قائداعظم محمد علی جناح کی قوت ایمانی ان کی شخصیت کے جلالی و جمالی اوصاف کا سرچشمہ تھی۔ انہیں اپنے مقاصد کی صداقت پر گہرا یقین تھا۔ اس لئے ان کی آواز اعتماد سے معمور ہوتی تھی۔ وہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں کے واحد نمائندہ کی حیثیت سے جو کچھ کہتے تھے سننے والوں کی دھڑکن بن جاتا تھا۔ ان کی باتوں کی دلنوازی اور بے پناہ قوت استدلال کی سحر آفرینی کے اپنے اور غیر سب قائل تھے۔ سیاست کے میدان میں اس مرد جری اور میر کارواں کے پاس یہ ایسے ہتھیار تھے جن کی بدولت کامیابی و کامرانی ان کی اور ان کی قوم کا مقدر بن گئی۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر انکی شخصیت پر پوری طرح منطبق دکھائی دیتا ہے۔
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے
دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں ایسی درخشندہ مثال نہیں ملتی کہ کسی رہنما نے مجبور و محکوم ہوتے ہوئے بے سرو سامانیوں کے درمیان ایک مردہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑائی اور دس برس کی قلیل مدت میں ملک کو صف اول کی قوموں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا ہو۔ یقینا یہ ایک حیرت انگیز کامیابی ہے لیکن قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ ان کامیابیوں کو تعلیمات اسلام کا ایک زندہ معجزہ سمجھتے تھے اور پورے جسم و یقین کے ساتھ کہتے تھے۔
’’اسلامی ہند کے اس حیرت انگیز انقلاب پر دنیا حیران ہے۔ کچھ لوگ اسے میری کاوشوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانان ہند کا اس قدر جلد متحد ہوجانا خداوند کریم کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اور قرآن مجید کی تعلیم اخوت کا زندہ معجزہ ہے ورنہ مسلم لیگ یا کوئی بھی جماعت مسلمانان ہند کو اتنی آسانی سے متحد نہ کرسکتی تھی‘‘۔
معرکۃ الآراء کتاب Speeches & Writings of Mr.Jinnah کے مولف جناب جمیل الدین احمد اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں :
’’بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ مغالطہ ہے کہ مسٹر جناح کا دین کی روح سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپنے گرد مذہبی تقدس کا ہالہ بنایا ہوا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ وہ عوام کے مذہبی جذبات اور تعصبات کا استحصال نہیں کرتے تھے۔ وہ مذہبی رسومات کی نمائش نہیں کرتے تھے لیکن وہ دین کی روح سے نہ صرف باخبر تھے بلکہ پوری طرح سرشار بھی تھے۔
ممتاز اہل قلم دانشور عشرت رحمانی اپنے ایک مضمون بعنوان ’’حضرت قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کا پیغام سیاسی نہیں روحانی و اخلاقی ہے‘‘۔ میں لکھتے ہیں کہ
’’قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ بنیادی طور پر سچے مرد مومن اور صاف علم و بصیرت انسان تھے‘‘۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ کی سحر خیزی کے بارے میں مولانا حسرت موہانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’میں ایک روز جناح صاحب کی کوٹھی پر صبح ہی صبح نہایت ضروری کام سے پہنچا اور ملازم کو اطلاع کرنے کو کہا۔ ملازم نے کہا اس وقت ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ آپ تشریف رکھیں تھوڑی دیر میں جناح صاحب خود تشریف لے آئیں گے چونکہ مجھے ضروری کام تھا اور اس کو جلد سے جلد جناح صاحب سے کہنا چاہتا تھا۔ اس لئے مجھے ملازم پر غصہ آیا اور میں خود کمرے میں چلا گیا۔ ایک کمرے میں سے دوسرے کمرے میں پھر تیسرے کمرے میں پہنچا تو برابر کے کمرے سے مجھے کسی کے بلک بلک کر رونے کی اور کچھ کہنے کی آواز آئی۔ چونکہ جناح صاحب کی آواز تھی اس لئے میں گھبرایا اور آہستہ سے پردہ اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سجدے میں پڑے ہیں اور بہت ہی بیقراری کے ساتھ دعا مانگ رہے ہیں۔ میں دبے پاؤں وہیں سے واپس آگیا اور اب میرے تصور میں ہر وقت جناح صاحب کی وہی تصویر اور وہی آواز رہتی ہے‘‘۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ بلا شبہ عشق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار تھے ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ انہیں ایک عظیم اسلامی مملکت کی تعمیر کا شرف ملتا اور وہ زندہ و جاوید بن جاتے۔ ایک مرتبہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر فرمایا :
’’آج ہم دنیا کی عظیم ترین ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تکریم کروڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ میں ایک عاجز ترین، انتہائی خاکسار اور بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی کو بھلا نذرانہ عقیدت پیش کر سکتا ہوں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا انسان دنیا نے کبھی پیدا نہیں کیا‘‘۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ تعلیم کے دوران کافی درسگاہوں کو چھوڑ کر لنکن اِن میں داخلہ کیوں لیا؟ آپ نے جواب دیا ’’اس لئے کہ لنکن اِن میں دنیا کے قوانین دینے والوں کی جو فہرست لگی تھی اس میں سرفہرست پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی تھا‘‘۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے دوران علالت معالج خصوصی کرنل الہٰی بخش سے فرمایا ’’یہ مشیت ایزدی ہے اور یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روحانی فیض ہے کہ جس قوم کو برطانوی سامراج اور ہندو سرمایہ دار نے قرطاس ہند سے حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازش کر رکھی ہے۔ آج وہ آزاد اور مختار ہے۔ اس کا اپنا ملک، اپنا جھنڈا، اپنی حکومت اور اپنا آئین و دستور ہے۔ کیا کسی قوم پر اس سے بڑھ کر اللہ کا کوئی اور انعام ہو سکتا ہے؟ میں جب یہ محسوس کرتا ہوں تو میرا سر عجز و نیاز کی فراوانی سے بارگاہ رب العزت میں سجدہ شکر بجالاتا ہے اور فرط مسرت سے جھک جاتا ہے‘‘۔
