مرتبہ: نازیہ عبدالستار
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور بانیِ پاکستان محترم قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کا شمار ایسی ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے- ہر سال 25 دسمبر کو قائداعظم کا یومِ پیدائش پاکستان میں قومی سطح پر منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے ملک بھر میں تقریبات اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں جن میں ان کی شاندار خدمات پر روشنی ڈالی جاتی ہے-
آئیے ان کی زندگی کے چند واقعات آپ کے سامنے پیش کر تے ہیں جو ہمارے لئے اور آج کے سیاستدانوں کے لیے بالخصوص مشعلِ راہ ہیں-
وقت کی پابندی کتنی ضروری؟
وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی دوسرے وزراء اور سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولے گئی۔
1920ء میں جب قائداعظم محمد علی جناح کی شادی ہوئی تو انہوں نے اپنے غسل خانہ کی تعمیر میں اس وقت کے پچاس ہزار روپے خرچ کئے۔ مگر یہی جب گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو قائداعظم ڈیڑھ روپے کا موزہ لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ غریب مسلمان ملک کے گورنر کو اتنی مہنگی چیز نہیں پہننی چاہئیے۔
ایک دفعہ برطانیہ کے سفیر نے آپ سے کہا کہ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آ رہا ہے آپ انہیں ایئرپورٹ لینے جائیں۔ قائد اعظم نے یہ شرط رکھی کہ میں تب ایئر پورٹ جاؤں اگر میرے بھائی کی برطانیہ آمد پر وہاں کا بادشاہ اسے لینے آئے۔
اعلیٰ ظرفی
1943ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں ہندو اور مسلمان طلباء کے درمیان اس بات پر تنازعہ ہو گیا کہ یونیورسٹی میں کانگریس کا پرچم لہرا یا جائے۔ مسلمان طلباء کا کہنا تھا کہ کا نگریس کا پرچم مسلمانوں کے جذبات کا عکاس نہیں اور چونکہ الہ آباد یورنیورسٹی میں مسلمان طلبہ کی اکثریت زیر تعلیم تھی اس لیے یہ پر چم اصولاً وہاں نہیں لہرایا جا سکتا ابھی یہ تنازعہ جاری تھا کہ اسی سال پنجاب یونیورسٹی کے مسلم طلباء کی یونین سالانہ انتخاب میں اکثریت حاصل کر گئی یو نین کے طلباء کا ایک وفد قائداعظم کے پاس گیا اور درخواست کی کہ وہ پنجاب یورنیوسٹی ہال پر مسلم لیگ کے پر چم لہرانے کی رسم ادا کریں قائداعظم نے طلباء کو مبارک باد دی اور کہا اگر تمھیں اکثریت مل گئی ہے تو یہ خوشی کی بات ہے لیکن طاقت حاصل کرنے کے بعد اپنے غلبے کی نمائش کرنا نا زیبا حرکت ہے کوئی ایسی با ت نہ کرو جس سے کسی کی دل آزاری ہو۔ ہمارا ظرف بڑا ہونا چاہیے۔ کیا یہ نامناسب بات نہیں کہ ہم خود وہی کام کریں جس پر دوسروں کو مطعون کرتے ہیں۔ ۔
رشوت ایک ناسور
ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں۔ جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔ ٹکٹ ایگزامنر نے کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں۔ قا ئداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے۔ انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے۔ بالآخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔ ۔
کفایت شعاری اختیار کرو
محمد حنیف آزاد کو قائداعظم کی موٹر ڈرائیوری کا فخر حاصل رہا ہے۔ ایک بار قائداعظم نے اپنے مہمانوں کی تسلی بخش خدمت کرنے کی صلے میں انہیں دو سو روپے انعام دئیے- چند روز بعد حنیف آزاد کو ماں کی جانب سے خط ملا جس میں انھوں نے اپنے بیٹے سے کچھ روپے کا تقاضا کیا تھا- حنیف آزاد نے ساحل سمندر پر سیر کرتے ہوئے قائد سے ماں کے خط کا حوالہ دے کر والدہ کو کچھ پیسے بھیجنے کی خاطر رقم مانگی- قائداعظم نے فوراً پوچھا ’’ ابھی تمھیں دو سو روپے دیئے گئے تھے وہ کہا گئے ‘‘حنیف آزاد بولے ’’صاحب خرچ ہوگئے قائد اعظم یہ سن کر بولے ’’ ویل مسٹر آزاد، تھوڑا ہندو بنو ‘‘-
وکالت کے اصول
وکالت میں بھی قائدِاعظم کے کچھ اْصول تھے جن سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے۔ وہ جائز معاوضہ لیتے تھے۔ مثلاً ایک تاجرایک مقدمہ لے کر آیا۔
موکل:مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمہ میں میری وکالت کریں۔ آپ کی فیس کیا ہوگی۔
قائدِاعظم: مَیں مقدمے کے حساب سے نہیں، دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔
موکل: کتنی؟ قائدِاعظم: پانچ سوروپے فی پیشی۔
موکل: میرے پاس اس وقت پانچ ہزار روپے ہیں۔ آپ پانچ ہزار میں ہی میرا مقدمہ لڑیں۔
قائدِاعظم: مجھے افسوس ہے کہ مَیں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو۔ بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیوں کہ میرا اصول ہے کہ مَیں فی پیشی فیس لیتا ہوں۔
چنانچہ قائدِاعظم نے اپنی شرط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ تاجر نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظم نے جواب دیا، ’’میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔ ‘‘‘
عید کی نماز
یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں کو منتخب کیا گیا اور اس نماز کی امامت کا فریضہ مشہورعالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دینا تھا۔ قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔ مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے موخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنا نچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہْوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرات ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علماء کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
کچھ متفرق واقعات
ایک دفعہ سرکاری استعمال کے لئے سینتیس (37)روپے کا فرنیچر لایا گیا۔ قائداعظم نے لسٹ دیکھی تو دیکھاسات روپے کی کرسیاں اضافی آئی ہے، آپ نے پوچھا یہ کس لئے ہے توکہا گیا کہ آپ کی بہن فاطمہ جناح کے لئے۔ آپ نے وہ کاٹ کے فرمایا کہ اس کے پیسے فاطمہ جناح سے لو۔
کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں قائد اعظم محمد علی جناح نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائے۔ 1933سے لے کر 1946تک قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اندازے کے مطابق 17 قرار دادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کے لئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہواتھا۔
اس وقت انگریزوں نے ایک قانون بنایاتھا کہ جس کے پاس بھی سائیکلیں ہیں اس کے آگے لائیٹ لگائی جائے۔ ایک دفعہ قائداعظم کچھ نوجوانوں سے بات کر رہے تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کون کون پاکستان میں شامل ہو گا سب مسلمان بچوں نے ہاتھ کھڑے کئے پھر آپ نے پوچھا کہ کس کس بچے کی سائیکل پر لائیٹ موجو د ہے۔ صرف ایک بچے نے ہاتھ کھڑا کیا۔ آپ نے فرمایا کہ صرف یہ پاکستان میں جا ئے گا، نوجوانوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا جو قانون پر عمل نہیں کرتا اسے ہمارے ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
قائد اعظم جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔
ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہوگیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو۔ مگر ہمارے عظیم لیڈراور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔
محمد علی جناح وہ لیڈر تھے جن کے بارے میں انگریزوں نے بھی کہا تھا کہ اگر ہمیں پتہ ہوتا قائداعظم کو اتنی بڑی بیماری ہے تو ہم کبھی پاکستان نہ بننے دیتے۔ کیونکہ قائداعظم نے آخری وقت تک اپنی بیماری کو پوشیدہ رکھا۔ کیونکہ ان کو معلوم تھاکہ اگر میری بیماری کا ہندوؤں اور انگریزوں کو پتہ چل گیا تو ہندوستان کی تقسیم کو انگریز مؤخر کردیں گے۔ مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا ’’ کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا ‘‘۔
محمد علی جناح امت مسلمہ کے عظیم لیڈر تھے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ فوری طور پر عظیم قائد کے بارے میں نصاب میں ایسے واقعات شامل کریں تا کہ ہماری قوم اپنے عظیم لیڈر کے بارے میں جان سکیں۔
اللہ کا ولی
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ اپنے دور کے بہت نیک سیرت اللہ کے بندوں میں شمار ہوتے تھے انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ محمد علی جناح اللہ کا ولی ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آپ اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو دیکھنے میں گورا یعنی انگریز نظر آتا ہے اور اس نے داڑھی بھی نہیں رکھی ہوئی۔ تو امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ’’ کہ تم اس کو نہیں جانتے وہ ہمارا کام کر رہا ہے‘‘۔ پیر صاحب کے اس دور میں تقریبا 10 لاکھ مرید تھے۔ آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ اگر کسی نے مسلم لیگ اور قائداعظم کو ووٹ نہ دیا۔ وہ میرا مرید نہیں۔
آخر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک قول جو انہوں نے قائداعظم کے لئے کہا "محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے‘‘۔
اللہ عزوجل قائداعظم محمد علی جناح پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین