ہر سال 25 دسمبر کے دن بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، اس دن سیاسی، سماجی، جماعتیں، تنظیمیں، حکومتی شخصیات بانی پاکستان کی قومی و ملی خدمات کے تناظر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہیں اور ان کی خدمات کو سراہتی ہیں، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مشاہیر اور قومی محسنوں کے ساتھ ہماری وابستگی فقط بیان بازی تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، اگر قومی میڈیا مختلف ایام اور تہواروں کے مواقع پر خصوصی ٹرانسمیشن جاری نہ کرے تو شاید قومی رہنماؤں اور محسنوں کے بارے میں الفاظ کے اظہار کا تکلف بھی ختم ہو کررہ جائے، من حیث الجموع ہم قومی رہنماؤں، مشاہیر اور اللہ رب العزت کی چنیدہ شخصیات کی فکر کو عمل کے قالب میں ڈھالنے کی طرف متوجہ نہیں رہے، قومی محسنوں کے بارے میں اظہار خیال فقط رسمی گفتگو تک محدود ہو کررہ گیا ہے، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ محض پاکستان کے بانی ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک دانشور، ملتِ پاکستانیہ کے نبض شناس بھی تھے، انہوں نے تحریک پاکستان کے دوران آزادی کے لئے جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر طبقہ کی تربیت بھی کی جن میں خواتین، نوجوان، تاجر، صنعت کار، سیاستدان، استاد، بیوروکریٹس، ججز، صحافی، کسان ، مزدور سبھی شامل تھے، بانی پاکستان کی تربیتی مساعی کا مرکز و محور دیانت داری، فرض شناسی اور کردار سازی تھا، وہ سمجھتے تھے ایک اچھے انسان اور مسلمان کے لئے صاحب کردار ہونا ناگزیر ہے، بانی پاکستان جو کہتے تھے وہ خود بھی ان افکار و ہدایات پر عمل پیرا رہتے تھے، وہ ایک راست گو ، سچے ، کھرے مسلمان اور ملت کے ہمدرد تھے، بانی پاکستان فرماتے تھے کہ عزت ، خودداری، دیانتداری، عزم کی پختگی کا نام کردار ہے، ان تمام خصوصیات کا بدرجہ اتم موجود ہونا بلندی کردار کہلاتا ہے، قوم کے اجتماعی مفاد کے لئے افراد کا اپنے آپ کو قربان کر دینے کے لئے ہمہ وقت آمادہ و تیار رہنا کردار کی معراج ہے، بانی پاکستان نے تحریک پاکستان کے دوران جب خواتین کو ’’لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘کے مطالبہ پر جانثار پایا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی اور وہ فرماتے تھے کہ مسلمان عورتیں بدل رہی ہیں، یعنی وہ اپنے حقوق سے نہ صرف آشنا ہیں بلکہ ان حقوق کو حاصل کرنے کے لئے پر عزم بھی ہیں اور اس جدوجہد میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے پوری طرح تیار بھی ہیں۔بانی پاکستان کی سیاسی جدوجہد کا فکری محور قرآن و سنت تھا، اگر ان کے خطابات اور فرمودات کا عمیق نظری سے مطالعہ کیا جائے تو جگہ جگہ ان کے قرآن و سنت سے لئے گئے افکار کا تذکرہ ملتا ہے، ایک موقع پر بانی پاکستان نے فرمایا ’’قرآن مجید کی تعلیمات میں انسانی زندگی کے ہر باب کے متعلق ہدایات موجود ہیں، زندگی کا روحانی پہلو ہو یا سیاسی، معاشرتی پہلو ہو یا معاشی غرض یہ کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآنی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو‘‘۔ ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا ’’ وہ کون سا رشتہ ہے جس میں تمام مسلمان منسلک ہو کر جسد واحد کی طرح ہو جاتے ہیں؟، وہ رشتہ خدا کی کتاب قرآن مجید ہے، ایک خدا، ایک رسول، ایک امت‘‘ بانی پاکستان اتحاد بین المسلمین کے بھی بہت بڑے داعی تھے، تحریک پاکستان کو مسلکیت اور فرقہ واریت سے پاک صاف رکھنا ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے، یہ توفیق اور طاقت انہیں اخلاص نیت کے سبب حاصل ہوئی، آج اگرہم کردار سازی اور اتحاد بین المسلمین کے باب کے ضمن میں معاصرین شخصیات اور تحریکوں پر نگاہ دوڑائیں تو اس باب میں تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری واحد ، معتبر اور قدر آور شخصیت نظر آتی ہیں جو بیک وقت تعلیم و تربیت، کردار سازی، بیداری شعور اور اتحاد امت کے لئے دن رات کوشاں ہیں، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تعلیمی ، تربیتی مساعی سے ہر طبقہ کے افراد ثمر بار ہورہے ہیں اور ان خدمات کے ثمرات سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاکھوں نوجوان مستفید ہورہے ہیں جن میں خواتین سرفہرست ہیں، منہاج القرآن کے تعلیمی، تربیتی کردار کے باعث خواتین اسلام کی سفیر بن کر قریہ قریہ دعوت و تبلیغ کا کام انجام دے رہی ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیمات ، مشاہیر اور قومی محسنوں کی فکر کو جس انداز سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملت اسلامیہ تک پہنچایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اللہ رب العزت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے درجات بلند فرمائے اور ملت پاکستانیہ کو ان کی سیاسی، فکر پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