ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًاo
(الفرقان، 25: 30)
’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
یہ وہ شکوہ ہے جب قیامت کے دن اللہ کے رسول اللہ رب العزت کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ مولا میری قوم اور میری امت نے، اس قرآن کے ساتھ اپنا تعلق کمزور کررکھا تھا، اس تعلق کو مضبوط نہیں کیا حتی کہ قرآن کی روشن ہدایت سے انہوں نے استفادہ نہیں کیا۔ قرآن سے اخذ ہدایت کی کوئی صورت اختیار نہیں کی۔ جبکہ گنہگار اس روز، اپنی حسرت کی دنیا میں، اس خواہش کا اظہار کررہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًاo
(الفرقان، 25: 27)
’’اور اس دن ہر ظالم (غصہ اور حسرت سے) اپنے ہاتھوں کو کاٹ کاٹ کھائے گا (اور) کہے گا: کاش! میں نے رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیّت میں (آکر ہدایت کا) راستہ اختیار کر لیا ہوتا‘‘۔
یہ دونوں آیات کریمہ ہمیں اس طرف متوجہ کررہی ہیں کہ ایک مسلمان کے لئے لازم ہے کہ اس کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں حدیث رسول ہو، وہ قرآن سے نظری ہدایت لے اور رسول اللہ کی سیرت سے عملی ہدایت لے، وہ قرآن کے اصولوں کو پڑھے اور ان کا عملی نمونہ رسول اللہ کی ذات میں دیکھے، وہ قرآن اور رسول اللہ کی سنت کو اپنی زندگی سے جدا نہ ہونے دے۔
قرآن اور سنت سے تمسک کا حکمِ پیغمبر
اس لئے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن مالک انه بلغه رسول الله صلیٰ الله عليه وآله وسلم قال ترکت فيکم امرين لن تضلوا ماتمسکتم بها کتاب الله وسنة نبيه.
(امام مالک، الموطا، کتاب القدر باب النهی عن القول بالقدر، 2: 899، الرقم:1594)
امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ کی کتاب اور اس کے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت۔
اسی طرح دوسری حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عن حذيفة قال حدثنا رسول الله ان الامانة نزلت من السماء فی جذر قلوب الرجال ونزل القرآن فقرووا القرآن وعلموا من السنة. (متفق عليه)
- صحيح بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة باب الاقتداء بسنن رسول الله، 26556، الرقم6848
- صحيح مسلم، کتاب الايمان باب رفع الامانة والايمان من اجفرالقلوب، 1، 126، الرقم143
حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے بیان فرمایا کہ امانت آسمان سے لوگوں کے دلوں کی تہہ میں نازل فرمائی گئی اور قرآن کریم نازل ہوا۔ سو انہوں نے قرآن کریم پڑھا اور سنت سیکھی۔
قرآن حکیم کو پڑھنے، سمجھنے اور سنت رسول کو سیکھنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ ان دونوں کا پڑھنا، ان دونوں کا صحیح سمجھنا، ان دونوں سے اخذ ہدایت کرنا، ان دونوں سے اپنے قول و عمل کی کی اصلاح لینا، ان دونوں پر اپنے اخلاق اور رویوں کی بنیاد رکھنا اور ان دونوں سے اپنی زندگی کے شب و روز کو سنوارنا اور ان دونوں کی روشنی سے ایسے لین دین اور اپنے معاملات حیات کو درست کرنا ایک مسلمان کے لئے ایک کھلی ہدایت ہے جو اسے ضلالت و گمراہی سے بچاتی ہے۔ اس لئے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنی امت کے نام اپنے آخری پیغام میں یہ ارشاد فرمایا:
عن ابن عباس رضی الله عنه ان رسول الله خطب الناس فی حجة الوداع فقال يايها الناس انی قد ترکت فيکم ما ان اعتصکتم به فلن تضلوا ابدا کتاب الله وسنة نبيه.
