سوال: دعوت و تبلیغِ دین کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: اِسلام کی رُو سے حسبِ استعداد ہر مسلمان مرد اور عورت پر دعوت و تبلیغِ دین کا فریضہ ادا کرنا لازم ہے۔ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ.
(آل عمران، 3: 110)
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ دعوت و تبلیغِ اسلام میں بسر ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں حضور نبی اکرم ﷺ کو تبلیغ کے عملی مراحل اور اُصول سکھاتے ہوئے فرمایا:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
(النحل، 16: 125)
(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
عصر حاضر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ وارثانِ علومِ نبوت کی حیثیت سے صرف علماء کا کارِ منصبی سمجھا جاتا ہے، جب کہ یہ امتِ مسلمہ کے ہر طبقہ فکر کا فریضہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلا مِّمَّن دَعَآ إِلَی للَّهِ وَعَمِلَ صَٰلِحا.
(حم السجدۃ، 41: 33)
اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے جو اﷲ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔
مذکورہ آیت میں کسی خاص فرد یا جماعت کو دعوت و تبلیغ دین کا مکلف ٹھہرانے کے بجائے عمومی طور پر ہر ایک کے لیے حکم ہے۔
سوال: داعی کے مخاطبین میں کتنے طبقات شامل ہوتے ہیں؟
جواب: داعی کے مخاطبین میں درج ذیل دو طبقات شامل ہوتے ہیں:
- موافق طبقہ
- مخالف طبقہ
سوال: موافق طبقے کو دعوت کیسے دی جائے؟
جواب: دعوت کے لیے موافقت رکھنے والے طبقے کی دو قسمیں ہیں:
پہلا موافق طبقہ:
پہلا موافق طبقہ وہ ہے جو راهِ راست سے بھٹکا ہوا تھا، اسے حق کی تلاش تھی اور اسے حق کے ساتھ کوئی عناد اور عداوت نہیں تھی لیکن کسی نے اسے راهِ ہدایت پر لانے کے لیے دعوتِ حق نہیں دی ، کسی نے اسے شر سے بچانے کی کوشش نہیں کی۔ اگر اسے راهِ حق کی طرف دعوت دی جاتی تو وہ دعوت و تبلیغِ دین کے پیغام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جا تا۔ اِس پہلے موافق طبقے کو دعوت دینے کے لیے قرآن مجید فرماتا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ.
(النحل، 16: 125)
(اے رسولِ معظّم!)آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت کے ساتھ بلائیے۔
حکمت کا مطلب یہ ہے کہ داعی مدعو کی ذہنی سطح، ماحول اور اُس کے اوپر اثر انداز ہونے والے عوامل، قلبی کیفیت، نفسیاتی صورت حال کو اچھی طرح سمجھے کہ وہ کیوں بھٹکا ہوا ہے؟ اُس کا سبب کیا ہے؟ کیا چیز اِس پراثر انداز ہو رہی ہے۔ داعی کو چاہیے کہ مدعو کے فہم اور عقل کے مطابق اُسے اس انداز سے دعوت دے کہ اُس پر ہونے والے سابقہ اثرات کو زائل کر دے، جس چیز سے وہ لاعلم تھا اس کا اسے علم ہو جائے، اُسے خبراور احساس ہوجائے کہ وہ جہالت کی تاریکی میں تھا اور یہ دعوتِ حق ہے۔ اس کے بعد داعی معمولی چیزوں کے بجائے جو اس کے لیے زیادہ اَہم ہیں، ان کی حکمت کے ساتھ step by step دعوت دے تاکہ اس میں طلب اور خواہش مزید بڑھے۔ مثلاً اگر وہ فرائض کا تارک ہے توداعی سیدھا سنتوں کی بات نہ کرے بلکہ پہلے فرائض کی طرف لائے، پھر سنتوں کی بات کرے اور آخر میں نوافل کا بتائے۔ جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے:
