ج : شیطان کے حملے سب سے پہلے لباس اور میک اپ سے ہی شروع ہوتے ہیں، شیطان اور دنیا ایسے مکار دشمن ہیں جو انسان کے ذہن میں بھی نہیں آنے دیتے کہ یہ برائی ہے۔ رواج اور فیشن کے نام پر دنیا کی رواداری اور دیکھا دیکھی میں ایسے لباس پہننا کوئی برائی خیال نہیں کی جاتی یہی شیطان کا مکر ہے۔ بناؤ سنگھار، زیب و زینت، میک اپ وغیرہ یہ صرف اور صرف شوہر کے لئے جائز ہے۔ یہ سب زینت نہ باپ کے لئے نہ بھائی، ماں اور گھر کے لئے ہے۔ باہر والوں کے لئے تو سراسر دوزخ کا ایندھن اور آگ ہے۔ میک اپ کرنا، جسم کے اعضاء ننگے کرنا، خواہ ایک جزو، آدھا یا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو جائز نہیں۔ عورت کا تو مطلب ہی چھپی ہوئی چیز ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَO
(النور،24 : 31)
’’اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤo‘‘۔
قرآن حکیم کی اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے خواتین کے لباس اور پردہ سے متعلق واضح احکام فرما دیئے ہیں کہ جسم کے کن اعضاء کو ظاہر کر سکتی ہیں اور زیب و زینت شوہر کے علاوہ کن کن رشتوں پر ظاہر ہو تو گناہ نہیں جبکہ دور جدید میں احکام الہٰی کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ مختصر لباس پہن کر نکلنے کو نام دیا جاتا ہے کہ آج کل یہی فیشن ہے۔ دراصل یہ فیشن دوزخ کی تیاری ہے۔ یہ ایک بولی ہے جو نفس اور دنیا نے سکھا دی ہے۔ یہی شیطان اور دنیا کی ٹیکنالوجی ہے۔ بولی بدل دیتا ہے، دھیان ہی نہیں آنے دیتا اور ذہن میں یہ خیال ڈال دیتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ کیا جب جہنم میں ڈالا جائے گا۔ دوزخ گرفت کرے گی، یوم محشر حساب و کتاب میں ناکامی ہوگی تو کیا لوگ بچانے آئیں گے؟ اگر لباس ہی شریعت کے برعکس ہوگا تو دوسرے اعمال کی کیا ضمانت۔ شریعت مطہرہ نے خواتین کے لئے جو لباس جائز قرار دیا ہے وہ کسی بھی کلچر میں پہنا جائے اپنی صفات اور خصوصیات کو برقرار رکھتا ہے۔ ایسے لباس کی صفات درج ذیل ہیں :
- ایسا لباس جو جسم کے سارے حصے ڈھانپ سکے سوائے چہرہ، ہتھیلیاں اور پاؤں۔
- کپڑے کا سٹف موٹا ہو، اتنا باریک نہ ہو کہ جس سے جسم جھلکنے لگے۔ ایسے لباس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جہنمی عورتیں ایسی ہونگی جو لباس پہننے کے باوجود بھی ننگی ہوتی ہیں۔
- ٭ لباس اتنا تنگ نہ ہو کہ جسم کے خدوخال نمایاں ہوں۔
- ٭ مردوں کے لباس سے مشابہت نہ رکھتا ہو کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں جیسا لباس پہنتی ہیں اور ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔
یہ وہ اوصاف ہیں جو شرعی لباس میں ہونے چاہئیں۔ اگر ان میں سے ایک وصف بھی نہ پایا گیا تو وہ لباس شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہے۔ لہذا اگر آخرت سنوارنی ہے تو اپنے لباس درست کریں۔ تنگ اور چست لباس کو کھول لیں، چھوٹی قمیض کو لمبا کرلیں۔ بڑے چاک کو بند کر دیں ایسے کپڑے جلا دیں یا کسی غریب، مستحق کو دے دیں۔ اس دوزخ کی آگ میں خود جلنے سے بہتر ہے کہ ایسے کپڑے جل جائیں اور ایسے فنکشن، شادیوں کی تقاریب وغیرہ جہاں دنیاداری، برادری کی رسم و رواج اور دوزخ کی تیاری ہو رہی ہو تو وہاں بے شک جانا چھوڑ دیں۔ یہ تیل مہندی، مایو کے رسم و رواج دین کی بربادی کے راستے ہیں۔ یہ قبر میں کام نہیں آئیں گے۔ آج ہی توبہ کرلیں۔ خواب غفلت سے بیدار ہوکر دور جدید کے اس فتنے کا مقابلہ کریں۔
(ماخوذ از خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بعنوان : انسان کے تین دشمن)