جس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآنی ہدایت وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا اور اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ کی روشنی میں مسلمانوں کو متحد کیا وہیں لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی روشنی میں اتباع و اطاعت رسول کو نجات کا وسیلہ قرار دیا۔
بابائے قوم رحمۃ اللہ علیہ نے 14 فروری 1948ء کو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے عظیم پیغمبر اسلام نے ہمارے لئے بنایا ہے‘‘۔
عظیم قائد کی یہ قوت ایمانی ہی تھی جس کی بدولت آپ کا یقین و ایمان تھا کہ اللہ رب العزت نے آپ کو اس مشن کے لئے بھیجا ہے اور آپ کی زندگی کا مقصد اس مشن کی تکمیل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اسی لئے جب معالج خصوصی کرنل الہٰی بخش نے آخری ایام میں کہا ’’ہماری انتہائی کوشش ہے کہ آپ کی صحت اتنی اچھی ہوجائے جتنی آج سے سات آٹھ سال پہلے تھی‘‘۔
اس پر قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ مسکرائے اور فرمانے لگے : ’’چند سال پہلے یقینا میری یہ آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں اس لئے طالب نہیں تھا کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی اور میں موت سے خوفزدہ تھا بلکہ اس لئے زندہ رہنا چاہتا تھا کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا ہے اور قدرت نے جس خدمت کے لئے مجھے مقرر کیا ہے میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔ اب وہ کام پورا ہوگیا ہے۔ پاکستان بن گیا ہے میں نے خدا کے بھروسے پر انتھک محنت اور کوشش کی ہے اور اپنے جسم کے خون کا آخری قطرہ تک حصول پاکستان کے لئے صرف کر دیا ہے۔ اب مجھے زندگی سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے‘‘۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے خواہر زادے مولانا ظفر احمد عثمانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت تھانوی نے ایک روز طلب فرما کر مجھے فرمایا۔
’’میں بہت کم خواب دیکھتا ہوں مگر آج میں نے عجیب خواب دیکھا ہے میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع ہے گویا کہ میدان حشر معلوم ہو رہا ہے اس مجمع میں اولیاء، علماء و صلحاء کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مسٹر جناح بھی اسی مجمع میں عربی لباس پہنے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھے تھے۔ میرے دل میں خیال گزرا کہ یہ اس مجمع میں کیسے شامل ہوگئے تو مجھ سے کہا گیا محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ آج کل اسلام کی بڑی خدمت کر رہے ہیں اسی واسطے ان کو یہ درجہ دیا گیا ہے‘‘۔
قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ساری زندگی جس مقصد کے حصول میں گزاری اس کے پس پردہ جو مقصد کار فرما تھا وہ دنیاوی شہرت کا حصول نہ تھا بلکہ رضائے الہٰی کا حصول تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے ایک اجلاس میں قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مخالفین، معاندین اور حاسدین کی بہتان طرازیوں کے سلسلے میں فرمایا :
’’میں نے دنیا کو بہت دیکھا، دولت، شہرت کے بہت لطف اٹھائے اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں، میرا ضمیر اور میرا اللہ گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کر دیا۔ میں آپ سے زور دار شہادت کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا اللہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبے میں عالم اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘۔
شاہدوں کا بیان ہے کہ جناح کے منہ سے یہ رقت آمیز الفاظ سن کر حاضرین زار و زار رو رہے تھے۔ 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور کے یونیورسٹی سٹیڈیم میں تقریر کرتے ہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
’’حوصلہ نہ ہارو، موت سے نہ ڈرو۔ ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ موت کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں جرات سے اس کا سامنا کرنا چاہئے تاکہ پاکستان اور اسلام کی آبرو کا تحفظ ہو سکے۔ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی نوید آزادی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک سچے نصب العین کے لئے جام شہادت نوش کرے۔ اپنا فرض بجا لاؤ اور خدا پر یقین رکھو۔ پاکستان کو اب دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا‘‘۔
عظیم قائد نے قوت ایمانی کے اسلحہ سے لیس ہو کر جس انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد اس خطہ ارضی پاکستان کے حصول کو ممکن بنایا۔ بلاشبہ یہ قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور قائم رہے گا۔ (ان شاء اللہ) مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ آج پاکستانی قوم اپنے قائد کے نقش قدم اور تعلیمات پر عمل کرکے اپنی قوت ایمانی کو زندہ کرے اور قائد نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا اس کو شرمندہ تعبیر کرے۔ قائد کے خوابوں کی تکمیل کرے۔ ورنہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا