دریائے دجلہ کے کنارے آباد شہر بغداد میں رات کا وقت تھا ہر سو تاریکی کا راج تھا۔ ہر ذی نفس دن بھر کے کام کاج نپٹا کر محو استراحت تھا ایسے میں ایک گھر کی چھت پر خاتون اپنے مدہم، ٹمٹماتے دیئے کی لو میں سوت کات رہی تھیں۔ ناکافی تیل کے باعث مدہم اور ٹمٹماتے دیئے کی لو صوت کاتنے میں رکاوٹ بن رہی تھی اسی اثناء میں اس خاتون کے گھر کے قریب سے ایک مشعل بردار شاہی جلوس کا گزر ہوا۔ جلوس میں شریک افراد کے ہاتھوں میں موجود مشعلو ںنے یکدم علاقے کی روشنی میں اضافہ کردیا۔ زیادہ روشنی دیکھ کر خاتون نے فوراً سوت کاتنے کی رفتار بڑھادی تاکہ جلوس کے گزرنے کے دوران وہ زیادہ سوت کات لے جلوس گزر گیا اور خاتون نے سوت بھی کات لیا۔ مگر کوئی بات اس خاتون کو بے چین کررہی تھی اسی اضطراب کے عالم میں وہ وقت کے امام کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے میں اپنی چھت پر سوت کات رہی تھی کہ راستہ میں شاہی روشنی کا گزر ہوا اور میں نے اس روشنی میں تھوڑا سا سوت کات لیا۔ اب بتایئے وہ سوت جائز ہے یا ناجائز؟ یہ سن کر امام صاحب نے ورطہ حیرت میں مبتلا ہوکر فرمایا کہ اے خاتون پہلے یہ بتائیں آپ کون ہیں؟ خاتون نے جواب دیا میں بشر الحافی کی بہن ہوں۔ امام صاحب رو پڑے اور فرمایا کہ وہ سوت تمہارے لیے جائز نہیں۔ تم حضرت بشر الحافی کی بہن ہو جو اہل تقویٰ میں سے ہیں اور تمہیں اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ بڑھاتے ہاتھ بھی ان کی پیروی نہیں کرتا تھا۔ ورع تو تمہارے گھر سے نکلتا ہے لہذا تمہارا ان شعاعوں میں سوت کاتنا جائز نہیں۔
یہ الفاظ وقت کے امام، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں بیان فرمائے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بیشتر آپ ہی کی صحبت میں رہتے اور آپ کے عقیدت مندوں میں سے تھے، چنانچہ جب آپ کے شاگردوں نے پوچھا کہ اتنے بڑے محدث اور فقیہہ ہونے کے باوجود آپ ایک دیوانے کے ہمراہ کیوں رہتے ہیں؟ تو فرمایا کہ ’’بے شک شریعت میں زیادہ جانتا ہوں لیکن شریعت والے کو وہ دیوانہ زیادہ جانتا ہے‘‘ اسی وجہ سے امام صاحب اکثر آپ سے استدعا کرتے تھے کہ ’’مجھے اللہ کی باتیں سنائیں‘‘۔
حضرت بشر الحافی نے عباسی دور حکومت میں مرو کے علاقہ سے ہجرت کرکے بغداد سکونت اختیار کی۔ آپ کے معاصرین میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے بڑے علماء و صوفیاء شامل ہیں۔ آپ اللہ کی محبت میں فنا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق خاص سے آپ کو ایمان کی حلاوت عطا کی۔
آپ کی توبہ کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دن آپ نشہ کی حالت میں گھر سے نکلے، راستے میں انہیں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا، تعظیم کے ساتھ اٹھایا، اس پر بسم اللہ الرحمن الرحیم تحریر تھا، انہوں نے اس کاغذ کے پرزے کو عطر سے خوشبو دار کرکے پاک جگہ میں رکھ دیا۔ اسی رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے بشر تو نے میرے نام کو خوشبودار کیا اور میرے نام کی عزت کی، یقینا میں تیرے نام کو دنیا و آخرت میں خوشبودار کروں گا، یہاں تک کہ جو بھی تیرا نام سنے گا اس کے دل میں راحت ہوگی‘‘ اس پر آپ نے فوراً توبہ کرلی۔
استاذ ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے:
’’حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے تو ان لوگوں نے کہا یہ شخص رات بھر نہیں سوتا اور تین دنوں میں صرف ایک دن روزہ نہیں رکھتا ہے‘‘۔
یہ سن کر حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ رونے لگے۔ آپ سے رونے کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا:
’’مجھے یاد نہیں کہ میں نے پوری رات جاگ کر گزاری ہو اور دن بھر روزہ رکھا ہو اور رات تک کچھ کھایا پیا نہ ہو لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے لطف و کرم سے دلوں میں بندے کے عمل سے زیادہ ڈال دیتا ہے‘‘۔
حضرت بلال الخواص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ’’میں بنی اسرائیل کے (میدان) تیہ میں تھا کہ ایک شخص مجھے چلاّنے لگا۔ مجھے اس پر تعجب ہوا پھر مجھے الہام ہوا کہ یہ حضرت خضر رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ میں نے کہا تجھے حق کا واسطہ مجھے بتا، تُو کون ہے؟ اس نے کہا: تمہارا بھائی خضر ہوں۔
میں نے کہا: میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے فرمایا: پوچھو۔
میں نے کہا: آپ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
انہوں نے فرمایا: وہ اوتاد (اولیاء کرام کا ایک درجہ) میں سے ہیں۔
میں نے کہا: حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
فرمایا: وہ نہایت سچے آدمی ہیں۔
میں نے پوچھا آپ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
فرمایا: لم یخلق بعدہ مثلہ ’’ان کے بعد ان جیسا پیدا نہیں ہوگا‘‘۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ جو شخص یہ ارادہ کرے کہ وہ دنیا میں عزیز اور آخرت میں شریف ہو اسے تین باتوں سے بچنا چاہئے ایک یہ کہ وہ کسی سے سوال نہ کرے، دوسرے یہ کہ کسی کا ذکر برائی سے نہ کرے، تیسرے یہ کہ وہ کسی کا مہمان نہ ہو۔ کیونکہ جسے اللہ کی معرفت ہوگی اسے مخلوق کی احتیاج نہ ہوگی، اس لیے کہ خلق کی احتیاط عدم معرفت الہٰی کی دلیل ہے۔
حضرت ابو علی دقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دعوت میں بلایا گیا اور ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی لیکن ہاتھ نہ بڑھا۔ تین بار اسی طرح کیا۔
تو ایک شخص جو اس بات کو جانتا تھا کہنے لگا کہ ان کا ہاتھ اس کھانے کی طرف نہیں بڑھتا جس میں شبہ ہو۔ اس دعوت دینے والے کو ان کی دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی؟
حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں دیکھا گیا تو آپ سے پوچھا گیا کہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
فرمایا: اس نے مجھے بخش دیا اور نصف جنت میرے لیے مباح کردی اور مجھ سے فرمایا:
اے بشر! اگر تم میرے لیے انگارے پر بھی سجدہ کرو تو اس بات کا شکر ادا نہیں کرسکتے جو میں نے تمہارے لیے (محبت) اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے۔
حضرت بشر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ شخص آخرت کی مٹھاس حاصل نہیں کرسکتا جو چاہتا ہے کہ لوگ اسے پہچانیں (یعنی جو شہرت کا طالب ہے)۔
آپ کا وصال مبارک 227ھ میں ہوا۔ آپ اہل عشق کے لیے مشعل راہ ہیں۔ آپ کی قبر مبارک بغداد شریف میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت بشر الحافی رحمۃ اللہ علیہ کے طفیل اپنی محبت و معرفت عطا فرمائے۔ آمین
(الرسالة القشیریة از شیخ ابوالقاسم عبدالکریم القشیری)
(تذکرے اور صبحتیں از دکتور محمد طاہرالقادری)