اسلامی تاریخ ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کے تذکروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے زمانے میں علم وفضل میں کمال حاصل کیا اور اشاعت علم کے لیے وہ گراں قدر خدمات سرانجام دیں کہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ انہی ہستیوں میں ایک نام چھٹی صدی ہجری کے وسط میں جنم لینے والے محمد بن عمر بن حسین بن حسن بن علی رازی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے جن کی کنیت ابو عبداللہ، ابوالمعالی، ابوالفضل اور ابن خطیب الری ہے، آپ کا لقب فخرالدین ہے اور امام رازی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بعض تذکرہ نگاروں کے ہاں آپ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے اختلاف ملتا ہے لیکن اکثر کے نزدیک آپ 544 ہجری میں پیدا ہوئے۔ نسب کے اعتبار سے آپ قریشی ہیں آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ علامہ عبدالعزیز بن محمد الجوہری نے اپنی کتاب جواہرالآثار میں آپ کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے:
’’محمد بن عمر بن حسین بن حسن بن علی بن محمد بن عبدالله بن عبدالرحمن بن عبدالملک بن عبدالرحمن بن ابو طاہر بن محمد بن احمد بن عبدالله بن عبدالرحمن بن قاسم بن محمد بن ابوبکر الصدیق رضی الله عنه.‘‘
آپ ایران کے علاقے پیدا ہوئے جہاں آپ کے والد خطیب تھے اسی وجہ سے آپ کو ابن الخطیب بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ضیاء الدین تھا۔ جو خطیب الری کے نام سے مشہور تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ بعد ازاں آپ نے الکمال السمعانی اور المجد الجلیلی سے علم حاصل کیا۔ ان جلیل القدر اساتذہ کے علاوہ آپ نے اپنے زمانے کے مایہ ناز اساتذہ سے کسب فیض پایا۔ فقہ میں آپ امام شافعی کے مقلد تھے اور مسلکاً اشعری تھے۔
حصول علم سے آپ کو اس قدر شغف تھا کہ ان کی رائے میں تمام علوم کا حاصل کرنا ہی شریعت میں لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کو تمام علوم سے محبت تھی اور آپ بلا تفریق تمام علوم کے حصول کی طرف متوجہ ہوئے۔ امام رازی کی نظر میں تمام علوم ہی یا تو واجب کا درجہ رکھتے ہیں یا ایسے ہیں کہ جن کے ذریعے واجب مکمل ہوتا ہے یا ایسے ہیں جن کے بغیر دنیاوی علوم کی تحقیق نہیں ہوتی یا ایسے ہیں کہ جن کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ وہ کس قدر خطرناک اور مضر ہیں کہ ان سے بچا جاسکے۔ آپ کی شہرت نہ صرف علمی حوالے سے تھی بلکہ وعظ و خطابت کے حوالے سے بھی آپ کی شہرت دور دور تک تھی۔ یہاں تک کے کہا جاتا تھا کہ آپ عربی اور عجمی دونوں زبانوں میں وعظ کیا کرتے تھے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے علم میں وہ کمال حاصل کیا کہ آپ تفسیر، علم الکلام، علم عقلیہ اور علم لغت کے بھی امام مانے جاتے تھے۔ آپ کی علمی ثقاہت کا یہ عالم تھا کہ آپ کو مختلف القابات سے نوازا گیا۔ فخرالدین کے علاوہ شیخ الاسلام، سلطان المتکلمین، الامام الکبیر اور شیخ المعقول والمنقول کے القابات سے بھی جانا جاتا تھا۔
آپ کے متفرق علوم و فنون میں بہت سی کتابیں لکھیں۔ جس سے آپ کے علمی مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کی مشہور کتاب قرآن پاک کی تفسیر ہے جس کا نام مفاتیح الغیب اور التفسیر الکبیر کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے درج ذیل کتب لکھیں جن میں اساس التقدیس، الاشارۃ فی علم الکلام، الاربعین فی اصول الدین شامل ہیں۔
امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ اسلام کی اُن معروف علمی شخصیات میں سے ہیں جن کے بارے میں علامہ محمد اقبال بھی بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں:
اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی، کبھی پیچ و تاب رازی
ایک اور مقام پر علامہ نے فرمایا:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
امام فخرالدین کے نزدیک قرآن پاک تمام علوم کی اصل الاصول ہے چنانچہ آپ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:
قرآن پاک تمام علوم کی اصل ہے علم الکلام سارے کا سارا قرآن میں ہے۔ علم فقہ سارے کا سارا قرآن سے ماخوذ ہے، اسی طرح علم اصول فقہ، علم نجوم و لغت، زہد فی الدنیا اور آخرت کی خبروں کا علم اور مکارم اخلاق کا استعمال، اعجاز کے دلائل میں ہماری کتاب میں غورو فکر کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن فصاحت کی تمام تر صورتوں میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔
تفسیر الکبیر، امام فخرالدین رازی کا سب سے بڑا شاہکار ہے اس تفسیر کے متعلق مختلف علماء نے اپنی اپنی رائے دی ہے۔ امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں حکماء اور فلاسفہ کے اقوال کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی علمی حیثیت اور مختلف علوم و فنون میں آپ کی مہارت کے باوجود علماء نے آپ کی تفسیر پر تنقید بھی کی ہے یہاں تک کہ دیکھنے والے کو بڑا تعجب ہوتا ہے۔ ابو حیان سے منقول ہے کہ امام رازی نے اپنی تفسیر میں ایسے بہت سے طویل مباحث ذکر کئے ہیں جن کی علم تفسیر میں کوئی ضرورت نہیں۔
حضرت امام فخرالدین رازی کے بارے میں اہل علم فرماتے ہیں آپ متاخرین میں سے افضل، حکماء اور محدثین کے سردار ہیں۔ آپ کی تصنیفات اور تلامذہ آفاق میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ جب سوار ہوتے تو آپ کے گرد تین فقہاء تین سو تلامذہ چلا کرتے تھے۔ حضرت علامہ ابن اثیر فرماتے ہیں: آپ اپنے زمانے میں دنیا کے امام تھے۔
حضرت امام رازی نے 606 ہجری میں وفات پائی۔ آپ کی وفات کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کرامیہ کے ساتھ امور عقیدہ میں شدید اختلاف تھا، آپ اور ان کے درمیان بحث و مناظرہ جاری رہا یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو زہر دے دیا۔ جس سے آپ کی وفات ہوگئی۔ آپ نے تقریباً 62 برس آسمان علم پر چمکنے والے ستارے کی مانند زندگی گزاری اور اشاعت علم میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)