مسلمانانِ ہند کی بے نظیر و بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی ہونے پر اب 68 سال بعد اس کے اسلامی ہونے پر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیکولر فکر کے نمائندہ خواتین و حضرات کچھ عرصہ سے نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا سرے سے انکار کررہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب اقبال اور قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران یہ لفظ استعمال نہیں کیا تو اب بعد میں اس کی رٹ کیوں لگائی جارہی ہے؟ یہ فکر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پھیلائی جارہی ہے تاکہ اسلام سے قوم یا رہا سہہ تعلق بھی ختم کردیا جائے۔ ذیل میں ہم اسی بنیادی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ثانیاً اس حقیقت کو واضح کرنا مقصود ہے کہ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ پاکستان محض زمین کے ٹکڑے کے طور پر حاصل نہیں کیا گیا تھا بلکہ بانیانِ پاکستان نے اسے اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا قیام ایک نظریے کے تحت عمل میں آیا۔ نظریہ پاکستان کی حیثیت پاکستان کے وجود میں روح کی مانند ہے جس کے بغیر پاکستان کے قیام کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ تحریک پاکستان کے دوران مسلمانان ہند شعوری طور پر ایک نظریے کے تحت آزاد مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی نظام کی بے ثمریت، ریاستی و اداروں کی بے مقصدیت اور قومی سطح کی بے شعوری نے قیام پاکستان کے تقریباًپون صدی بعد نظریہ پاکستان پر تنازعہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کو تلاش کریں، اس کی تعریف متعین کریں اور یہ فیصلہ کریں کہ کیا نظریہ پاکستان کی کوئی حقیقت بھی ہے۔ ۔ ۔ ؟
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے برصغیر کے مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے ہندوستان کی تقسیم کو ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا:
’’مسلمانان ہند کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ فرقہ وارانہ مسئلے کے مستقل تصفیے کے لیے برطانوی ہندوستان کی از سر نو تقسیم کی جائے‘‘۔
علامہ اقبال نے ایسے وہ تمام فیصلے مسترد کردیئے جو مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے کے درپے تھے بلکہ اس وقت کے ان دونوں نمایاں فیصلوں یعنی میثاقِ لکھنو اور تجاویز دہلی کو ایسے سیاسی گڑھوں سے تعبیر کیا کہ اگر مسلمان ان میں گھِرے رہے تو مستقبل میں ان کے لیے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کا کوئی بھی موقع باقی نہیں بچے گا۔
آپ نے فرمایا:
’’ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ اسلام کو بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے‘‘۔
تحریک پاکستان کے دوران تحریک آزادی کے قائدین اس امر سے آگاہ تھے کہ وہ جس وطن کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں اس کامقصد ا ورہدف کیا ہے، اور کس نظریے کی بنیاد پر وہ اس جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
قائد اعظم کے نزدیک اسلام اور پاکستان کے تعلق کی نوعیت کیا تھی، اس کی وضاحت بھی ان کے مختلف بیانات اور تقاریر سے ہوتی ہے۔ یکم فروری 1943ء کو ہی اسماعیل کالج بمبئی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’اسلام مسلمانوں کی زندگی بشمول سماجی و معاشرتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی پہلووں کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی صورت میں ہم ایک ایسی ریاست قائم کریں گے جو اسلام کے اصولوںکے مطابق چلائی جائے گی۔ اس کے ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی نظام کی بنیاد اسلام کے اصولوں پر رکھی جائے گی۔ اس تصور سے غیرمسلموں کو خائف نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں وہ دور حاضر کے نام نہاد جمہوری پارلیمانی نظام حکومت کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہوں گے۔ ہمیں مغربی طرز کی پارلیمانی یا کانگرس طرز کی حکومت نہیں چاہیے بلکہ ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جو اسلام کے مطابق ہو‘‘۔
یہاں قائد اعظم کے اس بیان میں اقبال کے اسلامی جمہوری تصور کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس سے بھی بہت پہلے 30 دسمبر 1916ء کو لکھنؤ میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ
’’مسلمان دنیا کی ہر قوم سے زیادہ جمہوری قوم ہیں حتی کہ اپنے مذہبی معاملات میں بھی‘‘۔
قائداعظم نے اپنی تقاریر اور بیانات میں آئیڈیالوجی کا لفظ کئی بار استعمال کیا۔
24 نومبر 1945ء کو مردان میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
’’پاکستان کے قیام کا مطلب ایسی آزاد مسلم ریاست قائم کرنا ہے جہاں مسلمان مسلم آئیڈیالوجی کو نافذ کرسکیں‘‘۔
لہذا موجودہ بحران سے نمٹنے کے لئے ہماری ملت کو مستقبل قریب میں ایک آزادانہ راہ عمل اختیار کرنی پڑے گی اور آزادانہ سیاسی راہ عمل ایک مقصد پر مرکوز کرنا ہوگی۔ ہمیں فرقہ بندی اور نفسانیت کی قیود سے آزاد ہونا پڑے گا۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی اعمال کو اسلامی اقدار میں ڈھال کر مادی اغراض سے جان چھڑانا ہوگی اور اس نصب العین کے حصول کی خاطر جو قیام پاکستان کا اصل نظریہ تھا کی نمائندگی کرتے ہوئے ہمیں مادیت زدہ مغربی جمہوریت سے گزر کر اسلامی جمہوریت کی طرف آنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اپنے اسلامی تاریخی ورثے سے سبق سیکھتے ہوئے جیسے آڑے وقتوں میں اسلام نے مسلمانوں کو بچایا ہے، اگر آج بھی ہم اپنی نظریں اسلام پر مرکوز کردیں اور ہم اپنی پراگندہ قوتوں کو از سر نو جمع کر لیں تو وہ کھویا ہوا وقار عروج اور تمکنت دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ یہی وقت کی آواز ہے اور یہی موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔ پاکستان اور دین اسلام کے بارے میں حقیقی آفاقی فکر موجودہ صدی کے مفکر، مصلح، قائد اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بیداری شعور کی صورت میں اس قوم کو دی ہے۔ یہی وہ نسخہ کیمیا ہے جو ہمیں تباہی و بربادی سے بچاکر اور سوئے منزل چلاکر ہماری تقدیر کو بدل سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ ہم اپنے اندر مومنانہ بصیرت اور انقلابی شعور پیدا کریں اور کفرو منافقت کا ڈٹ کا مقابلہ کریں۔
قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا