن مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ میں وہ سنہری دن ہے۔ جس کا خواب علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس قوم کو 15 برس قبل دکھایا تھا۔ امت کے اس عظیم فرزند کو دنیا شاعرِ مشرق، حکیم الامت اور دانائے راز جیسے القابات سے یاد کرتی ہے۔ جس کی شاعری کا مرکزی نکتہ امتِ مسلمہ کو بیدار کرنا اور ان کے مردہ ضمیر کو جِلا بخشتے ہوئے انہیں منزل آشنا کرنا تھا۔ انہوں نے اپنے حسین خواب کی بدولت آزادی کی خواہش کا ایک بیج بو دیا، جس کی آبیاری کے لیے ایک ایسے عظیم اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل راہنما کی ضرورت تھی جو اس کو شجر سایہ دار بنا سکتا ہو۔ جو گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی شمع روشن کر سکتا ہو جو عزمِ مصمم سے ناممکن کو ممکن بنانے کے فن سے بخوبی آگاہ ہو۔ جو تاریکی کو ضیاء کا پیرہن عطا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو پختہ کردار، اصول پسند اور ملی حمیت کا پیکر ہو تاکہ آزادی کے لیے بے قرار بندگانِ اسیر کو زندگی کی عظمتوں سے ہمکنار کر سکے۔
بالآخر اقبال کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے قدرت مہربان ہوئی اور فضلِ خداوندی اور فیضانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوابِ اقبال کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے قائدِ اعظم جیسا بصیرت افروز، معاملہ فہم اور جری مسیحا میسر آیا۔ جس نے بلند عزم کے ساتھ غلامی میں جکڑی ہوئی قوم کی قیادت کو سنبھالا اور انہیں آزادی دلانے کا بیڑا اٹھایا۔
مسلمانانِ برصغیر جو کہ مختلف قبیلوں، برادریوں اور رنگ و نسل سے تعلق رکھتے تھے، جن کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ قائدِ اعظم نے انہیں نیا شعور عطا کرتے ہوئے زندگی کی رمق عطا کی۔ آپ نے ان پر آشکار کیا کہ قوموں کی زندگی میں آزادی کی حیثیت روح کی سی ہوتی ہے۔ آپ نے اپنی بے لوث قیادت سے منتشر اور تلاشِ حق میں سرگرداں ملت کو متحد کر کے دیوارِ آہن کی طرح مضبوط بنایا۔ آپ نے غلامی کے ظلم و ستم سے مرجھاتے ہوئے چہروں اور مستقبل سے مایوس نگاہوں کو آزادی کی ایسی صبح روشن دکھائی کہ انہیں زندگی کا نصب العین میسر آ گیا۔ بن دیکھے ایمان لانے کے مصداق انہوںنے قائدِ اعظم کی قیادت میں ایک آزاد مملکت کے حصول کی خاطر لاکھوں انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
مسلمانانِ ہند نے اسلام کی خاطر وطنِ عزیز حاصل کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ نوجوانوں نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنی جوانیاں داؤ پر لگا کر اپنے گرم لہو سے اسے سینچا۔ عزت مآب ماؤں، بہنوں نے اپنی عزتوں اور عصمتوں کی قربانیاں دے کر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ والدین نے اپنے معصوم بچوں کو آگ اور خون کے سیلاب میں کھویا۔ مگر تمام تر ظلم و ستم کے باوجود وہ آزادی وطن کے حصول کے لیے عازمِ سفر رہے اور قائدِ اعظم کی مساعی جمیلہ اور فقید المثال قیادت میں اپنے غیر متزلزل عزائم او ر تن، من، دھن کی قربانیوں کی بدولت 14 اگست 1947ء کو ملکِ پاکستان کے حصول میں سرخرو ہوئے۔ جو ایک تاریخی دن بن کر دنیائے سیاست و جغرافیہ میں رقم ہو گیا۔
پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم کی فکری ہم آہنگی کا ایسا سیاسی معجزہ ہے جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کا قیام صرف ایک جغرافیائی ٹکڑے کا حصول نہ تھا بلکہ برسہا برس کی جدوجہد کا مقصد ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام تھا جو احکامِ قرآنی اور مساواتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالمگیر پیغام قومیت کی اساس بنے۔ جو اسلامی اقدار کی محافظ اور اسلامی ثقافت کی علمبردار ہو، جو فطری بنیادوں پر معاشرتی عدل و انصاف قائم کرے جو نسلی و علاقائی اور معاشی و معاشرتی اغراض سے بالاتر ہو کر ملت واحدہ کی خالص عقلی بنیاد تعمیر کرے جو میثاقِ مدینہ کی طرز پر اقلیتوں کو برابری کے حقوق دے جو نیکی کے حصول، اللہ اور اس کے رسول کی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اطاعت و فرمانبرداری اور فطری پرہیزگاری کی طرف بنی نوع انسان کو دعوت دے۔ جہاں امتِ مسلمہ کے نظریاتی، روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہو سکیں اور جہاں مساوات، آزادی اور یگانگت کے بنیادی اصول یکساں ہوں تاکہ تمام طبقات آزادانہ اور امن و آشتی سے زندگی بسر کر سکیں۔
پاکستان اسلام کا قلعہ اور شجر سایہ دار کی مانند کروڑوں مسلمانوں کی امید کا مرکز تھا۔ مگر افسوس! آج کا پاکستان تصورِ اقبال اور نظریاتِ قائدِسے متصادم نظر آتا ہے۔ نفاذِ اسلام کا خواب اس سرزمین پر تاحال شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا۔ اقبال کے بوئے ہوئے بیج کی اپنے خون سے آبیاری کرنے اور آزادی کی منزل کی راہ میں حائل تمام کانٹوں کو چننے والے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کو فراموش کیا جا چکا ہے۔ جس کی وجہ سے آج یہ ملک ہر طرح کے بحرانوں میں گھرا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ مشرق و مغرب کے مادی نظریات کی چکا چوند نے اس کے نظریہ وحدت کو مسمار کر کے اس کے باسیوں کو مختلف مذہبی، اخلاقی، سیاسی، نسلی اور معاشی گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ سامراجی و طاغوتی قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ ان کے ایمان کو کمزور کر کے انہیں ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ کفر و الحاد کی پنجہ آزمائی سے دہشت گردی، انتہا پسندی اور بد امنی جیسے چیلنجز اور خطرات نے اس قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔
اس پر مستزاد ارضِ پاک پر خود غرض، عیاش اور ملکی وسائل لوٹنے والے حکمرانوں کا اقتدار پر قابض ہونا ہے، جواپنی مکارانہ سازشوں سے عوام کے جذبات سے کھیل کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور آف شوز کمپنیوں کی شکل میں ملکی دولت باہر کے ممالک میں منتقل کر کے کھربوں کی جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ ان سیاسی کرپٹ حکمرانوں نے عوام کی نگاہوں سے اجتماعی نصب العین چھین کر ان کا مقدر تاریک کر دیا ہے۔ نام نہاد جاہل قیادت نے عدالتوں اور ملکی سلامتی کے تمام اداروں پر قبضہ جما کر ظلم و استحصال، جبر و بربریت اور لاقانونیت کو عام کیا ہے۔ نسلِ نو کو مغربی رنگ میں رنگنے کے لیے ملک میں اغیار کی ثقافت اور کلچر کو فروغ دیاہے۔ روپ بدل بدل کر ایک کے بعد دوسرے حکمران نے آ کر نظریاتی ریاست میں حرکت و عمل کی قوتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ حکمرانوں نے عوام الناس کو بنیادی ضرورتوں کے حصول کی ایسی دوڑ میں شریک کر دیا ہے، جس کا تاحال کوئی ماحاصل نہیں۔
اس ملک کے حکمران قوم کے دشمن بن چکے ہیں۔ جنہوں نے ذاتی مفادات کو عوام کی ضروریات پر ترجیح دی ہے۔ ان کی عیاشی کا یہ عالم ہے کہ ان کے کتوں کا علاج تو یورپ میں ہوتا ہے مگر غریب کا بچہ علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے سسک سسک کر مر جاتا ہے۔ یہ خود تو بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں مگر غریب کو سر ڈھانپنے کیے لیے کھلے آسمان کے علاوہ چھت میسر نہیں آتی۔ غریب اور مظلوم طبقہ فقر و فاقہ، غربت و مہنگائی اور مایوسی و محرومی کی زندگی گزار رہا ہے۔ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے روزگار نہ ملنے کی وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں۔ پڑھا لکھا امیر طبقہ پلٹ کر واپس نہ آنے کے لیے ملک چھوڑ کر جا رہا ہے۔ اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمتوں، پینے کے صاف پانی کی محرومی، لوڈ شیڈنگ کے عذاب، علاج معالجہ کی ناکافی سہولیات اور دیگر گھمبیر مسائل نے عوام کو گھیر رکھا ہے۔
حکمرانوں کے ایسے نظام اور اجتماعی دانش کے فقدان کی وجہ سے ہر انسان خود غرض ہو چکا ہے اور خود غرضی اور طمع کا یہ جال معاشرے کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ باہمی پیار اور محبت کی فضاء نفرتوں کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ جھوٹ، غیبت، بہتان، عیب جوئی، حسد، کینہ اور تذلیل و تحقیر جیسی بُرائیوں کی وجہ سے معاشرہ بد اخلاقی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ شراب، سود، چوری، اسٹریٹ کرائم، قتل و غارت گری بکثرت ہو رہی ہے۔ عورتوں کی عصمتوں کے سودے ہو رہے ہیں۔ کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن کر ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔
یہ صورتِ حال قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد سے کوسوں دور کھڑے ہیں جو علامہ اقبال، قائدِ اعظم اور دیگر قائدین کے پیشِ نظر تھے۔ کیا ایسے پاکستان کے لیے اسلاف نے قربانیں دی تھیں؟ کیا آزادی کا مقصد یہی تھا؟ ان حالات میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ
اے ارضِ وطن تجھ سے ہم شرمندہ بہت ہیں
لیکن صرف اتنا کہنے سے ہماری ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پاکستان کو فلاحی اسلامی مملکت بنانے کے لیے آج ہمیں پھر سے آزادی کی روح کو بازیاب کرانے کے لیے اسی جذبے کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ کیونکہ آزادی کی روح بحال کیے بغیر کوئی قوم اپنے مسائل سے باہر نہیں نکل سکتی۔
اس مقصد کے پیشِ نظر پاکستانی قوم کو ملتِ واحدہ کا عملی مظہر بن کر اس فرسودہ نظام کو تبدیل کرنا ہو گا اور صحیح معنوں میں اسلام کے نفاذ کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ ہر فرد کو دین کی آگہی سے قومی تشخص کے فروغ تک کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے قائد کے افکار کی روشنی میں بحیثیت قوم اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا ۔ فرض شناس قوم ہونے کی حیثیت سے جہالت اور تعصب کا پردہ اتار کر دین و دنیا کے مناصب کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا ہو گا۔ ملکی استحکام کے لیے منتشر افرادی قوت کو یکجا کر کے منظم کرنا ہو گا۔ حکمرانوں کو حصولِ اقتدار کی بجائے ملکی مفاد اور ملکی استحکام کو مطمع نظر بنانا ہو گا۔ سیاسی قوتوں کو اپنی ذمہ داریاں ایمانداری کے ساتھ پوری کرتے ہوئے وفاق کو مضبوط کرنا ہو گا۔ کرپٹ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے تمام دینی اور سیاسی طبقات کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر کام کرنا ہو گا۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے تمام اداروں کو باہم مل کر اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ قرارداد پاکستان میں متعین کیے گئے رہنما اصولوں کی روشنی میں رنگ و نسل، مذہب و فرقہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ ججز کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے عدل و انصاف پر مبنی نظام پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ نوجوانوں کو ملک کی تعمیرِ نو میں مصروفِ عمل کرنا ہو گا۔ فوج کو ملکی سالمیت اور دفاعِ وطن کو دیگر امور پر مقدم رکھنا ہو گا تاکہ بانی پاکستان کا خواب پایہ تکمیل تک پہنچ سکے اور پاکستان اقوام عالم میں اپنا لوہا منواسکے۔
الغرض آج کی نسل جنہوں نے وطنِ عزیز کی آسائشیں ہی دیکھی ہیں لیکن اس کرب سے نآشنا ہیں جو ہماری تین نسلیں برداشت کرتی رہی ہیں۔ جنہوں نے آزاد ملک میں آنکھ کھولی مگر آزادی کے راستوں کی خطرناک گھاٹیوں سے گزر نہیں ہوا، انہیں آج 72 واں یومِ آزادی ایک طرف تاریخ کے لہو سے لبریز اوراق کی یاد دلاتا ہے اور دوسری طرف آزادی کے لیے جان لٹانے والوں سے تجدیدِ عہدِ وفا کا تقاضا کرتا ہے تاکہ آج کی نسل کے منجمد خون میں حدت پیدا ہو سکے اور وہ آزادی کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا ہو کر مضبوط و مستحکم اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