(الحاکم، المستدرک، 1: 171، الرقم: 318)، (البيهقی، السنن الکبریٰ، 10: 114)
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کیا اور ارشاد فرمایا اے لوگو! یقینا میں تمہارے اندر ایسی شے چھوڑے جارہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے یعنی اللہ عزوجل کی کتاب اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت۔
ہدایت کی یقینی اور عملی صورت
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو ہدایت پر قائم رہنے اور ضلالت سے بچنے کی ضمانت فراہم کردی ہے اور یہ ضمانت آپ نے ان الفاظ کے ساتھ عطا کی ہے:
فلن تضلوا ابدا ’’تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے‘‘۔ یعنی گمراہی کبھی تمہارے قریب بھی نہ آئے گی اور ہدایت تمہاری پہچان ہوگی، گمراہی سے بچنا تمہاری شناخت ہوگی۔ اللہ کی اطاعت پر قائم رہنا تمہاری علامت ہوگی۔ رسول اللہ کی اتباع میں زندگی بسر کرنا تمہاری رفعت ہوگی۔ پس اس کی ایک ہی شرط ہے کہ تم اپنی زندگی میں اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی کی سنت کو، اپنا اوڑھنا بچھونا بنالینا، تمہارے قول و عمل سے ان کی روشنی معدوم نہ ہونے پائے۔ قرآن و سنت رسول سے تمہارا تمسک جس قدر بڑھتا جائے گا اسی قدر تم ہدایت پر مضبوط ہوتے جاؤ گے۔ اگر تم نے اس عمل اعتصام بالکتاب والسنۃ کو اختیار کرلیا تو سن لو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوسکے گے۔ تم کبھی بھی ہدایت سے ہٹ نہ سکو گے، ضلالت و گمراہی کبھی بھی تمہارا مقدر نہ ہوگی۔ اسی حدیث کی تشریح حضرت ابن عون یوں کرتے ہیں:عن ابن عون قال ثلاث اجهن لنفسی ولاخوانی هذه السنة ان يتعلمهوا ويسالوا عنها ولقرآن يتفهموه ويسالوا عنه ويدعوا الناس الا من خير. (رواه البخاري)
(صحيح بخاري، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الاقتداء بسنن رسول الله، 6: 2654)
حضرت ابن عون کا قول ہے کہ تین چیزیں میں اپنے لئے اور اپنے بھائی کے لئے پسند کرتا ہوں ایک یہ کہ وہ اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق سوال کریں، دوسرا قرآن کریم کو سمجھیں اور اس کے متعلق پوچھیں تیسرا یہ کہ بھلائی کے سوا لوگوں سے کنارہ کش رہیں۔
قرآن اپنے قاری کا شفیع ہے
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی احادیث مبارکہ میں امت کو حکم دیتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: حضرت ابو امامہ روایت کرتے ہیں:
اقرووا القرآن فانه ياتی يوم القيامة شفيعا لاصحابه.
(مسلم الصحيح، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل قراة القرآن، 1، 553، رقم: 804)
قرآن مجید پڑھا کرو یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے شفاعت کرنے والا بن کر آئے گا۔
اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خيرکم من تعلم القرآن وعلمه.
(بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب خيرکم من تعلم القرآن وعلمه، 4، 1919، رقم: 4739)
تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کے رموز اور مسائل سیکھے اور سکھائے۔
اس طرح رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو قرآن پڑھنے اور قرآن سیکھنے، قرآن پر عمل کرنے اور قرآنی ہدایت کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرنے اور قرآن پر اپنی زندگی کی بنیاد رکھنے اور اپنے قول و عمل اور اخلاق کی اساس قرآن کو بنانے کے لئے ترغیب دیتے ہوئے کبھی امت کو يتغنی بالقرآن (قرآن کو خوبصورت انداز میں پڑھنے) کے ساتھ متوجہ کرتے ہیں اور کبھی من قرا القرآن (جس نے اس قرآن کو پڑھا) اور کبھی ان هذا القرآن (یہ قرآن ہی ہدایت عظیم ہے) اور کبھی من قرا حرفا من کتاب الله (جس نے قرآن کا ایک حرف بھی پڑھا) کبھی ان الذی ليس فی جوفة شئی من القرآن (وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ بھی نہیں) اور کبھی القرآن شافع مشفع کے کلمات کے ساتھ امت کو قرآن کا تعارف کراتے ہیں اور کبھی یوں فرماتے ہیں يقال لصاحب القرآن اقراء اور کبھی یوں تذکرہ کرتے ہیں يحيی صاحب القرآن يوم القيامة اور کبھی من قرا القرآن وتعلمه وعمل به کے ساتھ قرآن کی عظمتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی یوں ذکر قرآن کرتے ہیں من استمع الی اية من کتاب الله کانت له نورا.
قرآن ایک مسلمان کی پسندیدہ کتاب ہے
کبھی قرآن سے اپنے دلوں اور گھروں کو آباد رکھنے کا یوں حکم دیتے ہیں۔
قال رسول الله اعمروا به قلوبکم واعمروا بيوتکم قال اراه يعنی القرآن.
(دارمی السنن، 2، 530، رقم: 3342)
قرآن کے ذریعے اپنے دلوں اور گھروں کو آباد کیا کرو اور کبھی یوں ارشاد فرماتے ہیں:
اے لوگو سن لو قرآن مجھے اس روئے زمین پر سب سے زیادہ پیارا ہے اور میرے رب کو بھی اس پوری کائنات میں سب سے زیادہ پیارا قرآن ہے اور تم بھی اپنی زندگیوں میں اپنا سب سے زیادہ پیارا قرآن کو بنالو اس لئے کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس قرآن سے پیار ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
القرآن احب الی الله من السموات والارض ومن فيهن.
(دارمی، السنن، 2، 533، رقم3358)
’’بے شک قرآن اللہ تبارک وتعالیٰ کو آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے ان میں سب سے زیادہ پیارا ہے‘‘۔
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ان ارشادات کے ذریعے اپنی امت کو رجوع الی القرآن کا حکم دیا ہے اور قرآن سے اپنے مضبوط تمسک کا امر دیا ہے۔ اس لئے کہ تمسک بالقرآن کا نتیجہ ہدایت ہے اور ترک بالقرآن کا نتیجہ ضلالت ہے۔ تمسک بالقرآن کا نتیجہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے اور ترک بالقرآن اور مہجور بالقرآن کا نتیجہ معصیت ہے۔ اگر ہماری زندگیوں میں قرآن آجائے اور قرآن سے ہمارا تعلق پختہ ہوجائے اور قرآنی ہدایت کو ہم اپنی حیات میں اختیار کرلیں اور قرآن پر اپنے قول و عمل کی بنیادیں استوار کرلیں تو پھر قیامت کے روز رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اللہ کی بارگاہ میں یہ شکوہ نہیں کریں گے۔
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰـرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًاo
(الفرقان، 25: 30)
’’اور رسولِ (اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرض کریں گے: اے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ہی چھوڑ رکھا تھا‘‘۔
قرآن سے تمسک کی صورتیں
آیئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ اتحاد بالقرآن، قرآن کو اپنانے اور قرآن کو اختیار کرنے، قرآن سے تمسک کرنے، قرآن سے مضبوط تعلق رکھنے، قرآن سے اخذ ہدایت کا طریق لینے قرآن سے وابستہ ہونے اور قرآن سے رجوع کی کیا کیا صورتیں ہیں۔
قرآن کی قدر دانی
اتحاد بالقرآن کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں قرآن کو اللہ کی سب سے بڑی نعمت جانیں اور اسے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کی حقانیت کی زندہ نشانی جانیں۔ دین اسلام کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل مانیں۔ اللہ رب العزت کی توحید اور واحدانیت کی سب سے بڑی حجت تسلیم کریں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ایک زندہ معجزہ اسے تصور کریں، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے قول ’’کان خلقہ القرآن‘‘ کے مطابق ہم بھی اپنے قول و فعل اور خلق و اخلاق کو قرآن کے مطابق ڈھالیں، ہماری زندگیوں میں بھی قرآن آئے اور قرآن سے ہماری زندگیاں روشنی پائیں، قرآن کا نور ہماری زندگیوں کی ظلمت ختم کرے، قرآن کی ہدایت ہماری زندگیوں کے اندھیرے ختم کرے، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کی یہ پہچان ہو۔
ان هذا القرآن يهدی للتی هی اقوم.
(الاسراء، 17: 9)
یہ قرآن ہی سب سے زیادہ مضبوط اور سیدھی و صحیح ہدایت کا ضامن ہے۔
ہم اس قرآن کے نزول الی الارض اور نزول الی القلوب کی قدر دانی کریں۔ ان لمحات اور ان اوقات کی قدر کریں جس میں یہ قرآن نازل ہوا ہے۔ ہماری زندگی کی سب سے بڑی خوشی نزول قرآن کے لمحوں سے وابستہ ہو اور ان لمحوں کو ہم اپنی زندگی کے سب سے بڑے جشن کے طور پر منائیں، نزول قرآن کے ان لمحوں کو باری تعالیٰ نے شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ نزول قرآن کے یہ لمحات رمضان المبارک میں ہیں۔ اب رمضان المبارک کے 29/30 دنوں میں وہ کونسے لمحات ہیں جب قرآن کو اتارا گیا اور جب قرآن اہل زمین کے سپرد کیا گیا۔ باری تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کرم نوازی کرتے ہوئے اس بات کا بھی تعین کردیا کہ وہ لمحہ نزول قرآن لیلۃ القدر ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلَنٰـهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِo
(القدر، 97: 1)
’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے‘‘۔
رمضان کی ہر رات عام راتوں کی طرح ایک عام رات ہے۔ ایک لیلۃ ہے، لیلۃ عامۃ ایک عمومی رات ہے۔ ہر دن کے بعد آنے والی رات ہے مگر جس رات کو ہم نے یہ قرآن زمین والوں پر اتارا ہے اس رات کو ہم لیلۃ عامۃ سے لیلۃ القدر بنارہے ہیں۔ اس لئے کہ اس کے دامن میں قرآن کا نزول ہوا ہے۔ قرآن کا اترنا اس رات کولیلۃ القدر بنارہا ہے اس رات کو فضیلت قرآن کے نزول کے باعث ہے۔ اس لئے اس رات کی قدر دانی، نزول قرآن کے باعث کرنا، یہ جشن نزول قرآن کی رات ہے۔
قرآن امت کے لئے ہدایت و برکت ہے
یہ کوئی معمولی رات نہیں یہ کوئی عام رات نہیں یہ غفلت میں گزارنے والی رات نہیں۔ یہ اللہ سے لاتعلق ہونے والی رات نہیں، یہ عبادت کی رات ہے یہ اللہ کی معرفت کی رات ہے۔ یہ اللہ کی قربت کی رات ہے یہ اللہ کی رحمت کے نزول کی رات ہے، یہ رب کے کرم عظیم کی رات ہے، یہ رب کے فضل عظیم کی رات ہے یہ مغفرت کی رات ہے، یہ گناہوں سے بخشش کی رات ہے، یہ جہنم سے آزادی کی رات ہے، یہ اللہ کی نعمت جنت پانے کی رات ہے، یہ دعاؤں کی قبولیت کی رات ہے، یہ مناجات الہٰیہ کی رات ہے، یہ ذکر الہٰی کی رات ہے، یہ اللہ کی عطا کی رات ہے، یہ رحمتیں عطاکئے جانے کی رات ہے، یہ نعمتیں بانٹنے کی رات ہے، یہ رب کی نصرت کی رات ہے، یہ اللہ کی طرف سے برکت کی رات ہے اور یہ رب کے فضل و احسان کی رات ہے۔
اس لئے قرآن نے نزول قرآن کی اس رات کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:اے بے خبر اے غافل!
وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِoلَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo
(القدر، 97: 2 تا 3)
’’اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر فضیلت و برکت اور اجرو ثواب میں ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے‘‘۔
لیلۃ القدر کی اہمیت کو بیان کرنے کے لئے اور لیلۃ القدر کی فضیلت کو بندوں کے دلوں میں ثبت کرنے کے لئے اور اس رات کو اپنی زندگی کی راتوں میں سے خصوصی اہمیت دینے کے لئے باری تعالیٰ نے بندوں کو سمجھانے کے لئے استفہام کا انداز اختیار کیا ہے۔ فقط اس بات پر اکتفا نہیں کیا کہ
اِنَّآ اَنْزَلَنٰـهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِo ’’بے شک ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں اتارا ہے‘‘ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے۔ ایک خبر ہمیں مل گئی، ایک علم ہمیں حاصل ہوگیا، ایک حقیقت ہم نے جان لی مگر فرمایا فقط اتنا جاننا کافی نہیں ہے، اتنا جان لینے سے شاید تمہیں لیلۃ القدر کی اہمیت کا صحیح اندازہ نہ ہو، لیلۃ القدر کی برکتوں سے تم آگاہ نہ ہو اور اس لیلۃ القدر کی فضیلتیں تم پر آشکار نہ ہوں اور لیلۃ القدر کے دامن میں اجرو ثواب سے تمہیں شناسائی نہ ہو، یہ لیلہ القدر تمہاری زندگیوں میں ایسے نہ گذر جائے جیسے کوئی عام رات گزرتی ہے۔ تم اسی طرح اسے بسر نہ کرو جس طرح عام راتیں بسر کرتے ہو، تم اس رات کو اپنی زندگی سے اس طرح نہ گزار دو جس طرح عام راتوں کو گزار دیتے ہو۔نزول قرآن کی برکات
اس لئے باری تعالیٰ نے سوال کے ذریعے اپنے بندوں کو متوجہ کیا اور خبردار کیا اور یوں بیان کیا۔ ’’وَمَآ اَدْرٰک‘‘ تمہیں کیا معلوم ہے؟ تم کیا جانتے ہو؟ تمہیں کیا علم ہے؟
لیلۃ القدر کیا ہے؟
اور مالیلۃ القدر، لیلۃ القدر میں کیا کیا ہے؟ اس کی فضیلت کیا ہے؟ اس کی برکت کیا ہے، اس کا اجر کیا ہے، اس میں ثواب کیا ہے، اس میں مغفرت کیا ہے، اس میں اللہ کا انعام کیا ہے، اس میں رب کی رحمت کیا ہے، اس میں اللہ کی عطا کیا ہے، اس میں اللہ کا فضل کیا ہے، اس میں اللہ کی اپنے بندوں پر مہربانی کیا ہے، اس میں اللہ کی شان عطا کی کیا کیا شانیں ہیں۔ آگے اس سوال کا جواب خود ارشاد فرمایا:
لیلۃ القدر، بس ایک جواب تو جان لو لیلۃ القدر، لیلۃ القدر ہی ہے۔ یہ بڑی ہی قدر والی رات ہے۔ یہ بڑی ہی فضیلت والی رات ہے۔ اس کی فضیلت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اس میں اللہ کی رحمتوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا، اس میں اللہ کے احسانات کو حسابات میں نہیں لایا جاسکتا، اس میں اللہ کی کرم نوازیوں کو گنا نہیں جاسکتا، اس میں اللہ کی عطاؤں کا سلسلہ لا محدود ہے، اس میں اللہ کی بخششوں کا سلسلہ لامتناہی ہے، اس میں رب کی کرم نوازیوں کا سلسلہ ناقابل شمار ہے۔ پس لیلۃ القدر کی فضیلت کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے لیلۃ القدر، لیلۃ القدر ہی ہے۔ یہ تعریف میں نہیں آسکتی، اس کی فضیلت بیان نہیں آسکتی، اس کی عظمت، ذکر میں نہیں آسکتی پھر بھی بندو تم مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو تو اتنا سن لو:
خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ قف هِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
’’یہ ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے اس رات میں فرشتے اور روح الامین جبرائیل اپنے رب کے حکم سے خیرو برکت کے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں یہ رات طلوع فجر تک سراسر سلامتی ہے‘‘۔