نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
نساء سوچنے لگی ہمارے نوجوانوں کو آخر کیا ہوگیا ہے ان کا اخلاق اتنا کیوں گرگیا ہے ہماری قوم کے شاہین اپنے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنے کی بجائے کہاں اڑ گئے ہیں یہ کون سا موسم ہے کہ ان پرندوں نے اپنا وطن ہی چھوڑ دیا ہے۔ آخر کون سی چیز نے انہیں ترک وطن پر مجبور کردیا یا پھر اڑان سے قبل بسیرے سے قبل پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے سے قبل ان کے پر ہی کاٹ ڈالے گئے یہ بیٹے یہ ’’ہٹاں پر نہ بکنے والے پُتر‘‘ یہ خود رو جھاڑیوں کی طرح تو نہیں ہوتے کہ خود بخود ہی بڑھتے رہیں ان کی شاخیں آڑے ترچھے انداز سے ادھر ادھر پھیلتی رہیں نہ ان کی جڑوں میں بہترین تربیت کی کھاد ڈالی جائے نہ ان کے کردار پر جمے گردو غبار کو دھونے کے لئے اخلاق، مروت اور غیرت دینی کے پاکیزہ پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے اور نہ ہی یہ گرمیوں کے سیلاب کا وہ بپھرا ہوا پانی ہیں جو کسی رکاوٹ کسی بندش کو قبول نہ کرے جو آزادانہ ہر گھر ہر آنگن میں داخل ہوکر سب کچھ تہس نہس کر ڈالے ساری اخلاقیات کو پاؤں تلے روند ڈالے سارے ضابطوں اصولوں کو پامال کر دے انہیں تو ایک عورت ایک ماں تخلیق کے عظیم کرب سے گزر کر جنم دیتی ہے فطری معصومیت شرم و حیاء اور پاکیزگی کا دودھ پلاتی ہے اس کے خون دل کی سرخی اس کے بیٹے کے رخساروں پر عظمت کردار کے گلاب کھلاتی ہے اس کے سینے کی حرارت اس کے دل میں غیرت دینی و ملی کا حسین الاؤ دہکاتی ہے ایسا الاؤ جس کے آس پاس کھڑے ہوکر جذبوں سے سرد لوگ بھی اپنے اپنے تنِ مردہ میں جان ڈال لیتے ہیں اپنے مرجھائے ہوئے چہروں کو گل و گلزار بنالیتے ہیں پھر ان شاہینوں کی جوانمردی جرات بہادری ناموس کی پاسداری کا احساس پامال ہوتی ہوئی قدروں کو زندہ کرنے کا احساس سب کہاں گم ہوگیا ہے آخر ماؤں کی گود کی گرمی ان کے احساس کو حرارت تو نہیں عطا کرتی اسے خیال آیا اس ماں کا جو اپنے 4 سالہ بیٹے کو کھانا کھلا رہی تھی سامنے ٹی وی پر غیر ملکی نشریات میں سے ایک ایسا چینل لگا ہوا تھا جو سیرت و کردار کو فحاشی و بے غیرت کے سانچے میں ڈھالنے کے حوالے سے بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے بچہ کھانا کھاتے ہوئے بار بار ٹی وی کی جانب متوجہ ہو جاتا ماں اسے کبھی پیار سے کبھی ڈانٹ کر کھانے کی طرف متوجہ کرتی اور خود ٹی وی دیکھنے لگتی۔ ہر وقت وہ ذکر کرتی ہوئی مائیں کہاں غائب ہوگئی ہیں۔۔۔ لیکن اولاد کی تربیت صرف ماں کا ہی تو فرض نہیں ہے اسے وہ حدیث شریف یاد آگئی جو اس نے اکثر و بیشتر پڑھی بھی تھی اور سنی بھی تھی باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اچھی تربیت ہے، باپ کا یہ عطیہ ہی تو ان شاہینوں کو بال و پر عطا کرتا ہے اڑان کا حوصلہ اور طاقت دیتا ہے اسے خیال آیا اس باپ کا جو صبر و قناعت اور خدا کی رضا کے احساس سے عاری ہے جو باپ خود زندگی میں ہر کام کو کرنے اور کرانے کے لئے قدم قدم پر جائز و ناجائز حربے آزما کر قوم کا اخلاق اس کی عادات بگاڑ رہا ہو بامقصد اور باغیرت زندگی گزارنے کے روشن خواب آنکھوں میں سجا کر عملی زندگی کا آغاز کرنے والے نوجوانوں کے احساسات پر قدم قدم حرام اور بے غیرت کے تازیانے لگاتا ہو وہ اپنے شاہینوں کو بال و پر کیسے عطا کرے گا؟ وہ جدوجہد زندگی کو روزگار کو عبادت ماننے والے باپ کہاں کھوگئے ہیں وہ اپنی اولاد کو تربیت کا بہترین عطیہ کیوں نہیں دیتے پَر کو طاقت پرواز کیوں نہیں دیتے۔ نساء الجھ گئی قصور کس کا ہے ماں کانہیں نہیں باپ کا کیونکہ حلال کمائی اور بہترین اخلاق کے ذریعے اچھی تربیت کرنا تو باپ کا فرض ہے لیکن ماں؟ اولادکو چلنا تو وہی سکھاتی ہے بولنا تو وہی بتاتی ہے سوچ کو صحیح اڑان تو وہ دیتی ہے قصور اس کا ہے نہیں میراخیال ہے قصور باپ کا ہے نہیں نہیں قصور دونوں کا ہے اس شاہین کے بال و پر دونوں نے مل کر کاٹے ہیں اس کی قوت پرواز دونوں نے مل کر چھینی ہے اس کا دل بوجھل سا ہوگیا اتنے میں اس کی ویگن آگئی اور وہ انہیں بوجھل قدموں اور دل سے اس میں سوار ہوکر گھر کی طرف چل دی اسے اس بات کا گہرا دکھ تھا آخر قوم کے شاہینوں نے پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے آخر کیوں؟؟؟