اداریہ : خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن

عورت خواہ بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں ہو کے بغیر انسانی معاشرہ نامکمل ہے۔ اسلام میں عورت کو انتہائی بلند مقام دیا گیا ہے۔ بیٹی ہے تو والدین کے لئے رحمت، ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔ وہ پاکستان جہاں عورت دو مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئی۔ اب قومی اسمبلی کی سپیکر ہے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اس کی 33 فیصد نمائندگی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ نے بھی میدان سیاست میں خوب نام کمایا اور رعنا لیاقت علی کو گورنر سندھ کے اعلیٰ مرتبہ پر بھی فائز کیا گیا۔ عورت نے ثابت کیا کہ مرد کی طرح عورت بھی کسی طور پر کم اہمیت کی حامل نہیں ہے مگر اس کے باوجود ’’پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے نعرے پر حاصل کئے گئے اس ملک میں یہ صنف نازک اپنے بنیادی فرائض کے معاملے میں ہمیشہ نظر انداز کی گئی۔ اکثر دیہاتی اور قبائلی نظام میں بسنے والی عورت پر آج بھی دور جاہلیت کے رسم و رواج کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ونّی اور کاروکاری جیسی قبیح رسم، گینگ ریپ، زنا بالجبر، جبری مشقت، مار پیٹ، بچیوں کی مرضی کے خلاف شادی، عزت کے نام پر قتل، وراثت سے محرومی اور سوا بتیس روپے حق مہر جیسے غیر عادلانہ، غیر منصفانہ، ظالمانہ اقدامات اور جاہلانہ رسم و رواج سے اسلام اور پاکستان کی عالمی سطح پر جنگ ہنسائی ہو رہی ہے جبکہ شریعت اسلامیہ اور شرعی قوانین سے ان رسوم و رواج کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بلکہ یہ سب کچھ شعائر اسلامی کے سراسر خلاف اور اسلام کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازش کے مترادف ہے۔

25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا۔ دنیا بھر میں امسال عورت پر ہونے والے تشدد کے واقعات کا باقاعدہ اور مستند ریکارڈ موجود نہیں اور پاکستان بھر میں بھی اس کا جائزہ لینا انتہائی مشکل ہے مگر صرف صوبہ پنجاب کو دیکھا جائے تو عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں گذشتہ نوماہ کے دوران 2699 خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ فیصل آباد میں 250، لاہور میں 236، راولپنڈی میں 136 اور ملتان میں 130 تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔ اس دوران 31 فیصد خواتین اغواء، 15فیصد قتل، 14 فیصد زنا بالجبر اور گینگ ریپ کا شکار ہوئیں جبکہ 9 فیصد خود کشی، 8 فیصد جسمانی تشدد اور 2 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ اسی طرح 2 فیصد خواتین کو اقدام خودکشی پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک فیصد کیس تیزاب سے جل جانے اور ایک فیصد قتل کے کیسز کا اندراج ہوا۔ اگر کیسز کے اندراج اور عدم اندراج کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ تین ماہ میں 1592 کیسز میں سے 1335 کیسز کی ایف آئی آر درج ہوئی جبکہ ان میں سے 257 کیسز کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی۔ 137 عورتوں نے تشدد کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ اس طرح سال کی پہلی سہ ماہی میں خواتین پر تشدد کے 546 جبکہ دوسری سہ ماہی میں خواتین پر تشدد کے 828 واقعات ہو چکے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ بھی ہے کہ وہ واقعات جو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں جہاں بہت ساری انسانی حقوق کی تنظیموں نے عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جن میں بین الاقوامی تنظیم MINISTARY OF, UNIFEM PAKISTAN, EVAW WOMEN GLOBAL LEADERSHIP, WOMEN شامل ہیں وہیں پر منہاج القرآن انٹرنیشنل کے خواتین ویمن ’’منہاج القرآن ویمن لیگ‘‘ نے لاہور پریس کلب کے سامنے خواتین پر مظالم اور تشدد کے خلاف ایک پرامن مظاہرہ کیا اور عورت کو زندہ درگور کرنے، ہوس کا نشانہ بنانے، کتوں کے آگے پھینکنے، دشمنی کے خاتمے کے لئے زبردستی شادی کرنے، جائیداد کے حق سے محروم کرنے اور زندہ جلانے اور عورت کے استحصال کی تمام شکلوں کی پُر زور انداز میں مزمت کی۔ اس موقع پر سینکڑوں خواتین شرکاء سے مرکزی ناظمہ ویمن لیگ محترمہ سمیرا رفاقت نے اظہار خیال کرتے ہوئے عورت کو اشتہار بازی کے لئے استعمال کر کے اس کی عزت و ناموس کا جنازہ نکالنے والوں کی بھی بھرپور مذمت کی اور اس اقدام کو عورت کی عزت و حرمت پر حملہ قرار دیا۔ اس موقع پر خواتین نے کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ عورت پر ہونے والے مظالم کے خلاف پرجوش نعرے لگا رہی تھیں۔ ناظمہ تنظیمات محترمہ راضیہ شاہین نے اپنے خطاب میں کہا کہ تسلیم سولنگی اور بلوچستان میں عورتوں کو زندہ درگور کرنے جیسے واقعات، حکومت کے منہ پر طمانچہ کے مترادف ہے لہذا حکومت کو فوری طور پر اس سلسلے میں قانون سازی کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے۔

بلاشبہ معاشرے کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی ادائیگی، ان کی کفالت اور ان کے مسائل کا خاتمہ حکومت کا اولین فرض ہے لہذا حکومت وقت اگر صحیح معنوں میں عوامی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر پاکستان سے ظلم و استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ بالخصوص عورت پر ہونے والے مظالم کو ختم کرکے اس کے بنیادی حقوق کی ادائیگی کا سامان فراہم کر کے اسے اس کی عزت و ناموس کی پاسداری کی ضمانت دینا ہوگی تاکہ پاکستان سے تمام قبیح رسموں کا خاتمہ کرکے پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