ایک اعرابی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بتائیں اسلام کیا ہے؟کیا چیز مجھ پر واجب ہے۔ فرمایا: دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز ادا کرو، اُس نے پوچھا: اِس سے زائد کچھ نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں اِس سے زائد کچھ نہیں۔ ہاں اگر تمہارا دل چاہے کہ مزید نفلی عبادت کروں تو کرسکتے ہو۔ اُس نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کیا مجھ پر فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: رمضان کے روزے رکھنا۔ اُس نے پوچھا: اِس سے زائد کچھ نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، کچھ نہیں، ہاں اگر تم نفلی روزے رکھنا چاہوتو رکھ سکتے ہو۔ اُس نے پوچھا: اس کے علاوہ اور کیا فرض ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اگر تم صاحب نصاب ہو تو اپنے مال کی) زکوۃ دینا۔ اُس نے عرض کیا: اِس سے زائد کچھ نہیں۔ فرمایا: کچھ نہیں، لیکن اپنی نفلی عبادت میں اضافہ کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔یہ سن کر وہ شخص واپس جانے کے لیے مڑا اور اُس نے کہا: اللہ گواہ ہے، جو کچھ آپ نے بتایا ہے وہ کروں گا اور اِس سے زائد کچھ نہیں کروں گا۔ حضور ﷺ نے صحابہ کرام l سے فرمایا: اگر یہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو یہ فلاح پا گیا۔
دوسرا موافق طبقہ
دوسرا موافق طبقہ عام آدمی کا ہے، جسے سائنس ، فلسفہ، علم ، حکمت اور اُونچے درجے کی دماغی باتوں سے غرض نہیں بلکہ اس پرقلب اور جذبات کی بات اثر کرتی ہے۔ اس طبقہ کے لیے قرآن مجید نے فرمایا:
وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ.
(النحل، 16: 125)
اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔
یعنی داعی مدعو کو مواعظِ حسنہ، اچھی، عمدہ اور موثر نصیحت کے ساتھ اس طرح دعوت دے کہ اس کی بات نہ صرف اس کے دل پر اثر انداز ہو بلکہ اس کے جذبات اور اَحوال کو بھی بدل دے۔
سوال: مخالف طبقے کو دعوت کیسے دی جائے؟
جواب: مخالف طبقہ سے مراد وہ طبقہ ہے جو دین سے بُغض رکھتا ہے، جو دین کی دعوت کے خلاف ہے اور نصیحت کی بات نہیں سننا چاہتا۔ اس طبقے کو دعوت دینے کے لیے قرآن مجید فرماتا ہے:
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
(النحل، 16: 125)
اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
اُس طبقے کے ساتھ داعی عمدہ انداز کے ساتھ جدال (debate) کرے۔ مذکورہ آیت مبارکہ کے الفاظ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ سے مراد بھی یہی ہے کہ صرف عمدہ طریقے سے نہیں بلکہ نہایت ہی اَحسن طریقے کے ساتھ مخالف سے بات کی جائے۔ کیونکہ قرآن مجید نے داعی کے لیے شرط لگا دی کہ جب وہ مخالف سے بات کرے تو اُس کو نہ تو للکارے، نہ جھگڑے کے اندازمیں بات کرے، نہ اُس پر تہمت لگائے، نہ فتویٰ بازی کرے، نہ اُس کی تذلیل و تحقیر کرے، نہ اُسے اسلام سے خارج کرے۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تو بات کا آغاز یہاں سے نہ کرے کہ تم کافر ہو، مشرک ہو، تم تو سیدھے جہنم میں جاؤ گے، بلکہ ایسے افراد کے ساتھ بات کرنے کا انداز اور سلیقہ بھی قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ یَٰٓأَهْلَ لْکِتَٰبِ تَعَالَوْاْ إِلَیٰ کَلِمَۃٖ سَوَآءِ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا للَّهَ وَلَا نُشْرِکَ بِهِ شَیْا وَلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابا مِّن دُونِ للَّهِ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَقُولُواْ شْهَدُواْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ.
(آل عمران، 3: 164)
آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، (وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اللہ کے تابع فرمان (مسلمان) ہیں۔
یعنی داعی مفترقات سے بات شروع نہ کرئے بلکہ مشترکات (commonalities) پر بات کرکے اسے قریب لائے، اس کے اندر سننے کی گنجائش پیدا کرے تاکہ اسے یقین ہو جائے کہ یہ متنفر کرنے والا اور سخت گیر نہیں ہے، یہ میری فکر اور احوال سے واقف ہے، میری کچھ باتوں کواچھا جانتا ہے۔ بالآخرمدعو اس درجہ تک پہنچ جائے کہ داعی کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جائے۔ اس کے بعد داعی دلیل کے ساتھ بات کرے تاکہ اُس کا دل و دماغ حق کی طرف منتقل ہو سکے۔ دورانِ دعوت داعی کے قلب و نظر میں وسعت ہونی چاہیے کہ اگر مدعو اختلاف کرتا ہے تو اُسے اختلاف کی گنجائش دے، لیکن اپنی دلیل اورطرز عمل سے اُس کی فکر اور رویے کو بدلنے کی حتی المقدور کوشش کرے اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اس دوران داعی کا جدالِ اَحسن جتنا عمدہ ہوگااُتنا ہی اُس میں خیر ہوگی۔
سوال: اگر مخالف طبقہ داعی کی دعوت کو ردّ کر دے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: مخالف طبقے کو دین کی دعوت پہنچانے کے انداز اور کلام میں تہذیب، شائستگی اور لطافت ہونی چاہیے اور debate کا اختتام خوبصورت طریقے سے ہونا چاہیے۔ پھر بھی اگر وہ دعوت کو ردّ کر دیں تو ایسی صورت میں اُن سے کیا رویہ رکھا جائے، اس حوالے سے قرآن مجید فرماتا ہے:
فَإِنْ حَآجُّوکَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِیَ لِلَّهِ وَمَنِ تَّبَعَنِ وَقُل لِّلَّذِینَ أُوتُواْ لْکِتَٰبَ وَلْأُمِّیِّنَ ءَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ هْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَیْکَ لْبَلَٰغُ وَللَّهُ بَصِیرُ بِلْعِبَادِ.
(آل عمران، 3: 20)
(اے حبیب!) اگر پھر بھی آپ سے جھگڑا کریں تو فرما دیں کہ میں نے اور جس نے (بھی) میری پیروی کی اپنا روئے نیاز اللہ کے حضور جھکا دیا ہے، اور آپ اہلِ کتاب اور اَن پڑھ لوگوں سے فرما دیں: کیا تم بھی اللہ کے حضور جھکتے ہو (یعنی اسلام قبول کرتے ہو)؟ پھر اگر وہ فرمانبرداری اختیار کر لیں تو وہ حقیقتاً ہدایت پا گئے، اور اگر منہ پھیر لیں تو آپ کے ذمہ فقط حکم پہنچا دینا ہی ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔
اِس آیت مبارکہ میں دعوت دینے سے لے کر اس کی قبولیت ردّ تک کے تمام مراحل بخوبی واضح کردیے گئے ہیں۔ جب داعی حکمت کے ساتھ تمام دلائل دے کر ساری بات سمجھا دے اور گفتگو ختم ہوجائے تو پوچھے کہ کیا اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر وہ کہیں کہ ہم اسلام اور حق کو قبول کرتے ہیں تو وہ ہدایت پا گئے۔ لیکن اگر وہ کہیں کہ ہم ردّ کرتے ہیں اور اسلام قبول نہیں کرتے ہیں، تو داعی کی ذمہ داری صرف پیغام پہنچانا تھا، جو وہ پہنچا چکا۔ اِس سے زیادہ کوئی چیز اس کے ذمہ نہیں کیونکہ باقی اللہ کے بندوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ یہ داعی کی دعوت کا حُسنِ اِختتام ہے۔